Monday 23 November 2015

کیا جشن میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا بدعت ہے ؟ حصّہ سوم

0 comments
کیا جشن میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا بدعت ہے ؟ حصّہ سوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کو اﷲ تعالیٰ کی نعمت اور اُس کا اِحسانِ عظیم تصور کرتے ہوئے اِس کے حصول پر خوشی منانا اور اسے باعث مسرت و فرحت جان کر تحدیثِ نعمت کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے بہ طور عید منانا مستحسن اور قابلِ تقلید عمل ہے۔ مزید برآں یہ خوشی منانا نہ صرف سنتِ اِلٰہیہ ہے بلکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی سنت بھی قرار پاتا ہے، صحابہ کرام کے آثار سے بھی ثابت ہے اور اِس پر مؤید سابقہ امتوں کے عمل کی گواہی بھی قرآن حکیم نے صراحتاً فراہم کر دی ہے۔ اب بھی اگر کوئی اس کے جواز اور عدم جواز کو بحث و مناظرہ کا موضوع بنائے اور اس کو ناجائز، حرام اور قابلِ مذمت کہے تو اسے ہٹ دھرمی اور لاعلمی کے سوا اور کیا کہا جائے گا !

جمہور اُمت گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی

شریعت مطہرہ نے بہت سے معاملات کی تہ میں کار فرما اَساسی تصورات اور اُصول بیان کر دیے ہیں لیکن ان کی تفصیل اور ہیئت کا اِنحصار اُمتِ مسلمہ کے علماء اور اَکابر پر چھوڑ دیا کہ اُمت کے علماء حق اور اَئمہ دین کی اکثریت جس اَمر پر متفق ہو جائے، گزشتہ صفحات میں دیے گئے حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنھما سے منقول قول کے مطابق بالکل درست اور قرآن و سنت کے تابع ہے۔ اِس کی تائید مرفوع صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے، جن کے مطابق فی الحقیقت اُمت کی اکثریت یعنی سوادِ اَعظم کبھی گمراہ نہیں ہو سکتا، گمراہ ہمیشہ اَقلیت (سوادِ اَعظم سے الگ ہونے والی جماعت) ہوتی ہے۔ وقتاً فوقتاً جو چھوٹی چھوٹی تحریکیں اور جماعتیں بنتی رہتی ہیں، جن کے عقائد و نظریات امت کی بھاری اکثریت کے عقائد و نظریات کے خلاف ہوتے ہیں اور جو اُمت کے سوادِ اَعظم کو گمراہ، کافر، مشرک، جاہل اور بدعتی کہتی ہیں دراصل خود گمراہ ہوتی ہیں۔ اِسی لیے فتنہ و فساد اور تفرقہ و انتشار کے دور میں اُمت کو سوادِ اَعظم (سب سے بڑی جماعت) کا دامن پکڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔

1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

إن أمتي لا تجتمع علي ضلالة، فإذا رأيتم اختلافا، فعليکم بالسواد الأعظم.

’’بے شک میری اُمت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی۔ پس اگر تم اِن میں اِختلاف دیکھو تو تم پر لازم ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو اِختیار کرو۔‘‘(2)

1. ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب السواد الأعظم، 2 : 1308، رقم : 3950
2. ابن ابي عاصم، السنة : 41، رقم : 84
3. طبراني، المعجم الکبير، 12، 447، رقم : 13623
4. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 1 : 411، رقم : 1662

(2) امام جلال الدین سیوطی نے ’’حاشیۃ سنن ابن ماجہ (ص : 283)‘‘ میں سوادِ اَعظم سے طبقۂ اہلِ سنت مراد لیا ہے اور یہی حدیث کا مدّعا ہے۔

2۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اُمت کی تفرقہ پروری کی پیشین گوئی کرتے ہوئے سوادِ اعظم (اُمت کی اکثریتی جماعت) کے سوا تمام گروہوں اور جماعتوں کے جہنمی ہونے کی وعید بیان فرمائی۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

تفرقت بنو إسرائيل علي إحدي وسبعين فرقة، وتفرقت النصاري علي اثنتين وسبعين فرقة، وأمتي تزيد عليهم فرقة، کلها في النار إلا السواد الأعظم.

’’بنی اسرائیل اِکہتر (71) فرقوں میں تقسیم ہوئے اور نصاری بہتر (72) فرقوں میں تقسیم ہوئے، جب کہ میری اُمت ان پر ایک فرقہ کا اضافہ کرے گی۔ وہ تمام فرقے جہنمی ہوں گے سوائے سوادِ اَعظم (اُمت کے اکثریتی طبقہ) کے۔‘‘

1. طبراني، المعجم الأوسط، 7 : 176، رقم : 7202
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 554، رقم : 37892
3. حارث، المسند، 2 : 716، رقم : 706
4. بيهقي، السنن الکبري، 8 : 188
5. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 7 : 258

3۔ سوادِ اعظم کی اَہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

إثنان خير من واحد، وثلاثة خير من اثنين، وأربعة خير من ثلاثة، فعليکم بالجماعة، فإن اﷲ لن يجمع أمتي إلا علي هدي.

’’دو (شخص) ایک سے بہتر ہیں، اور تین (اَشخاص) دو سے بہتر ہیں، اور چار (اَشخاص) تین سے بہتر ہیں۔ پس تم پر لازم ہے کہ (اَکثریتی) جماعت کے ساتھ رہو، یقیناً اﷲ تعالیٰ میری امت کو کبھی بھی ہدایت کے سوا کسی شے پر اِکٹھا نہیں کرے گا۔‘‘

1. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 145، رقم : 21331
2. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 1 : 177
3. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 5 : 218

4۔ مذکورہ بالا حدیث مبارکہ میں بیان کیے گئے لفظ الجماعۃ سے مراد اُمت کا اَکثریتی طبقہ ہے۔ اِس کی وضاحت حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ سے ہوتی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود الجماعۃ سے سوادِ اَعظم مراد لیتے ہوئے فرمایا :

والذي نفس محمد بيده! لتفترقن أمتي علي ثلاث وسبعين فرقة، واحدة في الجنة وثنتان وسبعون في النار. قيل : يارسول اﷲ! من هم؟ قال : الجماعة.

’’اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد کی جان ہے! میری اُمت ضرور تہتر (73) فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے صرف ایک جنت میں جائے گا اور بہتر (72) جہنم میں داخل ہوں گے۔‘‘

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا :

يا رسول اﷲ! من هم؟

’’یارسول اللہ! وہ جنتی گروہ کون ہے؟‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

الجماعة.

’’وہ (اُمت میں سب سے بڑی) جماعت ہے۔‘‘

1. ابن ماجه، کتاب الفتن، باب افتراق الأمم، 2 : 1322، رقم : 3992
2. لالکائي، إعتقاد أهل السنة والجماعة، 1 : 101، رقم : 149

5۔ درج ذیل حدیث شریف میں ’’جماعت‘‘ سے مراد اُمت کی سب سے بڑی جماعت اور اُس پر محافظت ہونا صراحتاً بیان کیا گیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لا يجمع اﷲ هذه الأمة علي الضلالة أبدا، يد اﷲ علي الجماعة، فاتبعوا السواد الأعظم، فإنه من شذ شذ في النار.

’’اللہ تعالیٰ اِس اُمت کو کبھی بھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا، اللہ کی حفاظت کا ہاتھ (سب سے بڑی) جماعت پر ہے، پس تم سوادِ اَعظم (سب سے بڑی جماعت) کی اِتباع کرو کیوں کہ جو اِس سے جدا ہوا یقیناً وہ جہنم میں ڈالا جائے گا۔‘‘

1. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 1 : 199. 201، رقم : 391. 397
2. ابن أبي عاصم، کتاب السنة، 1 : 39، رقم : 80
3. لالکائي، إعتقاد أهل السنة، 1 : 106، رقم : 154
4. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 5 : 258، رقم : 8116
5. حکيم ترمذي، نوادر الأصول في أحاديث الرسول صلي الله عليه وآله وسلم، 1 : 422

6۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے ہی مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

إن اﷲ لا يجمع أمتي (أو قال : أمة محمد صلي الله عليه وآله وسلم) علي ضلالة، ويد اﷲ مع الجماعة، ومن شذ شذ إلي النار.

’’اللہ تعالیٰ میری اُمت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا (یا فرمایا : اُمتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا) اور جماعت پر اللہ (تعالیٰ کی حفاظت) کا ہاتھ ہے، اور جو شخص جماعت سے جدا ہوا وہ آگ کی طرف جدا ہوا۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الفتن، باب ما جاء في لزوم الجماعة، 4 : 466، رقم : 2167
2. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 1 : 200، رقم : 394
3. داني، السنن الوارده في الفتن، 3 : 748، رقم : 368

اِس تصور کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مسلمانوں کے اَکثریتی طبقہ میں کوئی خرابی یا بگاڑ پیدا نہیں ہو سکتا۔ یہ اَمرِ واقع ہے کہ بگاڑ اور خرابیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں لیکن ہمیشہ پیغمبرانہ تعلیمات کے مطابق اَکثریتی طبقہ کے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے یعنی سوادِ اَعظم سے منسلک رہتے ہوئے ہی اُمت کی اصلاح کی جد و جہد کرنی چاہیے۔ اہلِ ایمان سوادِ اَعظم کو گمراہ قرار دیتے ہوئے اِس سے خارج ہو کر اپنے لیے نئی راہ بنانا ہی دَرحقیقت گمراہی اور منافقت ہے، اور اسی سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا بھی اُن بعض اُمور میں سے ایک ہے جن پر اِس وقت جمہور اُمت جواز کے شرعی دلائل کی روشنی میں عامل ہے۔ آج اگر کوئی اُمت کے اِس اکثریتی طبقہ کو گمراہ کہتا ہے تو درحقیقت وہ خود ہی گمراہ ہے اور دوزخ کی راہ پر گامزن ہے۔

دین کی اَصل روح کو سمجھنا ضروری ہے

یہ ایک اَلمیہ ہے کہ اِسلام کے حاملین ظاہر بینی سے کام لیتے ہوئے چھوٹی چھوٹی باتوں کو کفر و ایمان کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور دین کی اَصل روح اور کار فرما حکمت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان نسل جن کے سامنے دین کی اصل روح نہیں رکھی جاتی بلکہ فہمِ دین کی بجائے لفظوں کی ہیر پھیر سے دین کو متعارف کرایا جاتا ہے، روز بروز اسلام سے دور ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ صرف اس لیے کہ (الا ما شاء اﷲ) کہیں تو ذاتی مفادات کے پیشِ نظر اور کہیں نادانی کی بناء پر مذہبی ذمہ داروں نے لفظی موشگافیوں سے دین کو دشوار بنا دیا ہے، جس سے نوجوان نسل اور بالخصوص نیا تعلیم یافتہ طبقہ جو پہلے ہی مغربی تہذیب و ثقافت اور اِستعماری ذہنیت و فکری یلغار کا نشانہ بنا ہوا ہے، دور ہوتا جا رہا ہے۔ اگر ہم صدقِ دل سے دین کے اصول و قوانین اور شریعتِ اِسلامیہ کے دلکش پہلو پیشِ نظر رکھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ لوگ پھر سے عظمتِ اِسلام کے سنہری اُصولوں پر عمل پیرا ہو کر شوکت و عظمتِ رفتہ کی بحالی کے لیے کمربستہ نہ ہو جائیں۔

ظاہر پرست علماء محافلِ میلاد اور جشنِ میلاد کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے صرف اِس لیے اِسے ناجائز اور (نعوذ باﷲ) حرام قرار دیتے ہیں کہ اِس قسم کی محافل اور جشن کی تقاریب اَوائل دورِ اِسلام میں منعقد نہیں ہوئیں۔ اِس بحث کے تناظر میں بدعت کی تعریف اور اس کی شرعی حیثیت پر جید اَئمۂ حدیث و فقہ کے حوالے سے ہمارا موقف بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ اِسے لغت کی رُو سے بدعت کہنا صحیح ہے لیکن صرف بدعت کہہ کر اِسے ہدفِ تنقید بنانا اور ناپسندیدہ قرار دینا محض تنگ نظری اور ہٹ دھرمی ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے کہ ہر دور میں ہر چیز کی ہیئت اور صورت حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہے۔ فریضۂ حج کی ادائیگی کے انداز اور ذرائع آمد و رفت بہ تدریج بدلتے رہے ہیں، آج لوگ پیدل یا اونٹ، گھوڑوں پر سوار ہوکر حج کے لیے نہیں جاتے، پہلے جو فاصلے مہینوں میں طے ہوتے تھے اب جدید ذرائع آمد و رفت سے گھنٹوں میں طے ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح دیگر اَرکانِ اِسلام کی ادائیگی کی صورتِ حال بھی اب پہلے جیسی نہیں۔ اس میں کئی جدتیں اور عصری تقاضے شامل ہو چکے ہیں مگر ان کی ہیئت اَصلیہ میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ اِسی پس منظر میں اگر جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودہ صورت دیکھی جائے تو یہ اپنی اَصل کے اِعتبار سے بالکل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔ جس طرح ہم محافلِ میلاد میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے نعت کا اہتمام کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و کمالات بیان کرتے اور مختلف انداز میں سیرتِ طیبہ کا ذکر کرتے ہیں، جو فی الواقعہ ہمارے جشنِ میلاد منانے کا مقصد ہے، اِسی طرح کی محفلیں جن میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و کمالات کا ذکر ہوتا تھا، عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی منعقد ہوتی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محفل میں تشریف فرما ہوتے تھے حتی کہ اپنی محفلِ نعت خود منعقد کرواتے تھے۔ دعاؤں کی التجا ہے ۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔