جشنِ عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اَئمہ و محدثین کی نظر میں حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہم اُن اَئمہ کرام کے حوالہ جات دیں گے جنہوں نے اِنعقادِ جشنِ میلاد کے اَحوال بیان کیے ہیں۔ تاریخی تناظر میں ان کے یہ تذکرے متعدد اسلامی اَدوار اور بلادِ اِسلامیہ سے متعلق ہیں۔ یہ کہنا مطلقاً غلط اور خلافِ حقیقت ہے کہ میلاد پر منعقد کی جانے والی تقریبات بدعت ہیں اور ان کی ابتداء برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے کی۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ تقاریبِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِنعقاد ہندوستان کے مسلمانوں کی اختراع ہے نہ یہ کوئی بدعت ہے۔ جشن میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آغاز حالیہ دور کے مسلمانوں نے نہیں کیا بلکہ یہ ایک ایسی تقریب سعید ہے جو حرمین شریفین مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سمیت پورے عالم عرب میں صدیوں سے اِنعقاد پذیر ہوتی رہی ہے۔ بعد ازاں وہاں سے دیگر عجمی ملکوں میں بھی اِس تقریب کا آغاز ہوا۔ ذیل میں ہم اَکابر اَئمہ و محدثین کے حوالہ سے جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آغاز و اِرتقاء کا تذکرہ کرتے ہیں :
1۔ حجۃ الدین اِمام محمد بن ظفر المکی (497۔ 565ھ)
حجۃ الدین اِمام ابو عبد اﷲ محمد بن عبد اﷲ بن ظفر المکی (1104۔ 1170ء) کہتے ہیں کہ الدر المنتظم میں ہے :
وقد عمل المحبون للنبي صلي الله عليه وآله وسلم فرحاً بمولده الولائم، فمن ذلک ما عمله بالقاهرة المعزّية من الولائم الکبار الشيخ أبو الحسن المعروف بابن قُفل قدّس اﷲ تعالي سره، شيخ شيخنا أبي عبد اﷲ محمد بن النعمان، وعمل ذلک قبلُ جمال الدين العجمي الهمذاني. وممن عمل ذلک علي قدر وسعه يوسف الحجّار بمصر، وقد رأي النبي صلي الله عليه وآله وسلم وهو يحرّض يوسف المذکور علي عمل ذلک.
’’اہلِ محبت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی میں دعوتِ طعام منعقد کرتے آئے ہیں۔ قاہرہ کے جن اَصحابِ محبت نے بڑی بڑی ضیافتوں کا انعقاد کیا ان میں شیخ ابو الحسن بھی ہیں جو کہ ابن قفل قدس اﷲ تعالیٰ سرہ کے نام سے مشہور ہیں اور ہمارے شیخ ابو عبد اللہ محمد بن نعمان کے شیخ ہیں۔ یہ عمل مبارک جمال الدین عجمی ہمذانی نے بھی کیا اور مصر میں سے یوسف حجار نے اسے بہ قدرِ وسعت منعقد کیا اور پھر انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (خواب میں) دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوسف حجار کو عملِ مذکور کی ترغیب دے رہے تھے۔‘‘
صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 363
2۔ شیخ معین الدین عمر بن محمد المَلّا (م 570ھ)
شیخ معین الدین ابو حفص عمر بن محمد بن خضر اِربلی موصلی المَ. . لّا کے لقب سے معروف تھے۔ آپ موصل کی نہایت صالح، زاہد و عالم شخصیت تھے۔
وکان أول من فعل ذلک بالموصل الشيخ عمر بن محمد المَ. لّا أحد الصالحين المشهورين، وبه اقتدي في ذلک صاحب إربل وغيره رحمهم اﷲ تعالي.
’’اور شہر موصل میں سب سے پہلے میلاد شریف کا اِجتماع منعقد کرنے والے شیخ عمر بن محمد مَلّا تھے جن کا شمار مشہور صالحین میں ہوتا تھا۔ اور شاہِ اِربل و دیگر لوگوں نے اُنہی کی اِقتداء کی ہے۔ اﷲ اُن پر رحم فرمائے۔‘‘
1. أبوشامة، الباعث علي إنکار البدع والحوادث : 24
2. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 365
3۔ علامہ اِبن جوزی (510۔ 579ھ)
علامہ جمال الدین ابو الفرج عبد الرحمٰن بن علی بن جوزی (1116۔ 1201ء) کثیر کتب کے مصنف تھے۔ اُنہوں نے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دو کتب تالیف کیں:
1. بيان الميلاد النبوي صلي الله عليه وآله وسلم
2. مولد العروس
علامہ ابن جوزی بیان المیلاد النبوي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فرماتے ہیں :
لا زال أهل الحرمين الشريفين والمصر واليمن والشام وسائر بلاد العرب من المشرق والمغرب يحتفلون بمجلس مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، ويفرحون بقدوم هلال شهر ربيع الأول ويهتمون اهتمامًا بليغًا علي السماع والقراة لمولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، وينالون بذالک أجرًا جزيلاً وفوزًا عظيمًا.
’’مکہ مکرمہ، مدینہ طیبہ، مصر، شام، یمن الغرض شرق تا غرب تمام بلادِ عرب کے باشندے ہمیشہ سے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محفلیں منعقد کرتے آئے ہیں۔ وہ ربیع الاول کا چاند دیکھتے تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہتی۔ چنانچہ ذکرِ میلاد پڑھنے اور سننے کا خصوصی اہتمام کرتے اور اس کے باعث بے پناہ اَجر و کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔‘‘
ابن جوزي، بيان الميلاد النبوي صلي الله عليه وآله وسلم : 58
علامہ ابن جوزی مولد العروس میں فرماتے ہیں :
وجعل لمن فرح بمولده حجابًا من النار وسترًا، ومن أنفق في مولده درهمًا کان المصطفيٰ صلي الله عليه وآله وسلم له شافعًا ومشفعًا، وأخلف اﷲ عليه بکل درهم عشرًا.
فيا بشري لکم أمة محمد لقد نلتم خيرًا کثيرًا في الدنيا وفي الأخري. فيا سعد من يعمل لأحمد مولدًا فيلقي الهناء والعز والخير والفخر، ويدخل جنات عدن بتيجان درّ تحتها خلع خضرًا.
’’اور ہر وہ شخص جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے باعث خوش ہوا، اﷲ تعالیٰ نے (یہ خوشی) اس کے لیے آگ سے محفوظ رہنے کے لیے حجاب اور ڈھال بنادی۔ اور جس نے مولدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ایک درہم خرچ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے لیے شافع و مشفع ہوں گے۔ اور اﷲ تعالیٰ ہر درہم کے بدلہ میں اُسے دس درہم عطا فرمائے گا۔
’’اے اُمتِ محمدیہ! تجھے بشارت کہ تونے دنیا و آخرت میں خیر کثیر حاصل کی۔ پس جو کوئی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے لیے کوئی عمل کرتا ہے تو وہ خوش بخت ہے اور وہ خوشی، عزت، بھلائی اور فخر کو پالے گا۔ اور وہ جنت کے باغوں میں موتیوں سے مرصع تاج اور سبز لباس پہنے داخل ہوگا۔‘‘
ابن جوزي، مولد العروس : 11
علامہ ابن جوزی شاہِ اِربل مظفر ابو سعید کو کبری کی طرف سے بہت بڑے پیمانے پر میلاد شریف منائے جانے اور اس پر خطیر رقم خرچ کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں :
لولم يکن في ذلک إلا إرغام الشيطان وإدعام أهل الإيمان.
’’اِس نیک عمل میں سوائے شیطان کو ذلیل و رُسوا کرنے اور اہل ایمان کو تقویت پہنچانے کے کچھ نہیں۔‘‘
صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 363
مراد یہ کہ محافلِ میلاد کا اِنعقاد شیطان کو رُسوا اور ذلیل و خوار کرتا ہے جب کہ اس سے مومنین کو تقویت ملتی ہے۔
4۔ حافظ ابو الخطاب بن دحیہ کلبی (544۔ 633ھ)
قاضی القضاۃ ابو العباس شمس الدین احمد بن محمد بن ابی بکر بن خلکان اپنی کتاب ’’وفیات الاعیان وانباء ابناء الزمان (3 : 448۔ 450)‘‘ میں حافظ ابو الخطاب بن دحیہ کلبی (544۔ 633ھ) کے سوانحی خاکہ میں لکھتے ہیں :
کان من أعيان العلماء، ومشاهير الفضلاء، قدم من المغرب، فدخل الشام والعراق، واجتاز بإربل سنة أربع وستمائة، فوجد ملکها المعظم مظفر الدين بن زين الدين يعتني بالمولد النبوي، فعمل له کتاب ’’التنوير في مولد البشير النذير‘‘ وقرأه عليه بنفسه، فأجازه بألف دينار. قال : وقد سمعناه علي السلطان في ستة مجالس، في سنة خمس وعشرين وستمائة.
’’ان کا شمار بلند پایہ علماء اور مشہور محققین میں ہوتا تھا۔ وہ مراکش سے شام اور عراق کی سیاحت کے لیے روانہ ہوئے۔ 604ھ میں ان کا گزر اِربل کے علاقے سے ہوا جہاں ان کی ملاقات عظیم المرتبت سلطان مظفر الدین بن زین الدین سے ہوئی جو یوم میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتظامات میں مصروف تھا۔ اس موقع پر انہوں نے ’’التنویر فی مولد البشیر النذیر‘‘ کتاب لکھی۔ انہوں نے یہ کتاب خود سلطان کو پڑھ کر سنائی۔ پس بادشاہ نے ان کی خدمت میں ایک ہزار دینار بطور انعام پیش کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے 625ھ میں سلطان کے ساتھ اسے چھ نشستوں میں سنا تھا۔‘‘
1. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 44، 45
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 200
3. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 236، 237
5۔ حافظ شمس الدین الجزری (م 660ھ)
شیخ القراء حافظ شمس الدین محمد بن عبد اﷲ الجزری الشافعی (م 1262ء) اپنی تصنیف ’’عرف التعریف بالمولد الشریف‘‘ میں لکھتے ہیں :
وقد رؤي أبولهب بعد موته في النوم، فقيل له : ما حالک؟ فقال : في النار، إلا أنه يخفّف عني کل ليلة اثنين، وأمص من بين أصبعي هاتين ماء بقدر هذا. وأشار برأس إصبعه. وإن ذلک بإعتاقي لثويبة عند ما بشرتني بولادة النبي صلي الله عليه وآله وسلم و بإرضاعها له.
فإذا کان أبولهب الکافر الذي نزل القرآن بذمه جوزيَ في النار بفرحه ليلة مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم به، فما حال المسلم الموحد من أمة النبي صلي الله عليه وآله وسلم يسر بمولده، وبذل ما تصل إليه قدرته في محبته صلي الله عليه وآله وسلم ؟ لعمري إنما يکون جزاؤه من اﷲ الکريم أن يدخله بفضله جنات النعيم.
’’ابولہب کو مرنے کے بعد خواب ميں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا گیا : اب تیرا کیا حال ہے؟ کہنے لگا : آگ میں جل رہا ہوں، تاہم ہر پیر کے دن میرے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔ اُنگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ (ہر پیر کو) میری ان دو انگلیوں کے درمیان سے پانی (کا چشمہ) نکلتا ہے جسے میں پی لیتا ہوں اور یہ تخفیفِ عذاب میرے لیے اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا جب اس نے مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کی خوش خبری دی اور اس نے آپ کو دودھ بھی پلایا تھا۔
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں اُس ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت میں قرآن حکیم میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے۔ تو اُمت محمدیہ کے اُس مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک اﷲ تعالیٰ ایسے مسلمان کو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے کے طفیل اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائیں گے۔‘‘
1. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206
2. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 65، 66
3. قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 147
4. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 260، 261
5. صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 366، 367
6. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 237، 238
آپ مزید لکھتے ہیں :
من خواصه أنه أمان في ذلک العام، وبشري عاجلة بنيل البغية والمرام.
’’(محافلِ میلاد شریف کے) خواص میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جس سال میلاد منایا جائے اُس سال امن قائم رہتا ہے، نیز (یہ عمل) نیک مقاصد اور دلی خواہشات کی فوری تکمیل میں بشارت ہے۔‘‘
صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 365، 366
6۔ اِمام ابو شامہ (599۔ 665ھ)
شارحِ صحیح مسلم اِمام نووی (631۔ 677ھ / 1233۔ 1278ء) کے شیخ امام ابو شامہ عبد الرحمان بن اسماعیل (1202۔ 1267ء) اپنی کتاب الباعث علی انکار البدع والحوادث میں لکھتے ہیں :
ومن أحسن ما ابتدع في زماننا من هذا القبيل ما کان يفعل بمدينة إربل، جبرها اﷲ تعالي، کل عام في اليوم الموافق ليوم مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم من الصدقات والمعروف وإظهار الزينة والسرور، فإن ذالک مع ما فيه من الإحسان إلي الفقراء مُشعِر بمحبة النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، وتعظيمه وجلالته في قلب فاعله وشکر اﷲ تعالي علي ما مَنّ به من إيجاد رسوله الذي أرسله رحمةً للعالمين صلي الله عليه وآله وسلم وعلي جميع الأنبياء والمرسلين.
’’اور اِسی (بدعتِ حسنہ) کے قبیل پر ہمارے زمانے میں اچھی بدعت کا آغاز شہر ’’اِربل‘‘ خدا تعالیٰ اُسے حفظ و امان عطا کرے۔ میں کیا گیا۔ اس بابرکت شہر میں ہر سال میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر اِظہارِ فرحت و مسرت کے لیے صدقات و خیرات کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ اس سے جہاں ایک طرف غرباء و مساکین کا بھلا ہوتا ہے وہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ محبت کا پہلو بھی نکلتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ اِظہارِ شادمانی کرنے والے کے دل میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے حد تعظیم پائی جاتی ہے اور ان کی جلالت و عظمت کا تصور موجود ہے۔ گویا وہ اپنے رب کا شکر ادا کر رہا ہے کہ اس نے بے پایاں لطف و احسان فرمایا کہ اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (ان کی طرف) بھیجا جو تمام جہانوں کے لیے رحمتِ مجسم ہیں اور جمیع انبیاء و رُسل پر فضیلت رکھتے ہیں۔‘‘
1. ابوشامه، الباعث علي إنکار البدع والحوادث : 23، 24
2. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 365
3. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 84
4. احمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 53
5. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 233
شیخ ابو شامہ شاہِ اِربل مظفر ابو سعید کو کبری کی طرف سے بہت بڑے پیمانے پر میلاد شریف منائے جانے اور اس پر خطیر رقم خرچ کیے جانے کے بارے میں اُس کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
مثل هذا الحسن يُندب إليه ويُشکر فاعله ويُثني عليه.
’’اِس نیک عمل کو مستحب گردانا جائے گا اور اِس کے کرنے والے کا شکریہ ادا کیا جائے اور اِس پر اُس کی تعریف کی جائے۔‘‘
صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 363
7۔ امام صدر الدین موہوب بن عمر الجزری (م 665ھ)
قاضیء مصر صدر الدین موہوب بن عمر بن موہوب الجزری الشافعی فرماتے ہیں :
هذه بدعة لا بأس بها، ولا تُکره البِدع إلا إذا راغمت السُّنة، وأما إذا لم تراغمها فلا تُکره، ويُثاب الإنسان بحسب قصده في إظهار السرور والفرح بمولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم .
وقال في موضع آخر : هذا بدعة، ولکنها بدعة لا بأس بها، ولکن لا يجوز له أن يسأل الناس بل إن کان يَعلمْ أو يغلب علي ظنه أن نفس المسؤول تَطِيب بما يعطيه فالسؤال لذلک مباح أرجو أن لا ينتهي إلي الکراهة.
’’یہ بدعت ہے لیکن اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور بدعتِ مکروہ وہ ہے جس میں سنت کی بے حرمتی ہو۔ اگر یہ پہلو نہ پایا جائے تو (بدعت) مکروہ نہیں اور انسان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی حسبِ توفیق اور حسبِ اِرادہ مسرت و خوشی کے اظہار کے مطابق اجر و ثواب پاتا ہے۔
’’اور ایک دوسرے مقام پر کہتے ہیں : یہ بدعت ہے لیکن اس بدعت میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن اِس کے لیے لوگوں سے سوال کرنا جائز نہیں، اور اگر وہ یہ جانتا ہے یا اُسے غالب گمان ہے کہ اس کا سوال مسؤل کی طبیعت پر گراں نہیں گزرے گا اور وہ خوشی سے سوال کو پورا کرے گا تو ایسی صورت میں یہ سوال مباح ہوگا، اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ عمل مبنی بر کراہت نہیں ہوگا۔‘‘
صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 365، 366
8۔ اِمام ظہیر الدین جعفر التزمنتی (م 682ھ)
اِمام ظہیر الدین جعفر بن یحیٰ بن جعفر التزمنتی الشافعی (م 1283ء) کہتے ہیں :
هذا الفعل لم يقع في الصدر الأول من السلف الصالح مع تعظيمهم وحبهم له إعظاماً ومحبة لا يبلغ جَمعُنا الواحدَ منهم ولا ذرّة منه، وهي بدعة حسنة إذا قصد فاعلها جمع الصالحين والصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم وإطعام الطعام للفقراء والمساکين وهذا القدر يثاب عليه بهذا الشرط في کل وقت.
’’محافلِ میلاد کے انعقاد کا سلسلہ پہلی صدی ہجری میں شروع نہیں ہوا اگرچہ ہمارے اَسلاف صالحین عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس قدر سرشار تھے کہ ہم سب کا عشق و محبت ان بزرگانِ دین میں سے کسی ایک شخص کے عشقِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں پہنچ سکتا۔ میلاد کا انعقاد بدعتِ حسنہ ہے، اگر اس کا اہتمام کرنے والا صالحین کو جمع کرنے، محفلِ درود و سلام اور فقراء و مساکین کے طعام کا بندوبست کرنے کا قصد کرتا ہے۔ اس شرط کے ساتھ جب بھی یہ عمل کیا جائے گا موجبِ ثواب ہوگا۔‘‘
صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 364
9۔ علامہ ابن تیمیہ (661. 728ھ)
علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام بن تیمیہ (1263۔ 1328ء) اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم میں لکھتے ہیں :
وکذلک ما يحدثه بعض الناس، إما مضاهاة للنصاري في ميلاد عيسي عليه السلام، وإما محبة للنبي صلي الله عليه وآله وسلم وتعظيمًا. واﷲ قد يثيبهم علي هذه المحبة والاجتهاد، لا علي البدع، من اتخاذ مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم عيدًا.
’’اور اِسی طرح اُن اُمور پر (ثواب دیا جاتا ہے) جو بعض لوگ ایجاد کرلیتے ہیں، میلادِ عیسیٰ علیہ السلام میں نصاریٰ سے مشابہت کے لیے یا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور تعظیم کے لیے۔ اور اﷲ تعالیٰ اُنہیں اِس محبت اور اِجتہاد پر ثواب عطا فرماتا ہے نہ کہ بدعت پر، اُن لوگوں کو جنہوں نے یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہ طور عید اپنایا۔‘‘
ابن تيميه، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 404
اِسی کتاب میں دوسری جگہ لکھتے ہیں :
فتعظيم المولد واتخاذه موسماً، قد يفعله بعض الناس، ويکون له فيه أجر عظيم؛ لحسن قصده، وتعظيمه لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، کما قدمته لک أنه يحسن من بعض الناس ما يستقبح من المؤمن المسدد.
’’میلاد شریف کی تعظیم اور اسے شعار بنا لینا بعض لوگوں کا عمل ہے اور اِس میں اُس کے لیے اَجر عظیم بھی ہے کیوں کہ اُس کی نیت نیک ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم بھی ہے، جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک ایک اَمر اچھا ہوتا ہے اور بعض مومن اسے قبیح کہتے ہیں۔‘‘
ابن تيميه، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 406
10۔ اِمام ابو عبد اﷲ بن الحاج المالکی (م 737ھ)
امام ابو عبد اللہ ابن الحاج محمد بن محمد بن محمد المالکی (م 1336ء) اپنی کتاب ’’المدخل الی تنمیۃ الاعمال بتحسین النیات والتنبیہ علی کثیر من البدع المحدثۃ والعوائد المنتحلۃ‘‘ میں میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت کے ذیل میں تحریر کرتے ہیں :
أشار عليه الصلاة والسلام إلي فضيلة هذا الشهر العظيم بقوله للسائل الذي سأله عن صوم يوم الاثنين، فقال له عليه الصلاة والسلام : ذلک يوم ولدت فيه.
فتشريف هذا اليوم متضمن لتشريف هذا الشهر الذي ولد فيه، فينبغي أن نحترمه حق الاحترام ونفضله بما فضل اﷲ به الأشهر الفاضلة، وهذا منها لقوله عليه الصلاة والسلام : أنا سيد ولد آدم ولا فخر. ولقوله عليه الصلاة والسلام : آدم ومن دونه تحت لوائي.
وفضيلة الأزمنة والأمکنة بما خصَّها اﷲ تعالي من العبادات التي تفعل فيها، لما قد علم أن الأمکنة والأزمنة لا تتشرف لذاتها، وإنما يحصل لها التشريف بما خصّت به من المعاني. فانظر رحمنا اﷲ وإيّاک إلي ما خصَّ اﷲ تعالي به هذا الشهر الشريف ويوم الاثنين. ألا تري أن صوم هذا اليوم فيه فضل عظيم لأنه صلي الله عليه وآله وسلم ولد فيه؟
فعلي هذا فينبغي إذا دخل هذا الشهر الکريم أن يکرَّم ويعظَّم ويحترم الاحترام اللائق به وذلک بالاتّباع له صلي الله عليه وآله وسلم في کونه کان يخصّ الأوقات الفاضلة بزيادة فعل البر فيها وکثرة الخيرات. ألا تري إلي قول البخاري : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أجود الناس بالخير، وکان أجود ما يکون في رمضان. فنمتثل تعظيم الأوقات الفاضلة بما امتثله علي قدر استطاعتنا.
فإن قال قائل : قد التزم عليه الصلاة والسلام في الأوقات الفاضلة ما التزمه مما قد علم، ولم يلتزم في هذا الشهر ما التزمه في غيره. فالجواب : أن المعني الذي لأجله لم يلتزم عليه الصلاة والسلام إنما هو ما قد عُلم من عادته الکريمة في کونه عليه الصلاة والسلام يريد التخفيف عن أمته، والرحمة لهم سيّما فيما کان يخصّه عليه الصلاة والسلام.
ألا تري إلي قوله عليه الصلاة والسلام في حق حرم المدينة : اللّهم! إن إبراهيم حرّم مکة، وإني أحرّم المدينة بما حرّم به إبراهيم مکة ومثله معه؟ ثم إنه عليه الصلاة والسلام لم يشرّع في قتل صيده ولا في قطع شجره الجزاء، تخفيفاً علي أمته ورحمة لهم، فکان عليه الصلاة والسلام ينظر إلي ما هو من جهته. . . وإن کان فاضلاً في نفسه يترکه للتخفيف عنهم.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اپنی ولادت کے) عظیم مہینے کی عظمت کا اِظہار ایک سائل کے جواب میں فرمایا جس نے پیر کے دن کا روزہ رکھنے کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے فرمایا : ’’یہ وہ دن ہے جس میں میری ولادت ہوئی۔‘‘
’’پس اس دن کی عظمت سے اُس ماہِ (ربیع الاول) کی عظمت معلوم ہوتی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اس مہینے کا کما حقہ احترام کریں اور اِس ماہِ مقدس کو اس چیز کے ساتھ فضیلت دیں جس چیز کے ساتھ اﷲ تعالیٰ نے فضیلت والے مہینوں کو فضیلت بخشی ہے۔ اِسی حوالے سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’میں اولادِ آدم کا سردار ہوں اور اس میں کوئی فخر نہیں۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک اور فرمان ہے : ’’روزِ محشر آدم علیہ السلام سمیت سب میرے پرچم تلے ہوں گے۔‘‘
’’زمانوں اور مکانوں کی عظمتیں اور فضیلتیں ان عبادتوں کی وجہ سے ہیں جو ان (مہینوں) میں سرانجام دی جاتی ہیں۔ جیسا کہ یہ بات ہمیں معلوم ہے کہ زمان و مکاں کی خود اپنی کوئی عظمت و رفعت نہیں بلکہ ان کی عظمت کا سبب وہ خصوصیات و امتیازات ہیں جن سے انہیں سرفراز فرمایا گیا۔ پس اس پر غور کریں، اﷲ تعالیٰ ہمیں اور تمہیں اپنی رحمت سے سرفراز فرمائے اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس مہینے اور پیر کے دن کو عظمت عطا کی۔ کیا تو نہیں دیکھتا کہ اس دن روزہ رکھنا فضلِ عظیم ہے کیوں کہ رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت اس روز ہوئی۔
’’لہٰذا لازم ہے کہ جب یہ مبارک مہینہ تشریف لائے تو اس کی بڑھ چڑھ کر تکریم و تعظیم اور ایسی توقیر و اِحترام کیا جائے جس کا یہ حق دار ہے۔ اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُس اُسوۂ مبارکہ کی تقلید ہوگی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خصوصی (عظمت کے حامل) دنوں میں کثرت سے نیکی اور خیرات کے کام کرتے تھے۔ کیا تو (حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما سے) اِمام بخاری (194۔ 256ھ) کا روایت کردہ یہ قول نہیں دیکھتا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھلائی میں سب لوگوں سے زیادہ فیاض تھے اور ماہِ رمضان میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت فیاضی اور دریا دلی کا مظاہرہ فرماتے تھے۔ اس بناء پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فضیلت والے اوقات کی عزت افزائی فرماتے تھے ہمیں بھی فضیلت کے حامل اوقات (جیسے ماہِ ربیع الاول) کی بہ قدرِ اِستطاعت تعظیم کرنی چاہیے۔
’’اگر کوئی کہے : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فضیلت والے اوقات کی عزت افزائی فرمائی جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی جیسا کہ اوپر جانا جا چکا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اس ماہ کی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی اس طرح عزت افزائی نہیں کی جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسرے مہینوں کی کرتے تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُمت کے لیے تخفیف اور آسانی و راحت کا بہت خیال رہتا تھا بالخصوص ان چیزوں کے بارے میں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی ذات مقدسہ سے متعلق تھیں۔
’’کیا تو نے حرمتِ مدینہ کی بابت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول نہیں دیکھا : ’’اے اﷲ! بے شک ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا تھا اور میں مدینہ منورہ کو اُنہی چیزوں کی مثل حرم قرار دیتا ہوں جن سے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا۔‘‘ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اُمت کے لیے تخفیف اور رحمت کے سبب مدینہ منورہ کی حدود میں شکار کرنے اور درخت کاٹنے کی کوئی سزا مقرر نہیں فرمائی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ذاتِ مقدسہ سے متعلقہ کسی اَمر کو اس کی ذاتی فضیلت کے باوجود امت کی آسانی کے لیے ترک فرما دیتے۔‘‘
1. ابن الحاج، المدخل إلي تنمية الأعمال بتحسين النيات والتنبيه علي کثير من البدع المحدثة والعوائد المنتحلة، 2 : 2 - 4
2. سيوطي، حسن المقصدفي عمل المولد : 57 - 59
3. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 203، 204
4. صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 371، 372
ابن الحاج مالکی ایک جگہ لکھتے ہیں :
فإن قال قائل : ما الحکمة في کونه عليه الصلاة والسلام خصّ مولده الکريم بشهر ربيع الأول وبيوم الاثنين منه علي الصحيح والمشهور عند أکثر العلماء، ولم يکن في شهر رمضان الذي أنزل فيه القرآن، وفيه ليلة القدر، واختص بفضائل عديدة، ولا في الأشهر الحرم التي جعل اﷲ لها الحرمة يوم خلق السموات والأرض ولا في ليلة النصف من شعبان، ولا في يوم الجمعة ولا في ليلتها؟
فالجواب من أربعة أوجه :
الوجه الأول : ما ورد في الحديث من أن اﷲ خلق الشجر يوم الاثنين. وفي ذلک تنبيه عظيم وهو أن خلق الأقوات والأرزاق والفواکه والخيرات التي يتغذي بها بنو آدم ويحيون، ويتداوون وتنشرح صدورهم لرؤيتها وتطيب بها نفوسهم وتسکن بها خواطرهم عند رؤيتها لاطمئنان نفوسهم بتحصيل ما يبقي حياتهم علي ما جرت به العادة من حکمة الحکيم سبحانه وتعالي فوجوده صلي الله عليه وآله وسلم في هذا الشهر في هذا اليوم قرّة عين بسبب ما وجد من الخير العظيم والبرکة الشاملة لأمته صلوات اﷲ عليه وسلامه.
الوجه الثاني : أن ظهوره عليه الصلاة والسلام في شهر ربيع فيه إشارة ظاهرة لمن تفطن إليها بالنسبة إلي اشتقاق لفظة ربيع إذ أن فيه تفاؤلاً حسنًا ببشارته لأمته عليه الصلاة والسلام والتفاؤل له أصل إشار إليه عليه الصلاة والسلام. وقد قال الشيخ الإمام أبو عبد الرحمن الصقلي : لکل إنسان من اسمه نصيب.
الوجه الثالث : أن فصل الربيع أعدل الفصول وأحسنها.
الوجه الرابع : أنه قد شاء الحکيم سبحانه وتعالي أنه عليه الصلاة والسلام تتشرف به الأزمنة والأماکن لا هو يتشرف بها بل يحصل للزمان والمکان الذي يباشره عليه الصلاة والسلام الفضيلة العظمي والمزية علي ما سواه من جنسه الا ما استثني من ذلک لأجل زيادة الأعمال فيها وغير ذلک. فلو ولد صلي الله عليه وآله وسلم في الأوقات المتقدم ذکرها لکان ظاهره يوهم أنه يتشرف بها.
1. ابن الحاج، المدخل إلي تنمية الأعمال بتحسين النيات والتنبيه علي کثير من البدع المحدثة والعوائد المنتحلة، 2 : 26 - 29
2. سيوطي، حسن المقصدفي عمل المولد : 67، 68
3. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 207
4. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 238
’’اگر کوئی کہنے والا کہے : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ربیع الاول میں اور پیر کے دن ولادتِ مبارکہ کی حکمت کے بارے میں سوال کیا جائے کہ ان کی ولادت رمضان المبارک جو نزولِ قرآن کا مہینہ ہے اور جس میں لیلۃ القدر رکھی گئی ہے یا دوسرے مقدس مہینوں یا 15 شعبان المعظم اور جمعہ کے دن میں کیوں نہ ہوئی؟
’’اس سوال کا جواب چار زاویہ ہائے نظر سے دیا جاسکتا ہے :
1۔ ذخیرۂ احادیث میں درج ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیر کے دن د رختوں کو پیدا کیا۔ اس میں ایک لطیف نکتہ مضمر ہے۔ وہ یہ کہ پیر کے دن اللہ تعالیٰ نے غذا، رزق، روزی اور پھلوں اور دیگر خیرات کی چیزوں کو پیدا فرمایا جن سے بنی نوع انسان غذا حاصل کرتا ہے اور زندہ رہتا ہے۔ اور ان کو بہ طور علاج بھی استعمال کرتا ہے اور انہیں دیکھ کر انہیں شرحِ صدر نصیب ہوتا ہے (دلی خوشی ہوتی ہے)۔ اور ان کے ذریعے ان کے نفوس کو خوشی و فرحت نصیب ہوتی ہے اور ان کے دلوں کو سکون میسر آتا ہے کیوں کہ (ان کے ذریعے) نفوس اس چیز کو حاصل کرکے جس پر ان کی زندگی کا دار و مدار ہوتا ہے۔ مطمئن ہوتے ہیں۔ جیسا کہ رب تعالیٰ کی سنت اور طریقہ ہے (کہ اس نے جانوں کو انہی چیزوں کے ساتھ زندہ رکھا ہوا ہے) پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجودِ اَطہر اس مبارک مہینہ میں اس مبارک دن میں آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ہے بسبب اس کے کہ (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے سبب) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو خیر کثیر اور عظیم برکتوں سے نوازا گیا۔
2۔ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ربیع کے مہینہ میں ظہور اس میں واضح اشارہ ہے ہر اس کے لیے جو لفظ ربیع کے اشتقاق، معنی و مفہوم پر غور کرے کیوں کہ لفظ ربیع (موسم بہار) میں اشتقاقی طور پر ایک اچھا اور نیک شگون پایا جاتا ہے۔ اس میں نیک شگون یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت دی گئی۔ اور نیک شگونی کی کوئی نہ کوئی اصل ہوتی جس کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ فرمایا۔ ابو عبد الرحمان صقلی بیان کرتے ہیں کہ ہر شخض کے لیے اس کے نام میں اس کا ایک حصہ رکھ دیا گیا ہے یعنی اس کے نام کے اثرات اس کی شخصیت پر مرتسم ہوتے ہیں۔
3۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ربیع (بہار) تمام موسموں میں انتہائی معتدل اور حسین ہوتا ہے۔ اور اسی طرح رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت تمام شرائع میں انتہائی پر اعتدال اور آسان ترین ہے۔
4۔ بے شک اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے چاہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجودِ مسعود سے زمان و مکان شرف حاصل کریں نہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن سے شرف پائیں۔ بلکہ وہ زمان و مکان جس میں براہِ راست آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد ہو اس کو فضیلتِ عظمیٰ اور دیگر زمان و مکان پر نمایاں ترین مقام و مرتبہ حاصل ہو جائے۔ سوائے اس زمان و مکاں کے جن کا اس لیے استثناء کیا گیا کہ ان میں اعمال کی کثرت کی جائے اور اس کے علاوہ باقی اسباب کی وجہ سے۔ پس اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان اوقات میں تشریف لاتے جن کا ذکر (اوپر اعتراض میں) گزر چکا ہے تو وہ بہ ظاہر اس وہم میں ڈال دیتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے متشرف ہوئے ہیں۔‘‘
11۔ اِمام شمس الدین الذہبی (673۔ 748ھ)
اِمام شمس الدین ابو عبد اﷲ محمد بن احمد بن عثمان الذہبی (1274۔ 1348ء) کا شمار عالمِ اسلام کے عظیم محدثین و مؤرّخین میں ہوتا ہے۔ اُنہوں نے اُصولِ حدیث اور اَسماء الرجال کے فن میں بھرپور خدمات سرانجام دیں اور کئی کتب تالیف کی ہیں، مثلا تجرید الاصول فی احادیث الرسول، میزان الاعتدال فی نقد الرجال، المشتبۃ فی اسماء الرجال، طبقات الحفاظ وغیرہ۔ فنِ تاریخ میں اُن کی ایک ضخیم کتاب تاریخ الاسلام ووفیات المشاہیر والاعلام موجود ہے۔ اَسماء الرجال کے موضوع پر ایک ضخیم کتاب سیر اعلام النبلاء میں رُواۃ کے حالاتِ زندگی پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ یہ کتاب علمی حلقوں میں بلند پایہ مقام رکھتی ہے۔ امام ذہبی نے اس کتاب میں سلطان صلاح الدین ایوبی (532۔ 589ھ / 1138۔ 1193ء) کے بہنوئی اور اِربل کے بادشاہ سلطان مظفر الدین ابو سعید کوکبری (م 630ھ) کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے اور ان کی بہت تعریف و تحسین کی ہے۔ بادشاہ ابو سعید کوکبری بہت زیادہ صدقہ و خیرات کرنے والے اور مہمان نواز تھے۔ اُنہوں نے دائمی بیماروں اور اندھوں کے لیے چار مسکن تعمیر کروائے اور ہر پیر و جمعرات کو ان سے ملاقات و دریافت اَحوال کے لیے جاتے۔ اِسی طرح خواتین، یتیموں اور لاوارث بچوں کے لیے الگ الگ گھر تعمیر کروائے تھے۔ وہ بیماروں کی عیادت کے لیے باقاعدگی سے ہسپتال جاتے تھے۔ اَحناف اور شوافع کے لیے الگ الگ مدارس بنوائے اور صوفیاء کے لیے خانقاہیں تعمیر کروائی تھیں۔ اِمام ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ بادشاہ سنی العقیدہ، نیک دل اور متقی تھا۔ اُنہوں نے یہ واقعہ اپنی دو کتب ’’سیر اعلام النبلاء‘‘ اور ’’تاریخ الاسلام ووفیات المشاہیر والاعلام‘‘ میں بالتفصیل درج کیا ہے۔
No comments:
Post a Comment