Sunday 1 November 2015

نبی کریم رؤف الرّحیم ﷺ سے جنگل کے بادشاہ شیر کی محبّت

0 comments
نبی کریم رؤف الرّحیم ﷺ سے جنگل کے بادشاہ شیر کی محبّت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: میں سمندر میں ایک کشتی پر سوار ہوا۔ وہ کشتی ٹوٹ گئی تو میں اس کے ایک تختے پر سوار ہوگیا۔ اس نے مجھے ایک ایسی جگہ پھینک دیا جو شیر کی کچھار تھی۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ وہ (شیر) سامنے تھا۔ میں نے کہا: اے ابو الحارث (شیر کی کنیت)! میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا غلام ہوں۔ تو اس نے فوراً اپنا سر خم کردیا اور اپنے کندھے سے مجھے اشارہ کیااور وہ اس وقت تک مجھے اشارہ اور رہنمائی کرتا رہا جب تک کہ اس نے مجھے صحیح راہ پرنہ ڈال دیا۔ پھر جب اس نے مجھے صحیح راہ پر ڈال دیا تو وہ دھیمی آواز میں غرایا۔ سو میں سمجھ گیا کہ وہ مجھے الوداع کہہ رہا ہے۔

امام حاکم فرماتے ہیں : یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔

أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 /675، الرقم: 4235: 3 /702، الرقم: 6550، والبخاري في التاريخ الکبير، 3 /195، الرقم: 663، والطبراني في المعجم الکبير، 7 /80، الرقم: 6432، وابن راشد في الجامع ، 11 /281، واللالکائي في کرامات الأولياء، 1 /158، الرقم: 114، والبغوي في شرح السنة، 13، 313، الرقم: 3732، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 /400، الرقم: 5949.
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت ابن منکدر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ جو کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے ایک دفعہ روم کے علاقہ میں لشکرِ اسلام سے بچھڑ گئے یا وہ ارضِ روم میں قید کردیئے گئے۔ وہ وہاں سے بھاگے تاکہ لشکر سے مل سکیں کہ اچانک ایک شیر ان کے سامنے آگیا۔ انہوں نے اس سے کہا: اے ابو حارث! میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا غلام ہوں اور میرا معاملہ اس طرح ہے (کہ میں لشکر سے بچھڑ گیا ہوں)۔ یہ سننا تھا کہ شیر فوراً دُم ہلاتا ہوا ان کی طرف آیا اور ان کے پہلو میں کھڑا ہوگیا۔ جب بھی وہ (کسی درندے کی) آواز سنتا تو وہ شیر فوراً حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کے آگے آجاتا (جب خطرہ ٹل جاتا تو) پھر وہ واپس آجاتا اور ان کے پہلو میں چلنا شروع کردیتا۔ وہ اسی طرح ان کے ساتھ چلتا رہا یہاں تک کہ وہ لشکر میں پہنچ گئے۔ اس کے بعد شیر واپس لوٹ آیا۔

أخرجه معمر بن راشد في الجامع، 11 /281، والبيهقي فيدلائل النبوة، 6 /46، واللالکائي في کرامات الأولياء، 1 /159، الرقم: 114، وابن کثير في شمائل الرسول، 346، 347،والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 /400، الرقم: 5949.

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔