Sunday, 1 November 2015

محبوب دو عالم ﷺ سے اونٹوں کا محبّت کرنا

محبوب دو عالم ﷺ سے اونٹوں کا محبّت کرنا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت عبد اﷲ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک انصاری شخص کے باغ میں داخل ہوئے تو وہاں ایک اُونٹ تھا۔ جب اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھا تو وہ رو پڑا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس کے سر پر دست شفقت پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس اُونٹ کا مالک کون ہے اور یہ کس کا اونٹ ہے؟ انصار کا ایک نوجوان حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ میرا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بے زبان جانور کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے جس کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالک بنایا ہے۔ اس نے مجھے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس سے بہت زیادہ کام لیتے ہو۔

أخرجه أبو داود في السنن، کتاب: الجهاد، باب: ما يومر به من القيام علی الدواب والبهائم، 3 /23، الرقم: 2549، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 /205، الرقم: 1754، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9 /159، الرقم: 135، وأبو عوانة فی المسند، 1: 197، وأبو المحاسن فی معتصر المختصر، 2: 19، والمزی فی تهذيب الکمال، 6: 165، الرقم: 1232، والشافعی فی تاريخ مدينة دمشق، 27، 249، الرقم: 3222.
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت یعلی بن سیابہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں ایک سفر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک جگہ قضائے حاجت کا ارادہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کھجور کے دو درختوں کو حکم دیا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حکم سے ایک دوسرے سے مل گئے (اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے پردہ بن گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کے پیچھے قضائے حاجت فرمائی)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں دوبارہ حکم دیا تو وہ اپنی اپنی جگہ پر واپس آ گئے۔ پھر ایک اونٹ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں اپنی گردن کو زمین پر رگڑتا ہوا حاضر ہوا۔ وہ اتنا بلبلایا کہ اس کے اردگرد کی جگہ گیلی ہو گئی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ اونٹ کیا کہہ رہا ہے؟ اس کا خیال ہے کہ اس کا مالک اسے ذبح کرنا چاہتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کے مالک کی طرف آدمی بھیجا (کہ اسے بلا لائے۔ جب وہ آ گیا تو) آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سے فرمایا: کیا یہ اونٹ مجھے ہبہ کرتے ہو؟ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اس سے بڑھ کر اپنے مال میں سے کوئی چیز محبوب نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں تم سے اس کے معاملہ میں بھلائی کی توقع رکھتا ہوں۔ اس صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنے تمام مال سے بڑھ کر اس کا خیال رکھوں گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا گزر ایک قبر سے ہوا جس کے اندر موجود میت کو عذاب دیا جا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اسے گناہ کبیرہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک درخت کی ٹہنی طلب فرمائی اور اسے اس قبر پر رکھ دیا اور فرمایا: جب تک یہ ٹہنی خشک نہیں ہو جاتی اسے عذاب میں تخفیف دی جاتی رہے گی۔

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 /172، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 /6، والخطيب البغدادی فی موضح أوهام الجمع والتفريق، 1 /272، الرقم: 271 وابن حميد في المسند، 1 /154، الرقم: 405، والنووي في رياض الصالحين، 1 /243، الرقم: 243 والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 /144، 145، الرقم: 3431.
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ میں ایک غزوہ میں حضور نبی اکرم اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ وہ فرماتے ہیں کہ اتفاق سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم میرے ساتھـ آملے میں اپنے پانی ڈھونے والے اونٹ پر سوار تھا جو تھکاوٹ کے باعث چل نہیں رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تمہارے اونٹ کو کیا ہو گیا ہے؟ ان کا بیان ہے کہ میں عرض گزار ہوا: یہ تھک گیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پیچھے کی جانب تشریف لائے، اونٹ کو ڈانٹا اور اس کے لیے دعا کی تو وہ آسانی سے دوسرے اونٹوں سے آگے چلنے لگا۔ پھر ارشاد فرمایا: اب تم اپنے اونٹ کو کیسا دیکھتے ہو؟ میں نے عرض کی: اب تو اچھا ہے۔ اسے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی برکت حاصل ہوگئی ہے۔

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الجهاد والسير، باب: استئذان الرجل الإمام، 3 /1083، الرقم: 2805، ومسلم في کتاب: المساقاة، باب: بيع البعير واستثناء رکوبه، 3 /1221، الرقم: 715، وأبوعوانة في المسند، 3 /249، الرقم: 4843.
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت حماد بن سلمہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے بنی قیس کے ایک بزرگ کو اپنے والد کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے۔ ہمارے پاس ایک سرکش اونٹنی تھی جو قابو میں نہ آتی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس اونٹنی کے پاس گئے، اس کے تھنوں پر دستِ اقدس پھیرا تو وہ دودھ سے بھر گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں دوہا۔

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 /73، الرقم: 19777، والحارث في المسند، 1 /368، الرقم: 268، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 /25، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 /29.
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں: ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر تھے کہ ایک اُونٹ بھاگتا ہوا آیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سرِ انور کے پاس آکر کھڑا ہوگیا (جیسے کان میں کوئی بات کہہ رہا ہو)۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے اُونٹ! پرسکون ہوجا۔ اگر تو سچا ہے تو تیرا سچ تجھے فائدہ دے گا اور اگر تو جھوٹا ہے تو تجھے اس جھوٹ کی سزا ملے گی۔ بے شک جو ہماری پناہ میں آجاتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اسے امان دے دیتا ہے اور ہمارے دامن میں پناہ لینے والا کبھی نامراد نہیں ہوتا۔ ہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! یہ اونٹ کیا کہتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس اونٹ کے مالکوں نے اسے ذبح کرکے اس کا گوشت کھانے کا ارادہ کرلیا تھا۔ سو یہ ان کے پاس سے بھاگ آیا ہے اور اس نے تمہارے نبی کی بارگاہ میں استغاثہ کیا ہے۔ ہم ابھی باہم اسی گفتگو میں مشغول تھے کہ اس اونٹ کے مالک بھاگتے ہوئے آئے۔ جب اونٹ نے ان کو آتے دیکھا تو وہ دوبارہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سر مبارک کے قریب ہوگیااور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیچھے چھپنے لگا۔ ان مالکوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارا یہ اونٹ تین دن سے ہمارے پاس سے بھاگا ہوا ہے اور آج یہ ہمیں آپ کی خدمت میں ملا ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: یہ میرے سامنے شکایت کر رہا ہے اور یہ شکایت بہت ہی بری ہے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ کیا کہہ رہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: یہ کہتا ہے کہ یہ تمہاری پاس کئی سال تک پلا بڑھا۔ جب موسم گرما آتا تو تم گھاس اور چارے والے علاقوں کی طرف اس پر سوار ہوکر جاتے اور جب موسم سرما آتا تو اسی پر سوار ہوکر گرم علاقوں کی جانب کوچ کرتے۔ پھر جب اس کی عمر زیادہ ہوگئی تو تم نے اسے اپنی اونٹنیوں میں افزائش نسل کے لئے چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس سے کئی صحت مند اونٹ عطا کئے۔ اب جبکہ یہ اس خستہ حالی کی عمر کو پہنچ گیا ہے تو تم نے اسے ذبح کر کے اس کا گوشت کھالینے کا منصوبہ بنالیا ہے۔ انہوں نے عرض کیا: خدا کی قسم، یا رسول اللہ! یہ بات من وعن اسی طرح ہے جیسے آپ نے بیان فرمائی۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ایک اچھے خدمت گزار کی اس کے مالکوں کی طرف سے کیا یہی جزا ہوتی ہے؟! وہ عرض گزار ہوئے یا رسول اللہ! اب ہم نہ اسے بیچیں گے اور نہ ہی اسے ذبح کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تم جھوٹ کہتے ہو۔ اس نے پہلے تم سے فریاد کی تھی مگر تم نے اس کی داد رسی نہیں کی اور میں تم سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہوں۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے دلوں سے رحمت نکال لی ہے اور اسے مومنین کے دلوں میں رکھ دیا ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس اونٹ کو ان سے ایک سو درہم میں خرید لیا اور پھر فرمایا: اے اونٹ! جا، تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر آزاد ہے۔ اس اونٹ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سر مبارک کے پاس اپنا منہ لے جاکر کوئی آواز نکالی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: آمین۔ اس نے پھر دعا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پھر فرمایا: آمین۔ اس نے پھر دعا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پھر فرمایا: آمین۔ اس نے جب چوتھی مرتبہ دعا کی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم آبدیدہ ہوگئے۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ اونٹ کیا کہہ رہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس نے پہلی دفعہ کہا: اے نبی مکرم! اللہ تعالیٰ آپ کو اسلام اور قرآن کی طرف سے بہترین جزا عطا فرمائے۔ میں نے کہا: آمین۔ پھر اس نے کہا: اللہ تعالیٰ قیامت کے روز آپ کی امت سے اسی طرح خوف کو دور فرمائے جس طرح آپ نے مجھ سے خوف کو دور فرمایا ہے۔ میں نے کہا: آمین۔ پھر اس نے دعا کی: اللہ تعالیٰ دشمنوں سے آپ کی اُمت کے خون کو اسی طرح محفوظ رکھے جس طرح آپ نے میرا خون محفوظ فرمایا ہے۔ اس پر بھی میں نے آمین کہا۔ پھر اس نے کہا: اللہ تعالیٰ ان کے درمیان جنگ وجدال پیدا نہ ہونے دے یہ سن کر مجھے رونا آگیا کیونکہ یہی دعائیں میں نے بھی اپنے رب سے مانگی تھیں تو اس نے پہلی تین تو قبول فرما لیں لیکن اس آخری دعا سے منع فرما دیا۔ جبرائیل نے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی ہے کہ میری یہ امت آپس میں تلوار زنی سے فنا ہوگی۔ جو کچھ ہونے والا ہے قلم اسے لکھ چکا ہے۔

أخرجه المنذري في الترغيب والترهيب، 3 /144، 145، الرقم: 3431.

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...