Friday 27 November 2015

بیانِ فضائل و میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اَئمہ حدیث علیہم الرّحمہ

0 comments
بیانِ فضائل و میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اَئمہ حدیث علیہم الرّحمہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اِمام مسلم (206۔ 261ھ)، اِمام ترمذی (210۔ 279ھ) اور دیگر اَئمۂ حدیث کا یہ اُسلوب ہے کہ مناقب و فضائلِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باب میں میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مضمون بالالتزام بیان کرتے ہیں۔ اَئمہ کرام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر فی نفسہ گفتگو کرنے کی بجائے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و مناقب بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف، یومِ ولادت، نسبِ عالی اور ان سب چیزوں کا حوالہ دیتے ہیں جو براہِ راست آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس سے متعلق ہیں۔

اِمام مسلم (206۔ 261ھ) نے اپنی ’’الصحيح‘‘ کی کتاب الفضائل اور اِمام ترمذی (210۔ 279ھ) اپنی ’’الجامع الصحيح‘‘ کی کتاب المناقب کے آغاز میں حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

إن اﷲ اصطفي من ولد إبراهيم إسماعيل، واصطفي من ولد إسماعيل بني کنانة، واصطفي من بني کنانة قريشاً، واصطفي من قريش بني هاشم، واصطفاني من بني هاشم.

’’بے شک ربِ کائنات نے اِبراہیم (علیہ السلام) کی اَولاد میں سے اِسماعیل (علیہ السلام) کو منتخب فرمایا، اور اِسماعیل (علیہ السلام) کی اَولاد میں سے بنی کنانہ کو، اور اَولادِ کنانہ میں سے قریش کو، اور قریش میں سے بنی ہاشم کو، اور بنی ہاشم میں سے مجھے شرفِ اِنتخاب سے نوازا اور پسند فرمایا۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في فضل النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 5 : 583، رقم : 3605
2. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب فضل نسب النبي صلي الله عليه وآله وسلم وتسليم الحجر عليه قبل النبوة، 4 : 1782، رقم : 2276
3. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 107
4. ابن ابي شيبة، المصنف، 6 : 317، رقم : 31731
5. ابو يعلي، المسند، 13 : 469، 472، رقم : 7485، 7487
6. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 66، رقم : 161
7. بيهقي، السنن الکبري، 6 : 365، رقم : 12852
8. بيهقي، شعب الإيمان، 2 : 139، رقم : 1391

اِس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا پورا سلسلۂ نسب بیان فرما دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصطفی کا لفظ اس لیے بیان کیا کہ صاحبِ نسب، مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (چُنے ہوئے) ہیں اور پورے نسبی سلسلہ کو یہ صفاتی لقب دیا گیا ہے۔

اِمام مسلم (206۔ 261ھ) اپنی ’’الصحيح‘‘ کی کتاب الفضائل اور اِمام ترمذی (210۔ 279ھ) نے اپنی ’’الجامع الصحيح‘‘ کی کتاب المناقب کے آغاز میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و اَخلاق کو موضوع نہیں بنایا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات و اَقدار بیان کی ہیں، بلکہ سارا کا سارا باب بیانِ میلاد کے لیے وقف کیا ہے۔ اِمام ترمذی نے کتاب المناقب کے پہلے باب فضل النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث نمبر 2 میں دوبارہ اِسی مضمون کو لیا ہے۔ حدیث نمبر 3 اور حدیث نمبر 4 میں بھی یہی مضمون ہے۔ دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ پانچویں حدیث میں امام ترمذی نے ولادت سے قبل تخلیقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مرحلہ بیان کیا ہے جس میں تخلیقِ آدم ں کا حوالہ ہے، جہاں سے اَولادِ آدم علیہ السلام کے سلسلۂ پیدائش کا آغاز ہوا۔ اِس حدیث کی اِبتدا یوں ہوتی ہے :

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے بارگاہِ رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا :

يا رسول اﷲ! متي وجبت لک النبوة؟

’’یا رسول اﷲ! آپ کو شرفِ نبوت سے کب نوازا گیا؟‘‘

یہ ایک معمول سے ہٹا ہوا سوال تھا کیوں کہ صحابہ میں سے کون نہیں جانتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِعلانِ نبوت چالیس سال کی عمر میں فرمایا جب غار حرا میں پہلی وحی نازل ہوئی۔ یہ سب اُن کے علم میں تھا اور کسی کو اِعلانِ نبوت کے زمانہ اور وقت کے بارے میں کوئی شک و شبہ اور مغالطہ بھی نہیں تھا۔ تو پھر اس سوال کی کیا ضرورت لاحق ہوئی کہ پوچھنے لگے : ’’متی وجبت لک النبوۃ (آپ کو شرفِ نبوت سے کب نوازا گیا)؟‘‘ جب یہ بات واضح تھی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت چالیس سال کی عمر میں ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی جواباً یہ نہیں فرمایا :

ألم تعلموا؟

’’کیا تم یہ نہیں جانتے؟‘‘

اِس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بعثت اور عطاءِ نبوت میں فرق سمجھتے تھے اور اِس سے بخوبی آشنا تھے۔ اِسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے سوال کے جواب میں فرمایا :

وآدم بين الروح والجسد.

’’(میں اُس وقت بھی نبی تھا) جب آدم کی تخلیق ابھی رُوح اور جسم کے مرحلے میں تھی۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في فضل النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 5 : 585، رقم : 3609

2۔ ابن مستفاض نے ’’کتاب القدر (ص : 27، رقم : 14)‘‘ میں کہا ہے کہ اِس کے رِجال ثقہ ہیں۔

3. تمام رازي، کتاب الفوائد، 1 : 241، رقم : 581
4. ابن حبان، کتاب الثقات، 1 : 47
5. لالکائي، إعتقاد أهل السنة، 1 : 422، رقم : 1403
6. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 2 : 665، رقم : 4210
7. بيهقي، دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشريعة، 2 : 130
8. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، 6 : 569

9۔ ناصر الدین البانی نے اِس حدیث کو صحیح قرار دیتے ہوئے ’’صحیح السیرۃ النبویۃ (ص : 54، رقم : 53)‘‘ میں بیان کیا ہے۔

اِس حدیث سے مراد ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس وقت بھی نبی تھے جب روح اور جسم سے مرکب حضرت آدم علیہ السلام کا خمیر ابھی مکمل طور پر تیار نہیں ہوا تھا۔ اور ہم نے یہاں اِس حدیث شریف کو اِسی لیے بیان کیا ہے کہ اِس میں میلاد کا مضمون بیان ہوا ہے نہ کہ سیرت کا۔ اِمام ترمذی نے بھی اس حدیث کو کتاب المناقب میں نقل کیا ہے کیوں کہ اِس میں کوئی اَحکامِ حلّت و حُرمت، اَخلاقیات، اَقدار وغیرہ سے بحث نہیں بلکہ میلاد کا بیان ہے۔
کتاب المناقب کی ترتیبِ اَبواب میں اِمام ترمذی کا اُسلوب

امام ترمذی کی ’’الجامع الصحيح‘‘ میں کتاب المناقب کا پہلا باب فضل النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، جب کہ دوسرا باب ما جاء فی میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اگر بعض لوگ نبوت و سیرت کے لاحقہ کا ذکر کریں تو اِس کا سابقہ میلاد ہے جس کی وقوع پذیری پہلے ہوئی اور نبوت وسیرت کا ظہور اِس کے بعد ہوا۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ولادت سے پہلے ہی بعثت ہو جائے؟ اَمرِ واقع ہے کہ ولادت پہلے ہوئی اور اِعلانِ نبوت بعد میں ہوا۔ پس اگر کوئی میلاد منائے تو وہ رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے روحانی طور پر والہانہ وابستگی اختیار کرتا ہے، پھر اس کے قلب کو وہ حالت نصیب ہوتی ہے جس میں وہ نورِ نبوت کو اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ امام ترمذی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت اور برتری کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس ترتیب کو مقدم رکھا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و اَخلاق کی تبلیغ کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَعلیٰ و اَرفع مقام و منصب کا ذکر کیا ہے۔ ہو سکتا ہے بعض کوتاہ فہم لوگ کہیں کہ اس فضیلت و برتری کے بیان کا کیا جواز ہے، کیوں نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سیرت و کردار اور اَخلاق کی تبلیغ کی جائے۔ ایسا کہنے والوں کو اِمام ترمذی کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اِمام مسلم، ترمذی و دیگر ائمہ علم کا ذریعہ اور ماخذ ہیں۔ مناقب میں وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت و برتری سے آغاز کرتے ہیں، پھر میلاد کا ذکر کیا جاتا ہے۔

میلاد کے بعد جامع الترمذی کی کتاب المناقب کا تیسرا باب ہے : ما جاء فی بدء نبوۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ایک تاریخی، عقلی اور منطقی ترتیب ہے جس میں میلاد کا ذکر پہلے اور نبوت کا بعد میں آتا ہے۔ پھر چوتھے باب کا آغاز اِمام ترمذی بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کرتے ہیں۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ چوتھے باب میں ان کا موضوع حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہے اور اِس کا اِعلان اُس وقت ہوا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک چالیس برس تھی حالاں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے پہلے ہی نبوت عطا ہو چکی تھی۔ اِس کا بیان یہاں بڑی وضاحت سے کر دیا گیا ہے کہ نبوت عطا ہونا اور اِس کا اِعلان ہونا یکسر دو مختلف چیزیں ہیں اور بعض علماء کج فہمی کی بناء پر اِن دونوں کو خلط ملط کر دیتے ہیں۔

اِمام ترمذی کی اِس ترتیب سے اَئمہ حدیث اور اَصحابِ صحاحِ ستہ کا عقیدہ سمجھ میں آتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ پانچویں باب فی آیات اثبات نبوۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم . کا آغاز ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر سلام سے کرتے ہیں۔ وادیء مکہ میں ایک پتھر پر سے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر ہوتا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوٰۃ و سلام پڑھا کرتا تھا۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

إن بمکة حجرا کان يسلم عليّ ليالي بُعثتُ إني لأعرفه الآن.

’’بے شک مکہ میں ایک پتھر تھا، (جب) مجھے مبعوث کیا گیا تو وہ مجھے سلام کیا کرتا تھا۔ بے شک میں اسے اب بھی پہچانتا ہوں۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في آيات إثبات نبوة النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 5 : 592، رقم : 3624
2. ابو يعلي، المسند، 13 : 459، رقم : 7469
3. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 220، رقم : 1907
4. طبراني، المعجم الأوسط، 2 : 291، رقم : 2012

سیدنا علی کرم اﷲ وجھہ فرماتے ہیں :

کنت مع النبي صلي الله عليه وآله وسلم بمکة، فخرجنا في بعض نواحيها فما استقبله جبل ولا شجر إلا وهو يقول : السلام عليک يا رسول اﷲ.

’’میں مکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم راہ تھا، پس ہم بیرونی مضافات سے گزرے تو جس درخت اور پتھر سے ہمارا گزر ہوتا وہ السلام علیک یا رسول اﷲ کی صدا ضرور بلند کرتا۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في آيات إثبات نبوة النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 5 : 593، رقم : 3626
2. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 2 : 677، رقم : 4238
3. مقدسي، الأحاديث المختارة، 2 : 134، رقم : 502

یہ وہی سلام ہے جو ہم محافلِ میلاد میں پڑھتے ہیں۔ اَفسوس! شجر و حجر تو تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام پڑھ رہے ہیں لیکن آج کے بعض نام نہاد مُوَحد، شدت پسند اور بدعتی اِسے کفر و شرک گردانتے ہیں۔ حالاں کہ حدیث شریف کی اَصح کتب جیسے جامع الترمذی اور الصحيح لمسلم کی اِبتدا اِس طرح ہوئی ہے، اور جہاں تک عقیدہ کا تعلق ہے امام مسلم اور امام بخاری اِسی عقیدہ کے حامل ہیں۔ فضائل و مناقب کے مختلف اَبواب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرف و فضیلت پر وقف ہیں۔ ان میں مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باب بھی ہیں اور میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِصطلاح اِمام ترمذی نے بیان کی ہے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔