رحمت عالم نور مجسّم ﷺ کو جانوروں کا سجدہ کرنا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری گھرانے میں ایک اونٹ تھا جس پر (وہ کھیتی باڑی کے لئے) پانی بھرا کرتے تھے، وہ ان کے قابو میں نہ رہا اور انہیں اپنی پشت استعمال کرنے( یعنی پانی لانے) سے روک دیا۔ انصار صحابہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ہمارا ایک اونٹ تھا ہم اس سے کھیتی باڑی کے لئے پانی لانے کا کام لیتے تھے۔ وہ ہمارے قابو میں نہیں رہا اور اب وہ خود سے کوئی کام نہیں لینے دیتا۔ ہمارے کھیت کھلیان اور باغ پانی کی قلت کے باعث سوکھ گئے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا: اُٹھو، پس سارے اٹھ کھڑے ہوئے (اور اس انصاری کے گھر تشریف لے گئے)۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم احاطہ میں داخل ہوئے تو اُونٹ جو کہ ایک کونے میں تھا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اُس اُونٹ کی طرف چل پڑے۔ انصار کہنے لگے: (یا رسول اللہ!) یہ اُونٹ کتے کی طرح باؤلا ہو چکا ہے اور ہمیں اس کی طرف سے آپ پر حملہ کا خطرہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: مجھے اس سے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ اُونٹ نے جیسے ہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف بڑھا یہاں تک (قریب آکر) آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے سجدہ میں گر پڑا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے پیشانی سے پکڑا اور حسبِ سابق دوبارہ کام پر لگا دیا۔ صحابہ کرام نے یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اﷲ! یہ تو بے عقل جانور ہوتے ہوئے بھی آپ کو سجدہ کر رہا ہے اور ہم تو عقلمند ہیں لہٰذا اس سے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ کو سجدہ کریں۔ ایک روایت میں ہے کہ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! ہم جانوروں سے زیادہ آپ کو سجدہ کرنے کے حقدار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کسی فردِ بشر کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی بشر کو سجدہ کرے اور اگر کسی بشر کا بشر کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو اس کی قدر و منزلت کی وجہ سے سجدہ کرے جو کہ اسے بیوی پر حاصل ہے ۔
أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 3 /158، الرقم: 12635، والدارمی فی السنن، باب: (4)، ما أکرم اﷲ به نبيه من إيمان الشجر به والبهائم والجن، 1 /22، الرقم: 17، والطبراني فی المعجم الأوسط، 9 /81، الرقم: 9189، وعبد بن حميد فی المسند، 1 /320، الرقم: 1053، والمقدسی فی الأحاديث المختارة، 5 /265، الرقم: 1895، والمنذری فی الترغيب والترهيب، 3 /35، الرقم: 2977، والحسينی فی البيان والتعريف، 2 /171، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 /4، 9، والمناوی فی فيض القدير، 5 /329.
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مہاجرین و انصار کی ایک جماعت میں تشریف فرما تھے کہ ایک اُونٹ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے سجدہ ریز ہو گیا۔ صحابہ کرام نے آپ سے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کو جانور اور درخت سجدہ کرتے ہیں جبکہ ہم آپ کو سجدہ کرنے کے زیادہ حقدار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اپنے رب کی عبادت کرو اور اپنے بھائی کی عزت کرو۔ اگر میں کسی فردِ بشر کو حکم دیتا کہ وہ کسی اور کو سجدہ کرے تو میں ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہرکو سجدہ کرے۔ اور اگر شوہر اسے حکم دے کہ وہ زرد پہاڑ کو سیاہ پہاڑ تک اور سیاہ پہاڑ کو سفید پہاڑ تک لے جائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ ایسا کرے۔
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 /76، الرقم: 24515، والبيهقی فی السنن الکبری، 7: 291، الرقم: 14482، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 5 /265،266، الرقم: 1895 والمنذری فی الترغيب والترهيب، 3: 35، الرقم: 2977، وابن کثير في شمائل الرسول: 326، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 /310، والمناوی فی فيض القدير، 5: 329.
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری شخص کے پاس دو اونٹ تھے وہ دونوں سرکش ہو گئے۔ اس نے ان دونوں کو ایک باغ کے اندر قید کر دیا اور پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کے لیے دعا فرمائیں۔ (وہ جب حاضر ہوا تو) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم انصار کے ایک گروہ میں تشریف فرما تھے۔ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ کے پاس ایک حاجت لے کر حاضر ہوا ہوں۔ میرے دو اُونٹ ہیں جو سرکش ہو گئے ہیں۔ میں نے انہیں باغ میں داخل کر کے دروازہ بند کر دیا ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ میرے لیے دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں میرا فرماں بردار بنا دے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: اُٹھو، میرے ساتھ آؤ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم چلے یہاں تک کہ اس باغ کے دروازے پر تشریف لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: دروازہ کھولو۔ اس شخص کو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حوالے سے خدشہ تھا (کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جانور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر حملہ کر دیں)۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پھر فرمایا: دروازہ کھولو۔ اس نے دروازہ کھول دیا۔ دونوں اُونٹوں میں سے ایک دروازہ کے قریب ہی کھڑا تھا۔ جب اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھا تو فوراً آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سجدہ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس کوئی چیز لاؤ جس کے ساتھ باندھ کر میں اسے تمہارے حوالے کر دوں۔ وہ صحابی ایک نکیل لے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سے اسے باندھ دیا اور اسے صحابی کے حوالے کر دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم باغ کے دوسرے حصے کی طرف چلے جہاں دوسرا اُونٹ تھا۔ اس نے بھی جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس صحابی سے کہا: مجھے کوئی چیز لا دو جس سے میں اس کا سر باندھ دوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کا سر باندھ کر اسے صحابی کے حوالے کر دیا اور فرمایا: جاؤ اب یہ تمہاری نافرمانی نہیں کریں گے۔ جب صحابہ کرام نے یہ سارا واقعہ دیکھا تو عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! یہ اونٹ جو کہ بے عقل ہیں آپ کو سجدہ کرتے ہیں تو کیا ہم بھی آپ کو سجدہ نہ کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں کسی انسان کو یہ حکم نہیں دیتا کہ وہ کسی دوسرے انسان کو سجدہ کرے۔ اگر میں کسی انسان کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 /76، الرقم: 24515، والبيهقی فی السنن الکبری، 7: 291، الرقم: 14482، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 5 /265،266، الرقم: 1895 والمنذری فی الترغيب والترهيب، 3: 35، الرقم: 2977، وابن کثير في شمائل الرسول: 326، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 /310، والمناوی فی فيض القدير، 5: 329.
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بنی سَلَمَہ کے کسی شخص کا اُونٹ مستی میں آ گیا۔ وہ لوگوں پر حملہ آور ہونے لگا۔ اُن کے کام سے رُک گیا یہاں تک کہ کھجور کے درخت (پانی نہ ملنے کی وجہ سے) خشک ہونے لگے۔ اس شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اس امر کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: چلو چلیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم خود بھی اس کے ساتھ تشریف لے گئے۔ جب بابِ نخل تک پہنچ گئے تو اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اندر داخل نہ ہوں کیونکہ مجھے اس سے آپ کے حوالے سے خطرہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: داخل ہو جاؤ اور فکر نہ کرو۔ جب اونٹ کی نظر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر پڑی تو سر جھکائے ہوئے چل کر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے آ کھڑا ہوا، پھر سجدہ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اپنے اونٹ کے پاس آؤ، اسے نکیل ڈالو اور اس پر کجاوہ رکھو۔ چنانچہ لوگوں نے آ کر اسے نکیل ڈالی اور اس پر کجاوہ رکھا۔‘‘
أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 6 /28 وأحمد بن حنبل في المسند، 3 /158، الرقم: 12635، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 5 /265،266، الرقم: 1895، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 /35، الرقم: 2977، وابن کثير في شمائل الرسول: 321، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 /4، والمناوی فی فيض القدير، 5: 329 .
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت عبد اﷲ بن ابی اَوْفَی بیان کرتے ہیں: ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کوئی آنے والا آیا۔ اس نے کہا کہ فلاں گھرانے کا اونٹ بھاگ گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اٹھے اور ہم بھی آپ کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کے قریب نہ جائیے۔ ہمیں خطرہ ہے کہیں آپ کو نقصان نہ پہنچائے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اونٹ کے قریب چلے گئے۔ جب اونٹ نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھا تو سجدہ ریز ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اونٹ کے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: مہار لے آؤ۔ مہار لائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے وہ اس کے منہ میں ڈال دی۔ پھر فرمایا کہ اونٹ کے مالک کو بلا لو۔ جب مالک کو بلایا گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ اونٹ تمہارا ہے؟ اس نے عرض کیا: ہاں۔ فرمایا: اسے عمدہ چارہ دو اور اس سے زیادہ مشقت والا کام نہ لو۔ اس نے عرض کیا: (ہاں) میں ایسا ہی کروں گا۔
أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 6 /29.
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت یعلی بن مرہ ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جب ہم (ایک سفر میں) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ چل رہے تھے تو میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے تین اُمور (معجزات) دیکھے۔ ہمارا گزر ایک اونٹ کے پاس سے ہوا جس پر پانی رکھا جا رہا تھا۔ اس اونٹ نے جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھا تو وہ بلبلانے لگا اور اپنی گردن (از راہِ تعظیم) آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے جھکا دی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کے پاس کھڑے ہو گئے اور فرمایا: اس اونٹ کا مالک کہاں ہے؟ اس کا مالک حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سے پوچھا: یہ اونٹ مجھے بیچتے ہو؟ اس نے عرض کیا: نہیں، حضور، بلکہ یہ آپ کے لیے تحفہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ اسے مجھے بیچ دو۔ اس نے دوبارہ عرض کیا: نہیں، بلکہ یہ آپ کے لیے تحفہ ہے، اور بے شک یہ ایسے گھرانے کی ملکیت ہے کہ جن کا ذریعہ معاش اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اب تمہارے ذہن میں یہ بات آئی ہے کہ اس اونٹ نے ایسا کیوں کیا ہے۔ اس نے شکایت کی ہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہو اور چارہ کم ڈالتے ہو۔ اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ حضرت یعلی بن مروہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: پھر ہم روانہ ہوئے اور ہم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم وہاں محوِ استراحت ہو گئے۔ اتنے میں ایک درخت زمین کو چیرتا ہوا آیا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر سایہ فگن ہو گیا پھر کچھ دیر بعد وہ واپس اپنی جگہ پر چلا گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بیدار ہوئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اس واقعہ کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس درخت نے اپنے رب سے اجازت طلب کی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول کی بارگاہ میں سلام عرض کرے، پس اس نے اسے اجازت دے دی۔ پھر ہم وہاں سے آگے چلے اور ہمارا گزر پانی پر سے ہوا۔ وہاں ایک عورت تھی اس کے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا جسے جن چمٹے ہوئے تھے۔ وہ اسے لے کر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس لڑکے کی ناک کا نتھنا پکڑ کر فرمایا: نکل جاؤ میں محمد، اللہ کا رسول ہوں۔ حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: پھر ہم آگے بڑھے۔ جب ہم اپنے سفر سے واپس لوٹے تو ہم دوبارہ اسی پانی کے پاس سے گزرے۔ پس وہی عورت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس بھنا ہوا گوشت اور دودھ لے کر حاضرِ خدمت ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھنا ہوا گوشت واپس کردیا اور اپنے صحابہ کو ارشاد فرمایا تو انہوں نے دودھ میں سے کچھ پی لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سے بچے کے متعلق پوچھا تو اس نے جواب دیا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا! اس کے بعد ہم نے اس میں کبھی اس بیماری کا شائبہ تک نہیں پایا۔
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 /170، 173، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1 /158، الرقم: 184، وعبد بن حميد فی المسند، 1: 154، الرقم: 405، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 /144، الرقم: 3430، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 /5، وابن عساکر فی تاريخ مدينه دمشق، 4: 369.
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں: ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ایک سفر سے واپس آئے۔ راستے میں ہم بنو نجار کے ایک باغ میں پہنچے تو ہمیں معلوم ہوا کہ باغ میں ایک سرکش اونٹ ہے جو باغ میں کسی کو داخل نہیں ہونے دیتا اور جو باغ میں داخل ہونا چاہے اس پر حملہ کر دیتا ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے اس بات کا ذکر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے اور باغ میں داخل ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اونٹ کو بلایا تو وہ اپنی گردن کو زمین کے ساتھ گھسیٹتا ہوا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس کی لگام لاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے لگام دی اور اسے اس کے مالک کے سپرد کر دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: بے شک زمین و آسمان میں سوائے سرکش جنوں اور انسانوں کے کوئی چیز ایسی نہیں جو یہ تسلیم نہ کرتی ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 /310، الرقم: 14372، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 /315، الرقم: 31719، وعبد ابن حميد فی المسند، 1 /337، الرقم: 1122، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 /7، والتميمی فی الثقات، 4 /223، الرقم: 2615.
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں: کچھ لوگ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اﷲ! ہمارا ایک اونٹ ہے جو سرکش ہو گیا ہے اور باغ میں موجود ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس اُونٹ کے پاس آئے اور اس سے فرمایا: میرے قریب آؤ۔ وہ اطاعت گزاری سے اپنا سر جھکاتا ہوا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے لگام دے دی اور اسے اس کے مالکوں کے سپرد کر دیا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! ایسے لگتا ہے جیسے وہ جانتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: دو جہانوں میں سوائے نافرمان جنات اور انسانوں کے ہر کوئی جانتا ہے کہ میں اﷲ تعالیٰ کا نبی ہوں۔
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 /155، الرقم: 12744، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 /4، والأصبهانی فی دلائل النبوة، 1: 129، الرقم: 139.
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور چند دیگر انصار صحابہ کے ہمراہ انصار کے ایک باغ میں داخل ہوئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ باغ میں بکریاں تھیں۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سجدہ کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ان بکریوں سے زیادہ ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:کسی انسان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے انسان کو سجدہ کرے اور اگر ایک دوسرے کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔
أخرجه أبو نعيم في دلائل النبوة، 2 /379، الرقم: 276، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 6 /130، الرقم: 2129، و في 6 /131، الرقم: 2130.
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ
حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment