Friday 27 November 2015

جشن میلادالنبی ﷺ پر شرعی دلیل طلب کرنے والوں کی خدمت میں

0 comments
جشن میلادالنبی ﷺ پر شرعی دلیل طلب کرنے والوں کی خدمت میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایسے حضرات کے لیے جو بلاوجہ میلاد شریف کے موقع پر فتویٰ بازی سے جمہور مسلمانوں کو کفر و شرک اور بدعت کا مرتکب ٹھہراتے ہیں اور ہر بات پر قرآن و سنت سے دلیل طلب کرتے ہیں اُن کے دل و دماغ تنگ نظری کا شکار ہیں اور وہ بزعم خویش یہ سوچتے ہیں کہ اِس عمل کا کوئی شرعی ثبوت نہیں ؟ اُن سے بہ قولِ اِقبال رحمۃ اللہ علیہ بس اِتنی گزارش ہے :

دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور، دل کا نور نہیں

اِقبال، کليات (اُردو)، بالِ جبريل : 335 / 43

میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی نعمتِ عظمی پر شکرانے کے ثبوت طلب کرنے والے نادان اور کم نصیب لوگوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ زندگی میں ہزارہا دنیاوی خوشیاں مناتے وقت کبھی قرآن و حدیث کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھ لیں کہ اِس کا ذکر اِن میں ہے یا نہیں ؟

1۔ کیا ایسا نہیں ہوتا کہ جب کبھی ایک مدت کے بعد اولاد پیدا ہو تومٹھائیاں بانٹی جاتیں اور دعوتیں دی جاتیں ہیں؟ کیا اُس وقت بھی کتبِ حدیث اٹھا کر یہ ثبوت طلب کیا جاتا ہے کہ آیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا کسی صحابی نے بیٹوں کی پیدائش پر مٹھائی بانٹی تھی؟

2۔ ہر سال اپنے بچوں کی سالگرہ پر ہزاروں لاکھوں کی ضیافتیں کرنے والوں نے کیا کبھی قرآن و حدیث سے اِس بارے میں بھی ثبوت تلاش کیا ہے؟

3۔ عام معمول ہے کہ جب کسی کی شادی قریب ہوتی ہے تو کئی کئی مہینے اِس کی تیاریوں میں گزرتے ہیں۔ اِشتہار اور دعوتی کارڈ چھپوائے جاتے ہیں، رسم و رواج اور تبادلہ تحائف پر لاکھوں روپے اڑائے جاتے ہیں۔ اچھے کپڑے پہنے جاتے ہیں۔ ولیمہ پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں، اپنے خویش و اَقارب اور دوست و اَحباب کی حتی الوسع خدمت کی جاتی ہے۔ کیا اس موقع پر بھی ہم نے کبھی قرآن و حدیث سے دلیل طلب کی کہ شادیوں پر آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یا ان کے غلاموں نے ایسی خوشیاں منائی تھیں یا نہیں؟ کیا انہوں نے بھی اتنے مہنگے اور پرتکلف کھانے تیار کرائے تھے؟ یہاں اِس لیے ثبوت طلب نہیں کیے جاتے کہ اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی کا معاملہ ہے اور بات اپنے گھر تک پہنچتی ہے مگر میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ثبوت یاد آجاتا ہے کیوں کہ یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا معاملہ ہے۔

4۔ 23 مارچ کو آزادی کے حصول کے لیے قرارداد پاس ہوئی اور جد و جہد آزادی کا آغاز ہوا تھا۔ اِس کی خوشی میں ہر سال ملک کے طول و عرض میں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر تقریبات، جشن اور محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جس دن 14 اگست غیروں کے تسلط سے آزادی ملی اور مملکتِ خداداد پاکستان کی صورت میں اﷲ تعالیٰ کی نعمت ملی تو اُس دن ہر سال پورے ملک کو دلہن کی طرح سجایا جاتا ہے، بے پناہ وسائل خرچ ہوتے ہیں، جگہ جگہ جہازوں، ٹینکوں اور گاڑیوں کی سلامی دی جاتی ہے، گارڈ آف آنر پیش ہوتے ہیں۔ یومِ دفاع (6 ستمبر) کی خوشی میں پاک فوج کی جنگی مشقیں دیکھنے کے لیے مخصوص مقامات پر اِجتماعات ہوتے ہیں۔ یہ سب اُمور اگرچہ درست ہیں مگر اِن قومی تہواروں کے لیے عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عہدِ صحابہ سے ثبوت تلاش نہیں کیے جاتے۔

5۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اور حصولِ آزادی کی جد و جہد میں کام کرنے والے رہنماؤں کے یومِ ولادت پر پورے ملک میں عید کا سا سماں ہوتا ہے۔ دفاتر، تعلیمی اور صنعتی اِدارے بند کر دیے جاتے ہیں۔ جلسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے لیے دور دور سے دانش وروں اور زعماء کو بڑے اہتمام سے دعوتیں دے کر بلوایا جاتا ہے اور ان کی شان میں قصیدہ خوانی کی جاتی ہے۔ لیکن یہاں قرآن و حدیث یا اُسوئہ صحابہ رضی اللہ عنھم سے کسی ثبوت کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ بجا طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ملک و قوم کے رہبروں کی ملی خدمات کو سراہا جانا چاہیے لیکن پوری انسانیت بلکہ کائناتِ ہست و بود کے محسنِ اَعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ ولادت آئے تو اُن کی یاد میں محافلِ میلاد اور خوشی کرنے پر ہمیں ثبوت یاد آنے لگتے ہیں اور دلیلیں طلب کرنا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اَعلیٰ حضرت اِمام اَحمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ اس حوالے سے کیا خوب لکھتے ہیں :

اور تم پر مرے آقا کی عنایت نہ سہی
نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی اِحسان گیا

احمد رضا خان، حدائقِ بخشش، 1 : 33

6۔ جب ملک کا یوم تاسیس آئے یا بیرونِ ملک سے کوئی مہمان آئے (خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم) اُسے اِکیس توپوں کی سلامی دی جائے تو اُس وقت قرآن و حدیث سے جواز تلاش نہیں کیا جاتا۔

7۔ ملک کے صدر، سربراہِ ریاست یا بہت بڑے لیڈر کے اِنتقال پر بڑے اِعزاز کے ساتھ اُس کی تدفین عمل میں آتی ہے، اُس کی وفات پر سوگ کے جلوس نکالے جاتے ہیں، میت پر ماتمی دھنوں سے بینڈ باجے، توپوں کی سلامی ہوتی ہے، پھولوں کی چادریں چڑھتی ہیں، گل پاشیاں اور نہ جانے کیا کیا تقریبات ہوتی ہیں۔ علماء و غیر علماء سب اِن تقریبات میں شریک ہوتے ہیں مگر کسی نے کبھی فتویٰ صادر نہیں کیا۔ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُسوئہ صحابہ رضی اللہ عنھم سے کبھی سند تلاش نہیں کی۔ اِس لیے کہ اِس میں ملک کا اِعزاز اور مرحوم لیڈر کی خدمات کا اعتراف تھا، اپنی جذباتی وابستگی کا اظہار تھا اور اقوام عالم کے سامنے اپنے قومی وقار کا مسئلہ تھا۔ یہ سب کچھ ٹھیک ہے اور ہمارے نزدیک بھی یہ غلط نہیں ہے۔ ایسا ہونا چاہیے مگر اَمر زیرِ بحث یہ ہے کہ کسی صدر مملکت کے لیے ایسا اہتمام ہو تو کوئی ثبوت نہیں مانگے جاتے لیکن باعثِ موجودات حضرت محمد علیہ الصلوٰت والتسلیمات کے یوم ولادت کے سلسلے میں دلائل اور فتووں کا مطالبہ کیا جاتاہے۔ آقائے دوجہاں رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کا دن آئے تو خوشی منانے کے لیے دلائل و براہین اور ثبوت مانگے جائیں، اس کا صاف مطلب ہے کہ باقی ہر موقع پر خوشی تھی بس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاملے میں دل اِحساسِ مسرت سے محروم ہوگیا اور حکمِ خداوندی۔ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ(1) یاد نہ رہا۔ اَعمالِ حسنہ، عبادت و ریاضت میں کثرتِ ذکر پر بھروسہ کافی محسوس ہونے لگا اور دل اس احساس سے خالی ہوگیا کہ دنیا کی سب سے پیاری، سب سے معظم اور سب سے زیادہ واجب التعظیم ہستی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ ان کی محبت ایمان کی اساس ہے اور ایمان دل کی وہ حالت ہے جسے کیفیت یا حال کہتے ہیں، جسے لگن بھی کہتے ہیں اور لگاؤ بھی، محبت بھی کہتے ہیں اور محبت کا الاؤ بھی۔ یہ الاؤ دل میں جل اٹھے تو مومن اپنی زندگی کے ہر لمحے کو عید میلاد بنا کر مناتا رہے اور اپنے در و دیوار کو آخرت کا گھر سمجھ کر سجاتا رہے۔ ہم سب کو یہ جان لینا چاہیے کہ ان خشک و بے مغز عبادتوں کے ذخیروں کے مقابلے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر خوشی کرنا اﷲ تعالیٰ کی نگاہ میں زیادہ اَفضل عمل ہے۔

يونس، 10 : 58

اَفسوس کہ کفر و شرک کے فتاویٰ صادِر کرنے والے منکرِ میلاد بدعتیوں نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی خوشیوں پر لاکھوں روپے خرچ کر دیے تو کوئی چیز رکاوٹ نہ بنی لیکن محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ماہِ ولادت جلوہ فگن ہوا تو اِس کے اہتمام پر خود خرچ کرنے کی بجائے دوسروں کو بھی اس سے منع کرتے رہے۔ یاد رہے کہ کوئی خوشی آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خوشی سے بڑی نہیں، اس کے مقابلے میں دنیا و جہان کی ساری خوشیاں ہیچ ہیں۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔