نماز فجر : فجر کی نماز سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے ادا کی ۔ جس وقت انہیں دنیا میں اتارا گیا اس وقت دنیا پر رات چھائی ہوئی تھی ۔ حضرت آدم علیہ السلام جنت کی روشنی سے نکل کر دنیا کے اس تاریک اور اندھیرے ماحول میں تشریف لائے تو بہت پریشان ہوگئے کہ اتنی تاریکی میں جہاں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا زندگی کیسےگزرے گی ۔ نہ کوئی چیزنظر آتی ہے نہ کوئی جگہ سمجھ آتی ہے ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے چنانچہ وہ خوفزدہ ہوگئے۔اس کے بعد آہستہ آہستہ روشنی پھیلنے لگی اور صبح صادق ہوئی تو حضرت آدم علیہ السلام نے سورج نکلنے سے پہلے دو رکعت نماز اپنے رب کے حضور شکرانہ کے طور پر پڑھی کہ اس نے تاریکی کو ختم کیا اللہ تعالی کو یہ دو رکعتیں اتنی پسند آئیں کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فرض فرما دی ۔
نماز ظہر : ظہر کی نماز سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نےادا کی ۔ اور اس وقت ادا فرمائی جب وہ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے والے امتحان میں کامیاب ہوگئے پہلی رکعت تو اس امتحان میں کامیابی پر ادا کی ۔ دوسری رکعت اس بات پر کہ اللہ نے قربانی کے لیے جنت سے مینڈھا اتارا ، تیسری رکعت اس بات پر کہ اللہ نے ان سے براہ راست خطاب کیا ۔ ترجمہ ۔ یعنی ہم نے آواز دی ۔ اے ابراہیم بلاشبہ تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ہم نیکو کاروں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں )(سورہ صفت 105)اور چوتھی رکعت اس بات پر پڑھی کہ اللہ نے اتنا صابر بیٹا دیا جو اس سخت امتحان میں بھی ثابت قدم رہا اللہ کو یہ چار رکعتیں اتنی پسند آئیں کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فرض فرما دی ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
نماز عصر : عصر کی نماز سب سے پہلے حضرت یونس علیہ السلام نے ادا فرمائی جب اللہ تعالی نے انہیں مچھلی کے پیٹ سے نکالا تو انہوں نے شکرانے کے طور پر چار رکعت نماز ادا کی اور چار رکعت اس لیے کہ اللہ نے انہیں چار اندھیروں سے نجات دی تھی ۔ایک مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا ، دوسرا پانی کا اندھیرا ، تیسرا ، بادل کا اندھیرا ،چوتھا رات کا اندھیرا , اللہ کو یہ چار رکعتیں اتنی پسند آئیں کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فرض فرما دی ۔
نماز مغرب : مغرب کی تین رکعتیں سب سے پہلے حضرت داؤد علیہ السلامنے ادا فرمائی ۔ اگرچہ انبیاء علیہ السلام سے گناہ سرزد نہیں ہوتے وہ گناہوں سے پاک ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات ان سے کوئی نامناسب یا خلاف ادب کام ہو جاتا ہے جس پرانہیں اللہ کی طرف سے تنبیہ کی جاتی ہے اور انکی اصلاح کی جاتی ہے ۔ اس طرح جب حضرت داؤد علیہ السلام کی کسی ایسی لغزش کے بعد جب اللہ تعالی نے انکی بخشش کا اعلان کیا تو حضرت داؤد علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر چار رکعت نماز کی نیت باندھ لی لیکن تیسری رکعت میں ہی اپنی لغزش کے احساس کا ایسا غلبہ ہوا کہ ان پر بے ساختہ گریہ طاری ہو گیا اور وہ اسکی شدت کی وجہ سے چوتھی رکعت نہ پڑھ سکے چنانچہ انہوں نے تین رکعت پر ہی اکتفا فرمایا اللہ کو یہ تین رکعتیں اتنی پسند آئیں کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فرض فرما دی ۔
نماز عشاء : عشاء کی نماز سب سے پہلے حضرت موسی علیہ السلام نے ادا کی، جس وقت آپ حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس دس سال قیام کے بعد واپس مصر تشریف لا رہے تھے تو آپ پر چار فکر طاری تھے ۔ گھر میں ولادت کا وقت تھا اس کا فکر ، اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کا فکر، اپنے دشمن فرعون کا خوف ، اور اپنی ہونے والی اولاد کا فکر رات بہت ٹھنڈی تھی انہوں نے کوہ طور پر آگ جلتی دیکھی تو آگ لینے کے لیے کوہ طور پر تشریف لے گئے لیکن وہاں انکو اللہ نے نبوت عطا فرمائی تو آپ نے ان چار فکروں سے نجات اور نبوت ملنے کے شکرانے کے طور پر چار رکعتیں پڑھی ,اللہ کو یہ چار رکعتیں اتنی پسند آئیں کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فرض فرما دی ۔
امام حلبی رحمۃ اللہ علیہ ، امام رافعی رحمۃ اللہ علیہ کی شرح مسند شافعی کے حوالے سے لکھتے ہیں حدیث مبارکہ میں ہے کہ : حضرت آدم علیہ السلام نے صبح کی نماز پڑھی ، حضرت داؤد علیہ السلام نے ظہر کی نماز پڑھی ، حضرت سلیمان علیہ السلام نے عصر کی نماز پڑھی ، حضرت یعقوب علیہ السلام نے مغرب کی نماز پڑھی ، اور حضرت یونس علیہ السلام نے عشاء کی نماز پڑھی ۔
(طحاوی، شرح معانی الآثار، کتاب الصلاة، باب الصلاة الوسطی اي الصلوات، 1 : 226، رقم)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment