Sunday 8 November 2015

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ کھانے کی بے مثال محبت

0 comments
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ کھانے کی بے مثال محبت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ابن شہاب نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ خیبر والوں میں ایک یہودیہ عورت نے بکری کے بھنے ہوئے گوشت میں زہر ملایا اور پھر وہ گوشت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس تحفے کے طور پر بھیج دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اُس کی دستی لی اور اُس سے کھایا اور آپ کے صحابہ میں سے چند اور نے بھی کھایا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صحابہ کرام کو فرمایا: اپنے ہاتھ روک لو۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اُس عورت کے پاس ایک آدمی بھیجا جو اُسے بلا کر لایا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اُسے فرمایا: کیا تم نے اس گوشت میں زہر ملایا ہے؟ یہودیہ عورت نے کہا: آپ کو کس نے بتایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اسی دستی(گوشت) نے بتایا ہے جو میرے ہاتھ میں ہے۔ اس پر اُس عورت نے کہا، ہاں(میں نے زہر ملایا ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ ِاس سے تمہارا کیا ارادہ تھا؟ اس نے کہا کہ اگر آپ نبی ہیں تو یہ زہر آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا اور اگر نبی نہیں ہیں تو ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی۔

أخرجه أبو داود فی السنن، کتاب: الديات، باب: فيمن سقی رجلاً سماً أو أطعمه فمات، 4 /173، الرقم: 4510، والدارمی فی السنن، 1 /46، الرقم: 68، والبيهقی فی السنن، الکبری، 8 / 46.
-----------------------------------------------------------------------------------------
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں کچھ کھجوریں لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اﷲ! ان میں اللہ تعالیٰ سے برکت کی دعا فرمائیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں اکٹھا کیا اور میرے لیے ان میں دعائے برکت فرمائی پھر مجھے فرمایا: انہیں لے لو اور اپنے اس توشہ دان میں رکھ دو اور جب انہیں لینا چاہو تو اپنا ہاتھ اس میں ڈال کر لے لیا کرو اسے جھاڑنا نہیں۔ سو میں نے ان میں سے اتنے اتنے (یعنی کئی) وسق (ایک وسق دو سو چالیس کلو گرام کے برابر ہوتا ہے) کھجوریں اﷲ تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کیں ہم خود اس میں سے کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے۔ کبھی وہ توشہ دان میری کمر سے جدا نہ ہوا (یعنی کھجوریں ختم نہ ہوئیں) یہاں تک کہ جس دن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو وہ مجھ سے کہیں گر گیا۔

أخرجه الترمذی فی السنن، کتاب: المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: مناقب لأبي هريرة رضی الله عنه، 5 /685، الرقم: 3839، وأحمد بن حنبل فی المسند، 2 /352، الرقم: 8613، وابن حبان فی الصحيح، 14 /467، الرقم: 6532، وابن راهويه فی المسند، 1 /75، الرقم: 3، والهيثمی فی موارد الظمآن، 1 /527، الرقم: 2150، وابن کثير فی البداية والنهاية، 6 /117، والذهبی فی سير أعلام النبلاء، 2 /231، والسيوطی فی الخصائص الکبری، 2 /85.
-----------------------------------------------------------------------------------------
سعید بن میناء کا بیان ہے کہ میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب خندق کھودی جارہی تھی تو میں نے دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سخت بھوک لگی ہے۔ میں اپنی بیوی کے پاس آکر کہنے لگا کہ کھانے کی کوئی چیز ہے؟ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سخت بھوک کی ہالت میں دیکھا ہے۔ اس نے بوری نکالی تو اس میں ایک صاع جو تھے اور ہمارے پاس بکری کا ایک بچہ تھا۔ میں نے بکری کا بچہ ذبح کیا اور بیوی نے جو پیس لئے۔ میں نے گوشت کی بوٹیاں بناکر انہیں ہانڈی میں ڈال دیا۔ جب میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہونے کی خاطر جانے لگا تو بیوی نے کہا، کہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھیوں کے سامنے شرمسار نہ کرنا۔ میں نے حاضرِ خدمت ہوکر سرگوشی کے انداز میں عرض کی، یا رسول اللہ! ہم نے بکری کا ایک بچہ ذبح کیا ہے اور ہمارے پاس ایک صاع جو کا آٹا ہے پس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم چند حضرات کو ساتھ لے کر تشریف لے چلیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بآواز بلند فرمایا کہ اے خندق والو! جابر نے تمہارے لئے ضیافت کا بندوبست کیا ہے لہٰذا آؤ چلو۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ میرے آنے تک ہانڈی نہ اتارنا اور روٹیاں نہ پکوانا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم لوگوں کے آگے آگے تھے۔ جب میں گھر گیا تو بیوی نے گھبرا کر مجھ سے کہا کہ آپ نے تو میرے ساتھ وہی بات کردی جس کا خدشہ تھا۔ میں نے کہا کہ تم نے جو کچھ کہا۔ وہ میں نے عرض کردیا تھا پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آٹے میں لعاب دہن ڈالا اور برکت کی دعا مانگی۔ پھر ہنڈیا میں لعاب دہن ڈالا اور دعائے برکت کی۔ اس کے بعد فرمایا کہ روٹی پکانے والی ایک اور بلا لو تاکہ میرے سامنے روٹیاں پکائے اور تمہاری ہانڈی سے گوشت نکال کر دیتی جائے اور فرمایا کہ ہانڈی کو نیچے نہ اتارنا۔ کھانے والوں کی تعداد ایک ہزار تھی۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم، سب نے کھانا کھا لیا یہاں تک کہ سارے شکم سیر ہو کر چلے گئے اور کھانا پیچھے بھی چھوڑ گئے۔ دیکھا گیا تو ہانڈی میں اتنا ہی گوشت موجود تھا جتنا پکنے کے لئے رکھا تھا اور ہمارا آٹا بھی اتنا ہی تھا جتنا کہ پکانے سے پہلے تھا۔

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب: غزوة الخندق وهي الأحزاب، 4 /1505، الرقم: 3876، ومسلم في الصحيح، کتاب: الأشربة، باب: جواز استتباعه غيره إلی دار من يثق برضاه بذلک ويتحققه تحققا تاما واستحباب الاجتماع علی الطعام، 3 /1610، الرقم: 2039، والحاکم في المستدرک، 3 /32، الرقم: 4324، والبيهقي في السنن الکبری، 7 /274، الرقم: 14373، وأبو عوانة في المسند، 4 /351، الرقم: 6942، و 5 /177، الرقم: 8307، والفريابي في دلائل النبوة، 1 /49، الرقم: 17.
-----------------------------------------------------------------------------------------
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ام سلیم رضي اﷲ عنہا (والدہ حضرت انس) سے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی آواز سنی ہے جس میں ضعف محسوس ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھوکے ہیں۔ کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا اور چند جو کی روٹیاں نکال لائیں۔ پھر اپنا ایک دوپٹہ نکالا اور اس کے ایک پلے روٹیاں لپیٹ دیں پھر روٹیاں میرے سپرد کر کے باقی دوپٹہ مجھے اُڑھا دیا اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جانب روانہ کر دیا۔ میں روٹیاں لے کر گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مسجد میں پایا شمع رسالت کے گرد چند پروانے بھی موجود تھے۔ میں ان کے پاس کھڑا ہوگیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں ابو طلحہ نے کھانا دے کر بھیجا ہے؟ میں عرض گزار ہوا، ہاں۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا، کھڑے ہوجاؤ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم چل پڑے میں ان سے آگے چل دیا اور جاکر حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو بتادیا۔ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے ام سلیم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم لوگوں کو لے کر غریب خانے پر تشریف لا رہے ہیں اور ہمارے پاس انہیں کھلانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ عرض گزار ہوئیں: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ پس حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے استقبال کو نکل کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ رسول خدا کے پاس جاپہنچے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو ساتھ لیا اور ان کے گھر جلوہ فرما ہوگئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے ام سلیم! جو کچھ تمہارے پاس ہے لے آو۔ انہوں نے وہی روٹیاں حاضر خدمت کردیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کے ٹکڑے کرنے کا حکم فرمایا اور حضرت ام سلیم رضي اﷲ عنہانے سالن کی جگہ کپی سے سارا گھی نکال لیا۔ پھر رسول خدا نے اس پر وہی کچھ پڑھا جو خدا نے چاہا۔ پھر فرمایا کہ دس آدمیوں کو کھانے کے لیے بلالو۔ پس انہوں نے سیر ہوکر کھانا کھالیا اور چلے گئے۔ پھر فرمایا، دس آدمی کھانے کے لیے اور بلالو۔ چنانچہ وہ بھی سیر ہوکر چلے گئے۔ پھر دس آدمیوں کو کھانے کے لیے اور بلالو۔ پس انہیں بلایا گیا۔ وہ بھی شکم سیر ہوکر کھاچکے اور چلے گئے۔ پھر دس آدمیوں کو بلانے کے لیے فرمایا گیا اور اسی طرح جملہ حضرات نے شکم سیر ہوکر کھانا کھا لیا۔ جملہ مہمان ستر یا اسی افراد تھے۔

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب، باب: علامات النبوة في الإسلام، 3 /1311، الرقم: 3385، وفي کتاب: الأطعمة، باب: من أکل حتی شبع، 5 /2057، الرقم: 5066، وفي کتاب: الأيمان والنذور، باب: إذا حلف أن لا يأتدم فأکل تمرا بخبز وما يکون من الأدم، 6 /2461، الرقم: 6310، ومسلم في الصحيح، کتاب: الأشربة، باب: جواز استتباعه غيره إلی دار من يثق برضاه بذلک ويتحققه تحققا تاما واستحباب الاجتماع علی الطعام، 3 /1612، الرقم: 2040، والترمذي في السنن، کتاب: المناقب، باب: 6، 5 /595، الرقم: 3630، ومالک في الموطأ، کتاب: صفة النبي صلی الله عليه واله وسلم ، باب: جامع ما جاء في الطعام والشراب، 2 /927، الرقم: 1675، وابن حبان في الصحيح، 14 /469، الرقم: 6534.
-----------------------------------------------------------------------------------------
حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا کہ ہم ایک سو تیس افراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ حضور نبی ا کرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم میں سے کسی کے پاس کھانا ہے؟ ایک آدمی کے پاس صاع کے لگ بھگ آٹا تھا، اسے وہ گوندھا گیا۔ پھر ایک مشرک، بکھرے ہوئے بالوں والا، دراز قد ریوڑ کو ہانکتا ہوا آ گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سے بکری بیچنے یا عطیہ دینے کے لیے پوچھا، یا فرمایا کہ ہبہ۔ اس نے کہا: نہیں بلکہ بیچتا ہوں، تو اس سے ایک بکری خرید لی۔ پھر اسے بنایا گیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کلیجی بھوننے کا حکم فرمایا۔ خدا کی قسم ایک سو تیس افراد میں سے ایک بھی نہ بچا جس کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کلیجی میں سے حصہ نہ دیا ہو۔ اگر کوئی حاضر تھا تو اسے حصہ دے دیا گیا اور جو موجود نہ تھا اس کے لیے حصہ رکھ دیا گیا۔ پھر اسے دو برتنوں میں ڈال لیا۔ پس تمام لوگوں نے شکم سیر ہو کر کھا لیا اور دو برتنوں میں گوشت بچ رہا جو ہم نے اونٹ پر لاد لیا۔

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الهبة وفضلها، باب: قبول الهدية من المشرکين، 2 /923، الرقم: 2475، وفي کتاب: الأطعمة، باب: من أکل حتي شبع، 5 /2058، الرقم: 5067، ومسلم في الصحيح، کتاب: الأشربة، باب: إکرام الضيف وفضل إيثاره، 3 /1626، الرقم: 2056، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 /197، 198، الرقم: 1703، 1711، وأبو عوانة في المسند، 5 /204، الرقم: 8399، والشيباني في الآحاد والمثاني، 1 /472، الرقم: 656، والفريابي في المسند، 1 /81، الرقم: 45.

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔