اعتراض : ۔ اسلام میں یادگار منانے کی کوئی حیثیت نہیں لہذا یادگار منانا ناجائز ہے ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جواب : ۔ یہ سوال سائل کی کم علمی کی دلیل ہے۔ اگر وہ قرآن و سنت کا مطالعہ کرتے تو کبھی ایسا سوال نہ کرتے۔ اﷲ تعالیٰ کے نیک بندوں کی یاد منانا جائز بلکہ ثواب ہے۔ القرآن: وذکرہم بایم ﷲ ترجمہ: اور انہیں اﷲ کے دن یاد دلائو (سورۂ ابراہیم، آیت 5، پارہ 13) اﷲ تعالیٰ کے دن سے مراد وہ ایام ہیں جن ایام میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر انعام و اکرام کیا، یعنی جس دن کو اہل اﷲ سے نسبت ہوجائے، وہ ’’ایام اﷲ‘‘ بن جاتے ہیں۔ ٭ سرور کونینﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یاد منانے کا حکم دیا: حدیث شریف: کان یوم عاشوراء تعدہ الیہود عیداً، قال النبیﷺ: فصوموہ انتم (بخاری، کتاب الصوم، حدیث 1901، جلد 2، ص 704) ترجمہ: یوم عاشورہ کو یہود یوم عید شمار کرتے تھے، حضور اکرمﷺ نے (مسلمانوں کو حکم دیتے ہوئے) فرمایا تم ضرور اس دن روزہ رکھا کرو۔ ٭ حضرت نوح علیہ السلام کی یاد: حضرت امام احمد ابن حنبل علیہ الرحمہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے ایک حدیث روایت کی ہے جسے حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ نے فتح الباری میں نقل کیا ہے۔ اس میں یوم عاشورہ منانے کا یہ پہلو بھی بیان ہوا کہ عاشورہ حضرت نوح علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں پر اﷲ تعالیٰ کے فضل و انعام کا دن تھا۔ اس روز وہ بہ حفاظت جودی پہاڑ پر لنگر انداز ہوئے تھے۔ اس پر حضرت نوح علیہ السلام کی جماعت اس دن کو یوم تشکر کے طور پر منانے لگی، اور یہ دن بعد میں آنے والوں کے لئے باعث احترام بن گیا۔ ٭ غلاف کعبہ کا دن حضورﷺ نے منایا: حدیث شریف: کانوایصومون عاشوراء قبل ان یفرض رمضان، وکان یوما تسترفیہ الکعبۃ، فلما فرض ﷲ رمضان، قال رسول ﷲﷺ من شاء ان یصومہ فلیصمہہ، ومن شاء ان یترکہ فلیترکہ (بخاری، کتاب الحج، حدیث 1515، جلد 2، ص 578) ترجمہ: اہل عرب رمضان کے روزے فرض ہونے سے قبل یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور (اس کی وجہ یہ ہے کہ) اس دن کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ پھر جب اﷲ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کردیئے تو رسول اکرمﷺ نے فرمایا تم میں سے جو اس دن روزہ رکھنا چاہے وہ روزہ رکھ لے اور جو ترک کرنا چاہے، وہ ترک کردے۔ امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ درج بالا حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: فانہ یفید ان جاہلیۃ کانوا یعظمون الکعبۃ قدیما بالستورویقومون بہا (فتح الباری، جلد 3، ص 455) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت سے ہی وہ کعبہ پر غلاف چڑھا کر اس کی تعظیم کرتے تھے اور یہ معمول وہ قائم رکھے ہوئے تھے۔ ٭ جمعہ کا دن، ولادت آدم علیہ السلام کي یاد: حدیث شریف: حضرت اوس بن اوس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاکﷺ سے فرمایا۔ ان من افضل ایامکم یوم الجمعۃ، فیہ خلق آدم، وفیہ قبض، وفیہ النفخۃ، وفیہ الصعقۃ فاکثروا علی من الصلاۃ فیہ، فان صلاتکم معروضۃ علی (ابو دائود، کتاب الصلاۃ، حدیث 1047، جلد اول، ص 275) ترجمہ: تمہارے دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ کا ہے، اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی ولادت ہوئی (یعنی اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی خلافت ہوئی اور آپ کو لباس بشریت سے سرفراز کیا گیا) اس روز ان کی روح قبض کی گئی اور اسی روز صور پھونکا جائے گا۔ پس اس روز کثرت سے مجھ پر درود شریف بھیجا کرو، بے شک تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ ٭ ہر پیر کو روزہ رکھ کر رسول اﷲﷺ اپنی ولادت کی یاد مناتے تھے (مسلم شریف، جلد دوم، کتاب الصیام، باب استحباب صیام ثلثۃ ایام من کل شہر، حدیث 2646، ص 88، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور) ٭ بکرے ذبح کرکے رسول پاکﷺ نے اپنا میلاد منایا (حسن المقصد فی عمل المولد ص 64) معلوم ہوا کہ یادگار منانا جائز بلکہ حضورﷺ کی سنت ہے۔
No comments:
Post a Comment