Sunday, 16 July 2017

اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی آپس میں محبت


اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی آپس میں محبت

بعض لوگ اہلبیت اطہار رضی ﷲ عنہ کی شان اس طرح بیان کرتے ہیں کہ جیسے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ سے ان کی مخاصمت اور لڑائی تھی یونہی اس کے بالعکس بعض لوگ شان صحابہ اسی انداز میں بیان کرتے ہیں۔ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ اور اہلبیت اطھار رضی اﷲ عنہ کے درمیان بیحد محبت تھی۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کی فضلیت پر احادیث بیان کرتے ہیں۔

جب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے پوچھا جاتا ہے کہ لوگوں میں سے رسول اﷲ ﷺ کو سب سے زیادہ پیارا کون تھا ؟ تو آپ فرماتی ہیں‘ فاطمہ رضی اﷲ عنہا۔

پھر پوچھا جاتا ہے کہ مردوں میں سے کون زیادہ محبوب تھا؟ فرماتی ہیں‘ اْن کے شوہر یعنی حضرت علی رضی اﷲ عنہ۔ (ترمذی)

اسی طرح جب سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے پوچھا جاتا ہے کہ لوگوں میں سے رسول اﷲ ﷺ کو سب سے زیادہ پیارا کون تھا؟ تو آپ فرماتی ہیں‘ عائشہ رضی اﷲ عنہا۔

پھر پوچھا جاتا ہے کہ مردوں میں سے کون زیادہ محبوب تھا؟ تو آپ فرماتی ہیں‘ ان کے والد حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ۔ (بخاری)

اگر خدانخواستہ انکے درمیان کوئی مخاصمت یا رنجش ہوتی تو وہ ایسی احادیث بیان نہ کرتے۔ ایسی کئی احادیث اس کتاب میں پہلے بیان کی جا چکی ہیں‘ مزید چند احادیث سپرد قلم و قرطاس ہیں۔

سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ و سیدنا علی رضی اﷲعنہ کی باہم محبت

حضرت ابوبکر اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ درمیان کس قدر محبت تھی‘ اس کا اندازہ اس حدیث پاک سے کیجیے۔ قیس بن ابی حازم رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ چہرے کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے پوچھا‘ آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟ سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا‘ ’’ میں نے آقا ومولیٰ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ پل صراط پر سے صرف وہی گزر کر جنت میں جائے گا جس کو علی وہاں سے گزرنے کا پروانہ دیںگے۔‘‘

اس پر سیدنا علی رضی اﷲ عنہ ہنسنے لگے اور فرمایا‘ اے ابوبکر ! آپ کو بشارت ہو۔ میرے آقا ومولیٰ ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ (اے علی!) پل صراط پر سے گزرنے کا پروانہ صرف اسی کو دینا جس کے دل میں ابوبکر کی محبت ہو۔(الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ ج۲:۵۵ امطبوعہ مصر)

سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا‘ ایک دن مشرکین نے رسول کریم ﷺ کو اپنے نزغہ میں لے لیا۔ وہ آپ کو گھسیٹ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ تم رہی ہو جو کہتا ہے کہ ایک خدا ہے۔ خدا کی قسم ! کسی کو ان مشرکین سے مقابلہ کی جرأت نہیں ہوئی سوائے ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے۔ وہ آگے بڑھے اور مشرکین کو مارمار کر اوردھکے دے دے کر ہٹاتے جاتے اور فرماتے جاتے‘ تم پر افسوس ہے کہ تم ایسے شخض کو ایذا پہنچا رہے ہو جو کہتا ہے کہ’’ میرا رب صرف اﷲ ہے۔‘‘ یہ فرما کر حضرت علی رضی اﷲ عنہ اتنا روئے کہ آپ کی داڑھی ترہو گئی۔

پھر فرمایا ‘ اے لوگو! یہ بتاؤ کہ آل فرعون کا مومن اچھا تھا یا ابوبکر رضی اﷲ عنہ اچھے تھے؟ لوگ یہ سن کر خاموش رہے تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے پھر فرمایا‘ لوگو! جواب کیوں نہیں دیتے۔ خدا کی قسم ! ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی زندگی کا ایک لمحہ آلِ فرعون کے مومن کی ہزار ساعتوں سے بہتر اور برتر ہے کیونکہ وہ لوگ اپنا ایمان ڈر کی وجہ سے چھپاتے تھے اور ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے اپنے ایمان کا اظہار علی الاعلان کیا۔ (تاریخ الخلفاء ۱۰۰)

حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے پاس سے گزرا اور وہ صرف ایک کپڑا اوڑھے بیٹھے تھے۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر بے ساختہ میری زبان سے نکلا‘ کوئی صحیفہ والااﷲ تعالٰی کو اتنا محبوب نہیںجتنا یہ کپڑا اوڑھنے والا اﷲ تعالٰی کو محبوب ہے۔ (تاریخ الخلفاء: ابن عساکر)

حضرت انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دوعالم ﷺ اپنے صحابہ کے درمیان مسجد میں تشریف فرما تھے کہ حضرت علیرضی اﷲ عنہ آئے اور سلام کر کے کھڑے ہوگئے۔ حضور منتظر رہے کہ دیکھیں کون ان کے لئے جگہ بناتا ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ آپ کی دائیں جانب بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ اپنی جگہ سے اْٹھ گئے اور فرمایا‘ اے ابوالحسن ! یہاں تشریف لے آئیے۔

حضرت علی رضی اﷲ عنہ‘ حضور ﷺ اور سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے درمیان بیٹھ گئے۔ اس پر آقا ومولٰی ﷺ کے چہرہ مبارک پر خوشی کے آثار ظاہر ہوئے اور آپ نے فرمایا‘ ’’اہل فضل کی فضلیت کو صاحب فضل ہی جانتا ہے۔‘‘ اسی طرح سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ حضور ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کی بھی تعظیم کیا کرتے۔ (الصواعق المحرقتہ: ۲۶۹)

ایک روز حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ مسجد نبوی میں منبر پر تشریف فرما تھے کہ اس دوران امام حسن رضی اﷲ عنہ آگئے جو کہ اس وقت بہت کم عمر تھے۔ امام حسن رضی اﷲ عنہ کہنے لگے‘ میرے بابا جان کے منبر سے نیچے اتر آئیے۔ سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا‘ ’’ تم سچ کہتے ہو۔ یہ تمہارے باباجان ہی کا منبرہے۔‘‘ یہ فرما کر آپ نے امام حسن رضی اﷲ عنہ کوگود میں اٹھا لیا اور اشکبار ہوگئے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے کہا‘ خدا کی قسم! میں نے اس سے کچھ نہیں کہا تھا۔
سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : آپ سچ کہتے ہیں‘ میں آپ کے متعلق غلط گمان نہیںکرتا۔
(تاریخ الخلفاء: ۱۴۷‘ الصواعق: ۲۶۹)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ابن عبدالبررحمہ اﷲ نے بیان کیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ اکثر حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے چہرے کی طرف دیکھا کرتے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے ان سے اس کا سبب دریافت کیا تو فرمایا‘ میں نے آقا و مولٰی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ علی رضی اﷲ عنہ کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔(الصواعق المحرقتہ: ۲۶۹)

ایک روز سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ تشریف فرماتھے کہ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ آگئے۔ آپ نے انہیں دیکھ کر لوگوں سے فرمایا‘ جو کوئی رسول کریم ﷺ کے قریبی لوگوں میں سے عظیم مرتبت‘ قرابت کے لحاظ سے قریب تر‘ افضل اور عظیم تر حق کے حامل شخص کو دیکھ کر خوش ہونا چاہے وہ اس آنے والے کو دیکھ لے۔ (الصواعق المحرقتہ:۲۷۰‘ دار قطنی)

سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے سب سے زیادہ بہادر ہونے سے متعلق سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کا ارشاد پہلے تحریر ہو چکا‘ اگر انکے مابین کسی قسم کی رنجش ہوتی تو کیا یہ دونوں حضرات ایک دوسرے کی فضیلت بیان فرماتے؟ یہ احادیث مبارکہ ان کی باہم محبت کی واضح مثالیں ہیں۔

سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ و سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی باہم محبت

حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ دورِفاروقی میں مدائن کی فتح کے بعد حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے مسجد نبوی میں مال غنیمت جمع کر کے تقسیم کرنا شروع کیا۔ امام حسنرضی اﷲ عنہ تشریف لائے تو انہیں ایک ہزار درہم نذر کیے۔پھر امام حسین رضی اﷲ عنہ تشریف لائے تو انہیں بھی ایک ہزار درہم پیش کیے۔ پھر آپ کے صاحبزادے عبداﷲ رضی اﷲ عنہ آئے تو انہیں پانچ سودرہم دیے۔ انہوں نے عرض کی‘ اے امیرالمٔومنین ! جب میں عہد رسالت میں جہاد کیا کرتا تھا اس وقت حسن و حسین بچے تھے۔ جبکہ آپ نے انہیں ہزار ہزار اور مجھے سو درہم دیے ہیں۔

حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا‘ تم عمر کے بیٹے ہو جبکہ ان والد علی المرتضٰی‘ والدہ فاطمۃ الزہرا‘ نانا رسول اﷲ ﷺ‘ نانی خدیجہ الکبریٰ‘ چچا جعفر طیار‘ پھوپھی اْم ہانی‘ ماموں ابراہیم بن رسول اﷲﷺ‘ خالہ رقیہ و ام کلثوم و زینب رسول کریم ﷺکی بیٹیاں ہیںرضی اﷲ عنہ۔ اگر تمہیں ایسی فضیلت ملتی تو تم ہزار درہم کا مطالبہ کرتے۔ یہ سن کر حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ خاموش ہو گئے۔

جب اس واقعہ کی خبر حضرت علی رضی اﷲ عنہ کوہوئی تو انہوں نے فرمایا‘ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ’’عمر اہل جنت کے چراغ ہیں۔‘‘ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا یہ ارشاد حضرت عمر رضی اﷲ عنہ تک پہنچا تو آپ بعض صحابہ کے ہمراہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے گھر تشریف لائے اور دریافت کیا‘ اے علی! کیا تم نے سنا ہے کہ آقاو مولی ﷺ نے مجھے اہل جنت کا چراغ فرمایا ہے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا‘ ہاں! میں نے خود سنا ہے۔

حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے فرمایا‘ اے علی! میری خواہش ہے کہ آپ یہ حدیث میرے لیے تحریر کردیں۔ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے یہ حدیث لکھی : یہ وہ بات ہے جس کے ضامن علی بن ابی طالب ہیں عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کے لئے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا‘ اْن سے جبرائیل علیہ السلام نے‘ اْن سے اﷲ تعالٰی نے کہ:ان عمر بن الخطاب سراج اھل الجنۃ ۔ ترجمہ : عمر بن خطاب اہل جنت کے چراغ ہیں ۔ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی یہ تحریر حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے لے لی اور وصیت فرمائی کہ جب میرا وصال ہو تو یہ تحریر میرے کفن میں رکھ دینا۔ چنانچہ آپ کی شہادت کے بعد وہ تحریر آپ کے کفن میں رکھ دی گئی۔
(ازالتہ الخفاء، الریاض النضرۃ ج ا:۲۸۲)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اگران کے مابین کسی قسم کی مخاصمت ہوتی تو کیا دونوں حضرات ایک دوسرے کی فضیلت بیان فرماتے؟ یہ واقعہ ان کی باہم محبت کی بہت عمدہ دلیل ہے۔

دارقطنی رحمہ اﷲ نے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے کوئی بات پوچھی جس کا انہوں نے جواب دیا۔ اس پر حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے فرمایا‘ اے ابوالحسن! میں اس بات سے اﷲ تعالٰی کی پناہ چاہتا ہوں کہ میں ایسے لوگوں میں رہوں جن میں آپ نہ ہوں۔
(الصواعق المحرقتہ: ۲۷۲)

اس واقعہ سے بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت عمررضی اﷲ عنہ کو حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے کس قدر محبت تھی۔

حضرت عمررضی اﷲ عنہ امورِ سلطنت کے وقت کسی سے نہیں ملے تھے۔ آپکے صاحبزادے عبداﷲ رضی اﷲ عنہ نے ملاقات کی اجازت طلب کی تو نہیں ملی۔ اس دوران امام حسن رضی اﷲ عنہ بھی ملاقات کے لیے آگئے۔ انہوں نے دیکھا کہ ابن عمر رضی اﷲ عنہ کو اجازت نہیں ملی تو مجھے بھی اجازت نہیں ملے گی۔ یہ سوچ کر واپس جانے لگے ۔ کسی نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو اطلاع کر دی تو آپ نے فرمایا‘ انہیں میرے پاس لاؤ۔ جب وہ آئے تو فرمایا‘ آپ نے آنے کی خبر کیوں نہ کی؟ امام حسنرضی اﷲ عنہ نے کہا‘ میں نے سوچا‘ بہت بیٹے کو اجازت نہیں ملی تو مجھے بھی نہیں ملے گی ۔ آپ نے فرمایا‘ وہ عمر کا بیٹا ہے اور آپ رسول اﷲﷺ کے بیٹے ہیں اس لیے آپ اجازت کے زیادہ حقدار ہیں۔ عمررضی اﷲ عنہ کو جو عزت ملی ہے وہ اﷲ کے بعد اسکے رسول اﷲ رضی اﷲ عنہ اور اہلبیت کے ذریعے ملی ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آئندہ جب آپ آئیں تو اجازت لینے کی بھی ضرورت نہیں۔ (الصواعق المحرقتہ: ۲۷۲)

ایک اور روایت ملاحظہ فرمائیں جس سے سیدنا عمرو علی رضی اﷲ عنہ میں محبت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ حضرت ابوبکررضی اﷲ عنہ جب شدید علیل ہو گئے تو آپ نے کھڑکی سے سر مبارک باہر نکال کر صحابہ سے فرمایا‘ اے لوگو! میں نے ایک شخص کو تم پر خلیفہ مقرر کیا ہے کیا تم اس کام سے راضی ہو؟

سب لوگوں نے متفق ہو کر کہا‘ اے خلیفئہ رسول ﷺ! ہم بالکل راضی ہیں۔ اس پر سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کھڑے ہو گئے اور کہا‘وہ شخص اگر عمر رضی اﷲ عنہ نہیں ہیں تو ہم راضی نہیں ہیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا‘ بیشک وہ عمر ہی ہیں ۔ (تاریخ الخلفاء:۱۵۰‘ عساکر)

اسی طرح امام محمد باقر رضی اﷲ عنہ حضرت جابر انصاری رضی اﷲ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب وصال کے بعد حضرت عمررضی اﷲ عنہ کو غسل دیکر کفن پہنایا گیاتو حضرت علی رضی اﷲ عنہ تشریف لائے اور فرمانے لگے‘ ان پر اﷲ تعالٰی کی رحمت ہو‘ میرے نزدیک تم میں سے کوئی شخص مجھے اس (حضرت عمررضی اﷲ عنہ) سے زیادہ محبوب نہیں کہ میں اس جیسا اعمال نامہ لیکر بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوں۔(تلخیص الشافی:۲۱۹‘ مطبوعہ ایران)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات میں کس قدر پیار و محبت تھی۔ اور فاروقی تربیت ہی کا نتیجہ تھا کہ جب ایک حاسد شخص نے حضرت عبداﷲ بن عمررضی اﷲ عنہ سے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی متعلق سوال کیا تو آپ نے ان کی خوبیاں بیان کیں پھر پوچھا‘ یہ باتیں تجھے بری لگیں؟ اس نے کہا‘ ہاں ۔ آپ نے فرمایا‘ اﷲ تعالٰی تجھے ذلیل و خوار کرے۔ جادفع ہو اور مجھے نقصان پہنچانے کی جو کوشش کر سکتا ہو کر لے۔ (بخاری باب مناقب علی)

حضرت عمررضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا‘ ’’قیامت کے دن میرے حسب و نسب کے سواہر سلسلۂ نسب منقطع ہو جائے گا’’۔ اسی بنا پر سیدنا عمررضی اﷲ عنہ نے سیدنا علی رضی اﷲ عنہ سے انکی صاحبزادی سیدہ اْم کلثوم رضی اﷲ عنہا کا رشتہ مانگ لیا۔ اور ان سے آپ کے ایک فرزند زیدرضی اﷲ عنہ پیدا ہوئے۔

حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا یہ ارشاد بھی قابلِ غور ہے‘ آپ فرماتے ہیں کہ ’’ جب تم صالحین کا ذکر کرو تو حضرت عمررضی اﷲ عنہ کو کبھی فراموش نہ کرو۔‘‘ (تاریخ الخلفاء: ۱۹۵)

سیدنا علی رضی اﷲ عنہ اور عظمت شیخین رضی اللہ عنہما

سیدنا علی رضی اﷲ عنہ اور حضرات شیخین رضی اﷲ عنہا ایک دوسرے کی خوشی کو اپنی خوشی اور دوسرے کے غم کو اپنا غم سمجھتے تھے۔ شعیہ عالم ملا باقر مجلسی نے جلا ء العیون صفحہ ۱۶۸ پر لکھا ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو نبی کریم ﷺ سے سیدہ فاطمہ کا رشتہ مانگنے کے لیے حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہ نے قائل کیا۔ اسی کتاب میں مرقوم ہے کہ نبی کریم ﷺ نے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہ کی شادی کے لیے ضروری سامان خریدنے کے لیے سیدبا ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو ذمہ داری سونپی تھی۔ اس سے معلوم ہواکہ سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو رسول ﷺ کے گھریلو معاملات میں بھی خاص قرب حاصل تھا ۔

حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی شہادت کے بعد ان کے جسم اقدس کے پاس کھڑا تھا کہ ایک صاحب نے میرے پیچھے سے آکر میرے کندھے پر اپنی کہنی رکھی اور فرمایا‘ اﷲتعالٰی آپ پر رحم فرمائے! بے شک مجھے امید ہے کہ اﷲتعالٰی آپ کو آپ کے دونوں دوستوں (یعنی حضور اکرم ﷺاور ابوبکر صدیقرضی اﷲ عنہ)کا ساتھ عطا کرے گا کیونکہ میں نے بار ہا رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’میں تھا اور ابوبکر و عمر‘’میںنے یہ کہا اور ابوبکر و عمر نے‘’میں چلا اور ابوبکر و عمر‘’میں داخل ہوا اور ابوبکر و عمر‘’میں نکلا اور ابوبکر و عمر‘۔ (رضی اﷲ عنہا) میں نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو وہ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ تھے۔ (بخاری المناقب‘ مسلم کتاب الفضائل الصحابہ)

اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ سیدنا علی کرم اﷲ وجہہ رسول کریم ﷺ سے خصوصی قرب ومحبت کے باعث سیدنا ابوبکرو عمر رضی اﷲ عنہ سے دلی محبت رکھتے تھے۔

ایک شخص نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے دریافت کیا‘ میں نے خطبہ میں آپ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ’’ اے اﷲ! ہم کو ویسی ہی صلاحیت عطا فرما جیسی تو نے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کو عطا فرمائی تھی‘‘۔ ازراہِ کرم آپ مجھے ان ہدایت یاب خلفائے راشدین کے نام بتا دیں۔ یہ سن کر حضرت علی رضی اﷲ عنہ آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا : وہ میرے دوست ابوبکر اور عمر رضی اﷲ عنہ تھے۔ ان میں سے ہر ایک ہدایت کا امام اور شیخ الاسلام تھا۔ رسول کریم ﷺ کے بعد وہ دونوں قریش کے مقتدیٰ تھے‘ جس شخص نے ان کی پیروی کی وہ اﷲ تعالٰی کی جماعت میں داخل ہو گیا۔(تاریخ الخلفاء: ۲۶۷)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

یہی واقعہ شیعہ حضرات کی کتاب تلخیص الشافی جلد ۳ صفحہ ۳۱۸ پر امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ نے امام باقر رضی اﷲ عنہ سے روایت کیا ہے۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں‘ یہ بات صحیح روایات سے ثابت اور تواتر سے نقل ہوتی چلی آئی ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ اپنی خلافت کے زمانے میں اپنے رفقاء کے سامنے حضرت ابوبکرو عمر رضی اﷲ عنہ کی تعریف و توصیف کے ساتھ ساتھ ان کی افضلیت کو برملا اور علانیہ بیان کرتے رہے ہیں ۔ علامہ ذہبی رحمہ اﷲ نے اسی سے زیادہ حضرات سے صحیح سندوں کے ساتھ ثابت کیا ہے اور صحیح بخاری کے حوالے سے بھی بیان کیا ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا‘ نبی کریم ﷺ کے بعد سب لوگوں سے افضل ترین ابوبکر رضی اﷲ عنہ ہیں پھرعمررضی اﷲ عنہ۔ آپ کے صاحبزادے محمد بن حنفیہ رضی اﷲ عنہ نے کہا‘ پھر آپ؟ تو آپ تو فرمایا‘ میں ایک عام مسلمان ہوں۔ (تکمیل الایمان: ۱۶۶)

سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے انہیں سیدنا ابوبکر و عمررضی اﷲ عنہ سے افضل کہنے والوں کے لیے درّوں کی سزا تجویز فرمائی ہے‘ شعیہ حضرات کی اسماء الرجال کی معتبر کتاب رجال کشی کا حوالہ ملاحظہ فرمائیں۔ سفیان ثوری‘ محمد بن سکندر رحہما اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو کوفہ کے منبر پربیٹھے ہوئے دیکھا کہ وہ فرمارہے تھے‘ اگر میرے پاس کوئی ایسا شخص آئے جو مجھے ابوبکر وعمر رضی اﷲ عنہ پر فضیلت دیتا ہوتو میں اس کو ضرور دْرّے لگائوں گا جو کہ بہتان لگانے والے کی سزا ہے ۔ (تکمیل الایمان: ۱۶۶‘ سنن دارقطنی‘ رجال کشی۳۳۸ مطبوعہ کربلا)

شیعوں کی اسی کتاب میں سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کا فتویٰ موجود ہے کہ ’’حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی محبت ایمان ہے اور ان کا بغض کفر ہے۔‘‘ (رجال کشی : ۳۳۸)

پھر اعلی حضرت رحمہ اﷲ فرماتے ہیں‘ محبت علی مرتضٰی رضی اﷲ عنہ کا یہی تقاضا ہے کہ محبوب کہ اطاعت کیجیے (یعنی سیدنا ابوبکروعمر رضی اﷲ عنہ کو ساری امت سے افضل مانیے) اور اْس کو غضب اوراسی کوڑوں کے استحقاق سے بچئے ۔ اعتقادالاحباب:۵۶)

شیعہ حضرات یہ کہہ کر انکار کردیتے ہیں کہ ’’یہ ساری باتیں تقیہ کے طور پر کہی گئی تھیں۔ یعنی حضرت علی رضی اﷲ عنہ حضرات شیخین کی تعریف محض جان کے خوف اور دشمنوں کے ڈر سے کیا کرتے تھے۔ اگر ایسا نہ کرتے تو ان کی جان کو خطرہ تھا مگر دلی طور پر حضرت علی رضی اﷲ عنہ حضرات شیخین کے خلاف تھے ۔ شعیوں کے اس بیان میں قطعاً کوئی صداقت نہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ جو شیرخدا تھے اور مرکز دائرہ حق تھے‘ اتنے بزدل‘ مغلوب اور عاجز ہو گئے تھے کہ وہ حق بیان کرنے سے قاصر رہے اور ساری زندگی خوف وعجز میں گزار دی‘ پھر اسدْاﷲ الغالب کا لقب کیا معنی رکھتا ہے ؟ ۔ (تکمیل الایمان: ۱۶۷)

سیدنا علی المرتضٰی حیدر کرار رضی اﷲ عنہ سے محبت کا دعویٰ کرنے والے آپ کے یہ ارشاد بھی دل کے کانوں سے سن لیں ۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں‘ رسول کریم ﷺ کے بعد تمام لوگوں میں ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہ سب سے بہتر ہیں۔ کسی مومن کے دل میں میری محبت اور ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہ کا بغض کبھی یکجا نہیں ہو سکتے ۔ (تاریخ الخلفاء: ۱۲۲‘ معجم الاوسط)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...