Monday 23 November 2015

کیا جشن میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا بدعت ہے ؟ حصّہ اوّل

0 comments
کیا جشن میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا بدعت ہے ؟ حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرعی حیثیت اور اُس کے فضائل و ثمرات کے بیان کے بعد اب ہم زیر نظر موضوع کی مناسبت سے تصورِ بدعت کے مختلف پہلوؤں پر غور کریں گے۔ بہ طورِ خاص اس بے بنیاد تصور کا اِزالہ کریں گے کہ ہر وہ کام جو عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہیں تھا اور نہ خلفائے راشدین و صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے زمانے میں اس کا ثبوت ملتا ہے، اسے اگر بعد میں کیا جائے تو قطعِ نظر اچھائی یا برائی کے۔ وہ بدعت (یعنی نیا کام) ہونے کی بناء پر کلیتاً ناجائز اور حرام تصور ہوگا۔ ذیل میں اِس خود ساختہ تصور کو قرآن و حدیث کے واضح دلائل کی روشنی میں پرکھا جائے گا۔ نیز یہ حقیقت سمجھنے کی کوشش کی جائے گی کہ جشنِ میلاد ایک مشروع، مباح اور جائز عمل ہے۔

بدعت کا لغوی مفہوم

’’بدعت‘‘ کا لفظ بَدَعَ سے مشتق ہے۔ اس کا لغوی معنی ہے :

’’کسی سابقہ مثال کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا اور بنانا۔‘‘

1۔ ابن منظور افریقی (630۔ 711ھ) لفظِ بدعت کے تحت لکھتے ہیں :

أبدعت الشيء : اخترعته لا علي مثال.

’’میں نے فلاں شے کو پیدا کیا یعنی اُسے بغیر کسی مثال کے ایجاد کیا۔‘‘

ابن منظور، لسان العرب، 8 : 6

2۔ حافظ ابن حجرعسقلانی (773۔ 852ھ) بدعت کا لُغوی مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

البدعة أصلها ما أحدث علي غير مثال سابق.

’’اَصلِ بدعت یہ ہے کہ اُسے بغیر کسی سابقہ نمونہ کے ایجاد کیا گیا ہو۔‘‘

1. عسقلاني، فتح الباري، 4 : 253
2. شوکاني، نيل الأوطار شرح منتقي الأخبار، 3 : 63
معنیء بدعت کی قرآن حکیم سے توثیق

قرآنِ مجید میں مختلف مقامات پر لفظِ بدعت کے مشتقات بیان ہوئے ہیں جن سے مذکورہ معنی کی توثیق ہوتی ہے۔ صرف دو مقامات درج ذیل ہیں :

1۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان بغیر کسی مثالِ سابق کے پیدا فرمائے، اس لیے خود کو بدیع کہا۔ فرمایا :

بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْراً فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُO

’’وہی آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود میں لانے والا ہے، اور جب وہ کسی چیز (کے ایجاد) کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو پھر اس کو صرف یہی فرماتا ہے : تو ہو جا، پس وہ ہوجاتی ہےo‘‘

البقره، 2 : 117

2۔ ایک دوسرے مقام پر فرمایا :

بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ.

’’وہی آسمانوں اور زمین کا مُوجد ہے۔‘‘

الأنعام، 6 : 101

درج بالا آیات سے ثابت ہوا کہ کائناتِ اَرضی و سماوی کی تخلیق کا ہر نیا مرحلہ بدعت ہے اور اِسے عدم سے وجود میں لانے والی ذاتِ باری تعالیٰ ’’بدیع‘‘ ہے۔
بدعت کا اِصطلاحی مفہوم

اہلِ علم کے نزدیک بدعت کی اِصطلاحی تعریف درج ذیل ہے :

1۔ اِمام نووی (631۔ 677ھ) بدعت کی تعریف اِن الفاظ میں کرتے ہیں :

البدعة هي إحداث مالم يکن في عهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.

’’بدعت سے مراد ایسے نئے کام کی ایجاد ہے جو عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہ ہو۔‘‘

نووي، تهذيب الأسماء واللغات، 3 : 22

2۔ شیخ ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ (736۔ 795ھ) بدعت کی اِصطلاحی تعریف درج ذیل الفاظ میں کرتے ہیں :

المراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له في الشريعة يدل عليه، وأما ما کان له أصل من الشّرع يدل عليه فليس ببدعة شرعاً، وإن کان بدعة لغة.

’’بدعت سے مراد ہر وہ نیا کام ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے، لیکن ہر وہ معاملہ جس کی اصل شریعت میں موجود ہو وہ شرعاً بدعت نہیں اگرچہ وہ لغوی اعتبار سے بدعت ہوگا۔‘‘

1. ابن رجب، جامع العلوم والحکم في شرح خمسين حديثاً من جوامع الکلم : 252
2. عظيم آبادي، عون المعبود شرح سنن أبي داود، 12 : 235
3. مبارک پوري، تحفة الأخوذي شرح جامع الترمذي، 7 : 366

حافظ ابنِ حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیّئہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

والتحقيق أنها إن کانت مما تندرج تحت مستحسن في الشّرع فهي حسنة، وإن کانت مما تندرج تحت مستقبح في الشّرع فهي مستقبحة.

’’تحقیق یہ ہے کہ اگر بدعت کوئی ایسا کام ہو جو شریعت میں مستحسن اُمور میں شمار ہو تو وہ حسنہ ہے اور اگر وہ شریعت میں ناپسندیدہ اُمور میں شمار ہو تو وہ قبیحہ ہوگی۔‘‘

1. عسقلاني، فتح الباري، 4 : 253
2. شوکاني، نيل الأوطار شرح منتقي الأخبار، 3 : 63

اِن تعریفات سے واضح ہوتا ہے کہ ہر نئے کام یعنی بدعت کو محض نیا کام ہونے کی وجہ سے مطلقاً حرام یا ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ اُس کے جواز یا عدمِ جواز کو پرکھنے کا پیمانہ یہ ہے کہ اگر وہ نیا کام شریعت میں مستحسن و مباح ہے تو اُسے بدعتِ حسنہ کہیں گے اور اگر وہ نیا کام شریعت میں غیر مقبول و ناپسندیدہ ہو تو اُسے بدعتِ سیئہ یا بدعتِ قبیحہ کہیں گے۔

اِس اُصولی بحث کے بعد یہ اَمر واضح ہو گیا کہ جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگرچہ قرونِ اُولیٰ میں اِس شکل میں موجود نہیں تھا جس ہیئت میں آج موجود ہے، لیکن چوں کہ قرآن حکیم کی تلاوت، ذِکرِ اِلٰہی، تذکارِ رسالت، ثنا خوانیء مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صدقہ و خیرات کرنا، فقراء و مساکین کو کھانا کھلانا جیسے اَعمال اِس جشن کے مشتملات ہیں، اور اِن میں سے کوئی اَمر بھی شریعت میں ممنوع نہیں، لہٰذا یہ ایک جائز، مشروع اور مستحسن عمل ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ سابقہ اَدوار کے لوگ اپنے رسوم و رواج اور ثقافت کے مطابق نعمتِ عظمیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملنے کے دن شکرِ اِلٰہی بجا لاتے تھے، جب کہ موجودہ دور میں جس طرح زندگی کے ہر گوشہ میں تبدیلی رُونما ہوئی ہے اُسی طرح جشن میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کے اَطوار بھی تبدیل ہوئے ہیں۔ ذیل میں ہم اِس اَمر کی وضاحت کرتے ہیں :
کیا علاقائی ثقافت کا ہر پہلو بدعت ہے؟

ہم اپنی روز مرّہ زندگی میں جوکچھ کرتے ہیں اُسے قرآن و سنت کی روشنی میں شرعاً ثابت کرنے پر زور دینا ہمارا مزاج بن چکا ہے۔ ہم ہر چیز کو بدعت اور ناجائز کہہ دیتے ہیں۔ اس میں میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوس اور بہت سے مستحسن اُمور جو ہمارے ہاں رواج پا چکے ہیں ان کو معترضین بدعت سے تعبیر کرتے نہیں تھکتے۔ کچھ چیزیں اصلاً دینی ہوتی ہیں ان کی اصل توضیح اور استدلال کو کتاب وسنت میں تلاش کرنا چاہیے کہ وہ احکامِ دین کا حصہ ہوتی ہیں۔ اس کے ثبوت یا عدمِ ثبوت پر تو حکم شرعی ہونا چاہیے کہ ثابت ہے تو حکم ہے اور اگر غیر ثابت ہے تو حکم نہیں اور باقی چیزوں کی تقسیم کر سکتے ہیں :

اَوّلاً : کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں علاقائی اور سماجی رواج شامل ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک اہم اور نئی جہت ہے کہ علاقائی رواج دینی اُمور نہیں بن جاتے اور وہ چیزیں کلچر یعنی تہذیب و ثقافت کا رُخ اختیار کرلیتی ہیں۔

ثانیاً : کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو وقتی مصالح، بدلتے ہوئے حالات، لوگوں کے رُجحانات اور اجتماعی میلانات کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔

ثالثاً : بعض علاقائی، سماجی اور کلچرل ضرورتیں اور تقاضے بعض چیزوں کو ناگزیر بنا دیتے ہیں۔
1۔ ثقافتی اِعتبار سے دورِ صحابہ رضی اللہ عنھم

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا دور ثقافتی اِعتبارسے سادہ تھا۔ اس دور کا ثقافتی اور تاریخی نقطہ نظر سے جائزہ لیں تو اس دور میں مسجدیں سادگی سے بنائی جاتی تھیں، گھر بھی بالعموم سادہ اور کچے بنائے جاتے تھے، کھجور کے پتوں اور شاخوں کو استعمال میں لایا جاتا، جب کہ خانہ کعبہ پتھروں سے بنا ہوا موجود تھا۔ وہ چاہتے تو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی پختہ بنا سکتے تھے مگر اس دور کے معاشرے کی ثقافت اور رسم رواج سادہ اور فطرت سے انتہائی قریب تھے۔ ابتدائی تہذیب کا زمانہ تھا۔ کپڑے بھی ایسے ہی تھے جیسے انہیں میسر تھے۔ کھانا پینا بھی ایسا ہی تھا۔ یعنی ہر ایک عمل سادگی کا انداز لیے ہوئے تھا۔ ان کے کھانے پینے، چلنے پھرنے، رہن سہن الغرض ہر چیز میں سادگی نمایاں طور پر جھلکتی نظر آتی تھی۔ تو جب ہر چیز میں یہ انداز واضح طور پر جھلکتا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی منانے میں بھی اُن کا اپنا انداز اس دور کے کلچر کی انفرادیت کا آئینہ دار تھا۔
2۔ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ثقافتی مظاہر

ہم یومِ پاکستان اور یومِ قائدِ اعظم مناتے ہیں، اس موقع پر جلوس نکالتے ہیں۔ یہ ہمارے علاقائی رسم و رواج کا حصہ ہے، اسے شرعی نہیں بلکہ ثقافتی نقطۂ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف پر خوشی منانا قرآن و سنت سے ثابت ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ مومن کا دل خوشی و انبساط سے لبریز ہوجائے، البتہ اس کے اظہار کے مختلف ثقافتی طریقے ہیں جن کا وقت کے ساتھ ساتھ بدلنا ناگزیر ہوتا ہے۔
(1) میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر جلوس نکالنا ثقافت کا حصہ ہے

اگر یومِ پاکستان منانا ثقافتی نقطۂ نظر سے درست ہے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کا دن جو انسانی تاریخ کا اہم ترین دن ہے کیوں نہ منایا جائے؟ اگر یومِ آزادی پر توپوں کی سلامی دی جاتی ہے تو میلاد کے دن کیوں نہ دی جائے؟ اس طرح اور موقعوں پر چراغاں ہوتا ہے تو یومِ میلاد پر چراغاں کیوں نہ کیا جائے؟ اگر قومی تہوار پر قوم اپنی عزت و افتخار کو نمایاں کرتی ہے تو حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے دن وہ بہ طور اُمت اپنا جذبہ افتخار کیوں نمایاں نہ کرے؟ جس طرح ان ثقافتی مظاہر پر کسی اِستدلال کی ضرورت نہیں اُسی طرح میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوس کے جواز پر بھی کسی اِستدلال کی ضرورت نہیں۔ خوشی اور احتجاج دونوں موقعوں پر جلوس نکالنا بھی ہمارے کلچر کا حصہ بن گیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر اگر ہم جلسہ و جلوس اور صلوٰۃ و سلام کا اہتمام کرتے ہیں تو اس کا شرعی جواز دریافت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

یہ پوچھا جاتا ہے کہ عرب کیوں جلوس نہیں نکالتے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عرب کے کلچر میں جلوس نہیں، جب کہ عجم کے کلچر میں ایسا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور مصر وغیرہ میں لوگ میلاد مناتے ہیں لیکن جلوس نکالنا ان کے کلچر میں بھی نہیں، جب کہ ہمارے ہاں تو ہاکی کے میچ میں کامیابی پر بھی جلوس نکالنا خوشی کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ جیتنے والی ٹیموں اور الیکشن جیتنے والے امیدواران کا استقبال جلوس کی شکل میں کیا جاتا ہے۔

لہٰذا جو عمل شریعت میں منع نہیں بلکہ مباح ہے اور ثقافتی ضرورت بن گیا ہے اور اس کا اصل مقصد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی منانا ہے تو اس پر اعتراض کرنے کی کیا گنجائش اور ضرورت ہے؟
(2) محفلِ میلاد میں کھڑے ہو کر سلام پڑھنا ثقافت کاحصہ ہے

برصغیر پاک و ہند میں لوگ محافل کے دوران میں کھڑے ہو کر صلوۃ و سلام پڑھتے ہیں جب کہ اہلِ عرب کے ہاں اکثر بیٹھ کر صلوۃ و سلام پڑھا جاتا ہے، لیکن مکہ مکرمہ میں اکثر لوگ قیام بھی کرتے ہیں۔ لہٰذا اِس پر بلا جواز اعتراض کرنا اور اسے باعثِ نزاع بنانا کوئی مستحسن اقدام نہیں۔ بحالتِ قیام صلوۃ و سلام کا اگرچہ شرعی جواز موجود ہے مگر اس کا دوسرا پہلو علاقائی اور ثقافتی ہے۔ یہ اپنے اپنے ذوق کی بات ہے، کوئی کھڑے ہو کر سلام پڑھتا ہے، کوئی بیٹھ کر سلام پڑھتا ہے۔ (محافل میلاد میں قیام کے موضوع پر مفصل گفتگو ہم باب نمبر 8 جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَجزائے تشکیلی میں کر چکے ہیں۔)
(3) میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آرائش و زیبائش ثقافت کا حصہ ہے

قرونِ اُولیٰ میں لوگوں کی طبیعت کے اندر نیکی اور خیر کے پہلو اتنے غالب ہوتے تھے کہ انہیں کسی اِہتمام کی ضرورت نہیں پڑتی تھی بلکہ حکم ہی کافی تھا۔ لیکن آج صورت حال بدل چکی ہے۔ حکم کے وہ اَثرات نہیں رہے اس لیے جامد طبیعتوں کو نیکی کی طرف راغب کرنے کے لیے مسجدیں خوبصورت بنانے کا رُحجان زور پکڑ گیاہے، جب کہ مساجد کی زیب و زینت کا قرآن و حدیث میں کہیں حکم نہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لیے ہے کہ ظاہری اَسباب رغبت کا باعث بنتے ہیں۔ اسی لیے فرمایا :

يَا بَنِي آدَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ.

’’اے اَولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو۔‘‘

الأعراف، 7 : 31

اس پہلو کا تعلق اَحکامِ شریعت سے نہیں ثقافت سے ہے۔ داڑھی کے بال سنوارنا، سرمہ ڈالنا، سر میں تیل لگانا، اچھے کپڑے زیب تن کرنا اَعمالِ سنت ہیں، اور ظاہری رغبت دلانے والی چیزیں ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِن اَفعال کی ترغیب دلائی ہے۔ اِسی لیے فرمایا :

من أکل من هذه البقلة فلا يقربن مساجدنا، حتي يذهب ريحها يعني الثوم.

’’جو شخص اِس ترکاری (یعنی لہسن، پیاز) کو کھائے وہ ہماری مساجد میں نہ آئے یہاں تک کہ اِس کی بو (اُس کے منہ سے) ختم ہو جائے۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب نهي من أکل ثوماً أو بصلاً أو کراثاً أو نحوهما، 1 : 394، رقم : 561
2. أبو داود، السنن، کتاب الأطعمة، باب في أکل الثوم، 3 : 160، 161، رقم : 3824، 3825

کیا لہسن، پیاز کھانے والا کسی قبیح جرم کا مرتکب ہوگیا ہے کہ اسے مسجد میں آنے سے روکا گیا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظاہری اَسباب کی بناء پر ہی فرمایا کہ اگر کوئی لہسن، پیاز کھا کر مسجد میں آئے گا تو مسجد میں بیٹھے لوگوں کی طبیعت میں اِنقباض پیدا ہوگا۔ جسمانی آرائش و زینت سے متعلقہ یہ اور اِس موضوع کی حامل دیگر احادیث ثابت کرتی ہیں کہ اسلام میں ظاہری اَسباب پیدا کیے جانے کو قرینِ حکمت اور قرینِ مصلحت سمجھا جاتا ہے۔

بدعت کی مبادیات اور جشنِ میلاد کے ثقافتی پہلؤوں کے بیان کے بعد اب ہم بدعت کا حقیقی تصور بیان کرتے ہیں :
بدعت کا حقیقی تصور

ذیل میں اَحادیثِ مبارکہ کی روشنی میں بدعت کا حقیقی مفہوم بیان کیا جا رہا ہے جس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ ’’مضمونِ بدعت کی احادیث‘‘ کا حقیقی اِطلاق کن کن بدعات پر ہوتا ہے :

1۔ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو ردّ.

’’جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو اِس میں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، کتاب الأقضية، باب نقض الأحکام الباطلة، 3 : 1343، رقم : 1718
2. ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب تعظيم حديث رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 1 : 7، رقم : 14
3. أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 270، رقم : 26372

2۔ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے ہی مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

من أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه فهو ردّ.

’’جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو اِس میں اَصلًا نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علي صلح جور، 2 : 959، رقم : 2550
2. ابو داؤد، السنن، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، 4 : 200، رقم : 4606

3۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

من عمل عملاً ليس عليه أمرنا فهو ردٌّ.

’’جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا کوئی اَمر موجود نہیں تو وہ مردود ہے۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، کتاب الأقضيه، باب نقض الأحکام الباطلة، 3 : 1343، رقم : 1718
2. أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 180، 256، رقم : 25511، 26234
3. دارقطني، السنن، 4 : 227، رقم : 81
مغالطہ کا اِزالہ اور فَھُوَ رَدٌّ کا درست مفہوم

مذکورہ بالا احادیث مبارکہ میں اَحْدَثَ، مَا لَيْسَ مِنْہُ اور مَا لَيْسَ فِيْہِ کے الفاظ قابلِ غور ہیں۔ عرف عام میں اَحْدَثَ کا معنی ’’دین میں کوئی چیز ایجاد کرنا‘‘ ہے، اور مَا لَيْسَ مِنْہُ کے الفاظ اَحْدَث کا مفہوم واضح کر رہے ہیں کہ اس سے مراد وہ چیز ایجاد کرنا ہے جو دین میں نہ ہو۔ حدیث کے اس مفہوم سے ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ اگر اَحْدَث سے مراد ’’دین میں کوئی نئی چیز پیدا کرنا‘‘ ہے تو پھر مَا لَيْسَ مِنْہُ (جو اس میں سے نہ ہو) یا مَا لَيْسَ فِيْہِ (جو اس میں اَصلًا نہ ہو) کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیوں کہ اگر وہ چیز دین میں سے تھی یعنی اس دین کا حصہ تھی تو اسے نئی نہیں کہا جاسکتا کہ محدثۃ (نئی چیز) تو کہتے ہی اسے ہیں جو پہلے دین میں موجود نہ ہو۔

اس سوال کے جواب میں کہا جائے گا کہ حدیث مذکورہ پر غور کرنے سے یہ معنی معلوم ہوتا ہے کہ ہر نیا کام مردود نہیں بلکہ صرف وہ نیا کام مردود ہوگا جو دین کا حصہ نہ ہو، جو نیا کام دین کے دائرے میں داخل ہو وہ مردود نہیں مقبول ہے۔ اس کی مزید وضاحت یوں ہوگی کہ من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ! فیہ فھو ردّ میں فھو ردّ کا اطلاق نہ صرف مَا لَيْسَ مِنْہُ پر ہوتا ہے اور نہ ہی فقط اَحْدَثَ پر بلکہ اس کا صحیح اطلاق اس صورت پر ہوگا جہاں دونوں چیزیں (اَحْدَثَ اور مَا لَيْسَ مِنْہُ! فِیہِ) جمع ہو جائیں یعنی مردود فقط وہی عمل ہوگا جو نیا بھی ہو اور جس کی کوئی اصل، مثال یا دلیل بھی دین میں نہ ہو اور نہ دین کی کسی جہت کے ساتھ اُس کا کوئی تعلق ہو۔ پس اس وضاحت کی روشنی میں کسی بھی محدثۃ کے بدعت و ضلالت قرار پانے کے لیے دو شرائط کا ہونا لازمی ہے :

1۔ دین میں اس کی کوئی اصل، مثال یا دلیل موجود نہ ہو۔

2۔ یہ محدثۃ نہ صرف دین کے مخالف اور متضاد ہو بلکہ دین کی نفی کرے اور اَحکامِ سنت کو توڑے۔

مذکورہ بالا تیسری حدیث شریف میں لَيْسَ عَلَيْہِ اَمْرُنَا سے عام طور پر یہ مراد لیا جاتا ہے کہ کوئی بھی کام خواہ وہ نیک اور اَحسن ہی کیوں نہ ہو (مثلاً ایصالِ ثواب، میلاد اور دیگر سماجی، روحانی اور اَخلاقی اُمور) اگر اس پر قرآن و سنت کی کوئی دلیل موجود نہ ہو تو یہ بدعت اور مردود ہے۔ یہ مفہوم غلط اور مبنی بر جہالت ہے کیوں کہ اگر یہ معنی مراد لے لیا جائے کہ جس کام کے کرنے پر اَمرِ قرآن و سنت نہ ہو وہ مردود اور حرام ہے تو پھر شریعت کے جملہ مباحات بھی قابلِ ردّ ہوجائیں گے۔

مذکورہ بالا اَحادیث پر غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ہر نیا کام مردود کے زمرہ نہیں آتا بلکہ صرف وہ نیا کام مردود ہوگا جس کی کوئی اَصل، مثال، ذکر، معرفت یا حوالہ. بالواسطہ یا بلا واسطہ. قرآن و سنت میں موجود نہ ہو اور اسے ضروریاتِ دین، (1) واجباتِ اسلام اور اَساسی عقائدِ شریعت میں اِس طرح شمار کر لیا جائے کہ اسے ’’اَساسیاتِ دین میں اِضافہ‘‘ سمجھا جانے لگے یا اُس سے دین اسلام کے بنیادی اصولوں میں اَصلًا کمی بیشی واقع ہو جائے۔ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کُلُّ بِدْعَة ضَلَالَة سے بھی یہی بدعت مراد ہے، نہ کہ ہر نئے کام کو ’’ضلالۃ‘‘ کہا جائے گا۔ یہی اِحداث فی الدین، اسلام کی مخالفت اور دین میں فتنہ تصور ہوگا۔

(1) ضروریاتِ دین ان چیزوں کو کہتے ہیں جن میں سے کسی ایک چیز کا انکار کرنے سے بھی انسان کافر ہو جاتا ہے۔

مذکورہ بالا بحث واضح کرتی ہے کہ جشن میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہرگز کوئی ایسا اَمر نہیں ہے جو قرآن و حدیث کے خلاف ہو بلکہ یہ ایک ایسا مبنی بر خیر اور مستحسن عمل ہے جو سراسر شریعت کے منشاء و مقصود کے عین مطابق ہے۔
عہدِ نبوی میں اِحداث فی الدین سے مراد

 ’’بدعت‘‘ اور ’’اِحداث فی الدین‘‘ (دین میں نئے کاموں کے آغاز) پر علمی و قیاسی گفتگو کی گئی کہ ہر وہ نیا کام جس پر دلیل شرعی موجود ہو شرعاً بدعت نہیں اگرچہ لغوی اعتبار سے وہ بدعت ہوگا۔ اب ان کی عملی و اِطلاقی صورت بیان کی جاتی ہے کہ وہ کون سے اُمور یا معاملات ہیں جن پر بدعات و محدثات کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس کے لیے ایک قاعدہ اور ضابطہ متعین ہونا چاہیے کہ قیامت تک کے لیے اِسی قاعدہ اور کلیہ کی کسوٹی پر کسی بھی معاملہ کو رکھ کر ہم یہ کہہ سکیں کہ یہ بدعت ضلالہ اور اِحداث فی الدین ہے۔ ذیل میں ہم اِس حوالہ سے چند روایات نقل کریں گے :

1۔ اِحداث فی الدین یعنی کفر و اِرتداد کے فتنوں کا آغاز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے فوری بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

أنا فرطکم علي الحوض وليرفعن رجال منکم، ثم ليختلجن دوني. فأقول : يا رب! أصحابي؟ فيقال : إنک لا تدري ما أحدثوا بعدک.

’’میں حوضِ کوثر پر تمہارا پیش رَو ہوں گا اور تم میں سے کچھ آدمی مجھ پر پیش کیے جائیں گے، پھر وہ مجھ سے جدا کر دیے جائیں گے، تو میں کہوں گا : اے میرے رب! کیا یہ میرے لوگ ہیں؟ تو کہا جائے گا : کیا آپ نہیں جانتے کہ اُنہوں نے آپ کے بعد (دین میں) کیا کیا نئی چیزیں نکالیں (یعنی نئے فتنے بپا کیے)؟‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الرقاق، باب في الحوض، 5 : 2404، رقم : 6205
2. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب إثبات حوض نبينا صلي الله عليه وآله وسلم، 4 : 1796، رقم : 2297
3. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 439، رقم : 4180

2۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :

قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : لا ألْفَينَّ ما نوزعْتُ أحداً منکم علي الحوض. فأقول : هذا من أصحابي. فيقال : إنک لا تدري ما أحدثوا بعدک. قال أبو الدرداء : يا نبي اﷲ! ادع اﷲ أن لا يجعلني منهم. قال : لست منهم.

’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تم میں سے کسی ایک کو نہ پاؤں جس کو میرے پاس حوض پر آنے سے روک دیا جائے تو میں کہوں : یہ میرے لوگوں میں سے ہیں۔ تو کہا جائے : کیا آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد (دین میں) کیا کیا نئے فتنے پیدا کیے؟ ابو درداء رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اے اﷲ کے نبی! آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ میں ان میں سے نہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم ان میں سے نہیں ہو۔‘‘

1. طبراني، المعجم الأوسط، 1 : 125، رقم : 397
2. طبراني، مسند الشاميين، 2 : 311، رقم : 1405
3. ابن أبي عاصم، السنة، 2 : 357، رقم : 767
4. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 1 : 50، رقم : 129
5. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 9 : 367، 10 : 365

اِس حدیث مبارکہ میں الفاظ لست منھم (تم ان میں سے نہیں ہو) سے پتہ چلا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فتنہ پروروں کو جانتے تھے، اِس لیے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے فرما دیا کہ وہ ان میں سے نہیں ہیں، دین میں بدعات کا آغاز کرنے والے اور لوگ ہیں۔

3۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : إني ممسک بحجزکم هلمّ عن النار، وأنتم تهافتون فيها أو تقاحمون تقاحم الفراش في النار والجنادب يعني في النار، وأنا ممسک بحجزکم، وأنا فرط لکم علي الحوض، فتردون علي معاً وأشتاتاً، فأعرفکم بسيماکم، وأسمائکم کما يعرف الرجل الفرس. وقال غيره : کما يعرف الرجل الغريبة من الإبل في إبله. فيؤخذ بکم ذات الشمال، فأقول : إليّ يا رب! أمتي أمتي. فيقول أو يقال : يا محمد! إنک لا تدري ما أحدثوا بعدک، کانوا يمشون بعدک القهقري.

’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں تمہیں کمر سے پکڑ کر آگ سے روکنے والا ہوں اور تم اس میں ایک دوسرے سے بڑھ کر گرتے ہو۔ یا (فرمایا : ) تم پروانوں اور ٹڈیوں کی طرح آگ میں گرتے ہو اور میں تمہیں کمر سے پکڑنے والا ہوں اور میں حوضِ کوثر پر تمہارا پیش رَو ہوں گا، پس تم میرے پاس اکیلے اور گروہ در گروہ آؤ گے تو میں تمہاری نشانیوں اور ناموں سے تمہیں ایسے پہچانتا ہوں گا جیسے آدمی اپنے گھوڑے کو پہچانتا ہے۔ (اور اس راوی کے علاوہ نے کہا : ) جیسے ایک آدمی اجنبی اونٹ کو اپنے اونٹوں میں پہچان لیتا ہے۔ پس تمہیں بائیں طرف سے لے جایا جائے گا تو میں کہوں گا : اے میرے رب! میری امت! میری امت! تو وہ فرمائے گا یا کہا جائے گا : اے محمد! آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد (دین میں) کیا کیا نئے فتنے پیدا کیے؟ وہ آپ کے بعد الٹے پاؤں پھر گئے تھے یعنی مرتد ہوگئے تھے۔‘‘

1. بزار، البحر الزخار (المسند)، 1 : 314، 315، رقم : 204
2. قضاعي، مسند الشهاب، 2 : 175، رقم : 1130
3. سدوسي، مسند عمر بن الخطاب رضي الله عنه، 1 : 84
4. منذري، الترغيب و الترهيب من الحديث الشريف، 1 : 318، رقم : 1169
5. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 3 : 85

اِسی مضمون کی اور بھی بہت سی اَحادیث وارد ہوئی ہیں جن میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد قریبی زمانہ میں ’’اِحداث‘‘ کا ذکر ہے اور اِحداث سے مراد دین میں ایسے بڑے فتنوں کا اِجراء لیا گیا ہے جو دین کو ہی بدل دیں۔ علاوہ ازیں احادیث مبارکہ سے اس امر کی نشان دہی بھی ہوتی ہے کہ خلفائے راشدین کے دور میں محدثات الامور اِرتداد کے فتنوں کی شکل میں ظاہر ہوئے، ان کا ارتکاب کرنے والے وہ تھے جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں اِسلام قبول کر لیا اور بعد میں مرتدین، منکرینِ زکوٰۃ، جھوٹے مدعیانِ نبوت اور خوارج میں شامل ہوگئے۔ ہمارے اس مؤقف کی تائید حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعدد احادیث مبارکہ سے ہوتی ہے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :

4۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں :

قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : تحشرون حفاة عراة غرلاً، ثم قرأ (كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ)(1) فأول من يُکسي إبراهيم، ثم يؤخذ برجال من أصحابي ذات اليمين وذات الشمال. فأقول : أصحابي. فيقال : إنهم لم يزالوا مرتدّين علي أعقابهم منذ فارقتهم. فأقول : کما قال العبد الصالح عيسي بن مريم : (وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌO إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.) (2)

قال محمد بن يوسف : ذُکر عن أبي عبد اﷲ، عن قبيصة، قال : هم المرتدون الذين ارتدّوا علي عهد أبي بکر، فقاتلهم أبوبکر رضي الله عنه. (3)

’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم ننگے پاؤں، ننگے بدن، غیر مختون حالت میں جمع کیے جاؤ گے۔ پھر آیت مبارکہ تلاوت کی : (جس طرح ہم نے (کائنات کو) پہلی بار پیدا کیا تھا، ہم (اس کے ختم ہو جانے کے بعد) اُسی عمل تخلیق کو دہرائیں گے۔ یہ وعدہ پورا کرنا ہم نے لازم کر لیا ہے۔ ہم (یہ اِعادہ) ضرور کرنے والے ہیںo) پس سب سے پہلے اِبراہیم کو (خلعت) پہنائی جائے گی، پھر میرے لوگوں کو دائیں اور بائیں سے پکڑا جائے گا تو میں کہوں گا : کیا یہ میرے لوگ ہیں؟ تو کہا جائے گا : جب سے آپ ان سے جدا ہوئے ہیں، بے شک وہ الٹے پاؤں دین سے پھر کر مرتد ہوگئے ہیں۔ تومیں کہوں گا : جیسا اللہ کے صالح بندہ عیسیٰ بن مریم نے کہا : (اور میں اُن (کے عقائد و اَعمال) پر (اُس وقت تک) خبردار رہا جب تک میں ان لوگوں میں موجود رہا۔ پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان (کے حالات) پر نگہبان تھا اور تو ہر چیز پر گواہ ہےo اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے (ہی) بندے ہیں، اور اگر تو انہیں بخش دے تو بے شک تو ہی بڑا غالب حکمت والا ہےo)

’’محمد بن یوسف کہتے ہیں کہ ابو عبد اللہ سے ذکر کیا گیا، وہ قبیصہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا : یہ وہی مرتدین ہیں جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں دین سے پھر گئے تھے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے قتال کیا تھا۔‘‘

(1) الأنبياء، 21 : 104

(2) المائدة، 5 : 117، 118

(3) 1. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ : واذکر في الکتاب مريم إذ انتبذت من أهلها، 3 : 1271، 1272، رقم : 3263
2. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ : واتخذ اﷲ إبراهيم خليلا، 3 : 1222، رقم : 3171
3. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب صفة القيامة، باب ما جاء في شأن الحشر، 4 : 615، رقم : 2423

5۔ حضرت اَسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اﷲ عنہما روایت کرتی ہیں :

قال النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم : إني علي الحوض حتي أنظر من يرد علي منکم، وسيؤخذ ناس دوني. فأقول : يارب! مني ومن أمتي؟ فيقال : هل شعرت ما عملوا بعدک؟ واﷲ! ما برحوا يرجعون علي أعقابهم.

فکان بن أبي مليکة يقول : اللّهم! إنا نعوذ بک أن نرجع علي أعقابنا أو نفتن عن ديننا.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں حوض پر ہوں گا یہاں تک کہ تم میں سے اپنے پاس آنے والوں کو دیکھوں گا، اور عنقریب کچھ لوگوں کو میرے پاس آنے سے روک دیا جائے گا۔ پس میں کہوں گا : اے میرے رب! کیا یہ مجھ سے اور میری امت سے ہیں؟ تو کہا جائے گا : آپ یقیناً جانتے تو ہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا؟ اللہ کی قسم! وہ (دین سے) الٹے پاؤں پھر گئے تھے۔

’’ابن ابی ملیکہ کہا کرتے تھے : اے اللہ! بے شک ہم (دین سے) الٹے پاؤں پھرنے سے تیری پناہ چاہتے ہیں یا اس سے کہ ہم اپنے دین کے بارے آزمائش میں ڈالے جائیں۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الرقاق، باب في الحوض، 5 : 2409، رقم : 6220
2. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب إثبات حوض نبينا صلي الله عليه وآله وسلم وصفاته، 4 : 1794، رقم : 2293

6۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں :

قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : أنا علي الحوض أنظر من يرد علي، فيؤخذ ناس دوني. فأقول : يارب! مني ومن أمتي؟ فيقال : وما يدريک ما عملوا بعدک؟ ما برحوا بعدک يرجعون علي أعقابهم.

’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں حوضِ کوثر پر اپنے پاس آنے والوں کو دیکھوں گا، تو کچھ لوگوں کو مجھ سے دور کر دیا جائے گا۔ پس میں کہوں گا : اے میرے رب! کیا یہ مجھ سے ہیں اور میرے امتی ہیں؟ تو کہا جائے گا : کیا آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا؟ وہ آپ کے بعد (دین سے) الٹے پاؤں پھر گئے تھے۔‘‘

1. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 384، رقم : 15161
2. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 10 : 364

مذکورہ بالا اَحادیث مبارکہ سے ہمارا موقف کہ محدثات الامور سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد نمودار ہونے والے فتنے ہیں جو کہ ارتداد کی شکل میں ظاہر ہوئے درج ذیل نکات سے مزید واضح ہوتا ہے :

1۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی حدیث مبارکہ کے اگلے حصہ میں ہمارے موقف پر مرفوع متصل روایت موجود ہے کہ ’’إنهم لم يزالوا مرتدين علي أعقابهم منذ فارقتهم (جونہی آپ ان سے جدا ہوئے وہ اپنی ایڑیوں کے بل دین سے پھر رہے ہیں)۔‘‘ پس اِحداث کے مرتکب لوگوں کو حدیث میں صراحتًا مرتدین کہا گیا ہے۔

2۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی حدیث کے آخر میں امام بخاری نے محدث قَبِیصہ بن عقبہ کا درج ذیل قول نقل کیا ہے جو ہمارے موقف کا مؤید ہے :

هم المرتدّون الذين ارتدّوا علي عهد أبي بکر، فقاتلهم أبوبکر رضي الله عنه.

’’(ان سے مراد) وہ مرتدین ہیں جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں دین سے پھر گئے تھے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے قتال کیا تھا۔‘‘

3۔ امام بخاری نے ہی حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اﷲ عنہما سے مروی روایت بیان کرنے کے بعد ابن ابی ملیکہ تابعی کا قول نقل کیا ہے۔ ابن ابی ملیکہ فرمایا کرتے تھے :

اللّهم! إنا نعوذ بک أن نرجع علي أعقابنا أو نفتن عن ديننا.

’’اے اللہ! بے شک ہم (دین سے) الٹے پاؤں پھرنے سے تیری پناہ چاہتے ہیں یا اس سے کہ ہم اپنے دین کے بارے آزمائش میں ڈالے جائیں۔‘‘

4۔ مذکورہ حدیث مبارکہ میں ما برحوا یرجعون علی اعقابھم (وہ (دین سے) اُلٹے پاؤں پھر گئے تھے)، یا ما برحوا بعدک یرجعون علی اعقابھم (وہ آپ کے بعد (دین سے) الٹے پاؤں پھر گئے تھے) سے بھی ہمارے بیان کردہ معنی کی تائید ہوتی ہے۔

5۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تو ابو درداء رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا نبی اللہ! آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ میں ان میں سے نہ ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم ان میں سے نہیں ہو۔‘‘

امام طبرانی اپنی کتاب ’’مسند الشامیین (2 : 311، رقم : 1405)‘‘ میں اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

فمات قبل عثمان بسنتين.

’’وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے وصال سے دو سال قبل وفات پاگئے۔‘‘

اِس سے معلوم ہوا کہ اِحداث فی الدین سے مراد خلفائے راشدین کے دور میں وقوع پذیر ہونے والا فتنۂ اِرتداد تھا۔

6۔ زیرِ نظر مؤقف کی وضاحت کرنے کے لیے ایک اور روایت نہایت ہی اہم ہے جسے امام حاکم نے ’’المستدرک علی الصحيحین‘‘ میں کبیر تابعین میں سے ایک تابعی حسین بن خارجہ سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے فتنہ اولی کے بعد اپنا ایک خواب بیان کیا ہے جس میں وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مکالمہ ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے اپنی امت کے لیے دعائے مغفرت کے لیے کہا تو انہوں نے فرمایا :

إنک لا تدري ما أحدثوا بعدک، أراقوا دماء هم وقتلوا إمامهم.

’’کیا آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد (دین میں) کیا کیا محدثات (یعنی فتنے) بپا کیے؟ انہوں نے اپنوں کا خون بہایا ہے اور اپنے امام کو قتل کیا ہے۔‘‘

حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 4 : 499، رقم : 8394

حافظ ابن حجر عسقلانی نے ’’الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (2 : 172، رقم : 1979)‘‘ اور ابن عبد البر نے ’’التمہید لما فی الموطا من المعانی والاسانید (19 : 222)‘‘ میں اِمام حاکم کی بیان کردہ روایت میں مذکور ’’الفتنۃ الاولی‘‘ کے الفاظ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے موقع پر اُمتِ مسلمہ میں پیدا ہونے والا فتنہ مراد لیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والے فتنہ پرور لوگ ہی دین میں بدعت کے مرتکب ہوئے اور یہی لوگ بدعتی کہلائے۔ یہی وہ فتنہ پرور، متعصب اور انتہاء پسند لوگ تھے جو جنگِ صفین کے بعد خارجی گروہ پیدا کرنے کی بنیاد بنے۔
عہدِ خلفائے راشدین میں رُونما ہونے والے محدثات الامور

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے فوراً بعد عہدِ خلفائے راشدین کے زمانہ میں جو بڑے بڑے ’’محدثات‘‘ (دین میں نئے فتنے) پیدا ہوئے۔ جن کو بدعات کہا گیا اور جن کے خلاف جہاد بالسیف کیا گیا۔ درج ذیل ہیں:
1۔ فتنہ دعویء نبوت کو اِحداث فی الدین قرار دیا گیا

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے فوری بعد جھوٹے مدعیان نبوت کا فتنہ ظاہر ہوا اور ان کا یہ دعویء نبوت ’’احداث فی الدین‘‘ تھا۔ اَسود بن عنزہ عنسی، طلیحہ اَسدی اور مسیلمہ کذاب جیسے جھوٹی نبوت کے دعوے داروں کے خلاف حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے لشکر روانہ کیے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے ان کے خلاف جہاد کیا۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔