Sunday 29 November 2015

جشن عید میلاد النبی ﷺ آئمہ و محدثین کرام علیہم الرّحمہ کی نظر میں

0 comments
جشن عید میلاد النبی ﷺ آئمہ و محدثین کرام علیہم الرّحمہ کی نظر میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس اُمّت کے بڑے بڑے مفتیان کرام، علمائے کرام، مفسرین، محدثین، شارحین اور فقہاء نے اپنی اپنی کتابوں میں جشن عید میلاد النبیﷺ منانے کو باعث اجر وثواب لکھا ہے چنانچہ اس ضمن میں علمائے اُمّت کے اقوال ملاحظہ ہوں: جشن عید میلاد النبیﷺ کے متعلق محدثین کے نظریات 1: حجۃ الدین امام محمد بن ظفر المکی علیہ الرحمہ کا نظریہ: حجۃ الدین امام ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ بن ظفر المکی علیہ الرحمہ (متوفیٰ 568ھ) کہتے ہیں کہ الدر المنتظم میں ہے: وقد عمل المحبون للنبیﷺ فرحاً بمولدہ الولائم، فمن ذلک ماعملہ بالقاہرۃ المعزیۃ من الولائم الکبار الشیخ ابو الحسن المعروف بابن قفل قدس اﷲ تعالیٰ سرہ، شیخ شیخنا ابی عبدﷲ محمد بن النعمان، وعمل ذلک قبل جمال الدین العجمی الھمذانی، وممن عمل ذلک علی قدر وسعہ یوسف الحجار بمصر، وقد رأی النبیﷺ وہو یحرض یوسف المذکور علی عمل ذلک (سبل الہدیٰ الرشاد فی سیرۃ خیر العباد جلد اول، ص 363) ’’اہل محبت حضورﷺ کے میلاد کی خوشی میں دعوت طعام منعقد کرتے آئے ہیں۔ قاہرہ کے جن اصحاب محبت نے بڑی بڑی ضیافتوں کا انعقاد کیا، ان میں شیخ ابوالحسن بھی ہیں جوکہ ابن قفل قدس اﷲ تعالیٰ سرہ کے نام سے مشہور ہیں اور ہمارے شیخ ابو عبداﷲ محمد بن نعمان کے شیخ ہیں۔ یہ عمل مبارک جمال الدین عجمی ہمذانی نے بھی کیا اور مصر میں سے یوسف حجار نے اسے بہ قدر وسعت منعقد کیا اور پھر انہوں نے حضور نبی اکرمﷺ کو (خواب میں) دیکھا کہ آپﷺ یوسف حجار کو عمل مذکور کی ترغیب دے رہے تھے‘‘ 2: شیخ معین الدین عمر بن محمد المَلاَّ علیہ الرحمہ (متوفیٰ 570ھ) کا نظریہ شیخ معین الدین ابو حفص عمر بن محمد بن خضر اربلی موصلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: وکان اول من فعل ذلک بالموصل الشیخ عمر بن محمد الملا احد الصالحین المشہورین و بہ اقتدی فی ذلک صاحب اربل وغیرہ رحمہم ﷲ تعالیٰ (ابو شامۃ، الباعت علی انکار البدع والحوادث، ص 24) ’’اور شہر موصل میں سب سے پہلے میلاد شریف کا اجتماع منعقد کرنے والے شیخ عمر بن محمد ملا تھے جن کا شمار مشہور صالحین میں ہوتا تھا اور شاہ اربل و دیگر لوگوں نے انہی کی اقتداء کی ہے۔ اﷲ ان پر رحم فرمائے۔ 3: علامہ ابن جوزی علیہ الرحمہ (متوفی 579ھ) کا نظریہ علامہ ابن جوزی بیان المیلاد النبویﷺ میں فرماتے ہیں: لازال اہل الحرمین الشریفین والمصر والیمن والشام وسائر بلاد العرب من المشرق والمغرب یحتفلون بمجلس مولد النبیﷺ، ویفرحون بقدوم ہلال شہر ربیع الاول ویہتمون اہتماماً بلیغاً علی السماع والقراۃ لمولد النبیﷺ، ویتالون بذالک اجراً جزیلاً وفوزاً عظیماً (بیان المیلاد النبی، ص 85) ’’مکہ مکرمہ، مدینہ طیبہ، مصر، شام، یمن الغرض شرق تا غرب تمام بلادِ عرب کے باشندے ہمیشہ سے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محفلیں منعقد کرتے آئے ہیں۔ وہ ربیع الاول کا چاند دیکھتے تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہتی۔ چنانچہ ذکرِ میلاد پڑھنے اور سننے کا خصوصی اہتمام کرتے اور اس کے باعث بے پناہ اَجر و کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔‘‘ 4: امام کمال الدین الادفوی علیہ الرحمہ (متوفیٰ 748ھ) کا نظریہ اِمام کمال الدین ابو الفضل جعفر بن ثعلب بن جعفر الادفوی ’’الطالع السعید الجامع لاسماء نجباء الصعید‘‘ میں فرماتے ہیں : حکی لنا صاحبنا العدل ناصر الدین محمود بن العماد ان ابا الطیب محمد بن ابراہیم السبتی المالکی نزیل قوص، احد العلماء العاملین، کان یجوز بالمکتب فی الیوم الذی ولد فیہ النبیﷺ فیقول: یافقیہ! ہذا یوم سرور، اصرف الصبیان، فیصرفنا وہذا منہ دلیل علی تقریرہ وعدم انکارہ، وہذا الرجل کان فقیہاً مالکیاً متفنناً فی علوم، متورعاً، اخذ عنہ ابو حیان وغیرہ، مات سنۃ خمس وتسعین وستمائۃ (حسن المقصد فی عمل المولد، ص 67,66) ’’ہمارے ایک مہربان دوست ناصر الدین محمود بن عماد حکایت کرتے ہیں کہ بے شک ابو طیب محمد بن ابراہیم سبتی مالکی۔ جو قوص کے رہنے والے تھے اور صاحبِ عمل علماء میں سے تھے۔ اپنے دارا لعلوم میں حضور نبی اکرمﷺ کی ولادت کے دن محفل منعقد کرتے اور مدرسے میں چھٹی کرتے۔ وہ (اساتذہ سے) کہتے : اے فقیہ! آج خوشی و مسرت کا دن ہے، بچوں کو چھوڑ دو۔ پس ہمیں چھوڑ دیا جاتا۔ ’’ان کا یہ عمل ان کے نزدیک میلاد کے اِثبات و جواز اور اِس کے عدم کے اِنکار پر دلیل و تائید ہے۔ یہ شخص (محمد بن ابراہیم) مالکیوں کے بہت بڑے فقیہ اور ماہرِ فن ہو گزرے ہیں جو بڑے زْہد و ورع کے مالک تھے۔ علامہ ابوحیان اور دیگر علماء نے ان سے اِکتسابِ فیض کیا ہے اور انہوں نے 695ھ میں وفات پائی۔‘‘ 5: امام برہان الدین بن جماعہ علیہ الرحمہ (متوفی 790ھ) کا نظریہ اِمام برہان الدین ابو اِسحاق اِبراہیم بن عبد الرحیم بن اِبراہیم بن جماعہ الشافعی ایک نام وَر قاضی و مفسر تھے۔ آپ نے دس جلدوں پر مشتمل قرآن حکیم کی تفسیر لکھی۔ ملا علی قاری (م 1014ھ) ’’المورد الروی فی مولد النبوی ونسبہ الطاھر‘‘ میں آپ کے معمولاتِ میلاد شریف کی بابت لکھتے ہیں : فقد اتصل بنا ان الزاہد القدوۃ المعمر ابا اسحاق ابراہیم بن عبدالرحیم بن ابراہیم جماعۃ لماکان بالمدینۃ النبویۃ، علی ساکنہا افضل الصلاۃ واکمل التحیۃ، کان یعمل طعاماً فی المولد النبوی، ویطعم الناس، ویقول: لوتمکنت عملت بطول الشہر کل یوم مولداً (المورد الروی فی مولد النبیﷺ و نسبہ الطاہر، ص 17) ’’ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ زاہد و قدوہ معمر ابو اِسحاق بن اِبراہیم بن عبد الرحیم جب مدینۃ النبی۔ اْس کے ساکن پر افضل ترین درود اور کامل ترین سلام ہو۔ میں تھے تو میلاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر کھانا تیار کرکے لوگوں کو کھلاتے تھے، اور فرماتے تھے : اگر میرے بس میں ہوتا تو پورا مہینہ ہر روز محفلِ میلاد کا اہتمام کرتا۔‘‘ 6: حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ (متوفیٰ 1034ھ) گيارهويں صدي كے مجدد امام ربانی شیخ احمد سرہندی حضرت مجدد الف ثانی (1624-1564) اپنے ’’مکتوبات‘‘ میں فرماتے ہیں: نفس قرآں خواندن بصوت حسن و در قصائد نعمت و منقبت خواندن چہ مضائقہ است؟ ممنوع تحریف و تغیير حروف قرآن است، والتزام رعایۃ مقامات نغمہ و تردید صوت بآں، بہ طریق الحان با تصفیق مناسبآن کہ در شعر نیز غیر مباح است۔ اگر بہ نہجے خوانند کہ تحریف کلمات قرآنی نشود… چہ مانع است؟ (مکتوبات دفتر سوم، مکتوب نمبر 72) ’’اچھی آواز میں قرآن حکیم کی تلاوت کرنے، قصیدے اور منقبتیں پڑھنے میں کیا حرج ہے؟ ممنوع تو صرف یہ ہے کہ قرآن مجید کے حروف کو تبدیل و تحریف کیا جائے اور اِلحان کے طریق سے آواز پھیرنا اور اس کے مناسب تالیاں بجانا جو کہ شعر میں بھی ناجائز ہے۔ اگر ایسے طریقہ سے مولود پڑھیں کہ قرآنی کلمات میں تحریف واقع نہ ہو اور قصائد پڑھنے میں مذکورہ (ممنوعہ) اَوامر نہ پائے جائیں تو پھر کون سا اَمر مانع ہے؟‘‘ 7: شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ (متوفیٰ 1052ھ) کا نظریہ گیارہویں صدی کے مجدد شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے اپنی اپنی کتاب ما ثَبَت مِن السّْنّۃ فی ایّام السَّنَۃ میں ہر مہینہ اور اس میں خاص خاص شب و روز کے فضائل اور ان میں کیے جانے والے اَعمال مفصل بیان کیے ہیں۔ اْنہوں نے ماہِ ربیع الاول کے ذیل میں میلاد شریف منانے اور شبِ قدر پر شبِ ولادت کی فضیلت ثابت کی ہے۔ اور بارہ (12) ربیع الاول کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا جشن منانا بہ طورِ خاص ثابت کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں : وقد رؤي أبولهب بعد موته في النوم، فقيل له : ما حالک؟ قال : في النار، إلا أنه خُفّف کل ليلة اثنتين، وأمص من بين أصبعي هاتين ماء. وأشار إلي رأس إصبعيه. وإن ذلک بإعتاقي لثويبة عند ما بشرتني بولادة النبي صلي الله عليه وآله وسلم وبإرضاعها له. قال ابن الجوزي : فإذا کان أبولهب الکافر الذي نزل القران بذمّه جُوزيَ في النار بفرحه ليلة مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، فما حال المسلم من أمته يسر بمولده، ويبذل ما تَصل إليه قدرته في محبته صلي الله عليه وآله وسلم ؟ لعمري! إنما کان جزاؤه من ﷲ الکريم أن يدخله بفضله جنات النعيم. ولا يزال أهل الاسلام يحتفلون بشهر مولده صلي الله عليه وآله وسلم ويعملون الولايم ويتصدقون في لياليه بأنواع الصدقات ويظهرون السرور ويزيدون في المبرّات ويعتنون بقراءة مولده الکريم ويظهر عليهم من مکانه کل فضل عميم. ومما جرّب من خواصه أنه أمان في ذلک العام وبشري عاجل بنيل البغية والمرام، فرحم ﷲ امرأ اتخذ ليالي شهر مولده المبارک أعياداً ليکون أشد غلبة علي من في قلبه مرض وعناد. (ماثبت من السنة في ايام السنة ص (60 ’’ابولہب کو مرنے کے بعد خواب میں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا گیا : اب تیرا کیا حال ہے؟ کہنے لگا : آگ میں جل رہا ہوں، تاہم ہر پیر کے دن (میرے عذاب میں) تخفیف کر دی جاتی ہے اور. اُنگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ: میری ان دو انگلیوں کے درمیان سے پانی (کا چشمہ) نکلتا ہے (جسے میں پی لیتا ہوں) اور یہ (تخفیفِ عذاب میرے لیے) اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا جب اس نے مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کی خوش خبری دی اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ بھی پلایا تھا۔ ’’ابن جوزی (متوفي 579ھ( کہتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت (میں) قرآن حکیم میں (ایک مکمل) سورت نازل ہوئی ہے۔ تو اُمتِ محمدیہ کے اُس مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک اﷲ تعالیٰ ایسے مسلمان کو (اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے کے طفیل) اپنے فضل کے ساتھ اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائے گا۔ ’’اور ہمیشہ سے مسلمانوں کا یہ دستور رہا ہے کہ ربیع الاول کے مہینے میں میلاد کی محفلیں منعقد کرتے ہیں، دعوتیں کرتے ہیں، اس کی راتوں میں صدقات و خیرات اور خوشی کے اِظہار کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان دنوں میں زیادہ سے زیادہ نیک کام کریں۔ اس موقع پر وہ ولادت باسعادت کے واقعات بھی بیان کرتے ہیں۔ ’’میلاد شریف منانے کے خصوصی تجربات میں محفلِ میلاد منعقد کرنے والے سال بھر امن و عافیت میں رہتے ہیں اور یہ مبارک عمل ہر نیک مقصد میں جلد کامیابی کی بشارت کا سبب بنتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اُس پر رحمتیں نازل فرماتا ہے جو میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شب بہ طور عید مناتا ہے، اور جس (بدبخت) کے دل میں عناد اور دشمنی کی بیماری ہے وہ اپنی دشمنی میں اور زیادہ سخت ہوجاتا ہے۔‘‘ :8امام محمد الزرقاني عليه الرحمه (متوفيٰ 1122ھ) كا نظريه بارهويں صدي كے مجدداِمام ابو عبد اللہ محمد بن عبد الباقی بن یوسف المالکی الزرقانی عليه الرحمه سیرتِ طیبہ کی معروف کتاب المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ کی شرح میں فرماتے ہیں : استمرّ أهل الإسلام بعد القرون الثلاثة التي شهد المصطفي صلي الله عليه وآله وسلم بخيريتها، فهو بدعة. وفي أنها حسنة، قال السيوطي : وهو مقتضي کلام ابن الحاج في مدخله فإنه إنما ذم ما احتوي عليه من المحرمات مع تصريحه قبل بأنه ينبغي تخصيص هذا الشهر بزيادة فعل البرّ وکثرة الصدقات والخيرات وغير ذلک من وجوه القربات. وهذا هو عمل المولد مستحسن والحافظ أبي الخطاب بن دحية ألف في ذالک ’’التنوير في مولد البشير النذير‘‘ فأجازه الملک المظفر صاحب إربل بألف دينار، واختاره أبو الطيب السبتي نزيل قوص وهؤلاء من أجلّة المالکية أو مذمومة وعليه التاج الفاکهاني وتکفل السيوطي، لردّ ما استند إليه حرفاً حرفاً والأول أظهر، لما اشتمل عليه من الخير الکثير. يحتفلون : يهتمون بشهر مولده عليه الصلوة والسلام ويعملون الولائم ويتصدقون في لياليه بأنواع الصدقات ويظهرون السرور به، ويزيدون في المبرات ويعتنون بقراء ة قصة مولده الکريم ويظهر عليهم من برکاته کل فضل عميم. )زرقاني شريف، شرح مواهب اللدنيه بالمنح المحمدية جلد اول، ص 262-261) ’’اہلِ اِسلام ان ابتدائی تین اَدوار (جنہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیرالقرون فرمایا ہے) کے بعد سے ہمیشہ ماہِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں محافل میلاد منعقد کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ عمل (اگرچہ) بدعت ہے مگر ’’بدعتِ حسنہ‘‘ ہے (جیسا کہ) امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے، اور ’’المدخل‘‘ میں ابن الحاج کے کلام سے بھی یہی مراد ہے اگرچہ انہوں نے ان محافل میں دَر آنے والی ممنوعات (محرمات) کی مذمت کی ہے، لیکن اس سے پہلے تصریح فرما دی ہے کہ اس ماہِ مبارک کو اَعمالِ صالحہ اور صدقہ و خیرات کی کثرت اور دیگر اچھے کاموں کے لیے خاص کر دینا چاہیے۔ میلاد منانے کا یہی طریقہ پسندیدہ ہے۔ حافظ ابو خطاب بن دحیہ کا بھی یہی مؤقف ہے جنہوں نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب التنویر فی المولد البشیر والنذیر تالیف فرمائی جس پر مظفر شاہِ اِربل نے انہیں ایک ہزار دینار (بطور انعام) پیش کیے۔ اور یہی رائے ابوطیب سبتی کی ہے جو قوص کے رہنے والے تھے۔ یہ تمام علماء جلیل القدر مالکی ائمہ میں سے ہیں۔ یا پھر یہ (عمل مذکور) بدعتِ مذمومہ ہے جیسا کہ تاج فاکہانی کی رائے ہے۔ لیکن امام سیوطی نے ان کی طرف منسوب عبارات کا حرف بہ حرف رَدّ فرمایا ہے۔ (بہرحال) پہلا قول ہی زیادہ راجح اور واضح تر ہے۔ بایں وجہ یہ اپنے دامن میں خیر کثیر رکھتا ہے۔ ’’لوگ (آج بھی) ماہِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اجتماعات کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں اور اس کی راتوں میں طرح طرح کے صدقات و خیرات دیتے ہیں اور خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ کثرت کے ساتھ نیکیاں کرتے ہیں اور مولود شریف کے واقعات پڑھنے کا اِہتمام کرتے ہیں جس کے نتیجے میں اس کی خصوصی برکات اور بے پناہ فضل و کرم اُن پر ظاہر ہوتا ہے۔‘‘ :9حضرت شاه عبدالرحيم محدث دهلوي عليه الرحمه (متوفيٰ 1131ھ) كا نظريه حضرت شاه ولي اﷲ محدث دهلوي عليه الرحمه كے والد گرامي شاه عبدالرحيم دهلوي عليه الرحمه فرماتے هيں: کنت أصنع في أيام المولد طعاماً صلة بالنبي صلي الله عليه وآله وسلم ، فلم يفتح لي سنة من السنين شيء أصنع به طعاماً، فلم أجد إلا حمصًا مقليا فقسمته بين الناس، فرأيته صلي الله عليه وآله وسلم وبين يديه هذا الحمص متبهجاً بشاشا. (الدرالثمين في مبشرات النبي الامين ص 40) ’’میں ہر سال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے موقع پر کھانے کا اہتمام کرتا تھا، لیکن ایک سال (بوجہ عسرت شاندار) کھانے کا اہتمام نہ کر سکا، تومیں نے کچھ بھنے ہوئے چنے لے کر میلاد کی خوشی میں لوگوں میں تقسیم کر دیئے۔ رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے وہی چنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش و خرم تشریف فرما ہیں۔‘‘ برصغیر میں ہر مسلک اور طبقہ فکر میں یکساں مقبول و مستند ہستی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا اپنے والد گرامی کا یہ عمل اور خواب بیان کرنا اِس کی صحت اور حسبِ اِستطاعت میلاد شریف منانے کا جواز ثابت کرتا ہے۔ :10مفسر قرآن شيخ اسماعيل حقّي عليه الرحمه (متوفيٰ 1137ھ( كا نظريه حضرت شيخ اسماعيل حقي عليه الرحمه ’’تفسير روح البيان‘‘ ميں لكھتے هيں: ومن تعظيمه عمل المولد إذا لم يکن فيه منکر. قال الإمام السيوطي قُدّس سره : يستحب لنا إظهار الشکر لمولده عليه السلام. (تفسير روح البيان جلد 9ص 56) ’’اور ميلاد شريف منانا آپﷺ كي تعظيم ميں سے هے جب كه وه منكرات سے پاك هو۔ امام سيوطي عليه الرحمه نے فرمايا هے۔ همارے لئے آپﷺ كي ولادت باسعادت پر اظهارِ تشكر كرنا مستحب هے۔ :11حضرت شاه ولي اﷲ محدث دهلوي عليه الرحمه (متوفيٰ 1174ھ( كا نظريه شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنے والد گرامی اور صلحاء و عاشقان کی راہ پر چلتے ہوئے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل میں شریک ہوتے تھے۔ آپ مکہ مکرمہ میں اپنے قیام کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : وکنت قبل ذلک بمکة المعظمة في مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم في يوم ولادته، والناس يصلون علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم ويذکرون إرهاصاته التي ظهرت في ولادته ومشاهدة قبل بعثته، فرأيت أنواراً سطعت دفعة وحداة لا أقول إني أدرکتها ببصر الجسد، ولا أقول أدرکتها ببصر الروح فقط، وﷲ أعلم کيف کان الأمر بين هذا وذلک، فتأملت تلک الأنوار فوجدتها من قبل الملائکة المؤکلين بأمثال هذه المشاهد وبأمثال هذه المجالس، ورأيت يخالطه أنوار الملائکة أنوار الرحمة. (فيوض الحرمين، ص 81-80) ’’اس سے پہلے میں مکہ مکرمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے دن ایک ایسی میلاد کی محفل میں شریک ہوا جس میں لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں ہدیۂ درود و سلام عرض کر رہے تھے اور وہ واقعات بیان کر رہے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے موقعہ پر ظاہر ہوئے اور جن کا مشاہدہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہوا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ اس محفل پر اَنوار و تجلیات کی برسات شروع ہوگئی۔ میں نہیں کہتا کہ میں نے یہ منظر صرف جسم کی آنکھ سے دیکھا تھا، نہ یہ کہتا ہوں کہ فقط روحانی نظر سے دیکھا تھا، اﷲ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان دو میں سے کون سا معاملہ تھا۔ بہرحال میں نے ان اَنوار میں غور و خوض کیا تو مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ یہ اَنوار اُن ملائکہ کے ہیں جو ایسی مجالس اور مشاہد میں شرکت پر مامور و مقرر ہوتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ اَنوارِ ملائکہ کے ساتھ ساتھ اَنوارِ رحمت کا نزول بھی ہو رہا تھا۔‘‘ :12حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی عليه الرحمه (متوفيٰ 1239ھ( كا نظريه تيرهويں صدي كے مجدّد شاہ عبد العزیز محدّث دہلوی عليه الرحمه اپنے فتاوٰی میں لکھتے ہیں : وبرکة ربيع الأول بمولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم فيه ابتداء وبنشر برکاته صلي الله عليه وآله وسلم علي الأمة حسب ما يبلغ عليه من هدايا الصلٰوة والإطعامات معا. (فتاوٰي عزيزي، 1 : 163) ’’اور ماہِ ربیع الاول کی برکت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میلاد شریف کی وجہ سے ہے۔ جتنا اُمت کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ہدیۂ درود و سلام اور طعاموں کا نذرانہ پیش کیا جائے اُتنا ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکتوں کا اُن پر نزول ہوتا ہے۔‘‘ ٭ میلاد کی خوشی منانے پر کافر کے عذاب میں تخفیف: ٭ حدیث شریف: فلما مات ابولہب اریہ اہلہ بشر حیبۃ، قال لہ ماذا القیت؟ قال ابو لہب لم الق بعدکم غیر انی سقیت فی ہذہ یعتاقتی ثویبۃ ترجمہ: جب ابولہب مرگیا تو اس کے اہل خانہ میں سے کسی کو اسے خواب میں دکھایا گیا۔ وہ برے حال میں تھا (دیکھنے والے نے) اس سے پوچھا ،کیسے ہو؟ ابولہب نے کہا میں بہت سخت عذاب میں ہوں۔ اس سے کبھی چھٹکارا نہیں ملتا۔ ہاں مجھے (اس عمل کی جزا کے طور پر) اس (انگلی) سے قدرے سیراب کردیا جاتا ہے جس سے میں نے (محمدﷺ کی ولادت کی خوشی میں) ثويبہ کو آزاد کیا تھا (بخاری، کتاب النکاح، باب وامہاتکم اللاتی ارضعنکم جلد 5، حدیث 4813، ص 1961) اس روایت کے تحت محدثین کے اقوال پیش کئے جارہے ہیں جنہوں نے اس روایت سے جشن میلاد النبیﷺ کو باعث اجروثواب لکھا ہے۔ 1: حضرت حافظ شمس الدین محمد بن عبداﷲ جزری علیہ الرحمہ (متوفیٰ 660ھ) اپنی تصنیف ’’عرف التعریف بالمولد الشریف‘‘ میں لکھتے ہیں: فاذا کان ابولہب الکافر الذی نزل القرآن بذمہ جوزی فی النار بفرحہ لیلۃ مولد النبیﷺ بہ، فما حال المسلم الموحد من امۃ النبیﷺ یسر بمولدہ، وبذل ماتصل الیہ قدرتہ فی محبتہﷺ؟ لعمری انما یکون جزاؤہ من ﷲ الکریم ان یدخلہ بفضلہ جنات النعیم ترجمہ: حضور اکرم نور مجسمﷺ کی ولادت باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اجر میں اس ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کردی جاتی ہے جس کی مذمت میں قرآن حکیم میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے تو اُمّت محمدیہ کے اس مسلمان کو ملنے والے اجروثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپﷺ کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپﷺ کی محبت و عشق میں حسب استطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک اﷲ تعالیٰ ایسے مسلمان کو اپنے حبیب مکرمﷺ کی خوشی منانے کے طفیل اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائے گا۔ 2: حافظ شمس الدین محمد بن ناصر الدین دمشقی علیہ الرحمہ (متوفیٰ 842ھ) اپنی کتاب مورد الھادی فی مولد الھادی‘‘ میں فرماتے ہیں۔ قد صح ان ابالہب یخفف عنہ عذاب النار فی مثل یوم الاثنین لاعتاقۃ ثویبۃ بسروراً ابمیلاد النبیﷺ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ میلاد النبیﷺ کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کرنے کے صلے میں ہر پیر کے روز ابولہب کے عذاب میں کمی کی جاتی ہے اذا کان ہذا کافر جاء ذمہ وتبت یداہ فی الجحیم مخلدا اتی انہ فی یوم الاثنین دائما یخفف عنہ للسرور باحمدا فما الظن بالعبد الذی طول عمرہ باحمد مسروراً و مات موحدا ’’جب ابولہب جیسے کافر کے لئے۔ جس کی مذمت قرآن حکیم میں کی گئی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں اس کے ہاتھ ٹوٹتے رہیں گے۔ حضور اکرمﷺ کے میلاد کی خوشی منانے کی وجہ سے ہر سوموار کو اس کے عذاب میں تخفیف کردی جاتی ہے۔ تو کتنا خوش نصیب ہوگا وہ مسلمان جس کی ساری زندگی عبادت الٰہی میں میلاد کی خوشیوں میں بسر ہوئی اور وہ حالت ایمان پر فوت ہوا (الحاوی للفتاویٰ، ص 206) 3: گیارہویں صدی کے مجدد شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ (متوفیٰ 1052ھ) ابولہب والی بخاری شریف کی روایت کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ در اینجاسند است مراہل موالبد راکہ در شب میلاد آنحضرتﷺ سرور کنند وبذل اموال نمایند یعنی ابولہب کہ کافر بود، و قرآن بمذمت ومے نازل شدہ، چوں بسرور میلاد آنحضرتﷺ جزادادہ شد تاحال مسلماں کہ مملوست بمحبت وسرور و بذل مال دروے چہ باشد۔ ولیکن بایدکہ ازبدعتہاکہ عوام احداث کردہ انداز تغنی وآلات محرمہ ومنکرات خالی باشد تاموجب حرمان از طریقہ اتباع نگردد (مدارج النبوت، جلد 2، ص 19) ترجمہ: یہ روایت موقع میلاد پر خوشی منانے اور مال صدقہ کرنے والوں کے لئے دلیل اور سند ہے۔ ابو لہب جس کی مذمت میں ایک مکمل سورت قرآنی نازل ہوئی جب وہ حضورﷺ کی ولادت کی خوشی میں لونڈی آزاد کرکے عذاب میں تخفیف حاصل کرلیتا ہے تو اس مسلمان کی خوش نصیبی کا کیا عالم ہوگا جو اپنے دل میں موجزن محبت رسولﷺ کی وجہ سے ولادت مصطفیﷺ کے دن مسرت اور عقیدت کا اظہار کرے۔ ہاں بدعات مثلا رقص اور غیر اسلامی اعمال وغیرہ سے اجتناب ضروری ہے کیونکہ انسان اس کے باعث میلاد کی برکات سے محروم ہوجاتا ہے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔