Wednesday, 4 November 2015

نبی اکرم نور مجسّم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ گوہ کی محبت

نبی اکرم نور مجسّم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ گوہ کی محبت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے صحابہ کی محفل میں تشریف فرما تھے کہ بنو سلیم کا ایک اعرابی آیا۔ اس نے ایک گوہ کا شکار کیا تھا اور اسے اپنی آستین میں چھپا کر اپنی قیام گاہ کی طرف لے جارہا تھا۔ اس نے جب صحابہ کرام کی جماعت کو دیکھا تو اس نے کہا: یہ لوگ کس کے گرد جمع ہیں؟ لوگوں نے کہا: اس کے گرد جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ وہ لوگوں کے درمیان سے گزرتا ہوا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے آ کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم )! کسی عورت کا بیٹا تم سے بڑھ کر جھوٹا اور مجھے ناپسند نہیں ہوگا۔ اگر مجھے اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ میری قوم مجھے جلد باز کہے گی تو تمہیں قتل کرنے میں جلدی کرتا اور تمہارے قتل سے تمام لوگوں کو خوش کرتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں کہ میں اس (گستاخ) کو قتل کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے عمر! کیا تم جانتے نہیں کہ حلیم و بردبار آدمی ہی نبوت کے لائق ہوتا ہے۔ وہ اعرابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا: مجھے لات و عزیٰ کی قسم! میں تم پر ایمان نہیں رکھتا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سے پوچھا: اے اعرابی! کس چیز نے تمہیں اس بات پر ابھارا ہے کہ تم میری مجلس کی تکریم کو بالائے طاق رکھ کر ناحق گفتگو کرو؟ اس نے بے ادبی سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کہا: کیا آپ بھی میرے ساتھ ایسے ہی گفتگو کریں گے؟ اور کہا: مجھے لات و عزیٰ کی قسم میں آپ پر اس وقت تک ایمان نہیں لاؤں گا جب تک یہ گوہ آپ پر ایمان نہیں لاتی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی آستین سے گوہ نکال کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے پھینک دی اور کہا: اگر یہ گوہ آپ پر ایمان لے آئے تو میں بھی ایمان لے آؤں گا۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے گوہ(کلام کر)! پس گوہ نے ایسی واضح اورفصیح عربی میں کلام کیا کہ جسے تمام لوگوں نے سمجھا۔ اس گوہ نے عرض کیا: اے دوجہانوں کے رب کے رسول! میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سے پوچھا: تم کس کی عبادت کرتی ہو؟ اس نے عرض کیا: میں اس کی عبادت کرتی ہوں جس کا عرش آسمانوں میں ہے، زمین پر جس کی حکمرانی ہے اور سمندر پر جس کا قبضہ ہے، جنت میں جس کی رحمت ہے اور دوزخ میں جس کا عذاب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پھر پوچھا: اے گوہ! میں کون ہوں؟ اس نے عرض کیا: آپ دو جہانوں کے رب کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔ جس نے آپ کی تصدیق کی وہ فلاح پاگیا اور جس نے آپ کی تکذیب کی وہ ذلیل و خوار ہوگیا۔ اعرابی یہ دیکھ کر بول اٹھا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ جب میں آپ کے پاس آیا تھا تو روئے زمین پر آپ سے بڑھ کر کوئی شخص مجھے ناپسند نہ تھا اور بخدا اس وقت آپ مجھے اپنی جان اور اولاد سے بھی بڑھ کر محبوب ہیں۔ میرے جسم کا ہر بال اور ہر رونگٹا، میرا عیاں و نہاں اور میرا ظاہر و باطن آپ پر ایمان لا چکا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس اللہ جل مجدہ کے لئے ہی ہر تعریف ہے جس نے تجھے اس دین کی طرف ہدایت دی جو ہمیشہ غالب رہے گا اور کبھی مغلوب نہیں ہوگا۔ اس دین کو اللہ تعالیٰ صرف نماز کے ساتھ قبول کرتا ہے اور نماز قرآن پڑھنے سے ہی قبول ہوتی ہے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص سکھائیں۔ وہ عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! میں نے بسیط اور رجز (عربی شاعری کے سولہ اوزان میں سے دو وزن) میں اس سے حسین کلام کبھی نہیں سنا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سے فرمایا: یہ رب دوجہاں کا کلام ہے، شاعری نہیں۔ جب تم نے سورہ اخلاص کو ایک مرتبہ پڑھ لیا تو گویا تم نے ایک تہائی قرآن پڑھنے کا ثواب پالیا اور اگر اسے دو مرتبہ پڑھا تو سمجھو کہ تم نے دو تہائی قرآن پڑھنے کا ثواب پالیا۔ اور تم نے اسے تین مرتبہ پڑھ لیا تو گویا تم نے پورے قرآن کا ثواب پالیا۔ پھر اعرابی نے کہا ہمارا معبود تمام معبودوں سے بہتر ہے جو تھوڑے عمل کو قبول فرماتا ہے اور بے حد و حساب عطا فرماتا ہے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا: اس اعرابی کی کچھ مدد کرو۔ صحابہ کرام نے اسے اتنا دیا کہ اسے (کثرتِ مال کی وجہ سے) بے نیاز کر دیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں انہیں ایک اونٹنی دے کر قربِ الٰہی حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ یہ فارسی النسل اونٹنی سے چھوٹی اور عربی النسل اونٹوں سے تھوڑی بڑی ہے اور یہ دس ماہ کی حاملہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تم جو اونٹنی اسے دوگے اس کی تم نے صفات بیان کردی ہیں، اب میں تمہارے لئے اس اونٹنی کی صفات بیان کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی جزاء میں عطا فرمائے گا؟ انہوں نے عرض کیا: ہاں (ضرور بیان فرمائیے)۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تمہیں سوراخ دار موتیوں کی اونٹنی ملے گی جس کے پاؤں سبز زمرد کے ہوں گے اور جس کی گردن زرد زبرجد کی ہوگی اور اس پر کجاوہ ہوگا جو کہ کریب اور ریشم کا بنا ہوگا۔ وہ پل صراط سے تمہیں بجلی کے کوندے کی طرح گزار دے گی۔ پھر وہ اعرابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ سے باہر نکلا۔ راستے میں اسے ایک ہزار اعرابی ملے جو ہزار سواریوں پر سوار تھے اور ہزار تیروں اور ہزار تلواروں سے مسلح تھے۔ اس نے ان سے پوچھا: تم کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم اس سے لڑنے جا رہے ہیں جو کذب بیانی سے کام لیتا ہے اور یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ نبی ہے ۔ اس اعرابی نے ان سے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ انہوں نے کہا: تم نے بھی نیا دین اختیار کرلیا ہے؟ اس نے کہا: میں نے نیا دین اختیار نہیں کیا (بلکہ دین حق اختیار کیا ہے) پھر اس نے انہیں (گوہ سے متعلق) تمام بات سنائی۔ یہ سن کر ہر کوئی کہنے لگا: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک جب یہ خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم انہیں ملنے کے لئے (تیزی سے) بغیر چادر کے باہر تشریف لائے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھ کر اپنی سواریوں سے کود پڑے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جس حصہ تک ان کی رسائی ہوئی اسے چومنے لگے اور ساتھ ساتھ کہنے لگے: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ پھر انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہمیں اس چیز کا حکم دیں جو آپ کو پسند ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تم خالد بن ولید کے جھنڈے تلے ہوگے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ سارے عرب میں صرف بنو سلیم کے ہی ایک ہزار لوگ بیک وقت ایمان لائے۔

أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 /126.129، الرقم: 5996، وفي المعجم الصغير، 2 /153.155، الرقم: 948، وأبو نعيم في دلائل النبوة: 377.379، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 /36.38، والهيثمي فيمجمع الزوائد، 8 /292.294، وابن کثير في شمائل الرسول، 351.353، والسيوطی في الخصائص الکبری، 2 /65.

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...