Monday 23 November 2015

کیا جشن میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا بدعت ہے ؟ حصّہ دوم

0 comments
کیا جشن میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا بدعت ہے ؟ حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
2۔ فتنہ اِرتداد کو اِحداث فی الدین قرار دیا گیا

لشکرِ اُسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی کے بعد سرزمین عرب میں اِحداث کی شکل میں ایک اور فتنہ رُونما ہوا جسے فتنۂ اِرتداد کہا جاتا ہے۔ عرب کے نومسلم قبائل اسلام سے پھر گئے اور دوبارہ اپنی پرانی روش پر چل نکلے۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس فتنہ کا قلع قمع کیا۔

طبري، تاريخ الأمم والملوک، 2 : 254
3۔ فتنۂ منکرینِ زکوٰۃ کو اِحداث فی الدین قرار دیا گیا

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد عرب میں فتنہ اِرتداد پھیل جانے کے ساتھ ساتھ بعض قبائل نے زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کر دیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جنگ کا اِرادہ کرتے ہوئے فرمایا :

واﷲ! لأقاتلن من فرّق بين الصلاة والزکاة، فإن الزکاة حق المال، واﷲ! لو منعوني عناقاً کانوا يؤدّونها إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، لقاتلتهم علي منعها.

’’اللہ کی قسم! میں اس کے خلاف ضرور لڑوں گا جس نے نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کیا، کیوں کہ زکوٰۃ بیت المال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر انہوں نے مجھے ایک رسی دینے سے بھی انکار کیا جو وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ادا کرتے تھے تو اس انکار پر بھی میں ان سے ضرور قتال کروں گا۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الزکاة، باب وجوب الزکاة، 2 : 507، رقم : 1335
2. بخاري، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين، باب قتل من أبي قبول الفرائض، 6، 2538، رقم : 6526
3. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب الأمر بقتال الناس حتي يقولوا لا إله إلا اﷲ محمد رسول اﷲ، 1 : 51، رقم : 20

لہٰذا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ان عرب قبائل کی طرف روانہ کیا جنہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تھا۔
4۔ فتنۂ خوارج کو اِحداث فی الدین قرار دیا گیا

خوارج کی اِبتداء سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئی۔ جب صفین کے مقام پر سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ میں کئی روز تک لڑائی جاری رہی، جس کے نتیجے میں ہزارہا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور تابعین شہید ہوئے۔ بالآخر فیصلہ کیا گیا کہ طرفین میں سے دو معتمد اشخاص کو حَکَم بنایا جائے جو قرآن و سنت کے مطابق کوئی ایسی تدبیر نکالیں جس سے لڑائی کا خاتمہ ہو۔ چنانچہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ابو موسیٰ عبد اللہ بن قیس اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ مقرر ہوئے اور عہد نامہ لکھاگیا جس کے نتیجہ میں لڑائی تھم گئی۔

پھر اَشعث بن قیس نے اس کاغذ کو لے کر ہر ہر قبیلہ کے افراد کو سنانا شروع کر دیا۔ جب وہ بنی تمیم کے لوگوں کے پاس آئے جن میں ابو بلال کا بھائی عروہ بن اَدَیہ بھی تھا اور ان کو پڑھ کر سنایا تو عروہ نے کہا :

تحکّمون في أمر اﷲ عزوجل الرجال؟ لاحکم إلا ﷲ.

’’تم اللہ کے اَمر میں انسانوں کو حَکَم بناتے ہو؟ سوائے اللہ کے کسی کا حکم نہیں۔‘‘

1. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 3 : 104
2. ابن أثير، الکامل في التاريخ، 3 : 196
3. ابن جوزي، المنتظم في تاريخ الملوک والأمم، 5 : 123

اس نے یہ کہہ کر اشعث بن قیس کی سواری کے جانور کو تلوار ماری جس سے آپ رضی اللہ عنہ نیچے گر پڑے۔ اس پر آپ کے قبیلہ والے اور ان کے لوگ جمع ہوگئے اور جھگڑا ہوتے ہوتے رہ گیا۔ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ جب صفین سے واپس کوفہ پہنچے تو ان کو خوارج کے اس عمل سے آگاہی حاصل ہوئی تو آپ نے فرمایا :

اﷲ أکبر! کلمة حق يراد بها باطل، إن سکتوا عممناهم، وإن تکلموا حَجَجْناهم، وإن خرجوا علينا قاتلناهم.

’’اﷲ ہی بڑا ہے۔ بات تو حق ہے مگر مقصود اس سے باطل ہے۔ اگر وہ خاموش رہے تو ہم ان پر چھائے رہیں گے اور اگر انہوں نے کلام کیا تو ہم ان پر دلیل لائیں گے اور اگر وہ ہمارے خلاف نکلے تو ہم ان سے لڑیں گے۔‘‘

1. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 3 : 114
2. ابن أثير، الکامل في التاريخ، 3 : 212، 213

خوارج نے لوگوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف اُکسانا شروع کر دیا اور لوگوں کو پہاڑوں پر چلے جانے یا دوسرے شہروں کی طرف نکلنے کا مشورہ دیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عمل کو بدعت ضلالۃ تک کہا گیا۔ آخر کار ان لوگوں نے آپس کے مشورہ سے ’’الحُکْمُ ﷲ‘‘ کے اِجراء کے لیے نہروان کا مقام چنا اور سب وہاں جمع ہوگئے۔ نہروان کے مقام پر ان خارجیوں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج کے درمیان لڑائی کا آغاز اُس وقت ہوا جب اُنہوں نے صحابی حضرت عبد اللہ بن خباب رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ ان کی شہادت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

دونکم القوم.

’’اس قوم کو لو (یعنی قتل کرو)۔‘‘

حضرت جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

فقتلت بکفي هذه بعد ما دخلني ما کان دخلني ثمانية قبل أن أصلي الظهر، وما قتل منا عشرة ولا نجا منهم عشرة.

’’میں نے نمازِ ظہر ادا کرنے سے قبل اپنے ہاتھوں سے آٹھ خوارج کو قتل کیا اور ہم میں سے دس شہید نہ ہوئے اور ان میں سے دس زندہ نہ بچے۔‘‘

1. طبراني، المعجم الأوسط، 4 : 227، رقم : 4051
2. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 4 : 227

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں یوں فتنہ خوارج اپنے انجام کو پہنچا۔

یہی وہ فتنے تھے جن کی طرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اِجتماع میں اِشارہ فرمایا، جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال فرما جانے کے بعد نمودار ہوئے اور جنہیں محدثات الامور کا نام دیا گیا۔ لہٰذا صحیح روایات کے مطابق یہ چار طبقات (مدعیانِ نبوت، مرتدینِ اِسلام، منکرینِ زکوٰۃ، خوارج) محدثات کے مرتکب تھے اور احادیث نے ’’اِحداث‘‘ کے معنی کو ’’اِرتداد‘‘ کے ساتھ مختص کر دیا ہے۔ پس اِحداث کا معنی اِرتداد ہوگا اور یہی بدعتِ ضلالت و بدعتِ سیئہ اور داخلِ دوزخ شمار ہوگی۔
آج ’محدثات الامور‘ کس سطح کے اُمور کو کہا جائے گا؟

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدعت کو ’’محدثات الامور‘‘ سے تعبیر کیا اور اس کا معنی خود اپنے ارشاد سے متعین فرمایا۔ وہ ایسے فتنے ہیں جو دین کی بنیادی تعلیمات کو مسخ کر دیں یا ان کا انکار کر دیں اور یہ ارتداد پر مبنی ہوں۔ لہٰذا بدعاتِ ضلالۃ سے مراد چھوٹے اور ہلکی نوعیت کے اختلافات نہیں بلکہ ان سے مراد اس سطح کے فتنے ہیں کہ ان میں سے ہر فتنہ ’’خروج عن الاسلام‘‘ اور ’’اِرتداد‘‘ کا باعث بنے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور اَمرِ دین کو کاٹے اور ’’اِختلافِ کثیر‘‘ بن کر اُمت میں ظاہر ہو۔ مثلاً اگر کوئی شخص دین کے بنیادی عقائد (ایمان باللہ، ملائکہ، سابقہ نازل شدہ کتب، انبیاء، یوم آخرت، تقدیر اور حیات بعد اَز موت) میں سے کسی کا انکار کرے، اسلام کے اَرکانِ خمسہ (ایمان باللہ والرسول، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ) میں سے کسی کا انکار کرے، اَرکانِ اسلام میں کمی یا زیادتی، ختم نبوت کے انکار، تحریفِ قرآن (متنِ قرآن میں کمی یا زیادتی) کا مرتکب ہو، سنت کا انکار کرے، کسی خارجی فتنہ کی طرح باطل مسلک کی بنیاد رکھے، جہاد کی منسوخی، سود کا جواز وغیرہم کا عقیدہ گھڑ لے تو ان فتنوں کو قیامت تک کے لیے دین میں بدعاتِ ضلالۃ کہیں گے اور یہی ایسے فتنے ہیں جن کے ماننے والوں اور پیروکاروں کو جہنم کا ایندھن بنایا جائے گا۔ لہٰذا بدعت سے مراد فقط فتنہ اِرتداد اور اس کی مختلف شکلیں ہیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے فورًا بعد پیدا ہوئیں یا بعد کے مختلف اَدوار میں پیدا ہوں گی۔ اگر ایسی صورت نہیں ہے تو اس پر بدعتِ ضلالۃ کا اِطلاق نہیں ہوگا۔ پس آج بھی ارتداد ہی ایسا قاعدہ اور کلیہ ہے جس پر کسی بھی اَمر کو پرکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ بدعتِ ضلالۃ میں شمار ہوتا ہے یا نہیں؟ لہٰذا چھوٹے چھوٹے فروعی اور نزاعی مسائل مثلا میلاد، عرس، ایصالِ ثواب وغیرہ کو بدعات و گمراہی اور ’’محدثات الامور‘‘ نہیں کہا جاسکتا، کیوں کہ ان سے خروج عن الاسلام لازم نہیں آتا اور نہ اِرتداد ہوتا ہے بلکہ یہ اَصلاً شریعت سے ثابت ہیں۔ جب کہ ’’محدثات الامور‘‘ ان فتنوں کو کہا گیا ہے جن کی وجہ سے اُمت میں اِختلافِ کثیر پیدا ہوا، امت آپس میں بٹ گئی حتی کہ الگ الگ لشکر بنے، جنگیں ہوئیں اور ہزاروں افراد ان فتنوں کے باعث شہید ہوئے۔

افسوس ہے ان لوگوں پر جنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد اور ایصالِ ثواب وغیرہما کو محدثات الامور اور بدعاتِ ضلالۃ قرار دیا ہے۔ ان کو دین میں بدعت قرار دینا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیان کردہ تعریف سے انکار، حدیث سے انکار اور جسارت علی الرسول ہے۔ لیس علیہ امرنا کا بھی یہی معنی ہے، یہ دَرحقیقت دین کے اندر مستحب اور مستحسن اُمور ہیں۔ فقہاء کے درمیان ہزاروں اختلافات ہیں، کئی مسائل میں مستحب و مکروہ حتی کہ حلت و حرمت کا بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان اُمورِ مستحبات کو بدعات کہنا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیان کردہ تعریف کی روشنی میں گویا ارتداد اور کفر و شرک کا فتویٰ لگانے کے مترادف ہے اور مرتدین کے خلاف قتال کرنا جہاد ہے۔ کیا جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بدعتِ ضلالہ کا فتوی لگانے والے میلاد منانے والوں کے خلاف جہاد کر رہے ہیں؟

جس طرح عہدِ صحابہ میں تدوینِ قرآن، باجماعت نمازِ تراویح اور جمعہ کے دن دو اذانوں جیسے اُمور کو جاری کرنے کا مقصد اُمتِ مسلمہ کی بھلائی تھا، ایسے ہی میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا تاجدارِ کائنات حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ٹوٹے ہوئے قلبی اور حبی تعلق کو برقرار رکھنے اور دلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت و اِتباع کا جذبہ بیدار کرنے کا قوی اور مستحکم ذریعہ ہے۔ اور ایصالِ ثواب جیسے اُمور متوفیانِ اِسلام کی بلندیء درجات اور گناہوں کی بخشش کا سبب ہیں۔
تصورِ بدعت آثارِ صحابہ رضی اللہ عنھم کی روشنی میں

گزشتہ بحث میں ہم نے بدعت کا لغوی مفہوم بیان کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ لغوی اعتبار سے بدعت نئی چیز کو کہتے ہیں اور محدثات الامور و اِحداث فی الدین کا تعلق فتنہ اِرتداد یا خروج عن الاسلام کی سطح کے فتنوں کے ساتھ ہے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ بدعت کا تصو ر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے آثار میں بھی موجود ہے یا نہیں؟ اس کی وضاحت کے لیے ہم یہاں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا عمل مختصراً بیان کریں گے، کیوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اُمت کے لیے اِن صحابۂ کبار رضی اللہ عنھم کا عمل سب سے زیادہ معتبر ہے، اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنوں کے قلع قمع کے لیے اپنی اور اپنے بعد آنے والے خلفاء راشدین مہدیین کی سنت کی پیروی کو لازمی قرار دیا ہے۔
1۔ جمعِ قرآن اور شیخین رضی اﷲ عنہما کا عمل

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد جب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ منصبِ خلافت پر متمکن ہوئے تو اس وقت جھوٹی نبوت کے دعوے دار مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ یمامہ میں تقریباً سات سو (700) حافظِ قرآن صحابہ رضی اللہ عنھم شہید ہوئے۔ قبل ازیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری زمانہ اقدس سے اب تک قرآنِ حکیم کے ایک جلد میں جمع کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہوسکا تھا بلکہ متفرق مقامات پر مختلف صورتوں میں لکھا ہوا موجود تھا۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا کہ اگر یہ سلسلہ جہاد و قتال اسی طرح جاری رہا اور وہ صحابہ رضی اللہ عنھم جن کے سینوں میں قرآن حکیم محفوظ ہے شہید ہوتے رہے تو عین ممکن ہے کہ حفاظتِ قرآن میں خاصی دشواری پیش آئے۔ اِس خدشہ کے پیش نظر اُنہوں نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو تجویز دی کہ قرآن حکیم ایک کتابی صورت میں جمع کر لیا جائے۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

کيف أفعل شيئا ما لم يفعله رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم؟

’’میں ایسا کام کیسے کر سکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں فرمایا۔‘‘

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : اے امیر المومنین! درست ہے کہ یہ کام ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ظاہری حیاتِ مقدسہ میں نہیں کیا لیکن ’’ہو واﷲ خیر‘‘ اللہ کی قسم! بہت اچھا اور بھلائی پر مبنی ہے۔ لہٰذا ہمیں اسے ضرور کرنا چاہیے۔ اس بحث و تمحیص کے دوران سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سینہ کھل گیا اور کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اس عظیم کام پر مامور کیے گئے۔ چنانچہ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کھجور کی شاخوں، سفید پتھروں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن کو جمع کرنا شروع کر دیا اور اس طرح تیار کیے گئے قرآن حکیم کے چند نسخے جو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بعد ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اﷲ عنہا کے پاس محفوظ ہوگئے تھے بعد میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان سے منگوا کر قرآنِ حکیم کو دوبارہ موجودہ ترتیب میں یک جا کر دیا۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب التفسير، باب قوله : لقد جاء کم رسول من أنفسکم عزيز عليه ما عنتم حريص عليکم، 4 : 1720، رقم : 4402
2. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب من سورة توبة، 5 : 283، رقم : 3103

اس طرح تاریخِ اسلام میں پہلی بدعتِ حسنہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوئی۔
2۔ باجماعت نمازِ تراویح کی اِبتداء

جمع و تدوینِ قرآن کی طرح یہ عمل بھی سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے فرمان کی تعمیل میں باقاعدہ وجود پذیر ہوا۔ احادیثِ مبارکہ میں مذکور ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں رمضان المبارک میں تین راتیں نماز تراویح باجماعت پڑھائی۔ اس کے بعد فرض ہوجانے کے خدشہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نمازِ تراویح گھر میں ہی پڑھتے رہے اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بھی اِنفرادی طور پر اپنی اپنی نماز پڑھ لیتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اڑھائی سالہ دورِ خلافت میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا یہی معمول رہا۔ جب سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا اور آپ نے دیکھا کہ رمضان المبارک میں لوگ مختلف شکلوں میں نماز تراویح ادا کر رہے ہیں۔ تو اس خیال سے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے اندر مساجد کو آباد کرنے کا ذوق بھی کم ہوسکتا ہے اور اگر صورت حال یہی رہی تو عین ممکن ہے کسی وقت لوگ نماز تراویح پڑھنا ہی ترک کر دیں، انہوں نے یہ اِجتہاد فرمایا اور سب کو حافظِ قرآن حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نمازِ تراویح باجماعت پڑھنے کا حکم دیا۔ صحابہ کرام کو باجماعت نمازِ تراویح پڑھتے دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

نعم البدعة هذه، والتي ينامون عنها أفضل من التي يقومون.

’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے اور رات کا وہ حصہ جس میں لوگ سو جاتے ہیں اُس حصہ سے بہتر ہے جس میں وہ قیام کرتے ہیں۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906
2. مالک، الموطأ، 1 : 114، رقم : 250
3. بيهقي، السنن الکبري، 2 : 493، رقم : 4379

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اِس قول کی وضاحت کرتے ہوئے عبد الرحمان بن عبد القاری تابعی بیان کرتے ہیں :

يريد آخر الليل، وکان الناس يقومون أوّله.

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مراد رات کا آخری حصہ تھا جب کہ لوگ پہلے حصہ میں قیام کرتے تھے۔‘‘(2)

(2) یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب رات کے آخری حصہ میں کی جانے والی عبادت زیادہ فضیلت رکھتی ہے تو پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اِبتدائی حصہ میں قیام کیوں شروع کروایا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) ’’فتح الباری (4 : 253)‘‘ میں اِس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

هذا تصريح منه بأن الصلاة في آخر الليل أفضل من أوله، لکن ليس فيه أن الصلاة في قيام الليل فرادي أفضل من التجميع.

’’اِس میں صراحت ہے کہ رات کے پچھلے پہر کی نماز پہلے پہر کی نماز سے اَفضل ہے، تاہم اِس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ تنہا نماز پڑھنا باجماعت نماز پڑھنے سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔‘‘

پس اِس سے واضح ہوگیا کہ اگرچہ آخرِ شب پڑھی جانے والی نماز فضیلت کی حامل ہے لیکن باجماعت ادا کی جانے والی نمازِ تراویح. جو رات کے اِبتدائی حصہ میں ادا کی جاتی ہیں۔ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔

اس روایت میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خود ’’نعم البدعۃ ھذہ‘‘ فرما کر یہ ثابت کر دیا کہ ہر بدعت، بدعتِ سیئہ نہیں ہوتی بلکہ بے شمار بدعات اچھی بھی ہوتی ہیں۔ اور بدعتِ حسنہ اور سیئہ کی تقسیم مبنی بر حدیث ہے، محض قیاسی تقسیم نہیں بلکہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول پر قائم ہے۔
3۔ نمازِ جمعہ سے قبل دوسری اذان

نماز جمعہ میں خطبہ سے پہلے دوسری اذان عہدِ عثمانی رضی اللہ عنہ میں شروع کی گئی تھی۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) لکھتے ہیں :

أن التأذين الثاني يوم الجمعة، أمر به عثمان، حين کثر أهل المسجد.

’’بے شک جمعہ کے دن دوسری اذان کا حکم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دیا جب مسجد میں آنے والوں کی تعداد زیادہ ہوگئی۔‘‘

بخاري، الصحيح، کتاب الجمعة، باب الجلوس علي المنبر عند التأذين، 1 : 310، رقم : 873

لہٰذا جس طرح خیر القرون میں بھی تدوینِ قرآن حکیم کے موقع پر اَجل صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھا تھا کہ جو کام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا وہ کیسے کرسکتے ہیں، اُسی طرح آج کے دور میں بھی جشن میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس جیسے دیگر اُمورِ خیر کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ جائز ہیں جب کہ اَوائل دورِ اِسلام میں ان کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اور جس طرح صحابہ کرام کو اِنشراحِ صدر ہوا اور اُنہوں نے بھلائی کے ان نئے کاموں کو اپنایا اُسی طرح ہم نے محافلِ میلاد اور جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اَمرِ خیر اور باعثِ برکت ہونے کے اپنایا ہے۔
تصورِ بدعت اور چند عصری نظائر و واقعات

اِس ضمن میں چند شہادتیں عصری نظائر و واقعات سے پیش کی جاتی ہیں :
1۔ اِسلامی حکومت کے قیام کا مسئلہ

شریعت نے ضروری قرار دیا کہ مسلمانوں کی نمائندہ حکومت ہو، لیکن اِس کا انتخاب کس طرح ہو، حکومت کی تشکیل کس نظام کے تحت کی جائے، اس کے ادارے کس طرح وجود میں آئیں اور پھر ان میں اِختیارات کی تقسیم کس اُسلوب پر ہو؟ ان تفصیلات کے متعلق شریعت میں صریح اَحکامات نہیں ملتے۔ ہر مسلمان ریاست نے اپنی صواب دید کے مطابق جو نظام ضروری سمجھا اپنا لیا۔
2۔ تعمیرِ مساجد کا مسئلہ

اَوائلِ اسلام میں پختہ مکانات بنانا ناپسند خیال کیا جاتا تھا، لہٰذا مسجد کو بھی اَز رُوئے شرع پختہ بنانا ناجائز تصور کیا جاتا رہا۔ پھر ایک وقت آیا جب اسلامی سلطنت کی حدیں شرق تا غرب تک پھیل گئیں، تہذیب و ثقافت اور رہن سہن کے طریقوں میں تبدیلیاں آگئیں، لوگوں نے اپنی رہائش کے لیے بڑے بڑے کشادہ اور پختہ مکانات بنانا شروع کر دیے۔ بنو اُمیہ اور بنو عباس کے دورِ حکومت اور مابعد اِسلامی مملکت کے جاہ و جلال کے دور میں مسلمانوں نے عالی شان محلات تعمیر کیے تو علماء نے وقت کے تقاضوں کے مطابق مساجد کی تعمیر کو بھی اسی طرح نہ صرف جائز کہا بلکہ عظمتِ اسلام کے پیش نظر ضروری قرار دیا۔

اگر مساجد کی تعمیر میں تبدیلی پر غور کیا جائے تو اس کی مصلحت اب سمجھ میں آتی ہے کہ اس وقت لوگوں کے اپنے گھر کچے ہوتے تھے لہٰذا اﷲ کے گھر کا کچا ہونا باعثِ ننگ و عار نہ تھا۔ لیکن جب لوگوں کے اپنے مکانات پختہ محلات میں بدل گئے تو خانۂ خدا کی وجاہت اور ظاہری رعب و دبدبہ کے پیشِ نظر پختہ اور خوبصورت مساجد کی تعمیر کے جواز کا فتویٰ دے دیا گیا۔ اِس سے واضح ہوتا ہے کہ دین کو اگر ظاہری لفظوں سے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اس سے (الا ما شاء اﷲ) گمراہی کے سوا کچھ نہیں ملتا لیکن اگر دین کی اصل روح اور اس میں کار فرما حکمتوں پر غور کر کے اس کے اَحکام کو پرکھا جائے تو دین کا صحیح فہم پیدا ہوتا ہے۔
3۔ قرآن حکیم کا ترجمہ و تفسیر

قرآن حکیم کی تعلیمات لوگوں تک پہنچانے کے لیے ضروری تھا کہ اس کے تراجم اور تفاسیر بھی مختلف ممالک کے لوگوں کی زبان اور فہم کے مطابق ہوں لیکن دین کے بارے میں ظاہری الفاظ پر نظر رکھنے والا ناپختہ اور انتہا پسند جامد ذہن ہر دور میں ہونے والے نئے کام کی مزاحمت میں پیش پیش رہا ہے۔ چنانچہ شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ہندوستان میں جب پہلی مرتبہ اسی ضرورت کے پیشِ نظر قرآن حکیم کا ترجمہ فارسی زبان میں کیا تو یہاں کے ظاہر بیں علماء نے بہت واویلا کیا، کفر و بدعت کے فتاویٰ صادر کیے کہ قرآن کو عربی زبان سے فارسی میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ لیکن آنے والے وقت نے ثابت کر دیا کہ یہ نئی بدعت مصلحتِ وقت اور عین تقاضائے تبلیغِ دین تھی، جب کہ فتویٰ لگانے والے اُس وقت اس دینی مصلحت سے ناآشنا تھے۔
اَئمہ و محدثین کی بیان کردہ اَقسامِ بدعت

دین کے متذکرہ پہلوؤں کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہی اَئمہ و محدثین نے بدعت کی پانچ اقسام بیان کی ہیں، جن کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:
1۔ اِمام شافعی (150۔ 204ھ)

شافعی فقہ کے بانی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بدعت کی تقسیم ان الفاظ میں کرتے ہیں :

المحدثات من الأمور ضربان : ما أحدث يخالف کتاباً أو سنة أو أثرًا أو إجماعاً فهذه البدعة ضلالة، وما أحدث من الخير لا خلاف فيه لواحد من هذا، فهذه محدثة غير مذمومة، قد قال عمر رضي الله عنه في قيام رمضان : نعمت البدعة هذه.

’’محدثات میں دو قسم کے اُمور شامل ہیں : پہلی قسم میں تو وہ نئے اُمور ہیں جو قرآن و سنت، آثارِ صحابہ یا اِجماعِ اُمت کے خلاف ہوں۔ پس یہ بدعتِ ضلالہ ہیں۔ اور دوسری قسم میں وہ نئے اُمور ہیں جن کو بھلائی کے لیے اَنجام دیا جائے اور کوئی ان میں سے کسی کی مخالفت نہ کرتا ہو۔ پس یہ نئے اُمور ناپسندیدہ نہیں ہیں۔ اِسی لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رمضان میں تراویح کے قیام کے موقع پر فرمایا تھا : یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔‘‘

1. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 10 : 70
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 202
3. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 52، 53
2۔ شیخ عز الدین بن عبد السلام (577۔ 660ھ)

شیخ عز الدین بن عبد السلام سلمی اپنی کتاب ’’قواعدالاحکام فی مصالح الانام‘‘ میں فرماتے ہیں :

البدعة فعل ما لم يعهد في عهد النبي صلي الله عليه وآله وسلم، وتنقسم إلي خمسة أحکام يعني الوجوب والندب. . . الخ. وطريق معرفة ذلک أن تعرض البدعة علي قواعد الشرع فأي حکم دخلت فيه فهي منه، فمن البدع الواجبة تعلم النحو الذي يفهم به القرآن والسنة، ومن البدع المحرمة مذهب نحو القدرية، ومن البدع المندوبة إحداث نحو المدارس والاجتماع لصلاة التراويح، ومن البدع المباحة المصافحة بعد الصلاة، ومن البدع المکروهة زَخرفة المساجد والمصاحف أي بغير الذهب.

’’بدعت ایسا فعل ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ تھا اور بدعت کو پانچ اَحکام میں تقسیم کیا جاتا ہے یعنی واجب اور ندب وغیرہ اور اس کی پہچان کا طریقہ کار یہ ہے کہ بدعت کو قواعدِ شرعیہ پر پرکھا جائے گا۔ پس وہ جو حکم شرعی پر پورا اترے گا اسی قسم میں سے ہوگا۔ پس نحو کا علم سیکھنا جس سے قرآن اور سنت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، بدعتِ واجبہ میں سے ہے۔ اور قدریہ جیسے نئے مذہب بنانا بدعتِ محرمہ میں سے ہے۔ اور مدارس بنانا اور نمازِ تراویح جماعت کے ساتھ ادا کرنا بدعتِ مندوبہ میں سے ہے۔ اور نماز کے بعد مصافحہ کرنا بدعتِ مباحہ میں سے ہے۔ اور سونا اِستعمال کیے بغیر مساجد اور قرآن کی تزئین و آرائش کرنا بدعتِ مکروہہ میں سے ہے۔‘‘

ابن حجر هيتمي، الفتاوي الحديثية : 203
3۔ ملا علی قاری حنفی (م 1014ھ)

ملا علی قاری حنفی ’’مشکوٰۃ المصابیح‘‘ کی شرح ’’مرقاۃ المفاتیح‘‘ میں لکھتے ہیں :

قال الشيخ عز الدين بن عبد السلام في آخر کتاب القواعد : البدعة : أما واجبة کتعلم النحو لفهم کلام اﷲ ورسوله وکتدوين أصول الفقه والکلام في الجرح والتعديل. وأما محرمة کمذهب الجبرية والقدرية والمرجئة والمجسمة. والرد علي هؤلاء من البدع الواجبة لأن حفظ الشريعة من هذه البدع فرض کفاية. وأما مندوبة کإحداث الربط والمدارس وکل إحسان لم يعهد في الصدر الأول وکالتراويح أي بالجماعة العامة والکلام في دقائق الصوفية. وأما مکروهة کزخرفة المساجد وتزوين المصاحف يعني عند الشافعية، وأما عند الحنفية فمباح. وأما مباحة کالمصافحة عقيب الصبح والعصر أي عند الشافعية أيضًا وإلا فعند الحنفية مکروه، والتوسّع في لذائذ المأکل والمشارب والمساکن وتوسيع الأکمام.

’’شیخ عز الدین بن عبد السلام ’’القواعد‘‘ کے آخر میں بدعت کے بارے میں فرماتے ہیں : اﷲ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام کو سمجھنے کے لیے نحو کا سیکھنا، اُصولِ فقہ کی تدوین کرنا اور علم جرح و تعدیل کا حاصل کرنا بدعتِ واجبہ ہے، جب کہ بدعتِ محرمہ میں نئے مذاہب کا وجود ہے جیسے جبریہ، قدریہ، مرجئہ اور مجسمہ اور ان تمام کا ردّ بدعتِ واجبہ سے کیا جائے گا کیوں کہ اِسی بدعت سے شریعت کی حفاظت کرنا فرضِ کفایہ ہے۔ جب کہ سرائیں اور مدارس کا قیام اور ہر قسم کی نیکی کے فروغ کے کام جو اِسلام کے اِبتدائی دور میں نہ تھے جیسے باجماعت نمازِ تراویح اور تصوف کے پیچیدہ نکات و رموز پر گفتگو کرنا بدعتِ مندوبہ میں شامل ہیں۔ شوافع کے ہاں مساجد اور قرآن کی تزئین و آرائش کرنا بدعتِ مکروہہ ہے، جب کہ اَحناف کے ہاں یہ اَمر مباح ہیں۔ اور شوافع کے ہاں فجر اور عصر کے بعد مصافحہ کرنا بدعتِ مباحہ ہے، جب کہ اَحناف کے نزدیک یہ اَمر مکروہ ہیں اور اِسی طرح لذیذ کھانے، پینے اور گھروں کو وسیع کرنا (جیسے اُمور بھی بدعتِ مباحہ میں شامل) ہیں۔‘‘

ملا علي قاري، مرقاة المفاتيح شرح مشکاة المصابيح، 1 : 216
کلّ بدعۃ ضلالۃ کا صحیح مفہوم

ملا علی قاری کل بدعۃ ضلالۃ کا صحیح مفہوم واضح کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں :

أي کل بدعة سيئة ضلالة، لقوله عليه الصلاة والسلام : من سنّ في الإسلام سنّة حسنة فله أجرها وأجرمن عمل بها‘‘ وجمع أبوبکر وعمر القرآن وکتبه زيد في المصحف وجدد في عهد عثمان رضي الله عنهم.

’’یعنی ہر بری بدعت گمراہی ہے کیوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِرشاد ہے : ’’جس نے اِسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اُسے اُس عمل کا اور اُس پر عمل کرنے والے کا اَجر ملے گا۔‘‘ اور یہ کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم جمع کیا اور حضرت زید رضی اللہ عنہ نے اِسے صحیفہ میں لکھا اور عہد عثمانی میں اِس کی تجدید کی گئی۔‘‘

1. ملا علي قاري، مرقاة المفاتيح شرح مشکاة المصابيح، 1 : 216
2. شبير احمد ديوبندي، فتح الملهم بشرح صحيح مسلم، 2 : 406

2۔ ابن حجر مکی بدعت کی اَقسام بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں :

وفي الحديث : کل بدعة ضلالة، وکل ضلالة في النار. وهو محمول علي المحرّمة لا غير.

’’اور جو حدیث میں ہے کہ ’’ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائے گی‘‘ اس حدیث کو بدعتِ محرّمہ پر محمول کیا گیا ہے، اِس کے علاوہ اور کسی پر نہیں۔‘‘

ابن حجر هيتمي، الفتاوي الحديثية : 203

بدعت کی اس تقسیم کے بعد معلوم ہوا کہ اگر بدعت شریعت کے مستحسنات کے تحت آ جائے تو وہ بدعتِ حسنہ ہے اور اگر مستقبحات کے تحت آجائے (یعنی مخالف دلیل ہو) تو بدعتِ سیئہ ہے اور اگر ان دونوں میں نہ آئے تو وہ بدعت مباحہ ہے۔
تقسیمِ بدعت

مذکورہ بالا تعریفاتِ بدعت کی روشنی میں ہم ذیل میں خلاصتہً محدثین و اَئمہ کی بیان کردہ بدعت کی تقسیم بیان کریں گے۔ بنیادی طور پر بدعت کی دو اَقسام ہیں :

1۔ بدعتِ حسنہ
2۔ بدعتِ سیئہ

ان میں سے ہر ایک کی پھر مزید اقسام ہیں جن کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے :
1۔ بدعتِ حسنہ کی اَقسام

بدعتِ حسنہ کی مزید تین اَقسام ہیں :

1۔ بدعتِ واجبہ
2۔ بدعتِ مستحبہ (مستحسنہ)
3۔ بدعتِ مباحہ
(1) بدعتِ واجبہ

وہ کام جو اپنی ہیئت میں تو بدعت ہو لیکن اِس کا وجود واجب کی طرح دین کی ضرورت بن جائے اور اِسے ترک کرنے سے دین میں حرج واقع ہو۔ جیسے قرآنی آیات پر اعراب، فہمِ دین کے لیے صرف و نحو کی درس و تدریس، اُصولِ تفسیر، اُصولِ حدیث، فقہ و اُصولِ فقہ اور دیگر علومِ عقلیہ وغیرہ کی تعلیم کا اِہتمام، دینی مدارس کا قیام، درسِ نظامی کے نصابات اور ان کی اِصطلاحات سب ’’بدعتِ واجبہ‘‘ ہیں۔
(2) بدعتِ مستحبہ (مستحسنہ)

جو کام اپنی ہیئت اور اَصل میں نیا ہو لیکن شرعاً ممنوع ہو نہ واجب کی طرح ضروری ہو بلکہ عام مسلمان اسے مستحسن اَمر سمجھتے ہوئے ثواب کی نیت سے کریں تو اس کے نہ کرنے والا گناہ گار بھی نہیں ہوتا لیکن کرنے والے کو ثواب ملتا ہے، جیسے مسافر خانوں اور مدارس کی تعمیر وغیرہ ہر وہ اچھی بات جو پہلے نہیں تھی اس کا ایجاد کرنا بھی بدعتِ مستحبہ ہے، جیسے نمازِ تراویح کی جماعت، تصوف و طریقت کے باریک مسائل کا بیان، محافلِ میلاد، محافلِ عرس وغیرہ جنہیں عام مسلمان ثواب کی خاطر منعقد کرتے ہیں اور ان میں شرکت نہ کرنے والا گناہ گار نہیں ہوتا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اﷲ عنھما نے فرمایا :

فما رآه المؤمن حسناً فهو عند اﷲ حسن، وما رآه المؤمنون قبيحاً فهو عند اﷲ قبيح.

’’جس کو (بالعموم) مومن اچھا جانیں وہ اللہ کے ہاں بھی اچھا ہے اور جس کو مومن برا جانیں وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہے۔‘‘

1. بزار، البحر الزخار (المسند)، 5 : 212، 213، رقم : 1816
2. طيالسي، المسند، 1 : 33، رقم : 246
3. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 379، رقم : 3600
4. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 83، رقم : 4465

5۔ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد و منبع الفوائد (1 : 177، 178)‘‘ میں کہا ہے کہ اِسے احمد، بزار اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اِس کے رجال موثق (ورجالہ موثقون) ہیں۔

6۔ عجلونی نے ’’کشف الخفاء ومزیل الالباس (2 : 245، رقم : 2214)‘‘ میں کہا ہے کہ یہ روایت موقوف حسن ہے۔

اِس تعریف کی رُو سے جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدعتِ مستحسنہ ہے، جسے مومن ثواب کی نیت سے کرتے ہیں اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اﷲ عنھما کے قول کے مطابق یہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں بھی مقبول ہے کیوں کہ اِسے جمہور مسلمان (سوادِ اَعظم) مناتے ہیں۔
(3) بدعتِ مباحہ

وہ نیا کام جو شریعت میں منع نہ ہو اور جسے مسلمان صرف جائز سمجھ کر ثواب کی نیت کے بغیر اِختیار کرلیں۔ فقہاء نے فجر اور عصر کی نماز کے بعد مصافحہ کرنے اور عمدہ عمدہ جدید کھانے اور مشروبات کے استعمال کو ’’بدعتِ مباحہ‘‘ کہا ہے۔
2۔ بدعتِ سیئہ کی اقسام

بدعتِ سیئہ کی دو اقسام بیان کی جاتی ہیں :

1۔ بدعتِ محرّمہ
2۔ بدعتِ مکروہہ
(1) بدعتِ محرّمہ

وہ نیا کام جس سے دین میں تضاد، اِختلاف اور اِنتشار واقع ہو مثلاً قدریہ، جبریہ، مرجئہ اور مرزائی و قادیانی وغیرہ جیسے نئے مذاہب کا وجود میں آنا۔ اِسے بدعتِ ضلالہ بھی کہتے ہیں۔ اِن مذاہبِ باطلہ کی مخالفت بدعتِ واجبہ کا درجہ رکھتی ہے۔
(2) بدعتِ مکروہہ

جس نئے کام سے سنت مؤکدہ یا غیر مؤکدہ چھوٹ جائے وہ بدعتِ مکروہہ ہے۔ اِس میں علماء متقدمین نے مساجد کی بلاضرورت فخریہ آرائش و تزئین وغیرہ کو شامل کیا ہے۔
تقسیمِ بدعت پر متنِ حدیث سے اِستشہاد

بدعت کے مذکورہ تصوّر اور تقسیم کی مزید وضاحت کے لیے حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنھما سے مروی حدیث مبارکہ نہایت اہم ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

من سنّ في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها بعده، من غير أن ينقص من أجورهم شيء. ومن سن في الإسلام سنة سيئة کان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده، من غير أن ينقص من أوزارهم شيء.

’’جو شخص اِسلام میں کسی نیک کام کی بنیاد ڈالے تو اس کے لئے اس کے اپنے اَعمال کا بھی ثواب ہے اور جو اُس کے بعد اِس پر عمل کریں گے اُن کا ثواب بھی ہے، بغیر اِس کے کہ اُن کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ اور جس نے اِسلام میں کسی بری بات کی اِبتدا کی تو اُس پر اُس کے اپنے عمل کا بھی گناہ ہے اور جو اُس کے بعد اِس پر عمل کریں گے اُن کا بھی گناہ ہے، بغیر اِس کے کہ اُن کے گناہ میں کچھ کمی ہو۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب الحث علي الصدقة ولو بشق تمرة أو کلمة طيبة وأنها حجاب من النار، 2 : 704، 705، رقم : 1017
2. مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة أو سيئة ومن دعا إلي هدي أوضلالة، 4 : 2059، رقم : 1017
3. نسائي، السنن، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقة، 5 : 76، رقم : 2554
4. ابن ماجة، السنن، المقدمة، باب من سن سنة حسنة أو سيئة، 1 : 74، 75، رقم : 203، 206، 207
5. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359

اس حدیث میں لفظ ’’سنّ‘‘ لغوی معنی کے اِعتبار سے ’’ابدع‘‘ کے ہم معنی ہے یعنی جس نے اسلام میں کوئی اچھی (نئی) راہ نکالی۔ یہاں سے ’’بدعتِ حسنہ‘‘ کا تصور ابھرتا ہے۔ اِسی طرح ’’من سنّ فی الاسلام سنۃ سیئۃ‘‘ سے بدعتِ سیئہ کی طرف اشارہ ہے۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ اس سے تو صرف ’’سنت‘‘ ہی مراد ہے بدعت مراد نہیں لی جا سکتی تو اس کا جواب یہ ہے کہ (معاذ اﷲ) اگر اس سے مراد صرف ’’سنت‘‘ ہی ہوتا تو کیا وہاں ’’حسنہ‘‘ کہنے کی ضرورت تھی؟ کیا کوئی سنت غیر حسنہ بھی ہوسکتی ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ عمل کرنے کے حوالے سے ’’مَنْ عَمِلَ‘‘ تو کہہ سکتے ہیں مگر ’’من سنَّ‘‘ کہنے کی کیا ضرورت ہے کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے ایک اُمتی کیا ’’راہ‘‘ نکالے گا؟ وہ تو صرف عمل اور اِتباع کا پابند ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ’’سَنَّ‘‘ سے مراد معروف معنوں میں سنت نہیں ہے بلکہ یہاں لغوی معنی یعنی راستہ اور نئی راہ نکالنا مراد ہے۔

بدعت کی مندرجہ بالا اَقسام اور تفصیلات متعدد ائمہ حدیث اور فقہاء نے اپنے اپنے انداز میں اپنی کتب میں بیان کی ہیں۔ تفصیلات ہماری کتاب ’’کتاب البدعۃ‘‘ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔

مندرجہ بالا تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر عمل کو اِس ڈھب پر نہیں دیکھا جاتا کہ یہ عمل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہوتا تھا یا نہیں اور بعد میں کب شروع ہوا بلکہ اس کو پرکھنے کے لیے عمل کی ہیئت کبھی رسم و رواج پر منحصر ہوتی ہے اور کبھی وقت کی ضروریات اور تقاضوں پر کبھی اس کام میں کئی حکمتیں کارفرما ہوتی ہیں اور کبھی کئی مصلحتیں۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ کیا اس کی کوئی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے یا نہیں؟ کیا بلاواسطہ یا بالواسطہ اس کا کوئی ثبوت قرآن و سنت میں موجود ہے؟ یا پھر وہ کام اس لیے بھی قابل مذمت ٹھہرتا ہے کہ اس سے کسی واجب، سنت یا مستحب پر زَد پڑتی ہے۔

اگر کسی نئے عمل کی اصل قرآن حکیم یا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہو جائے تو پھر وہ طعن و تشنیع اور گمراہی یا گناہ کا باعث نہیں رہتا اور اگر بہ فرضِ محال قرآن و سنت سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ثابت نہ بھی ہو لیکن اس سے قرآن و سنت کی مخالفت نہ ہوتی ہو تو پھر بھی وہ کسی قسم کی قباحت کا باعث نہیں بنتا اور نہ ہی اس پر طعن و تشنیع درست ہے۔ البتہ صرف اس صورت میں کوئی بدعت ناجائز اور قبیح کے زمرے میں شامل ہو کر قابلِ مذمت ٹھہرے گی جب وہ قرآن و سنت کی کسی نص یا شریعت کے کسی حکم کے خلاف ہو یا دین کے عمومی مزاج اور اُس کی روح کے منافی ہو۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔