Wednesday 4 November 2015

نبی کریم رؤف الرّحیم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ پہاڑوں کی محبت

0 comments
نبی کریم رؤف الرّحیم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ پہاڑوں کی محبت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ رضی الله عنه قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ النَّبِيِ صلی الله عليه واله وسلم مِنْ غَزْوَةِ تَبُوْکَ حَتَّی إِذَا أَشْرَفْنَا عَلَی الْمَدِيْنَةِ قَالَ: هَذِهِ طَابَةُ وَهَذَا أُحُدٌ جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم غزوہ تبوک سے واپسی کے دوران حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ جب ہم مدینہ منورہ کے نزدیک پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: یہ طابہ (یعنی مدینہ منورہ) ہے اور یہ اُحد پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

 أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب نزول النبي صلی الله عليه واله وسلم الحجر، 4 /1610، الرقم: 4160، وفي کتاب: الزکاة، باب: خرص التمر، 2 /539، الرقم: 1411، ومسلم في الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: في معجزات النبي صلی الله عليه واله وسلم ، 4 /1785، الرقم: 1392، وفي کتاب: الحج، باب: أحد جبل يحبنا ونحبه، 2 /1011، الرقم: 1392، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 /423، الرقم: 37006، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 /424، الرقم: 23652، وابن حبان في الصحيح، 10 /355، والبيھقي في السنن الکبری، 6 /372، الرقم: 12889، وأبو نعيم في دلائل النبوة: 171، الرقم: 212.
-----------------------------------------------------------------------------------------
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: صَعِدَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم إِلَی أُحُدٍ وَمَعَهُ أَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ. فَرَجَفَ بِهِمْ فَضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ وَقَالَ: اثْبُتْ أُحُدُ. فَمَا عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَهِيْدَانِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ يَعْلَی.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوہِ اُحد پر چڑھے اور آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان تھے۔ پہاڑ کو وجد آیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے اپنے پاؤں کے ساتھ ٹھوکر مارتے ہوئے فرمایا: اُحد ٹھہر جا! تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا اور کوئی نہیں۔اس حدیث کو امام بخاری، ابن حبان اور ابویعلی نے روایت کیا ہے۔

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب، باب: مناقب عمر بن الخطاب أبي حفص القرشي العدوي، 3 /1348، الرقم: 3483، وأبو يعلی في المسند، 13 /509، 510، الرقم: 7518، وابن حبان في الصحيح، 14 /415، الرقم: 6492، وابن أبي عاصم في السنة، 2 /621، الرقم: 1440 وأبو حاتم في الثقات، 2 /242.
-----------------------------------------------------------------------------------------
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم کَانَ عَلَی حِرَاءٍ هُوَ وَأَبُوْبَکْرِ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ فَتَحَرَّکَتِ الصَّخْرَةُ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : اهْدَأْ، فَمَا عَلَيْکَ إلاَّ نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَهِيْدٌ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم حرا پہاڑ پر تشریف فرماتھے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر بھی تھے۔ اتنے میں پہاڑ نے حرکت کی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ٹھہر جا، کیونکہ تیرے اوپر نبی، صدیق اور شہید کے سوا کوئی نہیں ہے۔
اسے امام مسلم اور امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: من فضائل طلحة والزبير، 4 /1880، الرقم: 2417، والترمذي في السنن، کتاب: المناقب، باب: في مناقب عثمان بن عفان، 5 / 624، الرقم: 3696.
-----------------------------------------------------------------------------------------
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم کَانَ عَلَی جَبَلِ حِرَاءٍ فَتَحَرَّکَ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : اسْکُنْ حِرَاءُ، فَمَا عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَهِيْدٌ وَعَلَيْهِ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم حرا پہاڑ پر تھے، وہ ہلنے لگا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے حرا ٹھہرجا! تجھ پر صرف نبی ہے، یا صدیق ہے، یا شہید ہے۔ اس پہاڑ پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تھے اور حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت سعد بن ابی وقاص تھے۔
اس حدیث کو امام مسلم، ابو داود اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: من فضائل طلحة والزبير، 4 /1880، الرقم: 2417، وأبو داود عن سعيد بن زيد في السنن، کتاب: السنة، باب: في الخلفاء، 4 /211، الرقم: 4648، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 /351، الرقم: 31948، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 /419، الرقم: 9420، والنسائي في السنن الکبری، 5 /55، الرقم: 8190.
-----------------------------------------------------------------------------------------
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم عَلَی حِرَاءٍ فَتَزَلْزَلَ الْجَبَلُ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم اثْبُتْ حِرَاءُ مَا عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَهِيْدٌ وَعَلَيْهِ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَسَعِيْدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ. رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلَی وَالطَّبَرَانِيُّ.

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جبلِ حراء پر تھے کہ وہ کانپنے لگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے حراء ٹھہرجا، تجھ پر سوائے نبی، صدیق یا شہید کے کوئی نہیں۔ اور اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر عبد الرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص اور سعید بن زید بن عمرو بن نفیل تھے۔
اس حدیث کو امام ابو یعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

أخرجه أبو يعلی في المسند، 4 /333، الرقم: 2445، والطبراني في المعجم الکبير، 11 /159، الرقم: 11671، وابن أبي عاصم في السنة، 2 /622، الرقم: 1446، والطبري في الرياض النضرة، 1 /222.
-----------------------------------------------------------------------------------------
عبد اللہ بن ظالم مازنی کا بیان ہے کہ میں نے حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے سنا۔ عبد اللہ کا بیان ہے کہ جب فلاں کوفے میں آیا اور اُس نے فلاں کو خطبہ دینے کے لیے کھڑا کیا تو حضرت سعید بن زید نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: کیا تم اس ظالم کو نہیں دیکھتے۔ نو (9) حضرات کے متعلق تو میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ جنتی ہیں اور اگر دسویں کے متعلق بھی گواہی دوں تو گنہگار نہیں ہوں گا۔ میں عرض گزار ہوا کہ وہ نو حضرات کون ہیں؟ ارشاد ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جبکہ آپ حراء کے اوپر تھے: اے حراء ٹھہر جا کیونکہ تیرے اوپر نبی، صدیق اور شہیدوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ نو حضرات کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد بن ابی وقاص اور عبد الرحمن بن عوف ہیں۔ میں عرض گزار ہوا کہ دسواں کون ہے؟ وہ کچھ دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا کہ میں ہوں۔

أخرجه أبو داود في السنن، کتاب: السنة، باب: في الخلفاء، 4 /211، الرقم: 4648، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 /351، الرقم: 31948، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 /188، الرقم: 1638، والبزار في المسند، 4 /91، الرقم: 2163، والنسائي في السنن الکبری، 5 /55، الرقم: 8190، وابن حبان في الصحيح، 15 /457، الرقم: 6996، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 /273، الرقم: 890.
-----------------------------------------------------------------------------------------
عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ قَالَ: لَمَّا حُصِرَ عُثْمَانُ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ فَوْقَ دَارِهِ ثُمَّ قَالَ: أُذَکِّرُکُمْ بِاﷲِ هَلْ تَعْلَمُوْنَ أَنَّ حِرَاءَ حِيْنَ انْتَفَضَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : اثْبُتْ حِرَاءُ، فَلَيْسَ عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيْدٌ قَالُوْا: نَعَمْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ والنَّسَائِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْ عِيسَی: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

حضرت ابو عبد الرحمن سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کیا گیا تو آپ مکان کے اوپر سے لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر یاد دلاتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ جب حراء پہاڑ حرکت کرنے لگا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: حراء ٹھہر جا تجھ پر نبی، صدیق اور شہید کے سوا کوئی نہیں۔ حاضرین نے کہا: ہاں۔
اس حدیث کو امام ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ اور امام ابو عیسیٰ نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب، باب: في مناقب عثمان بن عفان، 5 /625، الرقم: 3699، والنسائي في السنن، کتاب: الأحباس، باب: وقف المساجد، 6 /236، الرقم: 3609، وابن حبان، 15 /348، الرقم: 6916، والدارقطني في السنن، 4 /198، 199، الرقم: 8، 11، والبيهقي في السنن الکبری، 6 /167، الرقم: 11714، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 482، الرقم: 358، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 /540، الرقم: 2198.
-----------------------------------------------------------------------------------------
حضرت ثمامہ بن حزم قشیری بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دولت کدہ کے پاس آیا۔ اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ گھر کے اوپر سے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرما رہے تھے۔۔۔۔۔میں تمہیں اللہ تعالیٰ اور اسلام کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ثبیرِ مکہ پر تھے اور آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر، عمر اور میں بھی تھا۔ پہاڑ متحرک ہوا یہاں تک کہ اس کے پتھر نیچے گرنے لگے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پائوں کی ٹھوکر مار کر فرمایا ٹھہر ثبیر! ٹھہر جا، کیونکہ تیرے اُوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔ محاصرین نے کہا ہاں (ٹھیک ہے)۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ اکبر! ان لوگوں نے میرے حق میں گواہی دی۔ رب کعبہ کی قسم میں شہید ہوں، تین مرتبہ فرمایا۔

اس حدیث کو امام ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ اور امام ابو عیسیٰ نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔عا

قاضی ابو بکر بن العربی رحمہ اﷲ تعالی ’’عارضہ‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ بے شک چٹان تھرتھرانے لگی اور پہاڑ لرزاں ہوگئے، اُس شرف کو بڑا جانتے ہوئے جو اشرافِ عرب کاان پر جلوہ افروز ہونے سے انہیں ملا۔

ابن منیر نے - امام قسطلانی رحمہما اﷲ تعالی نے جو کچھ نقل کیا ہے - کے بارے میں ’’الارشاد‘‘ میں بیان کیا ہے کہ اس چیز میں جو حکمت پنہاں ہے وہ یہ ہے کہ جب وہ پہاڑ لرزاں ہوا تو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے چاہا کہ وہ یہ بیان فرما دیں کہ یہ وہ لرزہ اور تھرتھراہٹ نہیں ہے جو قوم موسیٰ پر پہاڑ کی ہوئی تھی جب انہوں نے حکمات میں تحریف کے جرم کا ارتکاب کیا، پس وہ تھرتھراہٹ غضب کی تھی، اور یہ خوشی اور قرب کی تھی، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مقام نبوت، صدیقیت اور شہادت کو بیان فرما دیا، جو موجب سرور و فرحت ہیں، پس پہاڑ نے بھی اس چیز کا اقرار کیا اور پھر استقرار پکڑ لیا۔

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب، باب: في مناقب عثمان بن عفان رضی الله عنه، 5 /627، الرقم: 3703، والنسائي في السنن، کتاب: الأحباس، باب: وقف المساجد، 6 /235، الرقم: 3608، وفي السنن الکبري، 4 /97، الرقم: 6435، والدارقطني في السنن، 4 /196، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 /446، 447، الرقم: 321، 322، وابن أبي عاصم في السنة، 2 /594، الرقم:1305.
رضة الأحوذي، 13 /151-154. إرشاد الساري، 6 /97، ولامع الدراري، 6 /97.

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔