Wednesday 4 November 2015

محبوب دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ پتھروں کی محبت

0 comments
محبوب دو عالم  صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ پتھروں کی محبت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں: حضرت ابو طالب روسائے قریش کے ہمراہ شام کی طرف روانہ ہوئے. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ راستے میں جب وہ راہب کے پاس پہنچے تو حضرت ابو طالب اپنی سواری سے نیچے اتر آئے۔ باقی لوگوں نے بھی اپنے کجاوے کھول دیئے۔ راہب ان کی طرف نکلا حالانکہ اس سے پہلے وہ اس کے پاس سے گزرا کرتے تھے لیکن وہ ان کے پاس نہیں آیا کرتا تھا اور نہ ہی ان کی طرف متوجہ ہوتا تھا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ ابھی کجاوے کھول ہی رہے تھے کہ وہ ان کے درمیان چلنے لگا یہاں تک کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قریب پہنچا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر کہا: یہ تمام جہانوں کا سردار اور رب العالمین کا رسول ہے! وہ انہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث کرے گا۔ روسائے قریش نے اس سے پوچھا: تمہیں کس نے بتایا؟ اس نے کہا: جب تم لوگ عقبہ سے چلے تو تمام درخت اور پتھر ان کو سجدہ کر رہے تھے اور وہ صرف نبی کو ہی سجدہ کرتے ہیں

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب، باب: ما جاء في بدء نبوة النبي صلی الله عليه واله وسلم ، 5 /590، الرقم: 3620، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 /317، الرقم: 31733، و 7 /327، الرقم: 36541، والبزار في المسند، 8 /97، الرقم: 3096، والحاکم في المستدرک، 2 /672، الرقم: 4229، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1 /45، الرقم: 19.
-----------------------------------------------------------------------------------------
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : ۔ إِنَّ بِمَکَّةَ حَجَرًا کَانَ يُسَلِّمُ عَلَيَّ لَيَالِيَ بُعِثْتُ؛ إِنِّي لَأَعْرِفُهُ الْأنَ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالطِّيَالِسِيُّ وَأَبُويَعْلَی وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: مکہ مکرمہ میں ایک پتھر ہے جو مجھے بعثت کی راتوں میں سلام کیا کرتا تھا۔ میں اسے اب بھی پہچانتا ہوں۔

اس حدیث کو امام ترمذی، احمد، طیالسی، ابو یعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور ابوعیسیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔

 أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب، باب: في آيات إثبات نبوة النبي صلی الله عليه واله وسلم وما قد خصه اﷲ، 5 /592، الرقم: 3624، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 /105، الرقم: 21043، وأبو يعلی في المسند، 13 /459، الرقم: 7469، والطبراني في المعجم الکبير، 2 /231، الرقم: 1961، والطيالسي في المسند، 1 /106، الرقم: 781، والبيهقي في دلائل النبوة، 2 /153.
-----------------------------------------------------------------------------------------
عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم بِمَکَّةَ. فَخَرَجَ فِي بَعْضِ نَوَاحِيْهَا فَمَا اسْتَقْبَلَهُ شَجَرٌ وَلَا جَبَلٌ إِلَّا قَالَ: اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ، يَا رَسُوْلَ اﷲِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ والْحَاکِمُ وَاللَّفْظُ لَهُ. وَقَالَ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم مکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مکہ کے گرد و نواح میں گئے تو راستے میں جو پتھر اور درخت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے آتا تو وہ کہتا: اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ، يَا رَسُولَ اﷲِ یا رسول اللہ! آپ پر سلام ہو۔

اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ الفاظ حاکم کے ہیں اور امام حاکم فرماتے ہیں: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب، باب: 6، 5 /593، الرقم: 3626، والحاکم في المستدرک، 2 /677، الرقم: 4238.
-----------------------------------------------------------------------------------------
عَنْ عِبَادٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رضی الله عنه يَقُوْلُ: لَقَدْ رَأَيْتُنِي أَدْخُلُ مَعَهُ يَعْنِي النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم الْوَادِيَّ. فَـلَا يَمُرُّ بِحَجَرٍ وَلَا شَجَرٍ إِلَّا قَالَ: اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ، يَا رَسُوْلَ اﷲِ، وَأَنَا أَسْمَعُهُ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.

حضرت عباد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا:میں نے دیکھا کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ فلاں فلاں وادی میں داخل ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جس بھی پتھر یا درخت کے پاس سے گزرتے تو وہ کہتا: اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ، يَا رَسُوْلَ اﷲِ ’یا رسول اللہ! آپ پر سلام ہو‘ اور میں یہ تمام سن رہا تھا۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

 أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 2 /154، وابن کثير في شمائل الرسول: 259، 260، وفي البداية والنهاية، 3: 16.
-----------------------------------------------------------------------------------------
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے: یمن سے ایک وفد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اے ابو القاسم، ہم نے آزمائش کے طور پر آپ سے ایک چیز چھپا رکھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: سبحان اﷲ، ایسا تو کاہنوں سے کیا جاتاہے۔ اور کاہن (اٹکل سے آئندہ کی باتیں بتانے والا) اور متکہن (اپنے آپ کو کاہن ظاہر کرنے والا) اور کہانت جہنم میں ہوں گے۔ اُن میں سے کسی نے کہا: اس بات کی کون گواہی دیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تھوڑی سی کنکریوں کی طرف ہاتھ بڑھایا اور انہیں مٹھی میں لے کر فرمایا: یہ گواہی دیں گی کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ کنکریوں نے تسبیح پڑھی اور پکار اٹھیں کہ ہم گواہی دیتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بلا شبہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے رسول ہیں۔

أخرجه الحکيم الترمذي في نوادر الأصول 2 /216، 217، والعيني في عمدة القاري، 11: 78
-----------------------------------------------------------------------------------------
حضرت عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ حنین میں، میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ تھا، میں اور حضرت ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے، اور آپ سے بالکل الگ نہیں ہوئے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس سفید رنگ کی خچر پر سوار تھے جو آپ کو فروہ بن نفاثہ جذامی نے ہدیہ کی تھی، جب مسلمانوں اور کفار کا مقابلہ ہوا تو مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے خچر کو کفار کی جانب دوڑا رہے تھے پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے چند کنکریاں اُٹھائیں اور کفار کے چہروں کی طرف پھینکیں اور فرمایا: رب محمد کی قسم! یہ ہار گئے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں دیکھ رہا تھا لڑائی اسی تیزی کے ساتھ جاری تھی، میں اسی طرح دیکھ رہا تھا کہ اچانک آپ نے کنکریاں پھینکیں بخدا میں نے دیکھا کہ ان کا زور ٹوٹ گیا اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے۔

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الجهاد والسير، باب: في غزوة حنين، 3 /1398، الرقم: 1775، وعبد الرزاق في المصنف، 5 /380، 381، الرقم: 9741، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 /207، الرقم: 1775، وفي فضائل الصحابة، 2 /927، الرقم: 1775، والنسائي في السنن الکبری، 5 /194، الرقم: 8647، وابن حبان في الصحيح، 15 /523، 524، الرقم: 7049، والحميدي في المسند، 1 /218، الرقم: 459، وأبو عوانة في المسند، 4 /276، الرقم: 6748، وابن سعد في الطبقات الکبری، 2 /155، والشيباني في الآحاد والمثاني، 1 /273، الرقم: 356، والنووي في شرحه علی صحيح مسلم، 12 /116، والمزي في تهذيب الکمال، 24 /135، وابن حجر العسقلاني في فتح الباري، 8 /31.
-----------------------------------------------------------------------------------------
عَنْ جَابِرٍ قَالَ: دَخَلْنَا مَعَ النَّبَيِّ صلی الله عليه واله وسلم مَکَّةَ فِي الْبَيْتِ وَحَوْلَ الْبَيْتِ ثَـلَاثُمِائَةٍ وَسِتُّوْنَ صَنَمًا تُعْبَدُ مِنْ دُوْنِ اﷲِ. قَالَ: فَأَمَرَ بِهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَکَبَّتْ کُلُّهَا لِوَجْهِهَا ثُمَّ قَالَ: {جَآءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَهُوْقًاo} [الإسراء، 17: 81].

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی معیت میں مکہ مکرمہ میں بیت اللہ میں داخل ہوئے اور خانہ کعبہ میں اس وقت تین سو ساٹھ بت تھے، جن کی اللہ کے مقابلہ میں عبادت کی جاتی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں حکم دیا تو وہ سارے کے ساے منہ کے بل گر پڑے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: {حق آگیا اور باطل بھاگ گیا، بے شک باطل نے زائل و نابود ہی ہو جانا ہے}۔

أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 7 /403، الرقم: 36905، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 /60.
-----------------------------------------------------------------------------------------
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: دَخَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَوْمَ الْفَتْحِ وَعَلَی الْکَعْبَةِ ثَلَاثُ مِائَةِ صَنَمٍ وَسِتُّوْنَ صَنَمًا، قَدْ شَدَّ لَهُمْ إِبْلِيْسُ أَقْدَامَهُمْ بِالرَّصَاصِ، فَجَاءَ وَمَعَهُ قَضِيْبُهُ، فَجَعَلَ يَهْوِي بِهِ إِلَی کُلِّ صَنَمٍ مِنْهَا، فَيَخِرُّ لِوَجْهِهِ وَيَقُوْلُ: {جَآءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَهُوْقًاo} [الإسراء، 17: 81] حَتَّی أَمَّرَ بِهِ عَلَيْهَا کُلِّهَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فتح مکہ والے دن کعبہ میں داخل ہوئے، اور (اس وقت) اس میں تین سو ساٹھ بت پڑے ہوئے تھے، شیطان نے جن کے پاؤں آہنی زنجیروں سے جکڑ رکھے تھے، پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ادھر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دست اقدس میں اپنا عصا مبارک بھی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس عصا کے ساتھ ان بتوں میں سے ہر بت کی طرف آئے تو ہر بت اوندھے منہ گرتا جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس وقت یہ آیہ کریمہ پڑھ رہے تھے: {حق آگیا اور باطل بھاگ گیا، بے شک باطل نے زائل و نابود ہی ہو جانا ہےo} یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے اس عصا کے ذریعے سارے بت گرا دیے۔
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 10 /279، الرقم: 10656، وفي المعجم الصغير، 2 /272، الرقم: 1152، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 3 /212، والتميمي في دلائل النبوة، 1 /196، الرقم: 263، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 /176، وقال: رواه الطبراني ورجاله ثقات، وأيضاً، 7 /51، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 10 /314، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 /60.

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔