Sunday 29 November 2015

اعتراض : ۔ عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر چراغاں کرنے کا کوئ ثبوت نہیں ہے

0 comments
اعتراض : ۔ عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر چراغاں کرنے کا کوئ ثبوت نہیں ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جواب : ۔ خوشی کے مواقع پر خوشی کا اظہار چراغاں کے ذریعے کرنا جائز ہے، ہر دور میں اس دور کے مطابق موجود سامان مسرت کے ذریعے خوشی کا اظہار کیاجاتا تھا۔ کسی دور میں چراغ روشن ہوتے تھے، کسی دور میں فانوس روشن کئے جاتے تھے، کسی دور میں قندیلیں روشن کی جاتی تھیں، کسی دور میں مشعلیں روشن کی جاتی تھیں، کسی دور میں شمعیں روشن کی جاتی تھیں اور موجودہ دور میں بجلی موجود ہے لہذا ہر مقام پر چراغاں کے ذریعہ خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ لیلۃ القدر میں مساجد پر لائٹنگ کی جاتی ہے، ختم قرآن کی محافلوں میں بڑی بڑی لائٹیں لگائی جاتی ہیں، مذہبی، سیاسی اور سماجی اجتماعات کے مواقع پر لائٹیں لگائی جاتی ہیں، اولاد کی منگنی کے موقع پر گھر کو برقی قمقموں سے سجایا جاتا ہے، ختنہ اور عقیقہ کے مواقع پر خوب روشنی کی جاتی ہے۔ اولاد کی شادی کے موقع پر شادی ہال، شادی لانز اور گلیوں اور عمارتوں کو برقی قمقموں سے سجایا جاتا ہے اور یہ سب خوشی کے اظہار کے لئے کیاجاتا ہے۔ یاد رہے! یہ ساری خوشیاں جو اﷲ تعالیٰ کی نعمت ہیں اور اس نعمت کی آمد پر چراغاں کیاجاتا ہے تو پھر جو نعمت عظمیٰ و نعمت کبریٰ (سب سے بڑی نعمت) یعنی سرکار کائناتﷺ کی ذات ہیں، اس نعمت کبریٰ کی آمد کی خوشی اور یاد میں کس قدر چراغاں کرنا چاہئے۔ 1: حضور نبی اکرمﷺ کی ولادت باسعادت کے حوالہ سے حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اﷲ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت عبداﷲ ثقفیہ رضی اﷲ عنہا حضورﷺ کی ولادت کے وقت حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہا کے پاس تھیں۔ آپ شب ولادت کی بابت فرماتی ہیں۔ فما ولدتہ خرج منہا نور اضاء لہ البیت الذی نحن فیہ والدار، فما شیٔ انظر الیہ الانور (المعجم الکبیر جلد 25، رقم 457-355 ص 186-147) ’’پس جب آپﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی تو سیدہ آمنہ کے جسم اطہر سے ایسا نور نکلا جس سے پورا گھر اور حویلی جگمگ کرنے لگی اور مجھے ہر ایک شے میں نور ہی نور نظر آیا‘‘ 2۔ حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہا سے ایک روایت یوں مروی ہے: انی رأیت حین ولدتہ انہ خرج منی نور اضاء ت منہ قصور بصری من ارض الشام (المعجم الکبیر، جلد 24، رقم 545، ص 214) ’’جب میں نے آپﷺ کو جنم دیا تو میں نے دیکھا کہ بے شک مجھ سے ایسا نور نکلا جس کی ضیاء پاشیوں سے سرزمین شام میں بصرہ کے محلات روشن ہوگئے‘‘ اتر آئے ستارے قمقمے بن کر انسان جب جشن مناتے ہیں تو اپنی بساط کے مطابق روشنیوں کا اہتمام کرتے ہیں، قمقمے جلاتے ہیں، اپنے گھروں، محلوں اور بازاروں کو ان روشن قمقموں اور چراغوں سے مزین و منور کرتے ہیں، لیکن وہ خالق کائنات جس کی بساط میں شرق و غرب ہے، اس نے جب چاہا کہ اپنے حبیبﷺ کے میلاد پر چراغاں کروں تو نہ صرف شرق تا غرب زمین کو منور کردیا بلکہ آسمانی کائنات کو بھی اس خوشی میں شامل کرتے ہوئے ستاروں کو قمقمے بناکر زمین کے قریب کردیا۔ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اﷲ عنہ کی والدہ فاطمہ بنت عبداﷲ ثقیفہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں: حضرت ولادۃ رسول ﷲﷺ فرأیت البیت حین وضع قد امتلاً نوراً، ورأیت النجوم تدنو حتی ظننت انہا ستقع علی (الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، جلد اول، ص 279-278) ’’جب آپﷺ کی ولادت ہوئی تو (میں خانہ کعبہ کے پاس تھی) میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے منور ہوگیا ہے اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ کہیں مجھ پر نہ گر پڑیں‘‘ جشن میلاد النبیﷺ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں چراغاں عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر اہل مکہ ہمیشہ جشن مناتے اور چراغاں کا خاص اہتمام کرتے۔ ائمہ نے اس کا تذکرہ اپنی کتب میں کیا ہے۔ نمونے کے طور پر چند روایات درج ذیل ہیں: حضرت امام محمد جار اﷲ بن ظہیرہ حنفی علیہ الرحمہ (متوفیٰ 986ھ) اہل مکہ کے جشن میلاد کے بارے میں لکھتے ہیں: وجرت العادۃ بمکۃ لیلۃ الشانی عشر من ربیع الاول فی کل عام ان قاضی مکۃ الشافعی یتھیا لزیارۃ ہذا المحل الشریف بعد صلاۃ المغرب فی جمع عظیم، منہم الثلاثۃ القضاۃ واکثر الاعیان من الفقہاء والفضلائ، وذوی البیوت بفوانیس کثیرۃ وشموع عظیمۃ وزحام عظیم، ویدعی فیہ للسلطان ولامیر مکۃ، وللقاضی الشافعی بعد تقدم خطبۃ مناسبۃ للمقام، ثم یعود منہ الی المسجد الحرام قبیل العشائ، ویجلس خلف مقام الخلیل علیہ السلام بازاء قبۃ الفراشین، ویدعو الداعی لمن ذکر آنفاً بحضور القضاۃ واکثر الفقہاء ثم یصلون العشاء وینصرفون، ولم اقف علی اول من سن ذالک، سألت مورخی العصر فلم اجد عندہم علماً بذلک (الجامع اللطیف فی فضل مکۃ واہلہا وبناء البیت الشریف، ص 202-201) ’’ہر سال مکہ مکرمہ میں بارہ ربیع الاول کی رات اہل مکہ کا یہ معمول ہے کہ قاضی مکہ۔ جوکہ شافعی ہیں۔ مغرب کی نماز کے بعد لوگوں کے ایک جم غفیر کے ساتھ مولود شریف کی زیارت کے لئے جاتے ہیں۔ ان لوگوں میں تینوں مذاہب فقہ کے قاضی، اکثر فقہاء، فضلاء اور اہل شہر ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں فانوس اور بڑی بڑی شمعیں ہوتی ہیں۔ وہاں جاکر مولد شریف کے موضوع پر خطبہ دینے کے بعد بادشاہ وقت، امیر مکہ اور شافعی قاضی کے لئے (منتظم ہونے کی وجہ سے) دعا کی جاتی ہے۔ پھر وہ وہاں سے عشاء سے تھوڑا پہلے مسجد حرام میں آجاتے ہیں اور صفائی کرنے والوں کے قبہ کے مقابل مقام ابراہیم کے پیچھے بیٹھتے ہیں۔ بعد ازاں دعا کرنے والا کثیر فقہاء اور قضاۃ کی موجودگی میں دعا کہنے والوں کے لئے خصوصی دعا کرتا ہے اور پھر عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد سارے الوداع ہوجاتے ہیں۔ (مصنف فرماتے ہیں کہ) مجھے علم نہیں کہ یہ سلسلہ کس نے شروع کیا تھا اور بہت سے اہم عصر مورخین سے پوچھنے کے باوجود اس کا پتہ نہیں چل سکا‘‘ حضرت علامہ قطب الدین حنفی علیہ الرحمہ (متوفیٰ 988ھ) نے کتاب الاعلام باعلام بیت اﷲ الحرام فی تاریخ مکۃ المشرفۃ میں اہل مکہ کی محافل میلاد کی بابت تفصیل سے لکھا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: يزار مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم المکاني في الليلة الثانية عشر من شهر ربيع الأول في کل عام، فيجتمع الفقهاء والأعيان علي نظام المسجد الحرام والقضاة الأربعة بمکة المشرفة بعد صلاة المغرب بالشموع الکثيرة والمفرغات والفوانيس والمشاغل وجميع المشائخ مع طوائفهم بالأعلام الکثيرة ويخرجون من المسجد إلي سوق الليل ويمشون فيه إلي محل المولد الشريف بازدحام ويخطب فيه شخص ويدعو للسلطنة الشريفة، ثم يعودون إلي المسجد الحرام ويجلسون صفوفا في وسط المسجد من جهة الباب الشريف خلف مقام الشافعية ويقف رئيس زمزم بين يدي ناظر الحرم الشريف والقضاة ويدعو للسلطان ويلبسه الناظر خلعة ويلبس شيخ الفراشين خلعة. ثم يؤذن للعشاء ويصلي الناس علي عادتهم، ثم يمشي الفقهاء مع ناظر الحرم إلي الباب الذي يخرج منه من المسجد، ثم يتفرقون. وهذه من أعظم مواکب ناظر الحرم الشريف بمکة المشرفة ويأتي الناس من البدو والحضر وأهل جدة، وسکان الأودية في تلک الليلة ويفرحون بها. )كتاب الاعلام باعلام بيت اﷲ الحرام في تاريخ مكة المشرفة ص 355) ’’ہر سال باقاعدگی سے بارہ ربیع الاول کی رات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے ولادت کی زیارت کی جاتی ہے۔ (تمام علاقوں سے) فقہاء، گورنر اور چاروں مذاہب کے قاضی مغرب کی نماز کے بعد مسجد حرام میں اکٹھے ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کثیر تعداد میں شمعیں، فانوس اور مشعلیں ہوتیں ہیں۔ یہ (مشعل بردار) جلوس کی شکل میں مسجد سے نکل کر سوق اللیل سے گزرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے ولادت کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ پھر ایک عالم دین وہاں خطاب کرتا ہے اور اس سلطنتِ شریفہ کے لیے دعا کرتا ہے۔ پھر تمام لوگ دوبارہ مسجد حرام میں آنے کے بعد باب شریف کی طرف رُخ کرکے مقامِ شافعیہ کے پیچھے مسجد کے وسط میں بیٹھ جاتے ہیں اور رئیسِ زَم زَم حرم شریف کے نگران کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ بعد ازاں قاضی بادشاہِ وقت کو بلاتے ہیں، حرم شریف کا نگران اس کی دستار بندی کرتا ہے اور صاحبانِ فراش کے شیخ کو بھی خلعت سے نوازتا ہے۔ پھر عشاء کی اذان ہوتی اور لوگ اپنے طریقہ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں۔ پھر حرم پاک کے نگران کی معیت میں مسجد سے باہر جانے والے دروازے کی طرف فقہاء آتے اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ یہ اتنا بڑا اجتماع ہوتا کہ دور دراز دیہاتوں، شہروں حتیٰ کہ جدہ کے لوگ بھی اس محفل میں شریک ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت پر خوشی کا اِظہار کرتے تھے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔