Tuesday, 4 July 2017

روافض وغیرہ مبتدعین کے متعلق امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ


سوال : روافض وغیرہم مبتدعین کہ کفار داخل مرتدین ہیں یانہیں؟
جواب مفصل بدلائل عقلیہ ونقلیہ مدلل درکار ہے؟بینواتوجروا۔

جواب : فی الواقع جو بدعتی ضروریاتِ دین میں سے کسی شیئ کا منکر ہوباجماعِ مسلمین یقینا قطعاً کافر ہے
اگرچہ کروڑبار کلمہ پڑھے، پیشانی اس کی سجدے میں ایک ورق ہوجائے، بدن اس کا روزوں میں ایک خاکہ رہ جائے، عمر میں ہزار حج کرے،لاکھ پہاڑ سونے کے راہِ خدا پر دے، واﷲ ہرگزہرگز کچھ مقبول نہیں
جب تک حضور پر نورصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی ان تمام ضروری باتوں میں جو وہ اپنے رب کے پاس سے لائے تصدیق نہ کرے،
ضروریات اسلام اگر مثلاً ہزار ہیں تو ان میں سے ایک کا بھی انکار ایسا ہے ،جیسا نوسو ننانوے ۹۹۹ کا،
آج کل جس طرح بعض بددینوں نے یہ روش نکالی ہے
کہ بات بات پر کفر وشرک کا اطلاق کرتے ہیں اور مسلمان کو دائرہ اسلام سے خارج کہتے ہوئے
مطلق نہیں ڈرتے
حالانکہ مصطفی علیہ افضل الصلوٰۃ والثناء ارشاد فرماتے ہیں:
فقد باء بہ احدھما۱؎
(ان دونوں میں سے ایک نے یہ حکم اپنے اوپر لاگو کیا۔ت)

(۱؎ صحیح بخاری کتاب الادب باب من اکفر اخاہ بغیر تاویل الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۹۰۱
صحیح مسلم کتاب الایمان قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۵۷)

یونہی بعض مداہنوں پر یہ بلاٹوٹی ہے کہ
ایک دشمن خدا سے صریح کلمات توہین آقائے عالمیان حضور پر نور سیدالمرسلین الکرام صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم
یا
اور ضروریاتِ دین کا انکا ر سنتے جائیں اور اسے سچا پکا مسلمان
بلکہ ان میں کسی کوافضل العلماء کسی کو امام الاولیاء مانتے جائیں یہ نہیں جانتے یا جانتے ہیں اور نہیں مانتے کہ اگر انکارِ ضروریات بھی کفر نہیں، تو عزیزو! بت پرستی میں کیا زہر گھل گیا ہے، وہ بھی آخر اسی لئے کفر ٹھہری کہ اول ضروریاتِ دین یعنی توحیدِ الٰہی جل وعلا کے خلاف ہے،
کہتے ہیں وہ کلمہ گو ہے نماز پڑھتا ہے روزے رکھتا ہے ایسے ایسے مجاہد ے کرتا ہے ہم کیونکر اسے کافر کہیں ان لوگوں کے سامنے اگر کوئی کلمہ پڑھے افعالِ اسلام ادا کرے ب
ااینہمہ دو خدا مانے شاید جب بھی کافر نہ کہیں گے،
مگر اس قدر نہیں جانتے کہ اعمال تو تابع ایمان ہیں پہلے ایمان تو ثابت کرلو تو اعمال سے احتجاج کرو۔
ابلیس کے برابر تو یہ مجاہدے کا ہے کو ہوئے پھر اس کے کیا کام آئے جوان کے کام آئیں گے، آخر حضور اقدس اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک قوم کی کثرت اعمال اس درجہ بیان فرمائی کہ:

تحقرون صلوٰتکم مع صلٰوتھم وصیامکم مع صیامھم۲؎اوکما قال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۔
ان کی نماز وں کے مقابلے میں تم اپنی نمازوں کو اور ان کے روزوں کے مقابلے میں اپنے روزوں کو حقیر سمجھو گے،جیسا کہ یہ حضور علیہ والسلام نے فرمایا ہے(ت)

(۲؎ صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن باب من رایابقرأۃ القرآن الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/۷۵۶)

پھر ان کے دین کا بیان فرمایا کہ:
یمرقون من الدین کما یمرق السھم من الرمیۃ۱؎۔
دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔(ت)

(۱؎ صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن باب من رایاالقرآن الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۷۵۶)

رہی کلمہ گوئی تو مجرد زبان سے کہنا ایمان کے لئے کافی نہیں،
منافقین تو خوب زور و شور سے کلمہ پڑھتے ہیں حالانکہ ان کےلئے

فی الدرک الاسفل من النار۲؎ (جہنم کی نچلی تہہ میں۔ت)کافرمان ہے والعیاذباﷲ ۔

(۲؎ القرآن الکریم ۴/ ۱۴۵)

الحاصل ایمان تصدیق قلبی کا نام ہے اور وہ بعد انکار ضروریات کہاں، مثلاً:
(۱) جورافضی اس قرآن مجید کو جو بفضلِ الٰہی ہمارے ہاتھوں میں موجود ہمارے دلوں میں محفوظ ہے، عیاذًا باﷲ بیاضِ عثمانی بتائے اس کے ایک حرف یا ایک نقطہ کی نسبت صحابہ اہلسنت یا کسی شخص کے گھٹانے یا بڑھانے کا دعوٰی کرے۔
(۲)یااحتمالاً کہے شاید ایسا ہواہو۔
(۳) یا کہے مولٰی علی یا باقی ائمہ یا کوئی غیرنبی انبیاء سابقین علیہم الصلوٰۃ والسلام سے افضل ہیں۔
(۴) یا مسئلہ خبیثہ ملعونہ بدل کا قائل ہویعنی کہے باری تعالٰی کبھی ایک حکم سے پشیمان ہوکر اسے بدل دیتا ہے۔
(0) یا کہے ایک وقت تک مصلحت پر اطلاع نہ تھی جب اسے اطلاع ہوئی حکم بدل دیا
(1) "تعالی اﷲ عما یقول الظّٰلمون علواکبیرا"۔

(۶) یادامن عفت مأمن طیب اعطر اطہر کنیز ان بارگاہ طہارت پناہ حضرت ام المومنین صدیقہ بنت الصدیق صلی اﷲ علٰی زوجہا الکریم وابیہا وعلیہا وبارک وسلم کے بارے میں اس افک مبغوض مغضوب ملعون کے ساتھ اپنی ناپاک زبان آلودہ کرے۔
(۷) یاکہے احکامِ شریعت حضرات ائمہ طاہرین کوسپرد تھے جو چاہتے راہ نکالتے جو چاہتے بدل ڈالتے۔
(۸) یاکہے مصطفٰی صلی اﷲ تعالٰی وسلم کے بعد ائمہ طاہرین پر وحیِ شریعت آتی رہی۔
(۹) یاکہے ائمہ سے کوئی شخص حضور پر نور مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ہم پلہ تھا۔
(۱۰) یا کہے حضرات کریمین امامین شہیدین رضی اﷲ تعالٰی عنہما حضور پر نور علیہ الصلاۃ والسلام سے افضل ہیں کہ ان کی سی ماں حضور کی والدہ کب تھیں اور ان کے سے باپ حضور کے والد کہاں تھے اور ان کے سے
نانا حضور کے نانا کب تھے۔
(۱۱) یاکہے حضرت جناب شیر خدا کرم اﷲ وجہہ الکریم نے نوح کی کشتی بچائی، ابراہیم پر آگ بجھائی،یوسف کو بادشاہی دی، سلیمان کو عالم پناہی دی علیہم الصلوٰۃ والسلام اجمعین۔
(۱۲) یا کہے مصطفی صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم نے کبھی کسی وقت کسی جگہ حکمِ الٰہی کی تبلیغ میں معاذاﷲ تقیہ فرمایا الٰی غیر ذٰلک من الاقوال الخبیثۃ۔

(۱) یا جو نجدی وہابی حضور پر نور سیدالاولین والآخرین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے کوئی مثل آسمان میں یا زمین، طبقات بالا میں یا زیریں میں موجود مانے یاکہے کبھی ہوگا یا شاید ہویا ہے تو نہیں مگر ہوجائے تو کچھ حرج بھی نہیں۔
(۲) یا حضور خاتم النبیین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی ختمِ نبوت کا انکار کرے۔
(۳) یا کہے آج تک جو صحابہ تابعین خاتم النبیین کے معنے آخر النبیین سمجھتے رہے خطا پر تھے نہ پچھلا نبی ہونا حضور کے لئے کوئی کمال بلکہ اس کے معنے یہ ہیں جو میں سمجھا۔
(۴) یا کہے میں ذمہ کرتا ہوں اگر حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد کوئی نبوت پائے تو کچھ مضائقہ نہیں۔
(۵) یا دو ایک برے نام ذکر کرکے کہے نما ز میں جناب رسالتمآب صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف خیال لے جانا فلاں فلاں کے تصور میں ڈوب جانے سے بدتر ہے لعنۃ اﷲ علی مقالتہ الخبیثۃ۔
(۶) یابوجہ تبلیغ رسالت حضور پر نور محبوب رب العٰلمین ملک الاولین والآخرین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو اس چپراسی سے تشبیہ دے جوفرمان شاہی رعایا کے پاس لایا۔
(۷) یا حضور اقدس مالک و معطی جنت علیہ افضل الصلوٰۃ والتحیۃ اور حضرت ومولانا علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ وحضرت سیدنا غوثِ اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے اسمائے کریمہ طیبہ لکھ کرکہے(خاک بدہانِ گستاخاں) یہ سب جہنم کی راہیں ہیں۔
(۸) یا حضور فریاد رس بیکساں حاجت روائے دو جہاں صلوات اﷲ وسلامہ علیہ سے استعانت کو برا کہہ کریوں ملعون مثال دے کہ جو غلام ایک بادشاہ کا ہو رہا اسے دوسرے بادشاہ سے بھی کام نہیں رہتا پھر کیسے ۔۔۔۔۔۔کا کیا ذکر ہے اور یہاں دوناپاک قوموں کے نام لکھے۔
(۹) یا ان کے مزار پر انوار کو فائدہ زیارت میں کسی پادری کافر کی گور سے برابر ٹھہرائے، اشد مقت اﷲ علی قومہ۔

(۱۰) یا اس کی خباثت قلبی توہین شان رفیع المکان واجب الاعظام حضور سیدالانام علیہ افضل الصلوٰۃ والسلام پر
باعث ہو کہ حضور کو اپنا بڑابھائی بتائے،
(۱۱) یا کہے (انکے بدگو) مرکر مٹی میں مل گئے۔
(۱۲) یا ان کی تعریف ایسی ہی کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے کی کرتے ہو بلکہ اس سے بھی کم الٰی غیر ذٰلک من الخرافات الملعونۃ۔

(۱) یا کوئی نیچری نئی روشنی کا مدعی کہے باندی غلام بنانا ظلم صریح اور بہائم کاساکام ہے جس شریعت میں کبھی یہ فعل جائز رہا ہو وہ شریعت منجانب اﷲ نہیں۔
(۲) یا معجزات انبیاء علیہم الصلوٰۃو السلام سے انکار کرے، نیل کے شق ہونے کو جوار بھاٹا بتائے، عصا کے اژدہا بن کر حرکت کرنے کو سیماب وغیرہ کا شعبدہ ٹھہرائے۔
(۳) یا مسلمانوں کی جنت کو معاذاﷲ رنڈیوں کا چکلہ کہے۔
(۴) یا نارِ جہنم کو الم نفسانی سے تاویل کرے،
(۵) یا وجود ملائکہ علیہم السلام کا منکر ہو،
(۶) یا کہے آسمان ہر بلندی کانام ہے وہ جسم جسے مسلمان آسمان کہتے ہیں محض باطل ہے،
(۷) یا کہے شیطان (کہ اس کامعلم شفیق ہے) کوئی چیز نہیں فقط قوت بدی کا نام ہے اورقرآن عظیم میں جوقصے آدم وحواوغیرہما کے موجود ہیں جن سے شیطان کا وجود جسمانی سمجھا جاتا ہے تمثیلی کہانیاں ہیں۔
(۸) یاکہے ہم بانی اسلام کو برا کہے بغیر نہیں رہ سکتے،
(۹) یا نصوص قرآنیہ کو عقل کا تابع بتائے کہ جو بات قرآن عظیم کی قانون نیچری کے مطابق ہوگی مانی جائے ورنہ کفر جلی کے روئے زشت پر پردہ ڈھکنے کو ناپاک تاویلیں کی جائیں گی،
(۱۰) یا کہے نماز میں استقبال قبلہ ضرور نہیں جدھر منہ کرو اسی طرف خدا ہے۔
(۱۱) یا کہے آجکل کے یہود ونصارٰی کافر نہیں کہ انہوں نے نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا زمانہ نہ پایا نہ حضور کے معجزات دیکھے۔
(۱۲) یاہاتھ سے کھاناکھانے وغیرہ سنن کے ذکر پر کہے تہذیب نصارٰی نے ایجاد کی، نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے زمانہ میں بعض افعال نامہذب تھے۔ اور یہ دونوں کلمے بعض اشقیاء سے فقیر نے خود سنے،

الٰی غیر ذٰلک من الاباطیل الشیطانیۃ۔

(۱)یا کوئی جھوٹا صوفی کہے جب بندہ عارف باﷲ ہوجاتا ہے تکالیف شرعیہ اس سے ساقط ہوجاتی ہیں یہ باتیں تو خدا تک پہنچنے کی راہ ہیں جو مقصود تک واصل ہوگیا اسے راستہ سے کیا کام۔
(۲) یا کہے یہ رکوع وسجدہ تو محجوبوں کی نما زہے محبوبوں کو اس نماز کی کیا ضرورت، ہماری نماز ترک وجود ہے۔
(۳) یا یہ نماز روزہ تو عالموں نے انتظام کےلئے بنالیا ہے،
(۴) یا جتنے عالم ہیں سب پنڈت ہیں عالم وہی ہے جو انبیاء بنی اسرائیل کی مثل معجزے دکھائے، یہ بات حسنین رضی اﷲ تعالٰی عنہما کو حاصل ہوئی وہ بھی ایک مدت کے بعد مولٰی علی کے سکھانے سے کما سمعتہ من بعض المتھورین علی اﷲ (جیسا کہ میں نے خود ایسے لوگوں سے سنا ہے جو اﷲ تعالٰی پر جرأت کرتے ہیں۔ت)
(۵) یا خدا تک پہنچنے کے لئے اسلام شرط نہیں، بیعت بک جانے کا نام ہے اگر کافر ہمارے ہاتھ پر بک جائے ہم اسے بھی خدا تک پہنچادیں گو وہ اپنے دین خبیث پر رہے۔
(۶) یا رنڈیوں کا ناچ علانیہ دیکھے جب اس پر اعتراض ہوتو کہے یہ تو نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی سنت ہے۔

کما بلغنی عن بعضھم واعترف بہ بعض خلص مریدیہ (جیسا کہ ان کے بعض سے مجھے اطلاع ملی اور اس کے مخلص مرید نے اس کا اعتراف کیا۔ت)
(۷) یا شبانہ روز طبلہ سارنگی میں مشغول رہے جب تحریم مزامیر کی احادیث سنائیں توکہے یہ مذمتیں تو ان کثیف بے مزہ باجوں کے لئے وارد ہوئیں جو اس وقت عرب میں رائج تھے یہ لطیف نفیس لذیذ باجے جواب ایجاد ہوئے اس زمانے میں ہوتے تو نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اور صحابہ کرام سوا ان کے سننے کے ہرگز کوئی کام نہ کرتے۔
(۸) یا کہے:
بمعنے خدا ہے سراہا گیا ہے محمد خدا ہے خدا ہے محمد
یہ دونوں ہیں ایک ان کو دومت سمجھنا خداباطن وظاہرہے محمد
(۹) یا کہے:
مسیحا سے تری آنکھوں کی سب بیماراچھے ہیں اشاروں میں جلادیتے ہیں مردہ یا رسول اﷲ
(۱۰)یاکہے:
علی مشکلکشاشیر خدا تھا اور حیدرتھا دوبالا مرتبہ تھا راکبِ دوشِ پیمبر تھا
بربِ کعبہ کب خیبر شکن فرزندِ آزر تھا بتوں کے توڑنے میں اس سے ابراہیم ہمسر تھا

اگر ہوتا نہ زیر پا کتف شاہ رسولاں کا
(۱۱) یاکہے مولٰی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ اﷲ تعالٰی کے محبوب تھے اور انبیاء سابقین علیہم الصلوٰۃ والسلام میں
کوئی خدا کا محبوب نہ تھا۔
(۱۲) یا اس کے جلسہ میں لاالٰہ الااﷲفلاں رسول اﷲ اسی مغرور کا نام لے کر کہا جائے اور وہ اس پر راضی ہوجائے۔
یہ سب فرقے بالقطع والیقین کافر مطلق ہیں،
ھداھم اﷲ تعالٰی الی الصراط المستقیم والالعنھم لعنۃ تبیدصغارھم وکبارھم وتزیل عن الاسلام والمسلمین عارھم وعوارھم اٰمین
(اﷲ تعالٰی ان کو سیدھی راہ کی ہدایت دے ورنہ ان پر لعنت فرمائے ایسی لعنت جو ان کے بڑوں چھوٹوں کو ملیا میٹ کردے اور اسلام اور مسلمانوں سے ان کی عار اور اندھا پن ختم ہوجائے،آمین!۔ت)
اور جو شخص ابتداء میں صحیح الاسلام تھا بعدہ ان خرافات کی طرف رجوع کی اس کے مرتد ہونے میں شبہہ نہیں، اس قدر پر تو اجماع قطعی قائم ہے،
اب رہی تحقیق اس بات کی کہ
ان میں جو شخص قدیم سے ایسے ہی عقائد پر ہو اور بچپن سے یہی کفریات سیکھے جیسے وہ مبتدعین جن کے باپ دادا سے یہی مذاہب مکفرہ چلے آتے ہیں ان کی نسبت کیا حکم ہونا چاہئے کہ
کفار چند قسم ہیں
کچھ ایسے کہ باوجود کفر شرع مطہر نے ان کی عورتوں سے نکاح اور ذبائح کا تناول جائز فرمایا وہ کتابی ہیں
اور بعض وہ جن کے نساء وذبائح حرام ،مگران سے جزیہ لینا، مناسب ہوتو صلح کرنا، غلبہ پائیں تو رفیق بنانا جائز ہے اور انہیں خواہی نخواہی اسلام پر جبر نہ کریں گے ، وہ مشرکین ہیں،
اور بعض ایسے جن کے ساتھ یہ سب باتیں ناجائز،وہ مرتدین ہیں،
آیا ان ہمیشہ کے بدعتی کفار مدعیان اسلام پرکس قسم کے حکم جاری ہوں،
مطالعہ کتب فقہ سے اس بارہ میں چار قول مستفاد ہوتے ہیں
جن کی تفصیل فقیر نے رسالہ مقالۃ المفسرۃ عن احکام البدعۃ المکفرۃ میں بمالامزید علیہ میں کی،
ان میں مذہب صحیح ومعتمد علیہ یہی ہے
کہ یہ مبتدعین بحکمِ شرع مطلقاً مرتدین ہیں
خواہ یہ بدعت ان کے باپ دادا سے چلی آتی ہو یا خود انہوں نے ابتداء سے اختیار کی ہو خواہ بعد ایک زمانہ کے ہوکسی طرح فرق نہیں،
بس اتنا چاہئے کہ باوجود دعوی اسلام و اقرار شہادتین بعض ضروریات دین سے انکار رکھتا ہو اس پر احکامِ مرتدین جاری کئے جائیں گے۔

عالمگیریہ میں ہے:
یجب اکفار الروافض فی قولھم
برجعۃ الاموات الی الدنیا
و بتناسخ الارواح
وبانتقال روح الالٰہ الی الائمۃ
وبقولھم فی خروج امام باطن وبتعطیلھم الامر والنھی الی ان یخرج الامام الباطن
وبقولھم ان جبریل علیہ الصلوٰۃ والسلام غلط فی الوحی الٰی محمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم دون علی بن ابی طالب رضی اﷲ تعالٰی عنہ
وھٰؤلاء القوم خارجون عن ملۃ الاسلام
واحکامھم احکام المرتدین کذافی الظھیریۃ۱؎۔
رافضیوں کی ان باتوں پر کہ
''مردے دوبارہ دنیا میں آئیں گے،
روح دوسرے جسموں میں آئیں گے،
اﷲ تعالٰی کی روح ائمہ اہلبیت میں منتقل ہوئی ہے،
امام باطن خروج کریں گے، امام باطن کے خروج تک امرونہی احکام معطل رہیں گے،
جبریل علیہ الصلوٰۃ والسلام سے حضرت علی کے مقابلہ میں محمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم پر وحی لانے میں غلطی ہوئی ہے'' ان کی تکفیر ضروری ہے،
یہ لوگ ملتِ اسلامیہ سے خارج ہیں،
اور ان کے احکام مرتدین جیسے ہوں گے،
ظہیریہ میں ایسے ہی ہے۔

(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ الباب التاسع فی احکام المرتدین نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۲۶۴)

خود علامہ شامی علیہ الرحمۃ تنقیح الفتاوٰی الحامدیہ میں مؤلفِ فتاوٰی علامہ حامد آفندی عمادی سے نقل کرتے ہیں
انہوں نے شیخ الاسلام عبداﷲ آفندی کے مجموعہ میں علامۃ الورٰی نوح آفندی علیہ الرحمۃ کا فتوٰی دیکھا
جس میں ان سے تکفیر روافض کے بارے میں سوال ہوا تھا
علامہ ان کے کلمات کفریہ لکھرکر فرماتے ہیں:
ثبت التواتر قطعًا عند الخواص والعوام المسلمین
ان ھذہ القبائح مجتمعۃ فی ھٰؤلاء الضالین المضلین فمن اتصف بواحد من ھذہ الامور فھو کافر ثبت التواتر قطعًا عند الخواص والعوام المسلمین ان ھذہ القبائح مجتمعۃ فی ھٰؤلاء الضالین المضلین فمن اتصف بواحد من ھذہ الامور فھو کافر(الی ان قال)
ولایجوز ترکھم علیہ باعطاء الجزیۃ ولابامان مؤید نص علیہ قاضی خاں فی فتاواہ
ویجوز استرقاق نساء ھم لان استرقاق المرتدۃ بعد مالحقت بدار الحرب جائز الخ۱؎۲؎ملتقطا۔ خواص وعوام مسلمانوں میں یہ بات تواتر سے چلی آرہی ہے کہ مذکور قباحتیں ان گمراہ لوگوں میں جمع ہیں جبکہ ان قباحتوں میں سے کسی ایک سے متصف ہونے والاکافر ہے، (آگے یہاں تک فرمایا) کہ جزیہ کے بدلے یا امان دے کر ان لوگوں کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی،
اس پر قاضیخاں نے اپنے فتاوٰی میں تصریح کی ہے
اور ان کی عورتوں کو لونڈیاں بنانا جائز ہوگا
کیونکہ مرتدہ عورت جب دارالحرب چلی جائے تو اس کے بعد اس کو لونڈی بنانا جائز ہے الخ اھ ملتقطا(ت)

(۲؎ العقودالدریۃ تنقیح الفتاوی الحامدیۃ باب الردۃ والتعزیر قندھار افغانستان ۱/ ۰۵۔۱۰۴)

فتاوٰی علامہ قاضی خاں میں شیخ امام ابوبکر محمد بن الفضل علیہ الرحمۃ سے دربارہ مبیض ومبیضہ کے اول زن و شوہر تھے پھر دونوں مسمان ہوئے عورت نے اور مسلمان سے نکاح کرلیا
منقول:
ان کانا یظھران الکفراواحد ھما کانا بمنزلۃ المرتدین لم یصح نکاحھما ویصح نکاح المرأۃ مع الثانی۳؎انتہی باختصار۔
مردو عورت دونوں یا ان میں سے ایک
جب کفر کا اظہار کرے تو ان کا حکم مرتدوں والا ہوگا، ان کا نکاح ختم ہوجائیگا
اور وہ عورت دوسرے کے لئے حلال ہوگی،اھ،مختصرا۔(ت)

(۳؎ فتاوٰی قاضی خاں کتاب النکاح باب فی المحرمات نولکشور لکھنؤ ۱/ ۱۶۷)

امام علامہ قاضی عیاض شفا شریف میں امام اہلسنت قاضی ابوبکر باقلانی سے نقل فرماتے ہیں:
انھم علی رای من کفرھم بالتاویل لاتحل مناکحتھم ولااکل ذبائحھم ولاالصلوٰۃ علی میتھم ویختلف فی موار ثتھم علی الخلاف فی میراث المرتد۱؎۔
جن لوگوں نے ان کی تکفیر کی ہے ان کی رائے میں ان سے نکاح کرنا، ان کاذبیحہ کھانا، ان کی نماز جنازہ پڑھنا جائز نہیں ہے اور ان کی وراثت میں وہی اختلاف ہوگا جو مرتد کی وراثت میں ہے۔(ت)

(۱؎ الشفاء للقاضی عیاض فصل فی تحقیق القول فی کفار المتأولین شرکۃ صحافیہ فی البلاد العثمانیہ ۲/ ۲۶۴)

ان عبارات سے ظاہرہولیا کہ ان مبتدعین منکرین ضروریاتِ دین پر حکم مرتدین جاری ہونا ہی منقول و مقبول بلکہ مذاہب اربعہ کا مفتٰی بہ ہے۔
بالجملہ ان اعداء اﷲ پر حکمِ ارتداد ہی جاری کیا جائے گا، نہ ان سے سلطنت اسلام میں معاہدہ دائمہ جائز
نہ ہمیشہ کو امان دینا جائز،
نہ جزیہ لینا جائز
نہ کسی وقت کسی حالت میں ان سے ربط رکھنا جائز،
نہ پاس بیٹھنا جائز
نہ بٹھانا جائز،
نہ ان کے کسی کام میں شریک ہونا جائز
نہ اپنے کام میں شریک کرنا جائز،
نہ مناکحت کرنا جائز
نہ ذبیحہ کھاناجائز ۔

قاتلھم اﷲ انّٰی یذھبون
قال اﷲ تعالٰی
ومن یتولھم منکم فانہ منھم۲؎۔
ا ﷲ تعالٰی ان کو ہلاک کرے یہ کدھر جارہے ہیں،
اﷲ تعالٰی نے فرمایا
جو تم میں سے ان سے دوستی رکھے گا وہ انہی میں سے ہے۔(ت)

(۲؂القرآن الکریم ۵ /۵۱ )

ھدٰنااﷲ تعالٰی الی الصراط المستقیم ودین ھذا النبی الکریم علیہ افضل الصلٰوۃ والتسلیم وثبتنا بالقول الثابت فی الدنیا والاٰخرۃ انہ ولی ذٰلک واھل التقوٰی واھل المغفرۃ لاالٰہ الا ھو سبحٰنہ وتعالٰی عمّا یشرکون ۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
اﷲ تعالٰی ہمیں سیدھی راہ کی ہدایت کرے اور اس آخری نبی علیہ افضل الصلوٰۃ والتسلیم کے دین پر چلائے، اور دنیا وآخرت میں ایمان کامل پر چلائے اور دنیا وآخرت میں ایمان کامل پر ثابت قدم رکھے۔ اﷲ تعالٰی اس کا مالک ہے اے تقوٰی والو اورمغفرت والو!اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ پاک وبلند ہے کسی شریک سے۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(عبدہ المذنب احمد رضا کتبہ عفی عنہ بمحمد ن المصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم)
فتاوی رضویہ ،جلد ۱۴)(پیشکش : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...