قرآن تفرقہ سے منع کرتا ہے تو پھر یہ فرقے کیوں کا مدلّل جواب
پہلے اس بات کو سمجھیئے کہ : حنفی ، شافعی، مالکی اور حنبلی اوربریلوی ، چشتی ، قادری ، سہروردی ، مجددی ، نقشبندی فرقوں کے نام نہیں بلکہ یہ سب مسلمان اور اہل سنت وجماعت سے ہیں کہ ان تمام کے عقائد ایسے ہی ہیں جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تھے یہ لوگ اللہ تعالی کی رسی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے فرمان کے مطابق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر فارق رضی اللہ تعالی عنہ کے دامن کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں بلکہ اہل سنت و جماعت شیخین کے علاوہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے فرمان کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقے پر عمل کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا فرمان ہے کہ نجات اس کو ملے گی جو ما انا علیہ واصحابی جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہو گا۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کی پیروی کو اللہ تعالی کی رسی کو پکڑنا قرار دیا چنانچہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلّم ہے''عن ابی الدرداء ان رسول اللہ ؐ قال:اقتدو بالذین من بعد ابی بکر وعمر،فانھما جبل اللہ الممدود من تمسک بھما فقد تمسک بالعروۃ الوثقی التی لا انفصام لھا ۔
ترجمہ : یعنی،''حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا:میرے بعد ان لوگوں یعنی ابوبکر وعمررضی اللہ تعالی عنھما کی پیروی کرنا،یہ دونوں اللہ کی لٹکتی ہوئی رسی ہیں ۔جس نے ان دونوں (کادامن)تھام لیا تویقینااس نے (اللہ کی طرف)نہ ٹوٹنے والی مضبوط رسی کو تھام لیا''۔(مجمع الذاوائد 53/9۔ابن عساکر229/30کنزالعمال:رقم الحدیث:32649)
اب نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے صحابہ رضی اللہ عنہم جیسے عقائد رکھنے والا چاہیے حنفی ہو ، شافعی ہو ، مالکی ہو ، یا حنبلی ہو اپنے آپ کو بریلوی کہلوائیں ، چشتی ، قادری ، سہروردی ، مجددی ، نقشبندی میں سے جو بھی کہلوائیں وہ اہلسنت ہی رہیں گے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں اورمؤمن مسلمان ہیں ۔ انہی لوگوں کواللہ تعالی نے ارشاد فرمایا تم اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھو اور تم میں کوئی شخص جماعت سے الگ ہو کر تفرقہ مت ڈالے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے : وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ ۔
ترجمہ : اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لواور تفرقہ مت ڈالو ۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسر قرآن سید نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حبل کی تفسیر میں مفسرین کے چند اقوال ہیں بعض کہتے ہیں کہ اس سے قرآن مراد ہے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ حبل سے جماعت مرادہے اور فرمایا کہ تم جماعت کو لازم پکڑ لوکہ وہ حبل اللہ ہے جس کو مضبوط تھامنے کا حکم دیا گیا ہے جیسے کہ یھود و نصاری متفرق ہوگئے اس آیت میں ان افعال وحرکات کی ممانعت کی گئی ہے جو مسلمانوں میں تفرق کا سبب ہو طریق مسلمین مذھب اھلسنت ہے اس کے علاوہ کوئی راہ اختیار کرنا تفریق اور ممنوع ہے ۔(اٰل عمران:١٠٣)
مزید اسی سورہ ال عمران میں ارشاد باری تعالی ہے''وَلاَ تَکُونُواْ کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاء ہُمُ الْبَیِّنَاتُ وَأُوْلَـئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ''ترجمہ : ان جیسے نہ ہونا جو آپس میں پھٹ گئے اور ان میں پھوٹ پڑ گئی بعد اس کے کہ روشن نشانیاں انہیں آچکی تھیں اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے''۔(ال عمران،آیت:١٠٥)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اسلام میں فرقہ پرستی منع ہے اورجس نے اہلسنت وجماعت کے عقائد سے اختلاف کیا گویا اس نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عقائد سے اختلاف کرتے ہوئے الگ ہو گیا وہ جہنم میں گیااس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے جماعت مسلمین کو لازم پکڑے کا حکم ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جوجماعت الگ ہوا جہنم میں الگ ہوا ۔ حدیث یہ ہے :
اتبعواالسوادالاعظم فانہ من شذ شذ فی النار رواہ ابن ماجہ ۔ ترجمہ : سوداعظم کی اتباع کرو پس جو اس سے الگ ہوا وہ جہنم میں الگ ہوا۔اس کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے (مشکوٰۃ المصابیح،ص:٣٠، قدیمی کتب خانہ)
اس کے علاوہ بھی بے شمار احادیث اس بات پر شاہد ہیں کہ اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے طریق پر چلتے ہوئے جماعت کو لازم پکڑنے کے ارشادات موجود ہیں۔اور اسی احادیث پاک کے ذخیرے میں یہ بات بھی موجود ہے کہ اس امت کے 73فرقے ہوں گے ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا : وان بنی اسرائیل تفرقت علی ثنتین وسبعین ملۃ وتفترق امتی علی ثلث و سبعین ملۃ کلھم فی النار الا ملۃ واحدۃ قالوا من ھی یارسول اﷲقال ما انا علیہ واصحابی رواہ الترمذی وفی روایۃ احمد و ابی داو،د عن معاویۃ ثنتان و سبعون فی النار وواحدۃ فی الجنۃ وھی الجماعۃ ۔
ترجمہ : بے شک بنی اسرائیل کے بہتر٧٢ فرقے ہوئے اور میری امت میں تہتر فرقے ہوجا ئیں گے ایک فرقہ جنتی ہوگا باقی سب جہنمی ہیں صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی وہ ناجی فرقہ کون ہے یارسول اللہ ؐ ، ارشاد فرمایا وہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں یعنی سنت کے پیرو ۔ دوسری روایت میں فرمایا وہ جماعت ہے یعنی مسلمانوں کا بڑا گروہ جسے سواد اعظم فرمایا ۔ (مشکوٰۃ المصابیح،ص:٣٠، قدیمی کتب خانہ)
اس حدیث پاک کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ مراۃ شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں'' نبی اسرائیل کے سارے 72فرقے گمراہ ہو گئے تھے مگر مسلمانوں میں 72فرقے گمراہ ہوں گے اور ایک ہدایت پر ۔خیال رہے کہ جیسے بعض بنی اسرائیل نبیوں کے دشمن ہیں ایسے ہی مسلمانوں میں بعض فرقے دشمن سید الانبیاء ہیں اور جیسے بعض بنی اسرائیل انبیاء کو خدا کا بیٹا مان بیٹھے ۔ مسلمانوں میں بھی بعض جاہل فقیر نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو عین خدا جزوخدا مانتے ہیں غرض اس حدیث کا ظہوریوں پوری طرح ہو رہا ہے ۔ ( ما انا علیہ واصحابی) کے تحت لکھتے ہیں ۔یعنی میں اور میرے صحابہ ایمان کی کسوٹی ہیں جس کا ایمان ان کا ساہو وہ مومن ماسوائے بے دین ۔رب فرماتا ہے:فان آمنو بمثل ما اٰمنتم بہ فقد اھتدوا(173/2) پھر اگر وہ بھی یوں ہی ایمان لائے جیسا تم لائے جب تو وہ ہدایت پا گئے ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
خیال رہے کہ ما سے مراد عقیدے اور اصول اعمال ہیں نہ کہ فروعی افعال یعنی جن کے عقائد صحابہ رضی اللہ عنہم کے سے ہوں اور ان کے اعمال کی اصل عہد صحابہ میں موجود ہو وہ جنتی ورنہ فروع اعمال آج لاکھوں ایسے ہیں جو زمانہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں نہ تھے ان کے کرنے والے دوزخی نہیں صحابہ کرام حنفی ، شافعی یا قادری نہ تھے ہم ہیں ۔ انہوں نے بخاری مسلم نہیں لکھی تھی ، مدرسہ اسلامی نہ بنائے تھے ، ہوائی جہازوں اور راکٹوں سے جہاد نہ کئے تھے ۔ ہم یہ سب کچھ کرتے ہیں لہذا یہ حدیث وہابیوں کی دلیل نہیں بن سکتی کہ عقائد وہی صحابہ رضی اللہ عنہم والے ہیں اور ان سارے اعمال کی اصل وہاں موجود ہے غرضیکہ درخت اسلام عہد نبوی میں لگا عہد صحابہ میں پھلا پھولا قیامت تک پھل آتے رہیں گے کھاتے رہو ۔ بشرطیکہ اسی درخت کے پھل ہوں ۔
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ (ثنتان و سبعون فی النار وواحدۃ فی الجنۃ وھی الجماعۃ) کے تحت مزید لکھتے ہیں:اس میں بتایا گیا ہے کہ جنتی ہونے کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہے ۔سنت کی پیروی اور جماعت مسلمین کے ساتھ رہنا اسی لئے ہمارے مذہب کا نام اہل سنت و جماعت ہے ۔ جماعت سے مراد مسلمانوں کا بڑا گروہ ہے جس میں فقہاء ، علماء ، صوفیاء اور اولیاء اللہ ہیں الحمد للہ یہ شرف بھی اہلسنت ہی کو حاصل ہے ۔ سوا اس فرقہ کے اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کسی فرقہ میں نہیں ، خیال رہے کہ یہ 73 کا عدد اصولی فرقوں کا ہے کہ اصولی فرقہ ایک جنتی اور 72 جہنمی چنانچہ اہل سنت میں حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، چشتی ، قادری ، نقشبندی ، سہروردی ، ایسے ہی اشاعرہ ماتریدیہ سب داخل ہیں کہ عقائد سب کے ایک ہی ہیں اور ان سب کا شمار ایک ہی فرقہ میں ہے ایسے ہی بہترناری فرقوں کا حال ہے کہ ان میں ایک ایک فرقے کے بہت ٹولے ہیں مثلاً ایک فرقہ روافض کے بہت ٹولے ہیں بارہ امامئے ، چھ امامئے ، تین امامئے ایسے ہیں دیگر فرقوں کا حال ہے لہذا حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ اسلامی فرقے کئی سو ہیں ۔
(مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح،ج:١،ص:١٦٧،مطبوعہ قادری پبلشرزاردو بازار لاہور)
یہ موضوع تو بہت تفصیلی ہے مضمون میں مختصر جواب دیا جارہا ہے لہذا اسی پر اختصار کرتے ہیں اور مذکورہ تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ کہنا کہ : الحمد للہ ہم مسلم بھی ہیں مؤمن بھی ہیں ناجی بھی کیونکہ ہمارے عقائد صحابہ کرام علیھم الرضوان جیسے عقائد ہیں اور ہم ہی اہلسنت وجماعت ا ورنجات پانے والے ہیں ۔ لیکن جب بدمذہب اور گمراہ لوگ پیدا ہو جاتے ہیں تو پھر ان سے امتیاز اور شناخت اور اپنی الگ حیثیت ثابت کرنے کے لئے یا اپنے پیرومرشد سے نسبت جوڑکر چشتی ، قادری ، نقشبندی ، سہرودی ، مجددی کہلاتا ہے کوئی اپنے علاقے کی طرف نسبت کر کے بریلوی ، ملتانی کہلاتا ہے تواس میں کوئی حرج نہیں جبکہ ان کے عقائد صحابہ کرام علیھم الرضوان جیسے ہیں تو نام جو بھی ہو وہ اہلسنت و جماعت ہے ۔ ان کے علاوہ بدمذہب گمراہ حدیث پاک کے مطابق دیگر فرقے میں شامل ہیں ۔ اللہ تعالی سمجھ اور عقل سلیم عطاء فرمائے اور گمراہ فرقوں کے شر سے بچائے آمین ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
پہلے اس بات کو سمجھیئے کہ : حنفی ، شافعی، مالکی اور حنبلی اوربریلوی ، چشتی ، قادری ، سہروردی ، مجددی ، نقشبندی فرقوں کے نام نہیں بلکہ یہ سب مسلمان اور اہل سنت وجماعت سے ہیں کہ ان تمام کے عقائد ایسے ہی ہیں جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تھے یہ لوگ اللہ تعالی کی رسی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے فرمان کے مطابق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر فارق رضی اللہ تعالی عنہ کے دامن کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں بلکہ اہل سنت و جماعت شیخین کے علاوہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے فرمان کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقے پر عمل کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا فرمان ہے کہ نجات اس کو ملے گی جو ما انا علیہ واصحابی جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہو گا۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کی پیروی کو اللہ تعالی کی رسی کو پکڑنا قرار دیا چنانچہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلّم ہے''عن ابی الدرداء ان رسول اللہ ؐ قال:اقتدو بالذین من بعد ابی بکر وعمر،فانھما جبل اللہ الممدود من تمسک بھما فقد تمسک بالعروۃ الوثقی التی لا انفصام لھا ۔
ترجمہ : یعنی،''حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا:میرے بعد ان لوگوں یعنی ابوبکر وعمررضی اللہ تعالی عنھما کی پیروی کرنا،یہ دونوں اللہ کی لٹکتی ہوئی رسی ہیں ۔جس نے ان دونوں (کادامن)تھام لیا تویقینااس نے (اللہ کی طرف)نہ ٹوٹنے والی مضبوط رسی کو تھام لیا''۔(مجمع الذاوائد 53/9۔ابن عساکر229/30کنزالعمال:رقم الحدیث:32649)
اب نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے صحابہ رضی اللہ عنہم جیسے عقائد رکھنے والا چاہیے حنفی ہو ، شافعی ہو ، مالکی ہو ، یا حنبلی ہو اپنے آپ کو بریلوی کہلوائیں ، چشتی ، قادری ، سہروردی ، مجددی ، نقشبندی میں سے جو بھی کہلوائیں وہ اہلسنت ہی رہیں گے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں اورمؤمن مسلمان ہیں ۔ انہی لوگوں کواللہ تعالی نے ارشاد فرمایا تم اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھو اور تم میں کوئی شخص جماعت سے الگ ہو کر تفرقہ مت ڈالے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے : وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ ۔
ترجمہ : اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لواور تفرقہ مت ڈالو ۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسر قرآن سید نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حبل کی تفسیر میں مفسرین کے چند اقوال ہیں بعض کہتے ہیں کہ اس سے قرآن مراد ہے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ حبل سے جماعت مرادہے اور فرمایا کہ تم جماعت کو لازم پکڑ لوکہ وہ حبل اللہ ہے جس کو مضبوط تھامنے کا حکم دیا گیا ہے جیسے کہ یھود و نصاری متفرق ہوگئے اس آیت میں ان افعال وحرکات کی ممانعت کی گئی ہے جو مسلمانوں میں تفرق کا سبب ہو طریق مسلمین مذھب اھلسنت ہے اس کے علاوہ کوئی راہ اختیار کرنا تفریق اور ممنوع ہے ۔(اٰل عمران:١٠٣)
مزید اسی سورہ ال عمران میں ارشاد باری تعالی ہے''وَلاَ تَکُونُواْ کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاء ہُمُ الْبَیِّنَاتُ وَأُوْلَـئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ''ترجمہ : ان جیسے نہ ہونا جو آپس میں پھٹ گئے اور ان میں پھوٹ پڑ گئی بعد اس کے کہ روشن نشانیاں انہیں آچکی تھیں اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے''۔(ال عمران،آیت:١٠٥)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اسلام میں فرقہ پرستی منع ہے اورجس نے اہلسنت وجماعت کے عقائد سے اختلاف کیا گویا اس نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عقائد سے اختلاف کرتے ہوئے الگ ہو گیا وہ جہنم میں گیااس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے جماعت مسلمین کو لازم پکڑے کا حکم ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جوجماعت الگ ہوا جہنم میں الگ ہوا ۔ حدیث یہ ہے :
اتبعواالسوادالاعظم فانہ من شذ شذ فی النار رواہ ابن ماجہ ۔ ترجمہ : سوداعظم کی اتباع کرو پس جو اس سے الگ ہوا وہ جہنم میں الگ ہوا۔اس کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے (مشکوٰۃ المصابیح،ص:٣٠، قدیمی کتب خانہ)
اس کے علاوہ بھی بے شمار احادیث اس بات پر شاہد ہیں کہ اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے طریق پر چلتے ہوئے جماعت کو لازم پکڑنے کے ارشادات موجود ہیں۔اور اسی احادیث پاک کے ذخیرے میں یہ بات بھی موجود ہے کہ اس امت کے 73فرقے ہوں گے ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا : وان بنی اسرائیل تفرقت علی ثنتین وسبعین ملۃ وتفترق امتی علی ثلث و سبعین ملۃ کلھم فی النار الا ملۃ واحدۃ قالوا من ھی یارسول اﷲقال ما انا علیہ واصحابی رواہ الترمذی وفی روایۃ احمد و ابی داو،د عن معاویۃ ثنتان و سبعون فی النار وواحدۃ فی الجنۃ وھی الجماعۃ ۔
ترجمہ : بے شک بنی اسرائیل کے بہتر٧٢ فرقے ہوئے اور میری امت میں تہتر فرقے ہوجا ئیں گے ایک فرقہ جنتی ہوگا باقی سب جہنمی ہیں صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی وہ ناجی فرقہ کون ہے یارسول اللہ ؐ ، ارشاد فرمایا وہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں یعنی سنت کے پیرو ۔ دوسری روایت میں فرمایا وہ جماعت ہے یعنی مسلمانوں کا بڑا گروہ جسے سواد اعظم فرمایا ۔ (مشکوٰۃ المصابیح،ص:٣٠، قدیمی کتب خانہ)
اس حدیث پاک کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ مراۃ شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں'' نبی اسرائیل کے سارے 72فرقے گمراہ ہو گئے تھے مگر مسلمانوں میں 72فرقے گمراہ ہوں گے اور ایک ہدایت پر ۔خیال رہے کہ جیسے بعض بنی اسرائیل نبیوں کے دشمن ہیں ایسے ہی مسلمانوں میں بعض فرقے دشمن سید الانبیاء ہیں اور جیسے بعض بنی اسرائیل انبیاء کو خدا کا بیٹا مان بیٹھے ۔ مسلمانوں میں بھی بعض جاہل فقیر نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو عین خدا جزوخدا مانتے ہیں غرض اس حدیث کا ظہوریوں پوری طرح ہو رہا ہے ۔ ( ما انا علیہ واصحابی) کے تحت لکھتے ہیں ۔یعنی میں اور میرے صحابہ ایمان کی کسوٹی ہیں جس کا ایمان ان کا ساہو وہ مومن ماسوائے بے دین ۔رب فرماتا ہے:فان آمنو بمثل ما اٰمنتم بہ فقد اھتدوا(173/2) پھر اگر وہ بھی یوں ہی ایمان لائے جیسا تم لائے جب تو وہ ہدایت پا گئے ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
خیال رہے کہ ما سے مراد عقیدے اور اصول اعمال ہیں نہ کہ فروعی افعال یعنی جن کے عقائد صحابہ رضی اللہ عنہم کے سے ہوں اور ان کے اعمال کی اصل عہد صحابہ میں موجود ہو وہ جنتی ورنہ فروع اعمال آج لاکھوں ایسے ہیں جو زمانہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں نہ تھے ان کے کرنے والے دوزخی نہیں صحابہ کرام حنفی ، شافعی یا قادری نہ تھے ہم ہیں ۔ انہوں نے بخاری مسلم نہیں لکھی تھی ، مدرسہ اسلامی نہ بنائے تھے ، ہوائی جہازوں اور راکٹوں سے جہاد نہ کئے تھے ۔ ہم یہ سب کچھ کرتے ہیں لہذا یہ حدیث وہابیوں کی دلیل نہیں بن سکتی کہ عقائد وہی صحابہ رضی اللہ عنہم والے ہیں اور ان سارے اعمال کی اصل وہاں موجود ہے غرضیکہ درخت اسلام عہد نبوی میں لگا عہد صحابہ میں پھلا پھولا قیامت تک پھل آتے رہیں گے کھاتے رہو ۔ بشرطیکہ اسی درخت کے پھل ہوں ۔
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ (ثنتان و سبعون فی النار وواحدۃ فی الجنۃ وھی الجماعۃ) کے تحت مزید لکھتے ہیں:اس میں بتایا گیا ہے کہ جنتی ہونے کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہے ۔سنت کی پیروی اور جماعت مسلمین کے ساتھ رہنا اسی لئے ہمارے مذہب کا نام اہل سنت و جماعت ہے ۔ جماعت سے مراد مسلمانوں کا بڑا گروہ ہے جس میں فقہاء ، علماء ، صوفیاء اور اولیاء اللہ ہیں الحمد للہ یہ شرف بھی اہلسنت ہی کو حاصل ہے ۔ سوا اس فرقہ کے اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کسی فرقہ میں نہیں ، خیال رہے کہ یہ 73 کا عدد اصولی فرقوں کا ہے کہ اصولی فرقہ ایک جنتی اور 72 جہنمی چنانچہ اہل سنت میں حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، چشتی ، قادری ، نقشبندی ، سہروردی ، ایسے ہی اشاعرہ ماتریدیہ سب داخل ہیں کہ عقائد سب کے ایک ہی ہیں اور ان سب کا شمار ایک ہی فرقہ میں ہے ایسے ہی بہترناری فرقوں کا حال ہے کہ ان میں ایک ایک فرقے کے بہت ٹولے ہیں مثلاً ایک فرقہ روافض کے بہت ٹولے ہیں بارہ امامئے ، چھ امامئے ، تین امامئے ایسے ہیں دیگر فرقوں کا حال ہے لہذا حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ اسلامی فرقے کئی سو ہیں ۔
(مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح،ج:١،ص:١٦٧،مطبوعہ قادری پبلشرزاردو بازار لاہور)
یہ موضوع تو بہت تفصیلی ہے مضمون میں مختصر جواب دیا جارہا ہے لہذا اسی پر اختصار کرتے ہیں اور مذکورہ تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ کہنا کہ : الحمد للہ ہم مسلم بھی ہیں مؤمن بھی ہیں ناجی بھی کیونکہ ہمارے عقائد صحابہ کرام علیھم الرضوان جیسے عقائد ہیں اور ہم ہی اہلسنت وجماعت ا ورنجات پانے والے ہیں ۔ لیکن جب بدمذہب اور گمراہ لوگ پیدا ہو جاتے ہیں تو پھر ان سے امتیاز اور شناخت اور اپنی الگ حیثیت ثابت کرنے کے لئے یا اپنے پیرومرشد سے نسبت جوڑکر چشتی ، قادری ، نقشبندی ، سہرودی ، مجددی کہلاتا ہے کوئی اپنے علاقے کی طرف نسبت کر کے بریلوی ، ملتانی کہلاتا ہے تواس میں کوئی حرج نہیں جبکہ ان کے عقائد صحابہ کرام علیھم الرضوان جیسے ہیں تو نام جو بھی ہو وہ اہلسنت و جماعت ہے ۔ ان کے علاوہ بدمذہب گمراہ حدیث پاک کے مطابق دیگر فرقے میں شامل ہیں ۔ اللہ تعالی سمجھ اور عقل سلیم عطاء فرمائے اور گمراہ فرقوں کے شر سے بچائے آمین ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment