غیر مُقلد وھابی مولوی احسان الہیٰ ظہیر کذّاب اعظم پیروکار ابن وھاب نجدی کی بدنام زمانہ کتاب البریلویہ میں اہلسنت پر لگائے جانے والے ایک الزام کا منہ توڑ جواب :
مرزا غلام قادر بیگ کون تھے ؟ امام احمد رضا بریلو ی قدس سرہ ، العزیز کے مخالفین کی بے مائیگی کا یہ عالم ہے کہ پادر ہوا الزامات عائد کرنے سے بھی نہیں چوکتے اور یہ نہیں سوچتے کہ شکوک و شبہادت کی تاریکی چھٹتے کتنی دیر لگے کی اور جب ظلمتِ شبِ اعتراضات دور ہو گی تو امام احمد رضا بریلوی کا قداور اونچا ہو چکا ہو گا ۔
ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے : والجدیر بالذکر ان المدرس الذی کان یدرسہ مرزا غلام قادر بیک کان اخلاللمر زاغلام احمد المتنبی القادیانی (البریلویۃ :ص ۲۰)
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جو مدرس انہیں پڑ ھایا کرتا تھا۔ مرزا غلام قادر بیگ نبوت کے جھوٹے دعوے دار مرزا غلام احمد قادیانی کا بھائی تھا ۔
اس سلسلے میں چند امور تو جہ طلب ہیں : ہمیں یہ کہنے کا حق ہے کہ ثابت کیا جائے کہ امام احمد رضا بریلوی کے استاذمرزا غلام قادر بیگ ، مرزا قادیانی کے بھائی تھے : فان لم تفعلو اولن تفعلوا فاتقو ا النار التی وقودھا الناس والحجارۃo
کان یدرسہ کا یہ مطلب ہے کہ مرزا غلام قادر بیگ مستقل استاذ تھے جن سے امام احمد رضا بریلوی نے تمام یا اکثر و بیشتر کتابیں پڑ ھی تھیں ، حالانکہ ان سے صرف چند ابتدائی کتابیں پڑ ھی تھیں ۔ ملک العلماء مولانا ظفرالدین بہاری فرماتے ہیں : میزان منشعب وغیرہ جناب مرزا غلام قادربیگ صاحب سے پڑ ھنا شروع کیا۔
(ظفر الدین بہاری ، مولانا: حیات اعلیٰ حضرت ، ص ۳۲)
جب عربی کی ابتدائی کتابوں سے حضور فارغ ہوئے ، تو تمام دینیات کی تکمیل اپنے والد ماجد حضرت مولانا مولوی نقی علی صاحب ۔ سے تمام فرمائی ۔(ظفر الدین بہاری ، مولانا: حیات اعلیٰ حضرت ، ص ۳۲)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ردِّ مرزائیت : امام احمد رضا بریلو ی کے مخالفین بھی تسلیم کریں گے کہ وہ مرزائیوں اور اسلام کے نام پر بد مذہبی پھیلانے والے تمام فرقوں کے لیے شمشیر بے نیام تھے ۔ مرزائیوں کے خلاف متعدد ورسائل تحریر فرمائے ۔ چند نام یہ ہیں :
(۱) المبین ختم النبیین
(۲) السوء والعقاب علی المسیح الکذاب
(۳) قھرالدیان علیٰ مرتد بقا دیان
(۴) جزاء للہ عدوہٗ بابائہٖ ختم البنوۃ
(۵) الجرازالدیانی علی المرتد القادیانی
آخرالذکر رسالہ ایک سوال کا جواب ہے جو ۳ محرم۱۳۴۰ھ کو پیش ہوا ، جس کا آپ نے جواب تحریر فرمایا۔ اسی سال ۲۴ صفر کو آپ کا وصال ہو گیا۔ یہ رسالہ مختصر مقدمہ کے ساتھ مرکزی مجلسِ رضا، لا ہور کی طرف سے چھپ چکا ہے ۔
ان رسائل کے علاوہ احکامِ شریعت ، المعتمد المستند اور فتاویٰ رضویہ میں رومرزائیت میں آپ کے فتاویٰ دیکھے جا سکتے ہیں ۔
پروفیسر خالد شبیر احمد، فیصل آباد، دیوبندی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں ، اس کے باوجود انہوں نے امام احمد رضا بریلوی کے فتویٰ سے قبل ان تاثرات کا اظہار کیا ہے : اس فتویٰ سے جہاں مولانا کے کمالِ علم کا احساس ہوتا ہے ، وہاں مرزا غلام احمد کے کفر کے بارے میں ایسے دلائل بھی سامنے آتے ہیں کہ جس کے بعد کوئی ذی شعور مرزا صاحب کے اسلام اور اس کے مسلمان ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔(خالد شبیر احمد: تاریخ محاسبہ قادیانیت (قرطاس، فیصل آباد) ص ۴۵۵)
مزیدلکھتے ہیں : ذیل کا فتویٰ بھی آپ کی علمی استطاعت ، فقہی دانش و بصیرت کا ایک تاریخی شاہکار ہے ۔ جس میں آپ نے مرزا غلام احمد قادیانی کے کفر کو خود ان کے دعاوی کی روشنی میں نہایت مدلل طریقے سے ثابت کیا ہے ، یہ فتویٰ مسلمانوں کا وہ علمی و تحقیقی خزینہ ہے جس پر مسلمان جتنا بھی ناز کریں ، کم ہے ۔ (خالد شبیر احمد: تاریخ محاسبہ قادیانیت (قرطاس، فیصل آباد) ص ۴۶۰) ۔
مرزائے قادیانی کا بھائی مرزا غلام قادر بیگ دنیا نگر کا معزول تھا نیدار تھا۔ (ابوالقاسم رفیق دلاوری: رئیس قادیان (مجلس قادیان (مجلس تحفظ ختمِ نبوت ، ملتان) ج۱ ، ص ۱۱)
جوپچپن برس کی عمر میں ۱۸۸۳ء میں فوت ہوا، ( ابوالقاسم رفیق دلاوری: رئیس قادیان (مجلس قادیان (مجلس تحفظ ختمِ نبوت ، ملتان) ج۱ ، ص ۱۴)،
جبکہ امام احمدر رضا کے بچپن کے چند کتابوں کے استاذ ، مرزا غلام قادر بیگ رحمہ اللہ تعالیٰ پہلے بریلی میں رہے ۔ پھر کلکتہ چلے گئے اور بریلی سے بذریعہ استفتا ء رابطہ رکھتے رہے ۔
ملک العلماء مولانا ظفر الدین بہاری فر ماتے ہیں : میں نے جناب مرزا صاحب مرحوم و مغفور (مرزا غلام قادر بیگ ) کو دیکھا تھا، گورا چٹا رنگ عمر تقریباً اسی سال داڑ ھی سر کے بال ایک ایک کر کے سفید ، عمامہ باندھے رہتے ۔ جب کبھی اعلیٰ حضرت کے پاس تشریف لاتے ، اعلیٰ حضرت بہت ہی باعزت و تکریم کے ساتھ پیش آتے ۔ ایک زمانہ میں جناب مرزا صاحب کا قیام کلکتہ، امر تلالین میں تھا، وہاں سے اکثر سوالات جواب طلب بھیجا کرتے ، فتاویٰ میں اکثر استفتاء ان کے ہیں ۔ انہیں کے ایک سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت نے رسالہ مبارکہ تجلی الیقین بان نبینا سیدالمرسلین تحریر فرمایا ہے ۔ ( ظفر الدین بہاری ، مولانا: حیات اعلیٰ حضرت، ج۱ ، ص ۳۲) ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
فتاویٰ رضویہ جلد سوم مطبوعہ مبارک پورا، انڈیا کے ص۸ پر ایک استفتاء ہے جو مرزا غلام قادر بیگ رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۲۱ جمادی الآ خرہ ۱۳۱۴ھ کو ارسال کیا تھا۔
ان تفصیلات کو پیش نظر رکھیے ، آپ کو خود بخود یقین ہو جائے گا۔ مرزائے قادیانی کا بھائی اور امام احمد رضا بریلوی کے استاذ دو الگ الگ شخصیتیں ہیں ۔
وہ قادیان کا معزول تھانیدار ۔ یہ مدرس ٹائپ مولوی
وہ پچپن سال کی عمر میں مر گیا ۔ یہ اسی سال کی عمر میں حیات تھے
وہ ۱۳۰۰ ھ /۱۸۸۳ء میں قادیان میں فوت ہوا ۔ یہ ۱۳۱۴ھ/۱۸۹۷ء میں زندہ تھے
کیونکہ عادتاً ایسا تو ہو نہیں سکتاکہ وہ ۱۸۸۳ء میں قادیان میں فوت ہوا ہواور وفات کے ٹھیک چودہ برس بعد ۱۸۹۷ء میں کلکتہ سے بریلی استفتاء بھیج دیا ہو۔
(مولانا غلام قادر بیگ بریلوی علیہ الرحمہ کی وفات ۱۸اکتوبر ۱۹۱۷ء/یکم محرم الحرام۱۳۳۶ھ کوبعمر۹۰ سال بریلی میں ہوئی ، اور محلہ باقر گنج میں واقع حسین باغ میں دفن کئے گئے ، یہیں ان کے بڑ ے بھائی حضرت مولانا مطیع بیگ مرحوم دفن ہیں ، مولانا مرزا غلام قادربیگ کے بڑ ے بیٹے حکیم مرزا عبدالعزیز (متوفی۱۵شعبان ۱۳۷۴ھ) بھی بریلی میں لا ولد فوت ہوئے ، حضرت مرزا غلام قادر بیگ کی دو دختران تھیں دونوں فوت ہوگئیں ، بڑ ی دختر کے ایک پسر اور چھوٹی دختر کی اولاد اَب بھی بریلی میں سکونت پذیر ہے ۔مضمون مرز ا غلام قادربیگ از مرزا عبدالوحید بیگ، بریلی نبیرۂ مرزا غلام قادر بیگ، ماہنامہ سنی دنیا، بریلی، شمارہ جون ۱۹۸۸ء: ص۳۷تا۴۱۔)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
پروفیسر محمد ایوب قادری نے ایک مکتوب میں لکھا : یہ افترائے محض ہے ، مرزا غلام قادر بیگ بریلوی قطعاً دوسری شخصیت ہیں ، میں تفصیلی جواب ارسالِ خدمت کروں گا، اطمینان فرمائیے “(مکتوب بنام راقم: تحریر۳۱ مئی ۱۹۸۳ء)نوٹ: افسوس کہ ۲۳ نومبر ۱۹۸۳ء کو پروفیسر محمد ایوب قادری صاحب ایک ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہو گئے ، اس لیے انہیں تفصیلات لکھنے کا موقع نہ مل سکا۔ ۱۲ شرف قادری ۔
شعبہ تاریخ احمدیت، ربوہ سے دوست محمد شاہد نے پروفیسر محمد مسعود احمد پرنسپل گورنمنٹ سائنس کالج، ٹھٹھہ کے نام کے ایک مکتوب میں لکھا ہے : بڑ ے بھائی مرزا غلام قادر صاحب نے آپ کے دعویٰ مسیحیت (۱۸۹۱ء) سے آٹھ سال قبل ۱۸۸۳ء میں انتقال کیا۔ آپ خود یا آپ کے کوئی بھائی، بانس بریلی ، رائے بریلی یا کلکتہ میں مقیم نہیں رہے (محمد مسعود احمد ، پروفیسر: مکتوب بنام راقم، ۲۳ دسمبر ۱۹۸۳ء)
اس کے بعد یہ کہنے کا کوئی جواز نہیں کہ امام احمد رضا کے استاذ مرزا غلام احمد قادیانی کے بڑ ے بھائی تھے ۔
مرزا غلام قادر بیگ ؟ ہٹلر کے دستِ راست گوئبلز کا قول ہے کہ ''جھوٹ اتنا بولو کہ اس پر سچ کا گمان ہونے لگے'' امام احمد رضا بریلوی کے چند ابتدائی کتب کے استاد، مرزا غلام قادر بیگ رحمۃ اللہ تعالیٰ کے بارے میں مخالفین نے اسی مقولے پر عمل کرتے ہوئے زور شور سے یہ پروپگینڈا کیا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کے بھائی تھے۔ نعوذ باللہ من ذالک ۔ مرزا کا بھائی ١٨٨٣ء میں فوت ہو گیا تھا ، جبکہ مرزا غلام قادر بیگ ١٨٩٧ء میں کلکتہ میں حیات تھے۔ تفصیل آئندہ پیغامات میں ملاحظہ کی جائے۔ دراصل نام کے اشتراک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے ایک صحیح العقیدہ مسلمان کو مرزائی اور کافر بنا دیا اور اس سے ان کے دل پر کوئی ملال نہیں آیا کہ کسی دلیل اور ثبوت کے بغیر ہم نے ایک مسلمان کو کافر کیوں قرار دیا؟ اور ملال آئے بھی تو کیوں کر؟ جبکہ یہ لوگ تما م عامتہ المسلمین کو کافر قرار دے کر بھی اپنے ضمیر پر کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتے۔
عطیہ محمد سالم بھی اسی پروپگینڈا کے زیرِ اثر یہ کہہ گئے: ''بریلویۃ کے بانی کا پہلا استاذ، مرزا غلام قادربیگ ، مرزا غلام احمد قادیانی کا بھائی تھا۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ قادیانیت اور بریلویت دونوں استعمار کی خدمت میں بھائی بھائی ہیں''۔(عطیہ محمد سالم: تقدیم البریلویۃ' ص٤)
اگر کسی دعوےٰ کا ثابت کرنا واقعی محتاج دلیل ہوتا ہے، توہم ان سے مطالبہ کرتے ہیں، کہ اپنے دعوے کی صداقت پر کوئی دلیل پیش کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ قیامت تک کوئی دلیل نہ لا سکیں گے ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment