اعلی حضرت بہت بڑے عاشق رسول صلی الله علیہ وسلم عالم فاضل گزرے ہیں جن کو فقہ حنفی اور اس کی جزئیات پر عبورحاصل تھا۔ جس کے بارے میں علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ وه بےحد ذہین اور باریک بین عالم دین تھے فقہی بصریت میں انکا مقام بہت بلند تھا۔
ان کے فتاوی کے مطالعے سے اندازه ہوتا ہے کہ وه کس قدر اعلی اجتہادی صلاحتیوں سے بہره ور اور پاک و ہند کے کیسے بابغہ روزگار فقیہ تھے۔ ہندوستان کے اس دور متاخرین میں ان جیسا طباع اور ذہین فقیہ بمشکل ملے گا۔
(عبدالنبی کوکب، مقالات یوم رضا، حصہ سوم)
آپ کا شمار ان بزرگان دین میں ہوتا ہے جن کو حضورپاک صلی الله علیہ وسلم نے ظاہری حالت میں اپنی بیعت نصیب فرمائی۔
اعلی حضرت کے بارے میں اویس رضا قادری کہتے ہیں کہ اعلی حضرت حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کی بارگاه میں ان سے ملاقات کی تمنا لیے حاضر ہوۓ اور وہاں جا کر دوردپاک کی کثرت کردی بے حساب درودپاک پڑھا مگر حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے کوئی اشاره معصول نہ ہوا دوسرے دن بھی اسی طرح حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کی بارگاه میں حاضر ہوۓ اور درود پاک کی کثرت کردی مگر اس کے باوجود حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے کوئی اشاره نہ ہوا تیسرے دن آپ حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کی بارگاه میں حاضر ہوۓ اور روتے ہوۓ یہ قیصدے پڑھنے لگے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
وه سوۓ لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
جوتیرے درسے یارپھرتے ہیں
دربدریونہی خوار پھرتے ہیں
اور آخر میں اعلی حضرت نے خود کو بالکل مٹا دیا جب دیکھا کہ حضورپاک صلی الله علیہ وسلم اپنا جلوه نہیں دیکھا رہے تو آپ نے اپنی حثیت اور اوقات بالکل مٹا دی اور یوں فرمانے لگے کہ:
کوئی کیا پوچھے تیری بات رضا
تجھ سے کتے ہزار پھرتے ہیں
یہ ہوتا ہے عشق کا مقام کہ خود کو معشوق کے قدموں میں گرا دیتا ہے عاشق خود کو معشوق کے سامنے حقیربنا کر پیش کرتا ہے
یہ بات کہنے کی دیر تھی حضورپاک صلی الله علیہ وسلم بشم خود ظاہری حالت میں تشریف لاۓ اور اعلی حضرت کو اٹھا کر اپنے سینہ مبارک سے لگایا۔
اس کے بعد اعلی حضرت کو حضورپاک کے اتنے جلوے نظر آۓ کہ کبھی کہتے ہیں:
کس کے جلوے کی جھلک ہے یہ اجالا کیا ہے
کبھی کہتے ہیں
تو شمع رسالت ہے عالم ہے تیرا پروانہ
کبھی کہتے ہیں
وه کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں
غرض یہ کہ اس کے بعد اعلی حضرت کے قلم سے ایسے ایسے الفاظ نکلے کہ جنہیں سن کر بڑے بڑے اہل علم دنگ ہیں اعلی حضرت نے حضورپاک کی شان میں اتنا کچھ لکھ دیا کہ جو آج تک کوئی نہ لکھ سکا اور کمال بات یہ اعلی حضرت نے نہ کبھی حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کی شان کو گھٹایا نہ کبھی بڑھایا بلکہ حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کے حکم کے مطابق آپ کی شان کو بیان کیا اور ایسی بیخودی کے عالم میں بیان کیا کہ اگر اعلی حضرت کو کوئی کلام بھری محفل میں پڑھ دیا جاۓ تو وہاں پر موجود ہر فرد جھوم اٹھتا ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اعلی حضرت نے سرورکہوں کے مالک و مولا کہوں تجھے کلام لکھ کر اپنی حیرت و بے بسی کی انتہا کر دی آپ صلی الله علیہ وسلم کی جسم مبارک کی تعریف کرتے ہوۓ فرماتے ہیں کہ:
الله رے تیرے جسم منور کی تابشیں
اے جان جاں میں جان تجلا کہوں تجھے
پھر جب اعلی حضرت آپ صلی الله علیہ وسلم کے وصف کا ذکر کرتے ہیں تو یوں فرماتے ہیں:
تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری
حیراں میں میرے شاه میں کیا کیا کہوں تجھے
جب اعلی حضرت کی نظر حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کے وصف پر پڑتی ہے ان کی عقل حیران ره جاتی ہے اگر کوئی ساری زندگی صرف آپ صلی الله علیہ وسلم کی وصف تحریر کرتا رہے تو وه مر جاۓ گا مگر آپ کے وصف کا ایک باب بھی پورا نہ ہوگا
زندگیاں ختم ہوئیں قلم ٹوٹ گۓ مگر آپ کے وصف کا اک باب بھی پورا نہ ہوا یہاں پر آکراعلی حضرت کا علم اور قلم جواب دے جاتا ہے اور آپ برجستہ فرماتے ہیں:
حیراں ہوں میرے شاه میں کیا کیا کہوں تجھے
پھر فرماتے ہیں
کہہ لے گی سب کچھ تیرا ثنا خوان کی خاموشی
چپ ہو رہا ہے کہہ کہہ کے میں کیا کیا کہوں تجھے
قارئین ذرا سوچیۓ کہ حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کتنی بڑی ہستی ہیں کہ آپ کی تعریف کرتے کرتے ثناء خوان بھی خاموش ھوجاتے ہیں مگر آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعریف مکمل نہیں ہوپاتی اور آخر پر اعلی حضرت نے کلام کا ختم سخن کرتے ہوۓ فرماتے ہیں:
لیکن رضا نے ختم سخن اس پہ کر دیا
خالق کا بنده خلق کا آقا کہوں تجھے
حضورپاک تو دور کی بات میں ان کے غلام کی تعریف کرنے کے بھی قابل نہیں اور نہ ہی میرے پاس ایسا علم ہے کہ میں اعلی حضرت کو خراج تحسین پیش کرسکوں میں خود یہ سب لکھنے کیلۓ انہی کے کلام کا سہارا لے رہا ہوں میں کیا لکھ پاؤں گا اعلی حضرت کے مطلق کہ میرے اعلی حضرت کون تھے بس اتنا سمجھ لیجے وه میری جان ہیں میری دھڑکن ہیں میری روح میں ہلچل بیپا کردینے والے انسان ہیں مجھ جیسوں کو عاشق رسول بنا دینے والے عظیم انسان اور ثناء خوان مصطفی ہیں۔ دنیا کا کوئی کونہ ایسا نہیں جہاں اعلی حضرت کے کلام کی گونج نہ ہو۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment