امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم تفصیلی محیط ثابت کرنے اور آپ کو عالم الغیب کہنے کہ الزام کی حقیقت اور اسکا جواب جیسا کہ حصّہ دوم میں ہم عرض کرچکے کہ مشھور دیوبندی عالم شیخ سلیم اللہ خان نے فاضل بریلوی علیہ رحمہ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم مبارکہ کو علم تفصیلی محیط اور عالم الغیب ماننے کا الزام لگاتے ہوئے اپنی کتاب کشف الباری میں فرماتا تھا کہ : مولوی احمد رضا خان بریلوی نے مختلف کتابوں میں جو کچھ تحریر کیا ہے، اسکی رو سے انکا مسلک یہ ہے کہ ابتداء آفرینش عالم سے لیکر ہنگامہ محشر (حساب و کتاب وغیرہ) کے اختتام یا بالفاظ دیگر جنت و نار تک کہ تمام واقعات جزئیہ کلیہ دینیہ و دنیویہ کا علم تفصیلی محیط حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا گیا ۔
نیز لکھتے ہیں کہ ۔ ۔۔ اگر اللہ تعالٰی کے تمام غیوب و جزئیات غیب پر مطلع کردینے سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب کہہ سکتے ہیں تو پھر آپکے حضرات صحابہ کرام کے سامنے ان تمام امور کو بیان کردینے سے ان تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا عالم الغیب ہونا بھی تو لازم آئے گا،پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تخصیص کیوں ۔۔ (کشف الباری )
اس عبارت میں میں انکی بیان کردہ عقلی دلیل کا جواب ہم نے پہلے عرض کردیا اب رہ گیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم کو علم تفصیلی محیط ماننا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر لفظ عالم الغیب کی اصطلاح کا استعمال تو اسکی بابت ہم امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا اصل عقیدہ خود انکے فتاوٰی سے بیان کرتے ہوئے اوپر لگائے گئے اس الزام کا جھوٹا یا بے بنیاد ہونا ثابت کریں گے ۔
حقیقت یہ ہے کہ امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب کہتے ہیں یا مانتے ہیں اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہ لیے علم تفصیلی محیط کو ثابت مانتے ہیں بلکہ وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہ لیے اللہ پاک کے علوم میں سے بعض کہ عطا کیئے جانے کے قائل ہیں تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بعض کل مخلوق کے علم سے بہت زیادہ ہیں اسی لیے وہ فرماتے ہیں کہ ۔ بعض بعض میں بھی فرق ہے پانی کی بوند بھی بعض ہے اور سمندر کے سامنے دریا بھی بعض ہی کی حیثیت رکھتا ہے تو بعض، بعض میں بھی زمین و آسمان کا فرق ہوا لہذا مخالفین جو بعض مانتے ہیں وہ بغض و توہین والا ہے کہ انکو اپنے بعض کی قلت پر اصرار ہے جبکہ ہم جو بعض مانتے ہیں وہ عزت و تمکین والا ہے کہ اس میں کثرت پر اعتبار ہے ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
آئیے اس مسئلہ میں امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی اپنی عبارات ملاحظہ فرمائیے
جب اسی قسم کا ایک سوال ان سے پوچھا گیا کہ آیا عالم الغیب کی اصطلاح کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اطلاق درست ہے تو انھوں نے کیا جواب دیا آئیے ملاحظہ کیجیئے ۔
الجواب : اس مسئلہ میں بفضلہ تعالٰی یہاں سے متعدد کتابیں تصنیف ہوئیں۔
الدولۃ المکیۃ بالمادۃ الغیبیۃ پر اکابر علمائے مکہ معظمہ و مدینہ طیبہ وغیرہ ہا بلادِ اسلامیہ نے مہریں کیں،گرانقدر تقریظیں لکھیں۔
خالص الاعتقاد دس سال سے شائع ہوا ۔
انباء المصطفٰی بیس سال سے ہزار کی تعداد میں بمبئی و بریلی و مراد آباد میں چھپ کر تمام ملک میں شائع ہوا اور بحمدہ تعالٰی سب کتابیں آج تک لاجواب ہیں، مگر وہابیہ اپنی بے حیائی سے باز نہیں آتے ۔
علم غیب عطا ہونا اور لفظ عالم الغیب کا اطلاق اور بعض اجلہ اکابر کے کلام میں اگرچہ بندہ مومن کی نسبت صریح لفظ یعلم الغیب وارد ہے جیسا کہ ملا علی قاری کی مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح میں ہے۔
بلکہ خود حدیث سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما میں سیدنا خضر علیہ الصلوۃ والسلام کی نسبت ارشاد ہے : کان رجلا یعلم علم الغیب ۔ وہ مرد کامل ہیں جو علمِ غیب جانتے ہیں ۔ مگر ہماری تحقیق میں لفظ عالم الغیب کا اطلاق حضرت عزت عزجلالہ کے ساتھ خاص ہے کہ اُس سے عرفاً علم بالذات متبادر ہے ۔
کشاف میں ہے: المراد بہ الخفی الذی لاینفذ فیہ ابتداء الا علم اللطیف الخبیر ولہذا لایجوزان یطلق فیقال فلان یعلم الغیب ۔
ترجمہ : اس سے مراد پوشیدہ شے ہے جس تک ابتداءً (بالذات ) سوائے باریکی جاننے والے یا خبیر ( اﷲ تعالٰی) کے کسی کے علم کی رسائی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علی الاطلاق یوں کہنا کہ فلاں غیب جانتا ہے جائز نہیں ۔
تسھیل : یعنی ہمارے نزدیک اس اصطلاح یعنی عالم الغیب کا مطلقا استعمال فقط ذات باری تعالٰی کے لیئے خاص ہے کیونکہ جب یہ لفظ یعنی عالم الغیب بولا جائے تو اس سے عرفا ایسا علم مراد ہوتا ہے جو کہ ذاتی ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ کشاف میں آیا کہ مطلقا یوں کہنا کہ فلاں غیب جانتا ہے درست نہیں کیونکہ ایسا کہنے سے جس کے بارے میں یہ کہا جارہا ہو یہ تاثر ابھرتا ہے کہ وہ بالذات ابتداءً جاننے والا ہے حالانکہ ایسا فقط علیم الخبیر ذات کے ساتھ ہی خاص ہے ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اور اس سے انکار معنی لازم نہیں آتا۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قطعاً بے شمار غیوب و ماکان مایکون کے عالم ہیں مگر عالم الغیب صرف اﷲ عزوجل کو کہا جائے گا جس طرح حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قطعاً عزت جلالت والے ہیں تمام عالم میں ان کے برابر کوئی عزیز و جلیل ہے نہ ہوسکتا ہے مگر محمد عزوجل کہنا جائز نہیں بلکہ اﷲ عزوجل و محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔ غرض صدق وصورت معنی کو جواز اطلاق لفظ لازم نہیں نہ منع اطلاق لفظ کو نفی صحت معنی۔
امام ابن المنیر اسکندری کتاب الانتصاف میں فرماتے ہیں : کم من معتقدلایطلق القول بہ خشیۃ ایہام غیرہ ممالا یجوز اعتقادہ فلا ربط بین الاعتقاد والاطلاق ۔
ترجمہ : بہت سے معتقدات ہیں کہ جن کے ساتھ قول کا اطلاق اس ڈر سے نہیں کیا جاتا کہ ان میں ایسے غیر کا ایہام ہوتا ہے جس کا اعتقاد جائز نہیں، لہذا اعتقاد اور اطلاق کے درمیان کوئی لزوم نہیں ۔ ( الانتصاف )
یہ سب اس صورت میں ہے کہ مقید بقید اطلاق اطلاق کیا جائے یابلا قید علی الاطلاق مثلاً عالم الغیب یا عالم الغیب علی الاطلاق اور اگر ایسا نہ ہو بلکہ بالواسطہ یا بالعطاء کی تصریح کردی جائے تو وہ محذور نہیں کہ ایہام زائل اور مراد حاصل ۔
علامہ سید شریف قدس سرہ حواشی کشاف میں فرماتے ہیں : وانما لم یجزالاطلاق فی غیرہ تعالٰی لانہ یتبادر منہ تعلق علمہ بہ ابتداء فیکون تنا قضا واما اذا قید وقیل اعلمہ اﷲ تعالٰی الغیب اواطلعہ علیہ فلا محذور فیہ ۔
ترجمہ : علم غیب کا اطلاق غیر اﷲ پر اس لیے ناجائز ہے کہ اس سے غیر اللہ کے علم کا غیب کے ساتھ ابتداء ( بالذات ) متعلق ہونا متبادر ہوتا ہے تو اس طرح تناقض لازم آتا ہے لیکن اگر علم غیب کے ساتھ کوئی قید لگادی جائے اور یوں کہا جائے کہ اللہ تعالٰی نے اس کو غیب کا علم عطا فرمادیا ہے یا اس کو غیب پر مطلع فرمادیا ہے تو اس صورت میں کوئی ممانعت نہیں۔( حاشیہ سید الشریف علی الکشاف تحت آیۃ ۲/۳ انتشارات آفتاب تہران ۱/ ۲۸)(فتاوی رضویہ جلد 29)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : علم مافی الغد یعنی کل کا علم کے بارہ میں ام المومنین کا قول ہے کہ جو یہ کہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کو علم مافی الغد تھا یعنی آنے والے کل کا علم تھا وہ جھوٹا ہے ۔ پھر اس قول کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : اس سے مطلقا علم کا انکار نکالنا محض جہالت ہے کیونکہ علم جبکہ مطلق بولا جاے خصوصا جبکہ غیب کی خبر کی طرف اسکی اضافت ہو تو (یعنی مطلقا علم غیب کہا جائے) تو اس سے مراد علم ذاتی ہوتا کہ جسکی تصریح ہم نے حاشیہ میر سید شریف کے حوالہ سے اوپر کردی ہے اور یہ یقینا حق کہ کوئی شخص کسی بھی مخلوق کے لیے ایک ذرہ کا بھی علم ذاتی مانے تو وہ یقینا کافر ہے ۔ (ملفوظات)
امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کہ نزدیک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہ لیئے علم تفصیل محیط ماننا جائز نہیں فرماتے ہیں کہ : ثمّ اقول: وباﷲ التوفیق (پھرمیں کہتا ہوں اور توفیق اﷲ سے ہے۔) مفصلاً حق واضح کو واضح ترکروں۔ اصل یہ ہے کہ کسی علم کی حضرت عزت عزوجل سے تخصیص اوراس کی ذات پاک میں حصر اور اس کے غیر سے مطلقاً نفی چند وجوہ پر ہے :
اوّل علم کا ذاتی ہونا کہ بذات خود بے عطائے غیر ہو۔
دوم علم کاغنا کہ کسی آلہ جارحہ و تدبیر و فکرو نظر و التفات و انفعال کااصلاً محتاج نہ ہو۔
سوم علم کا سرمدی ہوناکہ ازلاً ابداً ہو۔
چہارم علم کا وجوب کہ کبھی کسی طرح اس کاسلب ممکن نہ ہو۔
پنجم علم کا اثبات واستمرار کہ کبھی کسی وجہ سے اس میں تغیر وتبدل فرق تفاوت کاامکان نہ ہو۔
ششم علم کا اقصٰی غایات کمالات پر ہونا کہ معلوم کی ذات ذاتیات اعراض احوال لازمہ مفارقہ ذاتیہ اضافیہ ماضیہ آیۃ موجودہ ممکنہ سے کوئی ذرہ کسی وجہ پر مخفی نہ ہوسکے۔
ان چھ وجوہ پر مطلق علم حضرت احدیت جل وعلا سے خاص اور اس کے غیر سے قطعاً مطلقاً منفی یعنی کسی کو کسی ذرہ کا ایسا علم جوان چھ وجوہ سے ایک وجہ بھی رکھتا ہو حاصل ہونا ممکن نہیں جو کسی غیرالٰہی کے لئے عقول مفارقہ ہوں خواہ نفوس ناطقہ ایک ذرے کا ایساعلم ثابت کرے یقینا اجماعاً کافرمشرک ہے۔ (فتاوی رضویہ جلد 26)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے علم غیب نبوی کی بابت افکار کا خلاصہ انکی اپنی تحریروں کی شکل میں درج زیل ہے ۔
(1) - علم ذاتی محیط اللہ پاک کے ساتھ خاص : جبکہ علم عطائی غیر محیط مخلوق کے ساتھ خاص۔
(2) - علم الٰہی غیر متناہی : جبکہ علم مخلوقات متناہی
فائدہ : دونوں میں نسبت بھی محال کجا کہ مساوی ہونے کا دعوٰی کیا جائے ۔
(3) ۔ علم ذاتی واجب للذات :جبکہ علم عطائی ممکن و حادث
(4) - علم الٰہی ازلی / علم مخلوق حادث
علم الٰہی غیر مخلوق /جبکہ علم مخلوق خود مخلوق
علم الٰہی واجب البقاء / جبکہ علم مخلوق جائز الفناء
علم الٰہی کا تغیر محال/جبکہ علم مخلوق کا تغیر جائز
(5) - علم کل اللہ کو سزا وار ہے /جبکہ رسول اللہ کو علم بعض
(6) - مگر بعض بعض میں بھی فرق ہے پانی کی بوند بھی بعض ہے اور سمندر کے سامنے دریا بھی بعض ہی کی حیثیت رکھتا ہے تو بعض بعض میں بھی زمین و آسمان کا فرق ہوا لہذا مخالفین کو ،بغض و توہین والے بعض پر اصرار جبکہ ہمیں عزت و تمکین والے بعض پر ناز کہ جسکی حقیقی قدر دینے والا جانے یا لینے والا ۔
(7) - جس طرح علم ذاتی پر ایمان لانا ضروری ہے بالکل اسی طرح علم عطائی پر ایمان لانا بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم دونوں اقسام کہ علوم کی خبر دی لہزا دونوں میں سے کسی ایک کی تصدیق نہ کرنے والا پورے قرآن پر ایمان نہ لانے والا کہلائے گا کہ جسکا حکم سب پرا واضح ۔ امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کسی عالم کے علم کہ محض اس وجہ سے نفی نہیں کی جاسکتی کہ اس کا علم استادوں کے پڑھانے کی وجہ سے ہے ایسا کرنے والا کم عقل کہلائے لہزا ہر صاحب عقل استادوں سے پڑھے ہوئے عالم کے علم کا اعتراف کرئے گا نہ کہ یہ کہہ کر اس کے علم کو ہلکا کرے گا کہ یہ تو استادوں کے پڑھائے سے پڑھا ہے اس میں اسکی کیا خوبی ؟ (ماخوذ فتاویٰ رضویہ) ۔ مضمون مکمل ہوا ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment