Friday 20 November 2015

جشنِ عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اَئمہ و محدثین کی نظر میں حصّہ دوم

0 comments
جشنِ عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اَئمہ و محدثین کی نظر میں حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اِمام ذہبی ملک المظفر کے جشنِ میلاد منانے کے بارے میں لکھتے ہیں :

و أما احتفاله بالمَوْلِد فيقصر التعبير عنه؛ کان الخلق يقصدونه من العراق والجزيرة . . . و يُخْرِجُ من البَقَر والإبل والغَنَم شيئاً کثيراً فَتُنْحَر وتُطْبَخ الألوان، ويَعْمَل عِدّة خِلَع للصُّوفية، ويتکلم الوُعّاظ في الميدان، فينفق أموالاً جزيلة. وقد جَمَعَ له ابن دحية ’’کتاب المولد‘‘ فأعطاه ألف دينار. وکان مُتواضعًا، خيراً، سُنّ. يّاً، يحب الفقهاء والمحدثين. . . . وقال سِبط الجوزي : کانَ مُظفّر الدِّين ينفق في السنة علي المولد ثلاث مائة ألف دينار، وعلي الخانقاه مائتي ألف دينار. . . . وقال : قال من حضر المولد مرّة عددت علي سماطه مائة فرس قشلميش، وخمسة آلاف رأس شوي، و عشرة آلاف دجاجة، مائة ألف زُبدية، و ثلاثين ألف صحن حلواء.

’’اَلفاظ ملک المظفر کے محفلِ میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کا انداز بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ جزیرۂ عرب اور عراق سے لوگ کشاں کشاں اس محفل میں شریک ہونے کے لیے آتے۔ ۔ ۔ اور کثیر تعداد میں گائیں، اونٹ اور بکریاں ذبح کی جاتیں اور انواع و اقسام کے کھانے پکائے جاتے۔ وہ صوفیاء کے لیے کثیر تعداد میں خلعتیں تیار کرواتا اور واعظین وسیع و عریض میدان میں خطابات کرتے اور وہ بہت زیادہ مال خیرات کرتا۔ ابن دحیہ نے اس کے لیے ’’میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ کے موضوع پر کتاب تالیف کی تو اس نے اسے ایک ہزار دینار دیئے۔ وہ منکسر المزاج اور راسخ العقیدہ سنی تھا، فقہاء اور محدثین سے محبت کرتا تھا۔ سبط الجوزی کہتے ہیں : شاہ مظفر الدین ہر سال محفلِ میلاد پر تین لاکھ دینار خرچ کرتا تھا جب کہ خانقاہِ صوفیاء پر دو لاکھ دینار خرچ کرتا تھا۔ اس محفل میں شریک ہونے والے ایک شخص کا کہنا ہے کہ اُس کی دعوتِ میلاد میں ایک سو (100) قشلمیش گھوڑوں پر سوار سلامی و اِستقبال کے لیے موجود تھے۔ میں نے اُس کے دستر خوان پر پانچ ہزار بھنی ہوئی سِریاں، دس ہزار مرغیاں، ایک لاکھ دودھ سے بھرے مٹی کے پیالے اور تیس ہزار مٹھائی کے تھال پائے۔‘‘

1. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 16 : 274، 275
2. ذهبي، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام (621 - 630ه)، 45 : 402 - 405

12. امام کمال الدین الادفوی (685۔ 748ھ)

اِمام کمال الدین ابو الفضل جعفر بن ثعلب بن جعفر الادفوی (1286۔ 1347ء) ’’الطالع السعید الجامع لاسماء نجباء الصعید‘‘ میں فرماتے ہیں :

حکي لنا صاحبنا العدل ناصر الدين محمود بن العماد أن أبا الطيب محمد بن إبراهيم السبتي المالکي نزيل قوص، أحد العلماء العاملين، کان يجوز بالمکتب في اليوم الذي ولد فيه النبي صلي الله عليه وآله وسلم، فيقول : يا فقيه! هذا يوم سرور، اصرف الصبيان، فيصرفنا.

وهذا منه دليل علي تقريره وعدم إنکاره، وهذا الرجل کان فقيهاً مالکيّا متفنّناً في علوم، متورّعاً، أخذ عنه أبو حيان وغيره، مات سنة خمس وتسعين وستمائة.

’’ہمارے ایک مہربان دوست ناصر الدین محمود بن عماد حکایت کرتے ہیں کہ بے شک ابو طیب محمد بن ابراہیم سبتی مالکی۔ جو قوص کے رہنے والے تھے اور صاحبِ عمل علماء میں سے تھے۔ اپنے دارا لعلوم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے دن محفل منعقد کرتے اور مدرسے میں چھٹی کرتے۔ وہ (اساتذہ سے) کہتے : اے فقیہ! آج خوشی و مسرت کا دن ہے، بچوں کو چھوڑ دو۔ پس ہمیں چھوڑ دیا جاتا۔

’’ان کا یہ عمل ان کے نزدیک میلاد کے اِثبات و جواز اور اِس کے عدم کے اِنکار پر دلیل و تائید ہے۔ یہ شخص (محمد بن ابراہیم) مالکیوں کے بہت بڑے فقیہ اور ماہرِ فن ہو گزرے ہیں جو بڑے زُہد و ورع کے مالک تھے۔ علامہ ابوحیان اور دیگر علماء نے ان سے اِکتسابِ فیض کیا ہے اور انہوں نے 695ھ میں وفات پائی۔‘‘

1. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 66، 67
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206
3. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 238

13۔ اِمام تقی الدین ابو الحسن السبکی (683۔ 756ھ)

اِمام تقی الدین ابو الحسن علی بن عبد الکافی السبکی (1284۔ 1355ء) کے بارے میں شیخ اِسماعیل حقی (1063۔ 1137ھ) فرماتے ہیں:

وقد اجتمع عند الإمام تقي الدين السبکي جمع کثير من علماء عصره، فأنشد منشد قول الصرصري في مدحه عليه السلام :

قليل لمدح المصطفي الخط بالذهب
علي ورق من خط أحسن من کتب

وإن تنهض الأشراف عند سماعه
قياما صفوفا أو جثيا علي الرکب

1. اِسماعيل حقي، تفسير روح البيان، 9 : 56
2. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المأمون، 1 : 84

’’اِمام تقی الدین سبکی کے ہاں اُن کے معاصر علماء کا ایک کثیر گروہ جمع ہوتا اور وہ سب مل کر مدحِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اِمام صرصری حنبلی کے درج ذیل اشعار پڑھتے :

(حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں چاندی کے ورق پر سونے کے پانی سے اچھے خوش نویس کے ہاتھ سے نہایت خوبصورت انداز میں لکھنا بھی کم ہے، اور یہ بھی کم ہے کہ دینی شرف والے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر جمیل کے وقت صفیں بنا کر کھڑے ہوجائیں یا گھٹنوں کے بل بیٹھ جائیں۔)

14۔ اِمام عماد الدین بن کثیر (701۔ 774ھ)

اِمام حافظ عماد الدین ابو الفداء اسماعیل بن کثیر (1301۔ 1373ء) ایک نام وَر مفسر، محدث، مؤرّخ اور فقیہ تھے۔ آپ کی تحریر کردہ ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘ ایک مستند تفسیر ہے۔ آپ نے ’’جامع المسانید والسنن‘‘ میں اَحادیث کا ایک وسیع ذخیرہ جمع کیا ہے۔ تاریخ کے میدان میں آپ کی ’’البدایۃ والنہایۃ‘‘ کے نام سے ایک ضخیم تصنیف موجود ہے۔ اِس کتاب میں اُنہوں نے شاہِ اِربل ابو سعید المظفر کے جشنِ میلاد کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ اس کے علاوہ اِمام ابن کثیر نے ’’ذکر مولد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ورضاعہ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ بھی تالیف کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں :

أول ما أرضعته ثويبة مولاة عمّه أبي لهب، وکانت قد بشرت عمه بميلاده فأعتقها عند ذلک، ولهذا لما رآه أخوه العباس بن عبد المطلب بعد ما مات، ورآه في شرّ حالة، فقال له : ما لقيت؟ فقال : لم ألق بعدکم خيراً، غير أني سقيت في هذه. وأشار إلي النقرة التي في الإبهام. بعتاقتي ثويبة.

وأصل الحديث في الصحيحين.

فلما کانت مولاته قد سقت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، من لبنها عاد نفع ذلک علي عمه أبي لهب، فسقي بسبب ذلک، مع أنه الّذي أنزل اﷲ في ذمّه سورة في القرآن تامة.

’’سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا ابو لہب کی کنیز ثویبہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ پلایا تھا۔ اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس چچا کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوش خبری دی تو اُس نے (اِس خوشی میں) اُسی وقت اُسے آزاد کر دیا۔ پس جب اُس کے مرنے کے بعد اُس کے بھائی حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے اُسے خواب میں بری حالت میں دیکھا تو پوچھا : تیرا کیا حال ہے؟ پس اُس نے کہا : تم سے بچھڑنے کے بعد مجھے کوئی سکون نہیں ملا۔ اور اپنی شہادت کی انگلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا۔ سوائے اس کے کہ ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے مجھے اِس سے پانی پلایا جاتا ہے۔ ’’اصل حدیث ’’صحیحین‘‘ میں ہے۔

’’پس جب اُس کی خادمہ نے دودھ پلایا تو اُس کے دودھ پلانے کے نفع سے اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا ابو لہب کو محروم نہ رکھا، بلکہ اِس وجہ سے (اُس پر فضل فرماتے ہوئے) ہمیشہ کے لیے اُس کی پیاس بجھانے کا اِنتظام فرما دیا حالاں کہ اِسی چچا کی مذمت میں قرآن حکیم میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی تھی۔‘‘

ابن کثير، ذکر مولد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ورضاعه : 28، 29

سلطان صلاح الدین ایوبی کے بہنوئی شاہ ابوسعید المظفر کا جشنِ میلاد

شاہ ابوسعید المظفر (م 630ھ) عظیم فاتح سلطان صلاح الدین ایوبی (532۔ 589ھ / 1138۔ 1193ء) کے بہنوئی تھے۔ سلطان کی حقیقی ہمشیرہ ربیعہ خاتون ملک ابو سعید المظفر کے عقد میں تھیں اور سلطان بادشاہ سے بغایت درجہ محبت رکھتے تھے۔ وہ دونوں خدمتِ اسلام میں ایک دوسرے کے ساتھ دل و جان سے شریک تھے۔ بادشاہ خادمِ اسلام ہونے کے باوصف بہت متقی، پرہیزگار اور فیاض واقع ہوئے تھے۔ بادشاہ کا عظیم دینی و روحانی مقام اور خدمتِ اسلام کی تڑپ دیکھ کر ہی سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنی ہمشیرہ ’ربیعہ خاتون‘ کی شادی ان سے کی تھی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے حوالے سے ملک ابو سعید المظفرکا یہ تعارف کرانے کے بعد امام ابن کثیر نے تین چار سطور میں موصوف کے سیرت وکردار، تقویٰ و پرہیزگاری اور دریا دلی پر روشنی ڈالی ہے اور میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے تفصیلات شرح و بسط کے ساتھ رقم کی ہیں۔ انہوں نے اس موضوع پر بالتفصیل لکھا ہے کہ بادشاہ کس جوش و جذبہ اور مسرت و سرور سے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریب کا اہتمام کیا کرتا تھا۔ امام ابن کثیر لکھتے ہیں :

الملک المظفر أبو سعيد کوکبري بن زين الدين علي بن تبکتکين أحد الأجواد والسادات الکبراء والملوک الأمجاد، له آثار حسنة وقد عمر الجامع المظفري بسفح قاسيون، وکان قد همّ بسياقة الماء إليه من ماء برزة فمنعه المعظم من ذلک، واعتل بأنه قد يمر علي مقابر المسلمين بالسفوح، وکان يعمل المولد الشريف في ربيع الأول ويحتفل به احتفالاً هائلاً، وکان مع ذلک شهماً شجاعاً فاتکاً بطلاً عاقلاً عالماً عادلاً رحمه اﷲ وأکرم مثواه. وقد صنّف الشيخ أبو الخطاب بن دحية له مجلداً في المولد النبوي سمّاه ’’التنوير في مولد البشير النذير‘‘ فأجازه علي ذلک بألف دينار، وقد طالت مدته في الملک في زمان الدولة الصلاحية، وقد کان محاصراً عکا وإلي هذه السنة محمود السيرة والسريرة. قال السبط : حکي بعض من حضر سماط المظفر في بعض الموالد کان يمد في ذلک السماط خمسة آلاف رأس مشوي. وعشرة آلاف دجاجة، ومائة ألف زبدية، وثلاثين ألف صحن حلوي.

’’شاہ مظفر ابو سعید کو کبری بن زین الدین علی بن تبکتکین ایک سخی، عظیم سردار اور بزرگ بادشاہ تھا، جس نے اپنے بعد اچھی یادگاریں چھوڑیں۔ اس نے قاسیون کے دامن میں جامع مظفری تعمیر کروائی۔ وہ برزہ کے پانی کو اس کی طرف لانا چاہتا تھا تو معظم نے اسے اس کام سے یہ کہہ کر روک دیا کہ وہ سفوح کے مقام پر مسلمانوں کے قبرستان سے گزرے گا۔ وہ ماہ ربیع الاول میں میلاد مناتا تھا اور عظیم الشان محفلِ میلاد منعقد کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بہادر، دلیر، حملہ آور، جری، دانا، عالم اور عادل بھی تھا۔ اللہ تعالیٰ اس پر رحمت فرمائے اور اسے بلند رتبہ عطا فرمائے۔ شیخ ابو الخطاب ابن دحیہ نے اس کے لیے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ایک کتاب لکھی اور اس کا نام ’’التنویر فی مولد البشیر والنذیر‘‘ رکھا۔ شاہ نے اس تصنیف پر اُسے ایک ہزار دینار انعام دیا۔ اس کی حکومت حکومتِ صلاحیہ کے زمانے تک رہی، اس نے عکا کا محاصرہ کیا اور اس سال تک وہ قابلِ تعریف سیرت و کردار اور قابلِ تعریف دل کا آدمی تھا۔ سبط نے بیان کیا ہے کہ مظفر کے دستر خوانِ میلاد پر حاضر ہونے والے ایک شخص کا بیان ہے کہ اس میں پانچ ہزار بھنے ہوئے بکرے، دس ہزار مرغیاں، ایک لاکھ مٹی کے دودھ سے بھرے پیالے اور تیس ہزار مٹھائی کے تھال ہوتے تھے۔‘‘

1. ابن کثير، البداية والنهاية، 9 : 18
2. محبي، خلاصة الأثر في أعيان القرن الحادي عشر، 3 : 233
3. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 42. 44
4. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 200
5. أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 53، 54

اِس کے بعد امام ابن کثیر کی عبارت ملاحظہ فرمائیں :

وکان يحضر عنده في المولد أعيان العلماء والصوفية فيخلع عليهم ويطلق لهم ويعمل للصوفية سماعًا من الظهر إلي العصر، ويرقص بنفسه معهم، وکانت له دار ضيافة للوافدين من أي جهة علي أي صفة. وکانت صدقاته في جميع القرب والطاعات علي الحرمين وغيرهما، ويتفک من الفرنج في کل سنة خلقًا من الأساري، حتي قيل إن جملة من استفکه من أيديهم ستون ألف أسير، قالت زوجته ربيعة خاتون بنت أيوب. وکان قد زوجه إياها أخوها صلاح الدين، لما کان معه علي عکا. قالت : کان قميصه لا يساوي خمسة دراهم فعاتبته بذلک، فقال : لبسي ثوبًا بخمسة وأتصدق بالباقي خير من أن ألبس ثوبًا مثمنًا وأدع الفقير المسکين، وکان يصرف علي المولد في کل سنة ثلاثمائة ألف دينار، وعلي دار الضيافة في کل سنة مائة ألف دينار. وعلي الحرمين والمياه بدرب الحجاز ثلاثين ألف دينار سوي صدقات السر، رحمه اﷲ تعالي، وکانت وفاته بقلعة إربل، وأوصي أن يحمل إلي مکة فلم يتفق فدفن بمشهد علي.

’’میلاد کے موقع پر اُس کے پاس بڑے بڑے علماء اور صوفیاء حاضر ہوتے تھے، وہ انہیں خلعتیں پہناتا اور عطیات پیش کرتا تھا اور صوفیاء کے لیے ظہر سے عصر تک سماع کراتا تھا اور خود بھی ان کے ساتھ رقص کرتا تھا۔ ہر خاص و عام کے لیے ایک دارِ ضیافت تھا اور وہ حرمین شریفین و دیگر علاقوں کے لیے صدقات دیتا تھا اور ہر سال بہت سے قیدیوں کو فرنگیوں سے چھڑاتا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس نے ان کے ہاتھ سے ساٹھ ہزار قیدیوں کو رہا کرایا۔ اس کی بیوی ربیعہ خاتون بنت ایوب کہتی ہے کہ اس کے ساتھ میرا نکاح میرے بھائی صلاح الدین ایوبی نے کرایا تھا۔ اس خاتون کا بیان ہے کہ شاہ کی قمیص پانچ دراہم کے برابر بھی نہ ہوتی تھی۔ پس میں نے اسے اس بارے میں سوال کیا تو وہ کہنے لگے : میرا پانچ درہم کے کپڑے کو پہننا اور باقی کو صدقہ کر دینا اس بات سے بہتر ہے کہ میں قیمتی کپڑا پہنوں اور فقراء اور مساکین کو چھوڑ دوں۔ اور وہ ہر سال محفل میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تین لاکھ دینار اور مہمان نوازی پر ایک لاکھ دینار اور حرمین شریفین اور حجاز کے راستے میں پانی پر خفیہ صدقات کے علاوہ تیس ہزار دینار خرچ کرتا تھا، رحمہ اﷲ تعالی۔ اس کی وفات قلعہ اِربل میں ہوئی اور اس نے وصیت کی کہ اسے مکہ لے جایا جائے، مگر ایسا نہ ہو سکا اور اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اِجتماع گاہ میں دفن کیا گیا۔‘‘

1. ابن کثير، البداية والنهاية، 9 : 18
2. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 44
3. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 200
4. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 362، 363
5. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 236

شاہِ اِربل تقریباتِ میلاد پر تین لاکھ دینار خرچ کرتا تھا۔ امام ابن کثیر نے اتنی خطیر رقم میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خرچ کرنے کی تحسین کی ہے اور ایک لفظ بھی تنقید اور اِعتراض کے طور پر نہیں لکھا۔ یاد رہے کہ ایک دینار دو پاؤنڈ کے برابر تھا اور اس طرح میلاد پر خرچ کی گئی رقم چھ لاکھ پاؤنڈ تک جا پہنچی تھی۔ دینار اور پاؤنڈ کا یہ موازنہ آج کے دور کا نہیں بلکہ آج سے آٹھ سو (800) سال قبل کا ہے۔ اگر آج کے زمانہ سے تقابل کیا جائے تو اُن دنوں ایک دینار کم و بیش ایک چوتھائی تولہ سونے کے برابر ہوتا تھا جو آج پاکستانی کرنسی میں قریباً چار ہزار روپے (4,000) روپے بنتا ہے اور اگر ایک دینار کی اُسی حساب سے قدر نکالی جائے تو یہ آج تقریبًا چالیس (40) پاؤنڈ بنتی ہے۔ اور اگر حساب کرتے ہوئے چالیس (40) کو تین لاکھ (300,000) سے ضرب دی جائے تو یہ رقم ایک اَرب بیس کروڑ (1,200,000,000) پاکستانی روپے کے لگ بھگ ہوگی۔ اور یہ محض ایک تخمینہ ہے۔

15. اِمام برہان الدین بن جماعہ (725. 790ھ)

اِمام برہان الدین ابو اِسحاق اِبراہیم بن عبد الرحیم بن اِبراہیم بن جماعہ الشافعی (1325۔ 1388ء) ایک نام وَر قاضی و مفسر تھے۔ آپ نے دس جلدوں پر مشتمل قرآن حکیم کی تفسیر لکھی۔ ملا علی قاری (م 1014ھ)

’’المورد الروی فی مولد النبوی ونسبہ الطاھر‘‘ میں آپ کے معمولاتِ میلاد شریف کی بابت لکھتے ہیں :

فقد اتصل بنا أن الزاهد القدوة المعمر أبا إسحاق إبراهيم بن عبد الرحيم بن إبراهيم جماعة لما کان بالمدينة النبوية. علي ساکنها أفضل الصلاة وأکمل التحية. کان يعمل طعاماً في المولد النبوي، ويطعم الناس، ويقول : لو تمکنت عملت بطول الشهر کل يوم مولدا.

’’ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ زاہد و قدوہ معمر ابو اِسحاق بن اِبراہیم بن عبد الرحیم جب مدینۃ النبی۔ اُس کے ساکن پر افضل ترین درود اور کامل ترین سلام ہو۔ میں تھے تو میلاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر کھانا تیار کرکے لوگوں کو کھلاتے تھے، اور فرماتے تھے : اگر میرے بس میں ہوتا تو پورا مہینہ ہر روز محفلِ میلاد کا اہتمام کرتا۔‘‘

ملا علي قاري، المورد الروي في مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم ونسبه الطاهر : 17

16۔ زین الدین بن رجب الحنبلی (736۔ 795ھ)

علامہ زین الدین عبد الرحمان بن اَحمد بن رجب حنبلی (1336۔ 1393ء) فقہ حنبلی کے معروف عالم اور کثیر التصانیف محقق تھے۔ اپنی کتاب لطائف المعارف فیما لمواسم العام من الوظائف میں اُنہوں نے مختلف اِسلامی مہینوں کے فضائل اور ان میں کیے جانے والے اَعمال و وظائف مفصل بیان کیے ہیں۔ ماہِ ربیع الاوّل کے ذیل میں تین فصول قائم کی ہیں، جن میں سے دو فصول حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت اور واقعاتِ نبوت کے بیان پر مشتمل ہیں، جب کہ تیسری فصل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے واقعات کا ذکر ہے۔ ماہِ ربیع الاوّل کے واقعات پر مشتمل باب کا آغاز ہی اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد سے متعلق مختلف روایات سے کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں :

خرّج الإمام أحمد من حديث العِرْباض بن سَارِيَةَ السُّلَمِي رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم، قال : إنّي عِند اﷲ في أُمّ الکتاب لَخاتمُ النّبِيّين، وإنّ آدم لَمُنجدلٌ في طينتهِ، وَسوف أنبئکم بتأْويل ذلک : دعوة أبي إبراهيم، (1) وبشارة عيسي قومه، (2) ورؤْيا أمّي الّتي رأت أنه خرج منها نورٌ أضاءت له قصور الشام، وکذلک أمهات النببين يَرَيْنَ. (3)

’’اَحمد بن حنبل نے حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کی تخریج کی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں اللہ تعالیٰ کے ہاں لوحِ محفوظ میں اس وقت بھی خاتم الانبیاء تھا جب کہ حضرت آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔ اور میں تمہیں ان کی تاویل بتاتا ہوں کہ میں اپنے جدِ امجد ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی اپنی قوم کو دینے والی بشارت کا نتیجہ ہوں، اور اپنی والدہ ماجدہ کے ان خوابوں کی تعبیر ہوں جس میں انہوں نے دیکھا کہ ان کے جسم اَطہر سے ایسا نور پیدا ہوا جس سے شام کے محلات بھی روشن ہو گئے۔ اور اسی طرح کے خواب اَنبیاء کی مائیں دیکھتی تھیں۔‘‘

(1) البقرة، 2 : 129

(2) الصف، 61 : 6

(3) 1. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 127، 128، رقم : 17190، 17191، 17203
2. ابن حبان، الصحيح، 14 : 312، رقم : 6404
3. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 2 : 656، رقم : 4174
4. طبراني، المعجم الکبير، 18 : 253، رقم : 631
5. طبراني، مسند الشاميين، 2 : 340، رقم : 1455
6. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 149
7. هيثمي، موارد الظمآن إلي زوائد ابن حبان : 512، الرقم : 2093
8. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 8 : 223
9. عسقلاني، فتح الباري، 6 : 583
10. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 321

بعد ازاں اُنہوں نے اِسی موضوع سے متعلق دیگر روایات ذکر کی ہیں، (1) جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماہِ ربیع الاوّل میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے واقعات بیان کرنا ایک جائز، مستحسن اور عملِ خیر ہے۔

(1) ابن رجب حنبلي، لطائف المعارف فيما لمواسم العام من الوظائف : 158. 216

17۔ اِمام ولي الدين ابو زرعہ العراقي (762۔ 826ھ)

امام ولی الدین ابو زرعہ احمد بن عبد الرحیم بن حسین العراقی (1361۔ 1423ء) ایک نام وَر محدث و فقیہ تھے۔ اُن سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ محفلِ میلاد منعقد کرنا مستحب ہے یا مکروہ؟ یا اِس کے بارے میں کوئی باقاعدہ حکم موجود ہے جو قابلِ ذکر ہو اور اس کی پیروی کی جاسکتی ہو؟ آپ نے جواب دیا :

إطعام الطعام مستحب في کل وقت، فکيف إذا انضم لذالک السرور بظهور نور النبوة في هذا الشهر الشريف، ولا نعلم ذالک من السلف، ولا يلزم من کونه بدعة کونه مکروهاً، فکم من بدعة مستحبة بل واجبة.

’’کھانا کھلانا ہر وقت مستحب ہے۔ اگر کسی موقع پر ربیع الاول شریف کے مہینے میں ظہورِ نبوت کی یادگار کے حوالے سے خوشی اور مسرت کے اِظہار کا اِضافہ کر دیا جائے تو اس سے یہ چیز کتنی بابرکت ہوجائے گی۔ ہم جانتے ہیں کہ اَسلاف نے ایسا نہیں کیا اور یہ عمل بدعت ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ مکروہ ہو کیوں کہ بہت سی بدعات مستحب ہی نہیں بلکہ واجب ہوتی ہیں۔‘‘

علي بن إبراهيم، تشنيف الآذان بأسرار الآذان : 136

18۔ حافظ شمس الدين محمد الدمشقی (777۔ 842ھ)

حافظ شمس الدین محمد بن ناصر الدین دمشقی اپنی کتاب ’’مورد الصادی فی مولد الھادی‘‘ میں لکھتے ہیں :

وقد صح أن أبالهب يخفّف عنه عذاب النار في مثل يوم الاثنين، لإعتاقه ثويبة سروراً بميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم.

’’یہ بات ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے ہر سوموار کو ابولہب کے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔‘‘

پھر انہوں نے درج ذیل شعر پڑھے :

إذا کان هذا کافرًا جاء ذمه
وتبّت يداه في الجحيم مخلّداً

أتي أنه في يوم الاثنين دائماً
يخفّف عنه للسرور بأحمدا

فما الظن بالعبد الذي طول عمره
بأحمد مسرورًا ومات موحدًا

1۔ جب ابولہب جیسا کافر جس کا دائمی ٹھکانہ جہنم ہے اور جس کی مذمت میں قرآن مجید کی پوری سورت تَبَّتْ يَدَا۔ نازل ہوئی۔

2۔ باوُجود اس کے جب سوموار کا دن آتا ہے تو احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں ہمیشہ سے اس کے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔

3۔ پس کیا خیال ہے اس بندے کے بارے میں جس نے تمام عمر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا جشن منانے میں گزاری اور توحید کی حالت میں اُسے موت آئی!

1. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 66
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206
3. صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 367
4. أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 54
5. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 238

19۔ حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ)

شارحِ صحیح البخاری حافظ شہاب الدین ابو الفضل احمد بن علی بن حجر عسقلانی (1372۔ 1449ء) نے عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرعی حیثیت واضح طور پر متحقق کی ہے اور یوم میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کی اِباحت پر دلیل قائم کی ہے۔ حافظ اِبن حجر عسقلانی کا اِستدلال نقل کرتے ہوئے اِمام جلال الدین سیوطی (849۔ 911ھ) لکھتے ہیں :

وقد سئل شيخ الإسلام حافظ العصر أبوالفضل ابن حجر عن عمل المولد، فأجاب بما نصه : قال :

وقد ظهر لي تخريجها علي أصل ثابت، وهو ما ثبت في الصحيحين من : ’’أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قدم المدينة، فوجد اليهود يصومون يوم عاشوراء، فسألهم، فقالوا : هو يوم أغرق اﷲ فيه فرعون، ونجي موسي، فنحن نصومه شکرًا ﷲ تعالي.

فيستفاد منه فعل الشکر ﷲ تعالي علي ما منَّ به في يوم معين من إسداء نعمة، أو دفع نقمة، ويعاد ذلک في نظير ذلک اليوم من کل سنة.

والشکر ﷲ تعالي يحصل بأنواع العبادات کالسجود والصيام والصدقة والتلاوة، وأيّ نعمة أعظم من النعمة ببروز هذا النبي صلي الله عليه وآله وسلم الذي هو نبي الرحمة في ذلک اليوم.

وعلي هذا فينبغي أن يتحري اليوم بعينه، حتي يطابق قصة موسي عليه السلام في يوم عاشوراء.

ومن لم يلاحظ ذلک لا يبالي بعمل المولد في أيّ يوم في الشهر، بل توسَّع قوم حتي نقلوه إلي يوم من السنة. وفيه ما فيه. فهذا ما يتعلق بأصل عمل المولد.

وأما ما يُعمل فيه فينبغي أن يقتصر فيه علي ما يفهم الشکر ﷲ تعالي من نحو ما تقدم ذکره من التلاوة، والإطعام، والصدقة، وإنشاد شيء من المدائح النبوية والزهدية المحرکة للقلوب إلي فعل الخيرات والعمل للآخرة.

’’شیخ الاسلام حافظ العصر ابو الفضل ابن حجر سے میلاد شریف کے عمل کے حوالے سے پوچھا گیا تو آپ نے اس کا جواب کچھ یوں دیا :

’’مجھے میلاد شریف کے بارے میں اصل تخریج کا پتہ چلا ہے۔ ’’صحیحین‘‘ سے ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا : ایسا کیوں کرتے ہو؟ اس پر وہ عرض کناں ہوئے کہ اس دن اﷲ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی، سو ہم اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر بجا لانے کے لیے اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔

’’اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کسی اِحسان و اِنعام کے عطا ہونے یا کسی مصیبت کے ٹل جانے پر کسی معین دن میں اﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لانا اور ہر سال اس دن کی یاد تازہ کرنا مناسب تر ہے۔

’’اﷲ تعالیٰ کا شکر نماز و سجدہ، روزہ، صدقہ اور تلاوتِ قرآن و دیگر عبادات کے ذریعہ بجا لایا جا سکتا ہے اور حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے بڑھ کر اﷲ کی نعمتوں میں سے کون سی نعمت ہے؟ اس لیے اس دن ضرور شکرانہ بجا لانا چاہیے۔

’’اس وجہ سے ضروری ہے کہ اسی معین دن کو منایا جائے تاکہ یومِ عاشوراء کے حوالے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ سے مطابقت ہو۔

’’اور اگر کوئی اس چیز کو ملحوظ نہ رکھے تو میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل کو ماہ کے کسی بھی دن منانے میں حرج نہیں بلکہ بعض نے تو اسے یہاں تک وسیع کیا ہے کہ سال میں سے کوئی دن بھی منا لیا جائے۔ پس یہی ہے جو کہ عملِ مولد کی اصل سے متعلق ہے۔

’’جب کہ وہ چیزیں جن پر عمل کیا جاتا ہے ضروری ہے کہ ان پر اکتفا کیا جائے جس سے شکرِ خداوندی سمجھ آئے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ (ان میں) ذکر، تلاوت، ضیافت، صدقہ، نعتیں، صوفیانہ کلام جو کہ دلوں کو اچھے کاموں کی طرف راغب کرے اور آخرت کی یاد دلائے (وغیرہ جیسے اُمور شامل ہیں)۔‘‘

1. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 63، 64
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 205، 206
3. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 366
4. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 263
5. احمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 54
6. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 237

20۔ امام شمس الدین السخاوی (831۔ 902ھ)

امام شمس الدین محمد بن عبد الرحمان سخاوی (1428۔ 1497ء) اپنے فتاوی میں میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کے بارے میں فرماتے ہیں :

وإنما حدث بعدها بالمقاصد الحسنة، والنية التي للإخلاص شاملة، ثم لا زال أهل الإسلام في سائر الأقطار والمدن العظام يحتفلون في شهر مولده صلي الله عليه وآله وسلم وشرف وکرم بعمل الولائم البديعة، والمطاعم المشتملة علي الأمور البهية والبديعة، ويتصدقون في لياليه بأنواع الصدقات، ويظهرون المسرات ويزيدون في المبرات، بل يعتنون بقرابة مولده الکريم، ويظهر عليهم من برکاته کل فضل عظيم عميم، بحيث کان مما جرب کما قال الإمام شمس الدين بن الجزري المقري، أنه أمان تام في ذالک العام وبشري تعجل بنيل ما ينبغي ويرام.

’’(محفلِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرونِ ثلاثہ کے بعد صرف نیک مقاصد کے لیے شروع ہوئی اور جہاں تک اس کے انعقاد میں نیت کا تعلق ہے تو وہ اخلاص پر مبنی تھی۔ پھر ہمیشہ سے جملہ اہلِ اسلام تمام ممالک اور بڑے بڑے شہروں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے مہینے میں محافل میلاد منعقد کرتے چلے آرہے ہیں اور اس کے معیار اور عزت و شرف کو عمدہ ضیافتوں اور خوبصورت طعام گاہوں (دستر خوانوں) کے ذریعے برقرار رکھا۔ اب بھی ماہِ میلاد کی راتوں میں طرح طرح کے صدقات و خیرات دیتے ہیں اور خوشیوں کا اظہار کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرتے ہیں۔ بلکہ جونہی ماہِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قریب آتا ہے خصوصی اہتمام شروع کر دیتے ہیں اور نتیجتاً اس ماہِ مقدس کی برکات اﷲ تعالیٰ کے بہت بڑے فضلِ عظیم کی صورت میں ان پر ظاہر ہوتی ہیں۔ یہ بات تجرباتی عمل سے ثابت ہے جیسا کہ امام شمس الدین بن جزری مقری نے بیان کیا ہے کہ ماہِ میلاد کے اس سال مکمل طور پر حفظ و امان اور سلامتی رہتی ہے اور بہت جلد تمنائیں پوری ہونے کی بشارت ملتی ہے۔‘‘

1. ملا علي قاري، المورد الروي في مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم ونسبه الطاهر : 12، 13
2. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 362
3. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 84
4. إسماعيل حقي، تفسير روح البيان، 9 : 56، 57
5. أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 53
6. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 233

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔