Saturday, 8 July 2017

سیّد کا معنی و مفہوم

اسلام نے قوم و قبیلہ کی جاہلانہ حیثیت کو ختم کیا ہے۔ جس کی روح سے بعض قومیں اعلی اور بعض ادنی سمجھی جاتی ہیں۔ اور اب جاہلیت جدیدہ میں بھی سمجھی جاتی ہیں۔ قرآن نے واضح کیا کہ قوم قبیلہ، ذات برادری، محض جان پہچان کا ذریعہ ہیں۔فرمان باری تعالی ہے : يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ۔
ترجمہ : اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے ۔
اسلام کی نظر میں عزت و ذلت، بڑا اور چھوٹا ہونے کا مدار ایمان و کردار پر ہے۔ حسب و نسب پر نہیں ۔ ین کی نظر میں گھٹیا کمیں وہ شخص نہیں جو ایمان و عمل میں پختہ ہے، باکردار ہو، صاحب علم و تقوی ہے، بہت اعلی ہے، بزرگ تر ہے۔اور اگر ہاشمی، قریشی، مکی، مدنی ہے، ایمان عمل و صالح سے محروم ہے۔ جتنا چاہے بڑا بنتا پھرے اللہ کے نزدیک پرکاہ کے برابر عتبہ، شیبہ، ولید، ہاشمی و قریشی ہو کر بھی ذلیل تر حقیر تر، کمین تر ہیں۔ فریق اول کے رنگ، نسل، زبان ان کی عزت وعظمت کے آڑے آئے۔ اور فریق ثانی کی خاندانی شرافت و نجابت ان کو عزت سے ہمکنار نہ کر سکی۔ اور وہ نیکی سے محروم ہو کر "شر الدواب" ہی رہے۔ (بد ترین چوپائے)
(1) خوب سمجھ لیں کہ ذات، قوم، قبیلہ صرف تعارف یعنی باہمی جان پہچان کا ذریعہ ہے۔ کسی ذات سے ہو جانا نہ تو عزت و عظمت کی سند ہے نہ کسی دوسرے قبیلہ میں جنم لینا ذلت و حقارت کی علامت ۔
(2) قرآن و حدیث اور لغت عرب میں سید، ایک اعزازی لفظ ہے۔ جو مسلم ہو یا غیر مسلم، سردار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ہماری عام بول چال میں جناب، Sir، ہندی میں شری وغیرہ۔ چنانچہ قرآن کریم حدیث پاک اور لغت عرب، قدیم و جدید میں، یہ لفظ جس طرح اللہ کے نیک بندوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور ہوا ہے۔ اسی طرح غیر مسلم زعماء کے لیے بھی استعمال ہوا اور ہوتا ہے۔ ظاہر ہے لفظ سرداری جس طرح مال و دولت و عہدہ دنیا کی خبر دیتا ہے اسی طرح روحانی، ایمانی و اخروی سرداری پر بھی دلالت کرتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ قیامت کے دن مجرم و منکر عوام، اللہ تعالی کے حضور بطور شکوہ و معذرت کہیں گے ۔
وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَاoرَبَّنَا آتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيرًا ۔
ترجمہ : اور وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! بیشک ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کا کہا مانا تھا تو انہوں نے ہمیں (سیدھی) راہ سے بہکا دیاo اے ہمارے رب! انہیں دوگنا عذاب دے اور اُن پر بہت بڑی لعنت کر ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
سید کا معنی : السيد الذی فاق غيره بالعقل و المال و لدفع و لنفع، المعطی له فی حقوقه، المعين بنفسه، السيادة الشرف، السيد الرئيس....الذی لا يغلبه غضبه.....العابد..... الورع الحليم... سمی سيد لانة يسود سواد الناس... السيد الکريم... السيد الملک.... السيد السخی ساده.
ترجمہ : سید وہ جو دوسروں پر عقل و مال کے حساب سے، تکلیف دور کرنے اور فائدہ پہنچانے کے لحاظ سے فائق ہو، دوسروں کو حقوق دینے والا ہو۔ اپنی ذات سے مدد کرے سیادت کا معنی ہے بزرگی، سید، رئیس۔۔۔ سید وہ جس پر غصہ غالب نہ ہو۔ عبادت گزار، پرہیزگار، برداشت کرنے والا۔ اس کو سید اس لیے کہا جاتا ہے کہ لوگوں کی جماعت میں فائق ہوتا ہے۔ سید کریم، سید بادشاہ، سید سخی، اس کی جمع سادۃ ہے۔
(سيد مرتضی حسين زبيدی مصری، تاج العروس، شرح القاموس، 2 : 384)
السيد الرب، المالک، الفاضل، الکريم، الحليم محتمل اذی قومه، الزوج، الرئيس، المقدم
ترجمہ : سید کا مطلب ہے پالنے والا، مالک، صاحب شرف، صاحب فضیلت، کریم، بردبار قوم کی تکلیف برداشت کرنے والا، خاوند، رئیس سب سے آگے رہنے والا۔
(علامه ابن منظور، لسان العرب، 6 : 422، طبع بيروت)
السيد المتولی للسوادای الجامعة الکثيره..... قيل لکل من کان فاضلا فی نفسه سيد..... سمی الزوج سيد لسياسة زوجته وقوله ربنا نا اطعنا سادتنا، ای ولاتنا و سائسينا ۔(ابو القاسم حسين بن محمد المعروف بالراغب الاصفهانی، مفردات، ص 247 طبع جديد)قرآن سنت یا لغت عرب میں سید قوم کہیں بھی ثابت نہیں۔ بلکہ محض تعظیم و تکریم کے طور پر لفظ استعمال ہوتا ہے۔ جیسا کہ تفصیل بالا سے واضح ہے۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...