Saturday 28 November 2015

اعتراض : ۔ کیا صحابہ کرام علیہم الرضوان نے کبھی عید میلاد النبیﷺ کا انعقادکیا ؟

0 comments
اعتراض : ۔  کیا صحابہ کرام علیہم الرضوان نے کبھی عید میلاد النبیﷺ کا انعقادکیا ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جواب :  ۔ کسی بھی اچھے کام کو یہ کہہ کر غلط قرار دینا کہ یہ کام صحابہ کرام علیہم الرضوان نے نہیں کیا لہذا ہمیں بھی نہیں کرنا چاہئے، سراسر بے وقوفی پر مبنی ہے۔

بے شمار ایسے کام ہیں جو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے نہیں کئے اور مسلمان اسے کررہے ہیں بلکہ یہ سوال اور اعتراض اٹھانے والے وہابی، دیوبندی بھی بڑے زوروشور سے یہ کام کرتے ہیں۔
1: دور رسالت اور دور صحابہ کرام علیہم الرضوان میں عیدین اور حج کے اجتماعات کے علاوہ کوئی تین روزہ اجتماع نہیں ہوتا تھا، نہ وقت مقرر کرکے خصوصی دعا ہوتی تھی اور نہ ہی وقت مقرر کرکے کوئی سہ روزہ لگاتا تھا۔
2: دور رسالت اور دور صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سیرت کانفرنس، محمد رسول اﷲﷺ کانفرنس، ختم نبوت کانفرنس، اہلحدیث کانفرنس وغیرہا کبھی منعقد نہیں ہوئیں۔
3: دور رسالت اور دور صحابہ کرام علیہم الرضوان میں ختم بخاری، جلسہ دستار فضیلت اور نہ ہی اپنے دارالعلوم کا سوسالہ جشن منایا گیا؟
4: کیا کبھی صحابہ کرام علیہم الرضوان نے خلفائے راشدین کے ایام منائے؟ ان کے ایام پر راستوں کو بلاک کرکے کبھی جلوس اور ریلیاں نکالیں؟ کبھی تحفظ حرمین ریلی، کبھی توہین آمیز خاکوں کے خلافت جلوس نکالے؟
5: کیا کبھی صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اپنے آپ کو سلفی، محمدی، اہلحدیث اور غرباء اہلحدیث کہا؟
6: کیا کبھی دور رسالت اور دور صحابہ کرام علیہم الرضوان میں مساجد میں قرآن مجید اور تسبیح وغیرہ رکھی جاتی تھیں؟
7: قرآن مجید پر اعراب، قرآن مجید کا مختلف زبانوں میں ترجمہ، اس پر غلاف چڑھانا اور اعلیٰ طباعت میں کبھی دور رسالت اور دور صحابہ کرام علیہم الرضوان میں تھا؟
8: كيا احادیث کی کتب بخاری، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ، ابو دائود، نسائی، ریاض الصالحین وغیرہا دور صحابہ کرام علیہم الرضوان میں تھیں؟
9: كيا جمعہ میں مروجہ عربی خطبہ اور خطبے سے پہلے تقریر صحابہ کرام علیہم الرضوان نے کیں؟
10: كيا ایمان مفصل، ایمان مجمل اور چھ کلمے پڑھنا اور یاد کرنا صحابہ کرام علیہم الرضوان کے دور میں تھا؟
یہ تمام کام صحابہ کرام علیہم الرضوان نے نہیں کئے مگر آج پوری دنیا کے لوگ یہ کام کررہے ہیں یہ کہہ کر ان کاموں پر بدعت کا فتویٰ کیوں نہیں لگایا جاتا کہ یہ کام صحابہ کرام علیہم الرضوان نے نہیں کئے لہذا ان کاموں کو بند کردیا جائے۔
معلوم ہوا کہ اصل نشانہ اﷲ تعالیٰ کے محبوبﷺ کا یوم ولادت ہے ورنہ اتنا شور نہ مچایا جاتا۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ہر سال میلاد النبیﷺ نہ منانے کی وجہ :

صحابہ کرام علیہم الرضوان کے نزدیک کائنات کی تمام خوشیوں سے بڑھ کر خوشی جشن آمد رسولﷺ کی تھی مگر وصال محبوبﷺ کے بعد اگر انہوں نے آپﷺ کا یوم ولادت اہتمام کے ساتھ نہیں منایا تو اس کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ یہ وہی ربیع الاول کا مہینہ ہے جس میں سرور کائناتﷺ کا وصال بھی ہوا۔ جس طرح صحابہ کرام کے نزدیک سب سے بڑی خوشی جشن آمد رسولﷺ کی تھی۔ اس سے کہیں زیادہ غم وصال محبوبﷺ کا تھا، وہ رات دن چہرۂ مصطفیﷺ کا دیدار کیا کرتے تھے، وہ ہمہ وقت صحبت مصطفیﷺ میں بیٹھا کرتے تھے۔ وہ دیدارِ مصطفیﷺ کو کائنات کی سب سے بڑی دولت سمجھتے تھے۔ جب ماہ ربیع الاول میں آقاﷺ پردہ فرماگئے تو صحابہ کرام علیہم الرضوان پر قیامت ٹوٹی، ہر صحابی غم سے نڈھال اپنے آقا و مولیٰﷺ کی یاد میں آنسو بہاتا رہتا۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان ساری زندگی اپنے آقاﷺ کی جدائی کے غم میں غمگین رہے اور اس طرح ولادت کی خوشی پر غم غالب آگیا، سو وہ وصال کے غم میں جشن ولادت کی خوشی کا اظہار نہ کرسکتے تھے۔
مگر جیسے جیسے وقت گزرا، صدمے اور غم کا اثر زائل ہوتا گیا۔ جب تبع تابعین کا دور گزر گیا تو بعد میں آنے والوں نے چونکہ ولادت اور صحبت مصطفیﷺ کے احوال کو دیکھا تھا، نہ وصال کے غم و ہجر کا مشاہدہ کیا تھا۔ امتداد زمانہ سے رفتہ رفتہ خوشی کا پہلو غم پر غالب آتا چلا گیا اور وقت کے ہاتھ نے جدائی کے زخم پر مرہم رکھ دیا۔ افراد اُمّت اس نعمت عظمیٰ کی خوشی کے مقابلے میں غم بھول گئے اور انہیں یقین آگیا کہ آپﷺ کی حیات و وصال دونوں اُمّت کے لئے سراپا خیر ہے، لہذا اس کے بعد جشن آمد رسولﷺ کی خوشیاں ہر طرف منائی جانے لگیں۔

نويں صدي كے مجدد امام جلال الدين سيوطي عليه الرحمه اپني كتاب ’’حسن المقصد في عمل المولد‘‘ كے
صفحه نمبر54پر فرماتےهيںكه سيد عالمﷺ كي ولادت كي خوشي ميں ربيع الاول شريف ميں خوشي كا
اظهار كيا جائے‘ غم نه منايا جائے كيونكه شريعت نے وصال پر نوحه اور جزع سے منع كيا هے
6 اصل عبارت: جوابہ ان یّقال: ولادتہ اعظم النعم علینا (و) وفاتہ اعظم المصائب بنا والّشریعۃ حثت علٰی اظہار شکر النعم والصّبر والسّکون والکتم عندالمصائب وقد امر الشارع بالعقيقة عند الولادةٍ وہی اظہارٌ (و) شکر وفرح بالمولود ولم یامر عندالموت بذبح ولا بغیرہٖ، بل نہی عن النیاحۃ واظہار الضجر، فذلّت قواعد الشّریعۃ علٰی انّہ یحسن فی ہٰذاالشہر اظہار الفرح بولادتہٖﷺ غیر اظہار الحزن فیہٖ بوفاتہٖ اصل عبارت: جوابہ ان یّقال: ولادتہ اعظم النعم علینا (و) وفاتہ اعظم المصائب بنا والّشریعۃ حثت علٰی اظہار شکر النعم والصّبر والسّکون والکتم عندالمصائب وقد امر الشارع بالعقيقة عند الولادةٍ وہی اظہارٌ (و) شکر وفرح بالمولود ولم یامر عندالموت بذبح ولا بغیرہٖ، بل نہی عن النیاحۃ واظہار الضجر، فذلّت قواعد الشّریعۃ علٰی انّہ یحسن فی ہٰذاالشہر اظہار الفرح بولادتہٖﷺ غیر اظہار الحزن فیہٖ بوفاتہٖ ترجمه: بے شک آپﷺ کی ولادت باسعادت ہمارے لئے نعمت عظمیٰ ہے اور آپ ﷺ كا وصال ہمارے لئے بڑی مصیبت ہے۔ تاہم شریعت نے نعمت پر اظہار شکر کا حکم دیا ہے۔ اسی لئے شریعت نے ولادت کے موقع پر عقیقہ کا حكم دیا ہے اور بچے کے پیدا ہونے پر اﷲ کے شکر اور ولادت پر خوشی کے اظہار کی ایک صورت ہے لیکن موت کے وقت جانور ذبح کرنے جیسی کسی چیز کا حکم نہیں دیا بلکہ نوحہ اور جزع وغیرہ سے بھی منع کردیا ہے۔ لہذا شریعت کے قواعد کا تقاضا ہے کہ ماہ ربیع الاول میں آپ ﷺکی ولادت باسعادت پر خوشی کا اظہار کیا جائے نہ کہ وصال کی وجہ سے غم کا۔ (ص 54، ص 55) (امام سیوطی کی اس بات سے واضح ہوگیا کہ اب فقط ولادت کی خوشیاں منائی جائیں گی اور ان شاء اﷲ قیامت تک جشن عید میلاد النبی کی بہاریں جاری رہیں گی۔) اترجمه: بے شک آپﷺ کی ولادت باسعادت ہمارے لئے نعمت عظمیٰ ہے اور آپ ﷺ كا وصال ہمارے لئے بڑی مصیبت ہے۔ تاہم شریعت نے نعمت پر اظہار شکر کا حکم دیا ہے۔ اسی لئے شریعت نے ولادت کے موقع پر عقیقہ کا حكم دیا ہے اور بچے کے پیدا ہونے پر اﷲ کے شکر اور ولادت پر خوشی کے اظہار کی ایک صورت ہے لیکن موت کے وقت جانور ذبح کرنے جیسی کسی چیز کا حکم نہیں دیا بلکہ نوحہ اور جزع وغیرہ سے بھی منع کردیا ہے۔ لہذا شریعت کے قواعد کا تقاضا ہے کہ ماہ ربیع الاول میں آپ ﷺکی ولادت باسعادت پر خوشی کا اظہار کیا جائے نہ کہ وصال کی وجہ سے غم کا۔ (ص 54، ص 55)
(امام سیوطی کی اس بات سے واضح ہوگیا کہ اب فقط ولادت کی خوشیاں منائی جائیں گی اور ان شاء اﷲ قیامت تک جشن عید میلاد النبی کی بہاریں جاری رہیں گی۔)

دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ: عیدین کی نماز کے بعد دعا اکابرِ دیوبند سے ثابت ہے ، اس لئے جائز ہے جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 178 مطبوعہ مکتبہ حقانیہ ملتان

عیدین کی نماز کے بعد دعا زمانہ رسالت و صحابہ سے ثابت نہیں مگر اکابر سے ثابت ہونے کی وجہ سے جائز ہے تو پھر ہمارا سوال: جشن عید میلاد النبیﷺ منانا جوکہ محدثین سے ثابت ہے، اس پر بدعت کا فتویٰ کیوں ؟

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔