Friday, 27 November 2015

جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عیدِ مسرّت ہے عیدِ شرعی نہیں

جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عیدِ مسرّت ہے عیدِ شرعی نہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عیدِ شرعی ہے نہ ہم اِسے عیدِ شرعی سمجھتے ہیں، لیکن یہ عید شرعی سے بھی زیادہ عظمت والا اور کئی گنا زیادہ قدر و منزلت والا دن ہے۔ اِس لیے اس دن خوشیاں منانا ایک فطری عمل ہے، اور اگر اِسے عید مسرت بھی کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو سال میں صرف ایک دفعہ آتی ہیں جب کہ محافلِ میلاد اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر اور سیرت کا بیان سال بھر جاری رہتاہے، اس میں زمان و مکان کی کوئی قید نہیں۔ مگر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے دن کو عید کا نام اِس لیے دیا جاتا ہے کہ لوگ اپنی ہر بڑی خوشی اور فرحت کے اِظہار کے لیے لفظِ عید اِستعمال کرتے ہیں۔

یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معروف معنی میں عید کا دن ہے، جیسے کسی قریبی دوست یا محبوب کی آمد پر کہا جاتا ہے کہ آپ کا آنا عید ہے! آپ کا ملنا عید ہے! عربی زبان کا یہ شعر اس معنی کی صحیح عکاسی کرتا ہے :

عيد وعيد وعيد صرن مجتمعة
وجه الحبيب وعيد الفطر والجمعة

’’ہمارے لیے تین عیدیں اکٹھی ہوگئی ہیں : محبوب کا چہرہ، عید الفطر اور یومِ جمعہ۔‘‘

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوم ولادت کو عیدِ میلاد اور عیدِ نبوی کا نام دینا اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ ہمارے نزدیک شرعی طور پر صرف دو ہی عیدیں ہیں : عید الفطر اور عید الاضحی۔ حالاں کہ بنظر غائر دیکھا جائے تو یومِ میلاد ان عیدوں سے کئی گنا بلند رُتبہ اور عظمت کا حامل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے صدقہ و توسط سے ہمیں تمام عیدیں، تمام تہوار اور اسلام کے تمام عظمت والے دن نصیب ہوئے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت نہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوتی نہ قرآن نازل ہوتا، نہ معراج ہوتی، نہ ہجرت ہوتی، نہ جنگ بدر میں نصرتِ خداوندی ہوتی اور نہ ہی فتحِ مبین ہوتی۔ یہ تمام چیزیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے تصدق و توسل سے نصیب ہوئی ہیں۔

عاشقانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محافلِ میلاد ہر اُس موقع پر منعقد کرتے ہیں جس میں خوشی، فرحت اور سرور ہوتا ہے اور یہ مسرت و شادمانی کا احساس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماہِ ولادت ’’ربیع الاول‘‘ میں اور بڑھ جاتا ہے اور بروز پیر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے دن خوشی و مسرت کے لطیف جذبات اپنی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال کرنا کہ محافلِ میلاد کیوں منعقد کی جاتی ہیں، درست نہیں ہے۔ کیوں کہ اِس سوال سے مراد گویا یہ پوچھنا ہے کہ تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے دن پر کیوں خوش ہوتے ہو؟ یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ تمہیں صاحبِ معراج صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں یہ خوشی اور مسرت کیوں حاصل ہوئی؟ کیا کسی مسلمان کو یہ سوال زیب دیتا ہے؟ اس لایعنی سوال کے جواب میں اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر مسرور اور خوش ہونے کی وجہ سے محفلِ میلاد منعقد کرتا ہوں، میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں اس لیے کہ میں مومن ہوں۔ بلاشبہ محافلِ میلاد اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجالس کا انعقاد، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت و مدحت سننے سنانے کے لیے جلسۂ و جلوس کا اہتمام، غریبوں کو کھانا کھلانا اور اہل اسلام کے لیے اجتماعی طور پر خوشی اور مسرت کا سامان پیدا کرنا جائز اور مستحسن عمل ہے! یہ بھی فطری اَمر ہے کہ ماہِ ولادت باسعادت (ربیع الاول) میں ذکرِ جمیلِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسباب زیادہ قوی اور مضبوط ہوتے ہیں کیوں کہ اس مناسبت سے لوگ ایسی محفلوں میں کشاں کشاں چلے آتے ہیں۔ لوگ شعوری طور پر اس بات کے قائل ہیں کہ بعض لمحات کسی خاص مناسبت کی وجہ سے دوسرے لمحات و اوقات سے زیادہ شان اور شرف کے حامل ہوتے ہیں لہٰذا دوسروں کی نسبت سے وہ زیادہ پرکشش اور کیف آور یادیں لے کر آتے ہیں۔ اور اِسی طرح لوگ حال کو ماضی کے ساتھ ملا کر اور موجود کو غائب کی طرف منتقل کر کے ذکرِ یار کی لذت سے اِنتہائی کیف و سرور حاصل کرتے ہیں۔ بقول شاعر :

باز گو اَز نجد و اَز یارانِ نجد
تا دَر و دیوار را آری بہ وجد

(شہرِ دِل بر اور اِس میں بسنے والے اَحباب کا ذِکر کرتے رہیے تاکہ اِس کے در و دیوار یک گونہ کیف و مستی سے وجد میں آجائیں۔)

محافلِ میلاد کے اِجتماعات دعوت اِلی اللہ کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ یہ لمحات درحقیقت اُن کیفیاتِ جذب و مستی کے امین ہوتے ہیں جنہیں ہر گز ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ خطباء و علماء اور اہلِ علم حضرات کے لیے تو لازم ہے کہ وہ اِن محافل کے ذریعے اُمتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اَخلاق و آدابِ نبوی، سیرتِ طیبہ، معاملات و عباداتِ نبوی جیسے اَہم امور کی یاد دلاتے رہیں۔ لوگوں کو بھلائی، نیکی اور خیر و فلاح کی تلقین کرتے رہیں۔ نیز ان کو امت مسلمہ پر نازل ہونے والی مصیبتوں اور اُمتِ محمدیہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کو کمزور اور بے جان بنا دینے والی گمراہیوں، اسلام میں پیدا ہونے والے نئے نئے فتنوں اور اپنوں بیگانوں کے اٹھائے ہوئے شر اور فتور کی آگ سے اپنے خرمنِ ایمان کو بچانے کے لیے پند و نصائح کیا کریں۔ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِن اِجتماعات کا مقصد محض اکٹھے ہونا اور لوگوں کو دکھانا یعنی گفتند، نشستند، برخاستند نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ ضروری ہے کہ یہ مقدس اِجتماعات اَعلیٰ مقاصد کے حصول کا ذریعہ اور وسیلہ بنیں۔ پس جو شخص اِن اِجتماعات سے کوئی دینی فائدہ حاصل نہ کر سکا وہ میلاد شریف کی خیر و برکت سے محروم رہا ۔

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...