جرح و تعدیل کا پیمانہ اور آج کے علمی یتیم
جرح کا مطلب ہے Negetive Coments (منفی تاثرات) اور تعدیل کا مطلب ہے Positive Coments (مثبت تاثرات) یہ مجروح ہے یعنی اس پر اعتراض کیا گیا ہے، اس کی تعدیل کی گئی ہے یعنی اس کی توثیق کی گئی ہے کہ یہ ثقہ ہے، اس کو Ok کہا گیا ہے۔ محدثین کہتے ہیں کہ اگر کسی راوی کو Ok کرنا ہو تو صرف Ok کہنا ہی کافی ہے کہ یہ قابل اعتماد ہے، سچا ہے، قابل بھروسہ ہے۔ صرف ’’اچھا‘‘ لکھ دینا ہی کافی ہے، اس کی تفصیل نہیں پوچھی جائے گی۔
راوی پر جرح تعدیل کرنے میں محدثین اتنے محتاط ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر تعدیل کرنی ہو یعنی کسی راوی کو قابل قبول لکھنا ہو تو اس کے لئے یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کو مفسَّر بیان کیا جائے، یعنی تعدیل کا سبب لکھنے یا تفصیل بیان کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ صرف ثقہ لکھ دینا کافی ہے کیونکہ حدیث قبول کی جا رہی ہے۔
لیکن اگر یہ معاملہ ہو کہ اس کی جرح کی جا رہی ہے یعنی اس کو قابل قبول نہیں مانا جا رہا تو محدثین کہتے ہیں کہ جرح اس وقت تک قبول نہیں کی جائے گی جب تک اس جرح کا سبب یا تفصیل بیان نہ کی جائے۔
اس کو صرف ایک لفظ سے قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کی تفصیل طلب کی جائے گی کہ ثابت کرو۔ پس جرح پر ثبوت و تفصیل مانگی جاتی ہے، تعدیل پر ثبوت و تفصیل نہیں مانگی جاتی۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محدثین قبولیت کی طرف کسی طرح واضح اور زیادہ رجحان رکھتے ہیں۔
یہ اصول، اصولِ حدیث کی ہر کتاب میں موجود ہے۔ بغیر کسی اختلاف کے یہ اصول ہر ایک کے ہاں متفق علیہ ہے۔ امام نووی التقریب مع التدریب کے ص 201 پر فرماتے ہیں کہ : يُقْبَلُ التَّعْدِيْلُ مِنْ غَيْرِ ذِکْرِ سَبَبِهِ عَلَی الصَّحِيْحِ الْمَشْهُوْر.
ترجمہ : ’’صحیح اور مشہور رائے یہ ہے کہ اگر تعدیل ہو تو اس کا سبب بیان کرنے کی بھی ضرورت نہیں‘‘۔
وَلاَ يُقْبَلُ الْجَرْحُ اِلاَّ مُبَيَّنَ السَّبَبْ.
ترجمہ : ’’اگر جرح ہو تو وہ اس وقت تک نہیں مانی جائے گی جب تک اس کا سبب تفصیل سے بیان نہ کیا جائے‘‘۔
جرح و تعدیل کے الفاظ : یہاں اس بات کا تذکرہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ وہ کون کون سے الفاظ ہیں جو اگر راوی کے بارے میں لکھے جائیں تو تب بھی حدیث قبول کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
اگر کوئی راوی کے بارے میں لکھ دے کہ ’’صَالِحُ الْحَدِيْث‘‘ تو اس راوی کی روایت کو قبول کیا جائے گا۔
اگر کوئی کسی راوی کے بارے لکھے کہ وہ ’’لَيِّنُ الْحَدِيْث‘‘ ہے یعنی حدیث میں نرم / کمزور ہے تو اس کی حدیث بھی لی جائے گی کیونکہ اس سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کے ساتھ اس پر جرح کی گئی ہے مگر وہ راوی عدالت کے مقام سے گرا نہیں۔ گویا یہ کوئی زیادہ Negative Coment نہیں ہے، لوگ صرف ’’لَيِّنُ الْحَدِيْث‘‘ کے الفاظ پڑھ کر اس کی حدیث کو لینے سے انکار کردیتے ہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اگر کوئی محدث کسی راوی کے بارے میں یہی لکھ دے کہ ’’لَيْسَ بِقَوِّی‘‘ یہ ’’حدیث میں قوی نہیں ہے‘‘ تو اس کی حدیث بھی لی جائے گی حالانکہ وہ لَيِّنْ سے نچلے درجے میں ہے۔
امام نووی فرماتے ہیں کہ اگر کسی راوی کے بارے میں یہ لکھا جائے کہ وہ ’’ضَعِيْفُ الْحَدِيْث‘‘ ہے یعنی حدیث کی روایت میں ضعیف ہے اور یہ ’’لَيْسَ بِقَوِّیْ‘‘ سے بھی نچلا درجہ ہے تو اس کی حدیث بھی رد نہیں کی جائے گی بلکہ اس پر اعتبار کیا جائے گا۔
راوی کی روایت کو صرف اس وقت رد کیا جائے گا جب جرح کرنے والے 3 الفاظ کا استعمال کریں۔
جب محدثین اس راوی کو ’’متروک الحدیث‘‘ کہیں۔
یا جب محدثین اس راوی کو ’’واحی‘‘ کہیں کہ بیہودہ گوئی کرتا ہے، سچ نہیں بولتا۔
یا محدثین اس راوی کو ’’کذاب‘‘ کہیں کہ جھوٹا ہے۔
اگر درج بالا ان تین الفاظ میں سے کوئی لفظ ہو تو اس کی روایت کو قبول نہ کیا جائے گا اور نہ اس کی حدیث لکھی جائے گی۔
ان تینوں الفاظ کے علاوہ اوپر بیان کردہ تمام الفاظ صدوق، ثقۃ، حجۃ، متقن، عدل، حافظ، ضابط، لابحث بہ سے مراد یہ ہے کہ راوی کی روایت کو قبول کیا جائے گا۔ حتی کہ اگر کسی راوی کے بارے میں ’’شیخ‘‘ کا لفظ لکھا جائے تو اس کی حدیث بھی لی جائے گی، حتی کہ ’’ضعیف الحدیث‘‘ کے الفاظ بھی لکھے جائیں تو اس کی حدیث کو بھی لیا جائے گا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment