Friday, 21 July 2017

قرآن تفرقہ سے منع کرتا ہے تو پھر یہ فرقے کیوں کا مدلّل جواب

قرآن تفرقہ سے منع کرتا ہے تو پھر یہ فرقے کیوں کا مدلّل جواب
محترم قارئینِ کرام : پہلے اس بات کو سمجھیے کہ حنفی ، شافعی ، مالکی اور حنبلی ، بریلوی ، چشتی ، قادری ، سہروردی ، مجددی ، نقشبندی فرقوں کے نام نہیں بلکہ یہ سب مسلمان اور اہل سنت و جماعت سے ہیں کہ ان تمام کے عقائد ایسے ہی ہیں جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تھے یہ لوگ اللہ تعالی کی رسی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فارق رضی اللہ عنہ کے دامن کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں بلکہ اہل سنت و جماعت شیخین رضی اللہ عنہما کے علاوہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقے پر عمل کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ نجات اس کو ملے گی جو ما انا علیہ واصحابی جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہو گا ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کی پیروی کو اللہ تعالی کی رسی کو پکڑنا قرار دیا چنانچہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلّم ہے''عن ابی الدرداء ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال:اقتدو بالذین من بعد ابی بکر وعمر،فانھما جبل اللہ الممدود من تمسک بھما فقد تمسک بالعروۃ الوثقی التی لا انفصام لھا ۔
ترجمہ : حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے بعد ان لوگوں یعنی ابوبکر وعمررضی اللہ تعالی عنھما کی پیروی کرنا،یہ دونوں اللہ کی لٹکتی ہوئی رسی ہیں ۔جس نے ان دونوں (کادامن)تھام لیا تویقینااس نے (اللہ کی طرف)نہ ٹوٹنے والی مضبوط رسی کو تھام لیا ۔(مجمع الذاوائد 53/9)(ابن عساکر229/30،چشتی)(کنزالعمال:رقم الحدیث:32649)

اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم جیسے عقائد رکھنے والا چاہیے حنفی ہو ، شافعی ہو ، مالکی ہو ، یا حنبلی ہو اپنے آپ کو بریلوی کہلوائیں ، چشتی ، قادری ، سہروردی ، مجددی ، نقشبندی میں سے جو بھی کہلوائیں وہ اہلسنت ہی رہیں گے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں اورمؤمن مسلمان ہیں ۔ انہی لوگوں کواللہ تعالی نے ارشاد فرمایا تم اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھو اور تم میں کوئی شخص جماعت سے الگ ہو کر تفرقہ مت ڈالے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے : وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ ۔ (اٰل عمران:١٠٣)
ترجمہ : اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ مت ڈالو ۔

اس آیت کی تفسیر میں مفسر قرآن سید نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حبل کی تفسیر میں مفسرین کے چند اقوال ہیں بعض کہتے ہیں کہ اس سے قرآن مراد ہے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ حبل سے جماعت مراد ہے اور فرمایا کہ تم جماعت کو لازم پکڑ لوکہ وہ حبل اللہ ہے جس کو مضبوط تھامنے کا حکم دیا گیا ہے جیسے کہ یھود و نصاری متفرق ہو گئے اس آیت میں ان افعال و حرکات کی ممانعت کی گئی ہے جو مسلمانوں میں تفرق کا سبب ہو طریق مسلمین مذھب اھلسنت ہے اس کے علاوہ کوئی راہ اختیار کرنا تفریق اور ممنوع ہے ۔

مزید اسی سورہ ال عمران میں ارشاد باری تعالی ہے''وَلاَ تَکُونُواْ کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاء ہُمُ الْبَیِّنَاتُ وَأُوْلَـئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ۔
ترجمہ : ان جیسے نہ ہونا جو آپس میں پھٹ گئے اور ان میں پھوٹ پڑ گئی بعد اس کے کہ روشن نشانیاں انہیں آچکی تھیں اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے ۔ (ال عمران،آیت:١٠٥)

ان آیات سے معلوم ہوا کہ اسلام میں فرقہ پرستی منع ہے اور جس نے اہلسنت و جماعت کے عقائد سے اختلاف کیا گویا اس نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عقائد سے اختلاف کرتے ہوئے الگ ہو گیا وہ جہنم میں گیا اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑے کا حکم ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جوجماعت الگ ہوا جہنم میں الگ ہوا ۔ حدیث یہ ہے : اتبعواالسوادالاعظم فانہ من شذ شذ فی النار رواہ ابن ماجہ ۔ ترجمہ : سوداعظم کی اتباع کرو پس جو اس سے الگ ہوا وہ جہنم میں الگ ہوا۔اس کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٣٠ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی،چشتی)

اس کے علاوہ بھی بے شمار احادیث اس بات پر شاہد ہیں کہ اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے طریق پر چلتے ہوئے جماعت کو لازم پکڑنے کے ارشادات موجود ہیں ۔ اور اسی احادیث پاک کے ذخیرے میں یہ بات بھی موجود ہے کہ اس امت کے 73 فرقے ہوں گے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وان بنی اسرائیل تفرقت علی ثنتین وسبعین ملۃ وتفترق امتی علی ثلث و سبعین ملۃ کلھم فی النار الا ملۃ واحدۃ قالوا من ھی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال ما انا علیہ واصحابی رواہ الترمذی وفی روایۃ احمد و ابی داو،د عن معاویۃ ثنتان و سبعون فی النار وواحدۃ فی الجنۃ وھی الجماعۃ ۔
ترجمہ : بے شک بنی اسرائیل کے بہتر (٧٢) فرقے ہوئے اور میری امت میں تہتر فرقے ہوجا ئیں گے ایک فرقہ جنتی ہوگا باقی سب جہنمی ہیں صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی وہ ناجی فرقہ کون ہے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ارشاد فرمایا وہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں یعنی سنت کے پیرو ۔ دوسری روایت میں فرمایا وہ جماعت ہے یعنی مسلمانوں کا بڑا گروہ جسے سواد اعظم فرمایا ۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٣٠ قدیمی کتب خانہ،چشتی)

اس حدیث پاک کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : نبی اسرائیل کے سارے 72فرقے گمراہ ہو گئے تھے مگر مسلمانوں میں 72فرقے گمراہ ہوں گے اور ایک ہدایت پر ۔خیال رہے کہ جیسے بعض بنی اسرائیل نبیوں کے دشمن ہیں ایسے ہی مسلمانوں میں بعض فرقے دشمن سید الانبیاء ہیں اور جیسے بعض بنی اسرائیل انبیاء کو خدا کا بیٹا مان بیٹھے ۔ مسلمانوں میں بھی بعض جاہل فقیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عین خدا جزوخدا مانتے ہیں غرض اس حدیث کا ظہوریوں پوری طرح ہو رہا ہے ۔ ( ما انا علیہ واصحابی) کے تحت لکھتے ہیں ۔یعنی میں اور میرے صحابہ ایمان کی کسوٹی ہیں جس کا ایمان ان کا ساہو وہ مومن ماسوائے بے دین ۔رب فرماتا ہے:فان آمنو بمثل ما اٰمنتم بہ فقد اھتدوا ۔ (سورہ بقرہ 173/2) ۔ پھر اگر وہ بھی یوں ہی ایمان لائے جیسا تم لائے جب تو وہ ہدایت پا گئے ۔

خیال رہے کہ ما سے مراد عقیدے اور اصول اعمال ہیں نہ کہ فروعی افعال یعنی جن کے عقائد صحابہ رضی اللہ عنہم کے سے ہوں اور ان کے اعمال کی اصل عہد صحابہ میں موجود ہو وہ جنتی ورنہ فروع اعمال آج لاکھوں ایسے ہیں جو زمانہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں نہ تھے ان کے کرنے والے دوزخی نہیں صحابہ کرام حنفی ، شافعی یا قادری نہ تھے ہم ہیں ۔ انہوں نے بخاری مسلم نہیں لکھی تھی ، مدرسہ اسلامی نہ بنائے تھے ، ہوائی جہازوں اور راکٹوں سے جہاد نہ کیے تھے ۔ ہم یہ سب کچھ کرتے ہیں لہٰذا یہ حدیث وہابیوں کی دلیل نہیں بن سکتی کہ عقائد وہی صحابہ رضی اللہ عنہم والے ہیں اور ان سارے اعمال کی اصل وہاں موجود ہے غرضیکہ درخت اسلام عہد نبوی میں لگا عہد صحابہ میں پھلا پھولا قیامت تک پھل آتے رہیں گے کھاتے رہو ۔ بشرطیکہ اسی درخت کے پھل ہوں ۔

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ (ثنتان و سبعون فی النار وواحدۃ فی الجنۃ وھی الجماعۃ) کے تحت مزید لکھتے ہیں : اس میں بتایا گیا ہے کہ جنتی ہونے کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہے ۔سنت کی پیروی اور جماعت مسلمین کے ساتھ رہنا اسی لئے ہمارے مذہب کا نام اہل سنت و جماعت ہے ۔ جماعت سے مراد مسلمانوں کا بڑا گروہ ہے جس میں فقہاء ، علماء ، صوفیاء اور اولیاء اللہ ہیں الحمد للہ یہ شرف بھی اہلسنت ہی کو حاصل ہے ۔ سوا اس فرقہ کے اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کسی فرقہ میں نہیں ، خیال رہے کہ یہ 73 کا عدد اصولی فرقوں کا ہے کہ اصولی فرقہ ایک جنتی اور 72 جہنمی چنانچہ اہل سنت میں حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، چشتی ، قادری ، نقشبندی ، سہروردی ، ایسے ہی اشاعرہ ماتریدیہ سب داخل ہیں کہ عقائد سب کے ایک ہی ہیں اور ان سب کا شمار ایک ہی فرقہ میں ہے ایسے ہی بہترناری فرقوں کا حال ہے کہ ان میں ایک ایک فرقے کے بہت ٹولے ہیں مثلاً ایک فرقہ روافض کے بہت ٹولے ہیں بارہ امامئے ، چھ امامئے ، تین امامئے ایسے ہیں دیگر فرقوں کا حال ہے لہذا حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ اسلامی فرقے کئی سو ہیں ۔ (مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد ١ صفحہ ١٦٧ مطبوعہ قادری پبلشرزاردو بازار لاہور)

یہ موضوع تو بہت تفصیلی ہے مضمون میں مختصر جواب دیا جارہا ہے لہٰذا اسی پر اختصار کرتے ہیں اور مذکورہ تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ کہنا کہ : الحمد للہ ہم مسلم بھی ہیں مؤمن بھی ہیں ناجی بھی کیونکہ ہمارے عقائد صحابہ کرام علیھم الرضوان جیسے عقائد ہیں اور ہم ہی اہلسنت وجماعت اور نجات پانے والے ہیں ۔ لیکن جب بدمذہب اور گمراہ لوگ پیدا ہو جاتے ہیں تو پھر ان سے امتیاز اور شناخت اور اپنی الگ حیثیت ثابت کرنے کےلیے یا اپنے پیر و مرشد سے نسبت جوڑکر چشتی ، قادری ، نقشبندی ، سہرودی ، مجددی کہلاتا ہے کوئی اپنے علاقے کی طرف نسبت کر کے بریلوی ، ملتانی کہلاتا ہے تواس میں کوئی حرج نہیں جبکہ ان کے عقائد صحابہ کرام علیہم الرضوان جیسے ہیں تو نام جو بھی ہو وہ اہلسنت و جماعت ہے ۔ ان کے علاوہ بدمذہب گمراہ حدیث پاک کے مطابق دیگر فرقے میں شامل ہیں ۔ اللہ تعالی سمجھ اور عقل سلیم عطاء فرمائے اور گمراہ فرقوں کے شر سے بچائے آمین ۔

جماعت و فرقے میں فرق اور تعارف : ⏬

محترم قارئینِ کرام : چاروں ائمہ فقہ علیہم الرّحمہ کے عقائد میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ سب کا عقیدہ وہی ہے جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا تھا ۔ ہمیشہ سے امت میں ایک بہت بڑی جماعت کا عقیدہ ایک رہا ہے اور یہی عقیدہ درست ہے ۔ اسی کو جماعت یا سواد اعظم کا نام دیا گیا ہے ۔ جو جماعت سے نکل جاتا ہے اس کو فرقہ کہتے ہیں ۔ جماعت ہمیشہ سے حق پر ہے اور حق پر رہے گی ۔ جتنے بھی فرقے ہوں گے حق پر نہیں ہوں گے کیونکہ یہ بنتے رہے ہیں اور ختم ہوتے رہے ہیں اسی طرح قیامت تک ہوتا رہے گا ۔ اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ  کے افکار و نظریات کی بے پناہ مقبولیت سے متاثر ہو کر مخالفین نے ان کے ہم مسلک علماء و مشائخ کو بریلوی کا نام دے دیا ، مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ دوسرے فرقوں کی طرح یہ بھی ایک نیا فرقہ ہے جو سرزمین ہند میں پیدا ہوا ہے ۔  احادیث مبارکہ میں ہے : ⬇

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان الله لا يجمع أمتی (أو قال امة محمد صلی الله عليه وآله وسلم) علی ضلالة، ويد الله مع الجماعة، ومن شذ شذ الی النار.
ترجمہ : اللہ تعالی میری امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا (یا فرمایا : امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا) اور جماعت پر اللہ (تعالی کی حفاظت) کا ہاتھ ہے اور جو شخص جماعت سے جدا ہوا وہ آگ کی طرف جدا ہوا ۔ (ترمذی، السنن، 4 : 466، رقم : 2167، بيروت لبنان)(حاکم، المستدرک، 1 : 201، رقم : 397، دار الکتب العلمية، بيروت، لبنان،چشتی)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لا يجمع الله هذه الامة علی الضلالة ابدا وقال : يدالله علی الجماعة فاتبعوا السواد الاعظم فانه من شذ شذ فی النار .
ترجمہ : اللہ تعالی اس امت کو کبھی بھی گمراہی پر اکٹھا نہیں فرمائے گا اور فرمایا : اللہ تعالی کا دست قدرت جماعت پر ہوتا ہے۔ پس سب سے بڑی جماعت کی اتباع کرو اور جو اس جماعت سے الگ ہوتا ہے وہ آگ میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ (حاکم، المستدرک، 1 : 199، رقم : 391،چتی)(ابن ابی عاصم، کتاب السنة، 1 : 39، رقم : 80، مکتبة العلوم والحکم، مدينة منوره، سعودی عرب)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان أمتی لا تجتمع علی ضلالة فاذا رأيتم اختلافا فعليکم بالسواد الاعظم ۔
ترجمہ : بے شک میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو گی پس اگر تم ان میں اختلاف دیکھو تو تم پر لازم ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو اختیار کرو ۔ (ابن ماجه، السنن، 4 : 367، رقم : 3950 دارالکتب العلمية، بيروت، لبنان،چشتی)(طبرانی، معجم الکبير، 12 : 447، رقم : 13623، مکتبة ابن تيمية قاهره)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان بنی اسرائيل افترقت علی أحد وسبعين فرقة. وان أمتی ستفترق علی ثنتين وسبعين فرقة. کلها فی النار، الا واحدة. وهی الجماعة ۔
ترجمہ : یقینا بنی اسرائیل اکتہر فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور میری امت یقینا بہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ وہ سب کے سب دوزخ میں جائیں گے سوائے ایک کے اور وہ جماعت ہے ۔ (ابن ماجه، السنن، 2 : 1322، رقم : 3991)(احمد بن حنبل، المسند، 3 : 145، رقم : 12501)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان الله لا يجمع أمتی (أو قال امة محمد صلی الله عليه وآله وسلم) علی ضلالة، ويد الله مع الجماعة، ومن شذ شذ الی النار.
ترجمہ : اللہ تعالی میری امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا (یا فرمایا : امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا) اور جماعت پر اللہ (تعالی کی حفاظت) کا ہاتھ ہے اور جو شخص جماعت سے جدا ہوا وہ آگ کی طرف جدا ہوا ۔ (ترمذی ، السنن، 4 : 466، رقم : 2167، بيروت لبنان،چشتی)(حاکم، المستدرک، 1 : 201، رقم : 397، دار الکتب العلمية، بيروت، لبنان)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لا يجمع الله هذه الامة علی الضلالة ابدا وقال : يدالله علی الجماعة فاتبعوا السواد الاعظم فانه من شذ شذ فی النار ۔
ترجمہ : اللہ تعالی اس امت کو کبھی بھی گمراہی پر اکٹھا نہیں فرمائے گا اور فرمایا : اللہ تعالی کا دست قدرت جماعت پر ہوتا ہے۔ پس سب سے بڑی جماعت کی اتباع کرو اور جو اس جماعت سے الگ ہوتا ہے وہ آگ میں ڈال دیا جاتا ہے ۔(حاکم المستدرک، 1 : 199، رقم : 391،چشتی)(ابن ابی عاصم، کتاب السنة، 1 : 39، رقم : 80، مکتبة العلوم والحکم، مدينة منوره، سعودی عرب)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان أمتی لا تجتمع علی ضلالة فاذا رأيتم اختلافا فعليکم بالسواد الاعظم ۔
ترجمہ : بے شک میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو گی پس اگر تم ان میں اختلاف دیکھو تو تم پر لازم ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو اختیار کرو ۔ (ابن ماجه، السنن، 4 : 367، رقم : 3950 دارالکتب العلمية، بيروت، لبنان۔چشتی)(طبرانی، معجم الکبير، 12 : 447، رقم : 13623، مکتبة ابن تيمية قاهره)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان بنی اسرائيل افترقت علی أحد وسبعين فرقة. وان أمتی ستفترق علی ثنتين وسبعين فرقة. کلها فی النار، الا واحدة. وهی الجماعة ۔
ترجمہ : یقینا بنی اسرائیل اکتہر فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور میری امت یقینا بہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی ۔ وہ سب کے سب دوزخ میں جائیں گے سوائے ایک کے اور وہ جماعت ہے ۔ (ابن ماجه، السنن، 2 : 1322، رقم : 3991،چشتی)(احمد بن حنبل، المسند، 3 : 145، رقم : 12501)

لہذا چاروں ائمہ علیہم الرّحمہ کو Follow کرنے والے یا پھر کوئی علاقائی طور پر کسی نام سے پکارے جانے والے مسلمان اگر عقیدہ سواد اعظم اہلسنت و جماعت والا رکھتے ہوں تو وہ فرقہ نہیں ہیں بلکہ جماعت ہی ہیں کیونکہ سب کا عقیدہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم والا عقیدہ ہے اور قرآن وحدیث کی تعلیمات کے مطابق ہے ۔ ہاں جس کا عقیدہ جماعت سے مختلف ہوا وہ جہنم کے راستے پر ہے اور وہی فرقہ ہے ۔

اہلسنت و جماعت حنفی بریلوی : ⏬

ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی اہل حدیث لکھتے ہیں : یہ جماعت امام ابو حنیفہ رحمۃ ﷲ علیہ کی تقلید کی مدعی ہے ، مگر دیوبندی مقلدین (اور یہ بھی بجائے خود ایک جدید اصطلاح ہے) یعنی تعلیم یافتگانِ مدرسہ دیوبند اور ان کے اتباع انہیں ''بریلوی'' کہتے ہیں''۔ (ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی، تراجم علمائے حدیث ہند، مطبوعہ سبحانی اکیڈمی لاہور صفحہ ٣٧٦)

جب کہ حقیقت حال اس سے مختلف ہے ، بریلی کے رہنے والے یا اس سے سلسلہ شاگردی یا بیعت کا تعلق رکھنے والے اپنے آپ کو بریلوی کہیں تو یہ ایسا ہی ہوگا ، جیسے کوئی اپنے آپ کو قادری، چشتی، یا نقشبندی اور سہروردی کہلائے ، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ خیر آبادی ، بدایونی ، رامپوری سلسلہ کا بھی وہی عقیدہ ہے جو علماء بریلی کا ہے، کیا ان سب حضرات کو بھی بریلوی کہا جائے گا ؟ ظاہر ہے کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، اگرچہ مخالفین ان تمام حضرات کو بھی بریلوی ہی کہیں گے ، اسی طرح اسلاف کے طریقے پر چلنے والے قادری، چشتی، نقشبندی، سہروردی اور رفاعی مخالفین کی نگاہ میں بریلوی ہی ہیں ۔ (ظہیر البریلویہ صفحہ ٧) 

میں یہی کہوں  گا  کہ اہلسنت و جماعت  کو بریلوی کہنا  ہندوستانی  دیوبندیوں کا طریقہ ہے ۔ (الحق المبین عربی صفحہ نمبر 3 از تاج الشریعہ  حضرت علامہ محمد اختر رضا خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ)

مبلغ اسلام حضرت علامہ سیّد محمد مدنی کچھوچھوی فرماتے ہیں : غور فرمائیے کہ فاضل بریلوی کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے، از اوّل تا آخر مقلد رہے، ان کی ہر تحریر کتاب وسنت اور اجماع وقیاس کی صحیح ترجمان رہی، نیز سلف صالحین وائمّہ ومجتہدین کے ارشادات اور مسلکِ اسلاف کو واضح طور پر پیش کرتی رہی ، وہ زندگی کے کسی گوشے میں ایک پل کے لئے بھی ''سبیل مومنین صالحین'' سے نہیں ہٹے ۔ اب اگر ایسے کے ارشاداتِ حقانیہ اور توضیحات و تشریحات پر اعتماد کرنے والوں، انہیں سلفِ صالحین کی رَوش کے مطابق یقین کرنے والوں کو ''بریلوی'' کہہ دیا گیا تو کیا بریلویت وسنیت کو بالکل مترادف المعنی نہیں قرار دیا گیا؟ اور بریلویت کے وجود کا آغاز فاضل بریلوی کے وجود سے پہلے ہی تسلیم نہیں کرلیا گیا ؟ ۔ (سیّد محمد مدنی شیخ الاسلام تقدیم دور حاضر میں بریلوی اہل سنت کا علامتی نشان مکتبہ حبیبیہ لاہور صفحہ ١٠۔١١،چشتی)

خود مخالفین بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں : یہ جماعت اپنی پیدائش اور نام کے لحاظ سے نئی ہے ، لیکن افکار اور عقائد کے اعتبار سے قدیم ہے ۔ (احسان الٰہی ظہیر، البریلویہ صفحہ ٧)

اب اس کے سوا اور کیا کہا جائے کہ بریلویت کا نام لے کر مخالفت کرنے والے دراصل ان ہی عقائد وافکار کو نشانہ بنارہے ہیں جو زمانہ قدیم سے اہل سنت وجماعت کے چلے آہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ کھلے بندوں اہل سنت کے عقائد کو مشرکانہ اور غیر اسلامی قرار دے سکیں، باب عقائد میں آپ دیکھیں گے کہ جن عقائد کو بریلوی عقائد کہہ کر مشرکانہ قرار دیا گیا ہے، وہ قرآن وحدیث اور متقدمین علمائے اہل سنت سے ثابت اور منقول ہیں، کوئی ایک ایسا عقیدہ بھی تو پیش نہیں کیا جاسکا جو بریلویوں کی ایجاد ہو، اور متقدمین ائمہ اہل سنت سے ثابت نہ ہو ۔ 

امام اہل سنت شاہ احمد رضا بریلوی کے القاب میں سے ایک لقب ہی عالم اہل السنۃ تھا ۔ اہل سنت وجماعت کی نمائندہ جماعت آل انڈیا سُنی کانفرنس کا رکن بننے کے لئے سُنی ہونا شرط تھا، اس کے فارم پر سُنی کی یہ تعریف درج تھی :  سُنی وہ ہے جو ما انا علیہ واصحابی کا مصداق ہوسکتا ہو، یہ وہ لوگ ہیں، جو ائمہ دین، خلفاء اسلام اور مسلم مشائخ طریقت اور متاخرین علماء دین سے شیخ عبدالحق صاحب محدّث دہلوی، حضرت ملک العلماء بحر العلوم صاحب فرنگی محلی، حضرت مولانا فضل حق خیر آبادی، حضرت مولانا فضل رسول صاحب بدایونی، حضرت مولانا ارشاد حسین صاحب رامپوری، اعلیٰ حضرت مولانا مفتی احمد رضا خاں رحمہم اﷲ تعالیٰ کے مسلک پر ہو''۔ (مولانا محمد جلال الدین قادری، خطبات آل انڈیا سنی کانفرنس، مطبوعہ مکتبہ رضویہ لاہور، صفحہ ٨٥، ٨٦،چشتی)

خود مخالفین بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ لوگ قدیم طریقوں پر کار بند رہے، مشہور موّرخ سلیمان ندوی جن کا میلان طبع اہل حدیث کی طرف تھا، لکھتے ہیں :  تیسرا فریق وہ تھا جو شدّت کے ساتھ اپنی روش پر قائم رہا اور اپنے آپ کو اہل السنۃ کہتا رہا، اس گروہ کے پیشوا زیادہ تر بریلی اور بدایوں کے علماء تھے ۔ (سلیمان ندوی حیات شبلی صفحہ ٤٦)

مشہور رائٹر شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں : انہوں(امام احمد رضا بریلوی) نے نہایت شدت سے قدیم حنفی طریقوں کی حمایت کی ۔ (محمد اکرام شیخ، موج کوثر، طبع ہفتم١٩٦٦ئ،  صفحہ ٧٠،چشتی)

اہل حدیث کے شیخ الاسلام مولوی ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں : امرتسر میں مسلم آبادی ، غیر مسلم آبادی (ہندو سکھ وغیرہ) کے مساوی ہے ، اسّی (80) سال قبل پہلے سب مسلمان اسی خیال کے تھے، جن کو بریلوی حنفی خیال کیا جاتا ہے ۔ (ثناء اللہ امرتسری وہابی شمع توحید مطبوعہ سرگودھا پنجاب صفحہ ٤٠) 

یہ امر بھی سامنے رہے کہ غیر مقلدین براہ راست قرآن وحدیث سے استنباط کے قائل ہیں اور ائمّہ مجتہدین کو ا ستنادی درجہ دینے کے قائل نہیں ہیں، دیوبندی مکتب فکر رکھنے والے اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں، تاہم وہ بھی ہندوستان کی مسلم شخصیت یہاں تک کہ شاہ ولی اﷲ محدّث دہلوی اور شیخ عبدالحق محدّث دہلوی کو دیوبندیت کی ابتدا ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ 

علامہ انور شاہ کشمیری کے صاحبزادے ، دارالعلوم دیوبند کے استاذ التفسیر مولوی انظر شاہ کشمیری لکھتے ہیں : میرے نزدیک دیوبندیت خالص ولی اللّہٰی فکر بھی نہیں اور نہ کسی خانوادہ کی لگی بندھی فکر دولت ومتاع ہے، میرا یقین ہے کہ اکابر دیوبند جن کی ابتداء میرے خیال میں سیدنا الامام مولانا قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور فقیہ اکبر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے ہے ۔۔۔۔۔۔ دیوبندیت کی ابتدا حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اﷲ علیہ سے کرنے کے بجائے مذکورہ بالا دو عظیم انسانوں سے کرتا ہوں ۔ (انظر شاہ کشمیری استاذ دیوبند ماہنامہ البلاغ کراچی شمارہ مارچ ١٩٦٩ئ/١٣٨٨ھ صفحہ ٤٨) 

پھر شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے دیوبند کا تعلق قائم نہ کرنے کا ان الفاظ میں اظہار کرتے ہیں : اوّل تو اس وجہ سے کہ شیخ مرحوم تک ہماری سند ہی نہیں پہنچتی ، نیز حضرت شیخ عبدالحق کا فکر کلیۃً دیوبندیت سے جوڑ بھی نہیں کھاتا ۔۔۔۔۔۔ سنا ہے حضرت مولانا انور شاہ کشمیری فرماتے تھے کہ''شامی اور شیخ عبدالحق پر بعض مسائل میں بدعت و سنت کا فرق واضح نہیں ہو سکا '' بس اسی اجمال میں ہزارہا تفصیلات ہیں، جنہیں شیخ کی تالیفات کا مطالعہ کرنے والے خوب سمجھیں گے ۔ (فٹ نوٹ ، انظر شاہ کشمیری استاذدیوبند ماہنامہ البلاغ کراچی شمارہ مارچ ١٩٦٩ئ/١٣٨٨ھ صفحہ ٤٩،چشتی)

تاج الشریعہ حضرت علامہ محمد اختر رضا خان صاحب ازہری سے ایک انٹرویو کے دوران جب سوال کیا گیا کہ پاکستان میں بعض لوگ اپنے آپ کو بریلوی کہتے ہیں اور بعض اپنے آپ کو دیوبندی، کیا یہ اچھی بات ہے۔ اس کے جواب میں حضور ازہری میاں نے ارشاد فرمایا کہ؛ بریلوی کوئی مسلک نہیں ۔ ہم مسلمان ہیں ، اہلسنت و جماعت ہیں ۔ ہمارا مسلک یہ ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو آخری نبی مانتے ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اصحاب کا ادب کرتے ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اہلبیت سے محبت کرتے ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی امت کے اولیاءاللہ سے عقیدت رکھتے ہیں ، فقہ میں امامِ اعظم ابوحنیفہ کے مقلد ہیں ۔ ہم اپنے آپ کو بریلوی نہیں کہتے، ہمارے مخالف ہمیں بریلوی کہتے ہیں ۔ (ماہنامہ ضیائے حرم، لاہور فروری 1988 صفحہ 14)

ماہرِ رضویات پروفیسرڈاکٹرمسعود احمد رحمۃ اللہ علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ : امام احمد رضا پر ایک الزام یہ ہے کہ وہ بریلوی فرقے کے بانی ہیں۔ اگر تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بریلوی کوئی فرقہ نہیں بلکہ سوادِ اعظم اہلسنت کے مسلکِ قدیم کو عرفِ عام میں بریلویت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ عرف بھی پاک وہند میں محدود ہے۔ اصل میں امام احمد رضا اور اس مسلکِ قدیم کے مخالفین نے اس کے بریلویت کے نام سے یاد کیا ہے اور بقول ابو یحییٰ امام خان نوشروی "یہ نام علما دیوبند کا دیا ہوا ہے"۔ ڈاکٹرجمال الدین (جامعہ حنفیہ، دہلی) نے بھی اپنے ایک تحقیقی مقالے میں یہی تحریر فرمایا ہے کہ یہ نام مخالفین کا دیا ہوا ہے ۔ (آئینہ رضویات صفحہ 300)

صاحبزادہ سیّد محمد فاروق القادری اسے جاہلانہ اقدام قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں؛ "اہلسنت و جماعت کو بریلوی کہنا کسی طرح درست نہیں۔ اگر آج جماعتِ اسلامی کے افراد کو مودودی پارٹی کہیئے یا مودودئیے کہنا اور تبلیغی جماعت کو الیاسی جماعت کہنا درست نہیں تو آخر ملک کے سوادِ اعظم کو بریلوی کہنا کس منطق کی رو سے درست ہے؟ تعجب ہے کہ خود اہلسنت کے بعض اصحاب کو بھی اس کا احساس نہیں اور وہ بڑے فخر سے اپنے آپ کو بریلوی کہہ کر متعارف کراتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام بریلی یا دیوبند کی سرزمین سے نہیں پھوٹا ۔ لہٰذا اس طرح کی تراکیب ونسبتیں اپنا عالمانہ نقطہ نظر سے فریقین کے لئے ایک جاہلانہ اقدام ہے ۔ (فاضلِ بریلوی اور امورِ بدعت صفحہ 69) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمائیں مجھ سے مانگو نجدی کہیں شرک ہے ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمائیں مجھ سے مانگو نجدی کہیں شرک ہے ؟ محترم قارئینِ کرام : حَدَّثَنَا ہَشَّامُ بْنُ عَمَّارٍنَا الْھَقْل...