Friday, 27 November 2015

میلادالنبی ﷺ منانا عملِ توحید ہے

میلادالنبی ﷺ منانا عملِ توحید ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہاں یہ نکتہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ میلاد منانا فی الواقع عملِ توحید ہے۔ یہ عمل ذاتِ باری تعالیٰ کو واحد ویکتا ماننے کی سب سے بڑی دلیل ہے کیوں کہ میلاد منانے سے یہ اَمر خود بخود ثابت ہو جاتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد منانے والے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کا بندہ اور اللہ کی مخلوق مانتے ہیں۔ اور جس کی ولادت منائی جائے وہ خدا نہیں ہو سکتا، کیوں کہ خدا کی ذات لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہے)(1) کی شان کی حامل ہے۔ جب کہ نبی وہ ذات ہے جس کی ولادت ہوئی ہو جیسا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے حوالے سے سورئہ مریم میں اﷲ تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا :

وَسَلاَمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ. (2)

’’اور یحییٰ پر سلام ہو، اُن کے میلاد کے دن۔‘‘

(1) الاخلاص، 112 : 3
(2) مريم، 19 : 15

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا :

وَالسَّلاَمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ.

مريم، 19 : 33

’’اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن۔‘‘

تو میلاد منانا گویا نبی کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق قرار دینا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اَفضل و اَعلیٰ مخلوق اِس کائنات میں کوئی نہیں۔ جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد مناتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ کی خالقیت اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخلوقیت کا اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے۔ اِس سے بڑی توحید اور کیا ہے؟ مگر اہلِ بدعت اِس خالص عملِ توحید کو بھی بزعمِ خویش شرک کہتے ہیں جو کہ صریحاً غلط ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خرچ کرنا اِسراف نہیں

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی میں خرچ کرنا اِسراف نہیں کیوں کہ یہ ایک اَمرِ خیر ہے اور ائمہ و فقہا کے نزدیک اُمورِ خیرمیں اِسراف نہیں۔ ذیل میں ہم چند ائمہ کے اَقوال درج کر رہے ہیں جن کے مطابق اُمورِ خیر پر خرچ کرنا اِسراف کے زمرے میں نہیں آتا :

1۔ حسن بن سہل رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے سے روایت ہے کہ حسن بن سہل نے کسی پانی پلانے والے کو اپنے گھرمیں دیکھا تو اُس کا حال پوچھا۔ سقہ نے اپنے زبوں حالی کا ذکر کرتے ہوئے اپنی بیٹی کی شادی کا اِرادہ ظاہر کیا۔ حسن بن سہل نے اُس کی حالتِ زار پر رحم کرتے ہوئے اُسے ایک ہزار درہم دینے کا عندیہ دیا لیکن غلطی سے اُسے دس لاکھ درہم دے دیے۔ حسن بن سہل کے اہلِ خانہ نے اِس عمل کو پسند نہ کیا اور حسن بن سہل کے پاس جانے سے خوف زدہ ہوئے۔ پھر وہ رقم کی واپسی کے لیے غسان بن عباد کے پاس گئے جو خود بھی سخی ہونے کی شہرت رکھتا تھا۔ اُس نے کہا :

أيها الأمير! إن اﷲ لا يحب المسرفين.

’’اے امیر! بے شک اللہ تعالیٰ اِسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

اِس پر حسن نے کہا :

ليس في الخير إسراف.

’’خیرمیں کوئی اِسراف نہیں۔‘‘

پھر حسن نے سقہ کے حال کا ذکر کیا اور کہا :

واﷲ! لا رجعت عن شيء خطّته يدي.

’’اللہ رب العزت کی قسم! میں اپنے ہاتھوں سے ادا کردہ جملہ دراہم میں سے کچھ بھی واپس نہیں لوں گا۔‘‘

پس سقہ کو اُن تمام دراہم کا حق دار ٹھہرا دیا گیا۔

1. ابن جوزي، المنتظم في تاريخ الملوک والأمم، 11 : 240، 241، رقم : 1392
2. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 7 : 322
3. ابن جرادة، بغية الطلب في تاريخ حلب، 5 : 2386

2۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنھما فرماتے ہیں :

ليس في الحلال اسراف، وإنما السرف في إرتکاب المعاصي.

1. شربيني، مغني المحتاج إلي معرفة معاني ألفاظ المنهاج، 1 : 393
2. دمياطي، إعانة الطالبين، 2 : 157

’’حلال میں کوئی اِسراف نہیں، اِسراف صرف نافرمانی کے اِرتکاب میں ہے۔‘‘

3۔ سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

الحلال لا يحتمل السرف.

’’حلال کام میں اِسراف کا اِحتمال نہیں ہوتا۔‘‘

1. ابو نعيم، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، 6 : 382
2. شربيني، مغني المحتاج إلي معرفة معاني ألفاظ المنهاج، 1 : 393
3. دمياطي، إعانة الطالبين، 2 : 157

مذکورہ اَقوال سے واضح ہوتا ہے کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں جتنا بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے اور خرچ کیا جائے اُس کا شمار اِسراف میں نہیں ہوتا۔ لہٰذا جو لوگ جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خرچ کرنے کو فضول خرچی گردانتے ہیں اُنہیں اپنی اِصلاح کرلینی چاہیے اور اِس اَمر خیر کو ہرگز نشانۂ طعن نہیں بنانا چاہیے۔
-----------------------------------------------------------------------------------
شوکت و عظمتِ اِسلام کے لیے اِنتظامات

حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : میں خانہ کعبہ میں شیبہ کے ساتھ کرسی پر بیٹھا تھا تو اس نے کہا کہ اسی جگہ پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیٹھتے تھے، میرا ارادہ ہے کہ اِس (کعبہ) میں سے تمام زرد و سفید (سونا اور چاندی) تقسیم کر دوں۔ میں نے کہا : لیکن آپ کے صاحبوں (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ) میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا۔ تو انہوں نے فرمایا : اُن دونوں کی اِقتداء مجھ پر لازم ہے (یعنی میں یہ مال تقسیم نہیں کروں گا)۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب کسوة الکعبة، 2 : 578، رقم : 1517
2. بخاري، الصحيح، کتاب الإعتصام بالکتاب والسنة، باب الإقتداء بسنن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 6 : 2655، رقم : 6847
3. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 410
4. طبراني، المعجم الکبير، 7 : 300، رقم : 7196
5. بيهقي، السنن الکبري، 5 : 159، رقم : 9511

حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) نے کعبہ شریف کا خزانہ تقسیم نہ کرنے کی ایک وجہ یہ لکھی ہے :

وفي ذلک تعظيم الإسلام وترهيب العدو.

’’اور اِس میں تعظیمِ اسلام اور دشمنوں کو ڈرانا معلوم ہوتا ہے۔‘‘

عسقلاني، فتح الباري، 3 : 457

آپ مزید لکھتے ہیں :

واستدل التقي السبکي بحديث الباب علي جواز تعليق قناديل الذهب والفضة في الکعبة ومسجد المدينة.

اور تقی الدین سبکی نے باب کی (درج بالا) حدیث سے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سونے اور چاندی کی قنادیل لٹکانے کے جواز کا اِستدلال کیا ہے۔‘‘

عسقلاني، فتح الباري، 3 : 457

کعبہ کے غلاف کے بارے میں آپ لکھتے ہیں :

أن تجويز ستر الکعبة بالديباج قام الإجماع عليه.

’’بے شک کعبہ کو دیباج (قیمتی ریشم کے کپڑے) کے ساتھ ڈھانپنے کی تجویز پر اِجماع ہوگیا ہے۔‘‘

عسقلاني، فتح الباري، 3 : 457

قاضی زین الدین عبد الباسط کو بحکم شاہی اِس کا غلاف تیارکرنے کا حکم دیا گیا تو انہوں نے اسے نہایت عمدگی سے تیار کیا۔ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) اِس بارے میں لکھتے ہیں :

بسط اﷲ له في رزقه وعمره، فبالغ في تحسينها بحيث يعجز الواصف عن صفة حسنها، جزاه اﷲ علي ذلک أفضل المجازاة.

’’اللہ تعالیٰ اُس کی عمر اور رِزق میں اِضافہ کرے، اُس نے کعبہ کو اتنا حسین کیا کہ کوئی بھی اس کا حسن بیان کرنے سے عاجز ہے۔ اللہ تعالیٰ اُسے اِس پر بہترین جزا دے۔‘‘

عسقلاني، فتح الباري، 3 : 460

اِس ساری بحث سے معلوم ہوا کہ اگر اسلام کی عظمت و شوکت اور دشمنوں پر رعب و دبدبہ جمانے کے لیے کعبہ کو سونے اور چاندی کی قندیلوں اور شمعوں سے سجایا جا سکتا ہے اور بہترین ریشم کے غلاف سے کعبہ کی زینت کا سامان کیا جا سکتا ہے تو پھر تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر محبت کا ثبوت دیتے ہوئے اور پرجوش عقیدت کا والہانہ اظہار کرتے ہوئے گلی، محلوں، بازاروں اور مسجدوں کو کیوں نہیں سجایا جا سکتا؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صاحبِ لولاک ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کائنات کی روح ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ہی سے ہمیں کعبہ ملا، اگر کعبہ کو سجایا جا سکتا ہے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر چراغاں کیوں نہیں ہو سکتا؟ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر آرائش و زیبائش کا اہتمام کرنا بدرجہ اَتم مستحسن اور مقبول عمل ہے۔
-----------------------------------------------------------------------------------
محافلِ میلاد کے اِنعقاد کے تقاضے

جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِہتمام کرنا یقیناً مستحسن اور باعثِ اَجر و ثواب عمل ہے لیکن اِس موقع پر اگر اِنعقادِ میلاد کے بعض قابلِ اِعتراض پہلوؤں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اُنہیں برقرار رہنے دیا جائے تو ہم میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیوض و برکات سے محروم رہیں گے۔ جب تک اس پاکیزہ جشن میں طہارت، نفاست اور کمال درجہ کی پاکیزگی کا خیال نہیں رکھا جائے گا سب کچھ کرنے کے باوجود اِس سے حاصل ہونے والے مطلوبہ ثمرات سمیٹنا تو درکنار ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضی مول لیں گے۔ محفلِ میلاد ہو یا جلوسِ میلاد، یہ سارا اِہتمام چوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کے سلسلہ میں ہوتا ہے، لہٰذا اس کا تقدس برقرار رکھنا اُسی طرح ضروری ہے جس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ مقدسہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس کے آداب ملحوظ رکھے جاتے تھے۔ ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیے کہ ماحول کی پاکیزگی کو خرافات اور خلافِ شرع بے ہودہ کاموں سے آلودہ نہ ہونے دیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ جشنِ میلاد کے موقع پر محفلیں منعقد کرنا اور صدقہ و خیرات کرنا، جانی و مالی، علمی و فکری غرضیکہ ہر قسم کی قربانی کا جذبہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حبیبِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کے حصول کے لیے ہونا چاہیے۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے کہ صبح و شام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کے علاوہ اپنی اُمت کے دوسرے نیک و بد اَعمال بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچھے کام دیکھ کر خوشی کا اظہار فرماتے ہیں اور برائی دیکھ کر ناراضگی اور اَفسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ (1) بالکل اسی طرح ہماری یہ میلاد کی خوشیاں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔ اگر ان میں صدق و اخلاص شامل نہیں ہوگا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہماری ایسی محفلوں کے انعقاد سے کیا مسرت ہوگی؟ اور اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر کی جانے والی اس تقریب کو کیوں کر شرفِ قبولیت سے نوازے گا؟ یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ صدقہ و خیرات میں کثرت اور اِظہارِ مسرت کے لیے بڑے بڑے جلسے جلوس اُس بارگاہ میں باعثِ شرف و قبولیت نہیں جب تک کہ ظاہری عقیدت میں اخلاصِ باطن اور حسنِ نیت شامل نہ ہو۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی محبت اور ادب و تعظیم ہی ہمارے ہر عمل کی قبولیت کی اَوّلیں شرائط میں سے ہیں۔

1. بزار، البحر الزخار (المسند)، 5 : 308، 309، رقم : 1925

2۔ ابن ابی اسامۃ نے اِسے صحیح سند کے ساتھ ’’مسند الحارث (2 : 884، رقم : 953)‘‘ میں روایت کیا ہے۔

3. حکيم ترمذي، نوادر الأصول في أحاديث الرسول صلي الله عليه وآله وسلم، 4 : 176
4. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 1 : 183، رقم : 686
6. قاضي عياض، الشفا بتعريف حقوق المصطفي صلي الله عليه وآله وسلم، 1 : 19

6۔ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (9 : 24)‘‘ میں کہا ہے کہ یہ حدیث بزار نے روایت کی ہے اور اِس کے تمام رجال صحیح ہیں۔

7. ابن کثير، البداية والنهاية، 4 : 257

8۔ ابو الفضل عراقی نے ’’طرح التثریب فی شرح التقریب (3 : 297)‘‘ میں اس روایت کی اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔

محفل میلاد کے تقاضوں میں خلوص و تقویٰ کے ساتھ ساتھ ظاہری و باطنی طہارت بھی انتہائی ضروری ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چوں کہ خود صفائی کو انتہائی پسند فرماتے تھے، اور جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات مبارکہ میں ہر طرح کی صفائی، طہارت اور پاکیزگی کا خیال رکھا جاتا تھا اُسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے منعقد ہونے والی محافل و مجالس میں بھی ہمیں کمال درجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر چاہیں تو اپنے غلاموں کی ان محافل میں اپنے روحانی وجود کے ساتھ تشریف لاتے ہیں۔ یہاں اسی سلسلہ میں ایک مثال سے اس اَمر کی توثیق کی جاتی ہے :

مولانا عبد الحئ فرنگی محلی رحمۃ اللہ علیہ حقہ پیتے تھے۔ ایک دفعہ محفل میلاد منعقد تھی۔ حقہ پی کر جلدی سے بغیر کلی کیے محفل میں چلے آئے، بیٹھے بیٹھے اونگھ آگئی۔ خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمانے لگے : ’’عبد الحئ! تمہیں اِحساس نہیں کہ ہماری محفل میں حقہ پی کر اسی بدبودار منہ کے ساتھ آگئے ہو ؟‘‘

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت مبارکہ اتنی پاک، منزہ اور لطیف تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لہسن اور پیاز وغیرہ کھا کر مسجد میں آنے سے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو منع فرماتے تھے۔ (1) ایسے کئی واقعات ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خاص غلاموں کو جس طرح ظاہری حیاتِ طیبہ میں ایسی بدبودار اشیاء استعمال کرنے سے روکتے تھے بعداَز وصال بھی اسی طرح حکماً یا اشارتًا منع فرماتے۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (1114۔ 1174ھ) ’’الدر الثمین فی مبشرات النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ کی اٹھائیسویں حدیث میں اپنے والد گرامی شاہ عبد الرحیم (1054۔ 1131ھ) کے حوالہ سے ایک واقعہ نقل کرتے ہیں : دو صالح آدمیوں۔ جن میں سے ایک عالم بھی تھا اور عابد بھی، جب کہ دوسرا عابد تھا عالم نہ تھا۔ کو ایک ہی وقت اور ایک ہی حالت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں صرف عابد کو بیٹھنے کی اجازت دی گئی، عالم اس سے محروم رہا۔ چنانچہ اس عابد نے بعد میں لوگوں سے دریافت کیا کہ کیا ماجرا ہے؟ اس عالم کو اس سعادت سے کیوں محروم رکھا گیا؟ تو اُسے بتایا گیا کہ وہ حقہ پیتا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حقہ ناپسند فرماتے ہیں۔ دوسرے دن یہ عابد اس عالم کے پاس گیا تو دیکھا کہ عالم اپنی اس محرومی پر زار و قطار رو رہا ہے۔ جب عابد نے حقیقتِ حال سے اُسے آگاہ کیا اور محرومی کا اصل سبب بتایا تو عالم نے اسی وقت تمباکو نوشی سے توبہ کرلی۔ پھر اگلی شب دونوں نے اسی طرح بیک وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی اور اِس بار عالم کو مجلس میں نہ صرف حاضری کا شرف بخشا گیا بلکہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے پاس بٹھایا۔ (2)

1. مسلم، الصحيح، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب نهي من أکل ثوماً أو بصلاً أو کراثاً أو نحوهما، 1 : 394، رقم : 561
2. أبو داود، السنن، کتاب الأطعمة، باب في أکل الثوم، 3 : 160، 161، رقم : 3824، 3825

(2) شاه ولي اﷲ، الدر الثمين في مبشرات النبي الأمين صلي الله عليه وآله وسلم : 43، 44
10۔ اِصلاح طلب پہلو

یہ بات خوش آئند ہے کہ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیدہ رکھنے والے اور جشنِ میلاد کے جلوس کا اِہتمام کرنے والے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اتنی محبت و عقیدت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ میلاد کی خوشیوں کو جزوِ ایمان سمجھتے ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ درست اور حق ہے، مگر انہیں اس کے تقاضوں کو بھی بہرحال مدنظر رکھنا چاہئے۔ کاش ان عقیدت مندوں کو بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا بھی کما حقہ علم ہوتا!

اس مبارک موقع کے فیوضات سمیٹنے کے لیے ضروری ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی ان پاکیزہ محفلوں میں اس انداز سے شرکت کریں جس میں شریعتِ مطہرہ کے احکام کی معمولی خلاف ورزی بھی نہ ہونے پائے لیکن فی زمانہ بعض مقامات پر مقام و تعظیم رسالت سے بے خبر جاہل لوگ جشنِ میلاد کو گوناگوں منکرات، بدعات اور محرمات سے ملوث کر کے بہت بڑی نادانی اور بے ادبی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ جلوسِ میلاد میں ڈھول ڈھمکے، فحش فلمی گانوں کی ریکارڈنگ، نوجوانوں کے رقص و سرور اور اِختلاط مرد و زن جیسے حرام اور ناجائز اُمور بے حجابانہ سرانجام دیے جاتے ہیں جو کہ انتہائی قابلِ افسوس اور قابلِ مذمت ہے اور ادب و تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سراسر منافی ہے۔ اگر ان لوگوں کو ان محرمات اور خلافِ ادب کاموں سے روکا جاتا ہے تو وہ بجائے باز آنے کے منع کرنے والے کو میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منکر ٹھہرا کر اِصلاحِ اَحوال کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے۔ اُن نام نہاد عقیدت مندوں کو سختی سے سمجھانے کی ضرورت ہے ورنہ جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان ادب ناشناس جہلاء کی اِسلام سوز رسوم و رواج کے باعث پاکیزگی و تقدس سے محروم ہو کر محض ایک رسم بن کر رہ جائے گا۔ جب تک ان محافل و مجالس اور جشن میلاد کو ادب و تعظیم رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سانچے میں نہیں ڈھال لیا جاتا اور ایسی تقاریب سے ان تمام محرمات کا خاتمہ نہیں کر دیا جاتا اس وقت تک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا اور خوش نودی ہمارے شاملِ حال نہیں ہوسکتی۔ ایسی محافل میں جہاں بارگاہِ رِسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب سے پہلوتہی ہو رہی ہو نہ صرف یہ کہ رحمتِ خداوندی اور اس کے فرشتوں کا نزول نہیں ہوتا بلکہ اہلِ محفل و منتظمینِ جلوس خدا کے غضب اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔

قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ اس برائی کے خلاف کہیں آواز بلند کی جاتی ہے نہ حکومت کی طرف سے حکمت یا سختی کے ساتھ اس قبیح روش کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔ مذہبی طبقے کی خاموشی کی سب سے بڑی وجہ (الا ماشاء اللہ) پیٹ کا دھندا ہے جو ان قبیح رسموں کو روکنے میں آڑے آجاتا ہے۔ مفاد پرست حلقوں کی سوچ یہ ہے کہ اگر ان غیر اَخلاقی و غیر شرعی اُمور کی سختی سے گرفت کی گئی تو شاید جلسے جلوسوں میں ان علماء کی دھواں دھار تقریریں ختم ہو جائیں اور کاروباری حضرات سے ملنے والے معاوضے اور چندے بند ہو جائیں۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ مالی مفادات اور ان گروہی اور نام نہاد محدود مسلکی منفعتوں کی خاطر یہ لوگ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تقدس اور عظمت کو پامال کر رہے ہیں۔

ایسے مواقع پر حکومت کو خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ ضروری ہے کہ وہ ہر ممکن اِصلاحی تدابیر عمل میں لائے۔ کیا وجہ ہے کہ اَربابِ اِقتدار یا سیاسی حکومت کے کسی لیڈر یا عہدے دار کے خلاف معمولی سی گستاخی اور بے ادبی کرنے والے کو حکومت اپنی پولیس فورس کے ذریعے ڈنڈے کے زور سے نہ صرف باز رکھتی ہے بلکہ معاملہ گھمبیر ہو تو قانون شکنی کرنے والوں کو فوراً گرفتار بھی کر لیا جاتا ہے۔ مگر عرس اور میلاد جیسے موقعوں پر بدعمل، اوباش اور کاروباری لوگ ناچ گانے اور ڈانس کا باقاعدہ اہتمام کرتے ہیں، میلے، تھیٹر اور سرکسوں کا انتظام ہوتا ہے، اَولیائے کرام کی پاکیزہ تعلیمات کی دانستہ اور سرِبازار خلاف ورزی ہوتی ہے مگر معلومات کے باوجود حکومت کوئی قانونی کارروائی نہیں کرتی۔ حکومت کے اَربابِ بست و کشاد نہ جانے کیسے گوارا کر لیتے ہیں کہ باقاعدہ پولیس کی نگرانی اور اَمن و امان میں یہ خلافِ شریعت اُمور ہو رہے ہیں۔ ایسے عناصر کو بزورِ قانون خلافِ شریعت حرکات سے روکنا اَشد ضروری ہے۔

عرس کے موقعوں پر بزرگانِ دین کے مزارات پر آنے کا مقصد قرآن حکیم کی تلاوت اور ان اولیائے کرام کی پاکیزہ تعلیمات سے بہرہ ور ہونے اور ان پر عمل کرنے کا جذبہ ہوتا ہے۔ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوس نعت خوانی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص و شمائل اور فضائل و مراتب کے بیان اور جائز شرعی طریقے سے خوشیاں منانے کے لیے نکالے جاتے ہیں۔ مگر افسوس کہ

حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ اُمت روایات میں کھو گئی

اِقبال، کليات (اُردو)، بالِ جبريل : 416 / 124

کے مصداق دینی شعار کا کھلے بندوں مذاق اڑایا جاتا ہے اور حکومت اور اہلِ فکر و نظر خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔
11۔ اِفراط و تفریط سے اِجتناب کی ضرورت

بدقسمتی سے آج اُمتِ مسلمہ دو بڑے طبقوں میں بٹ گئی ہے : ایک طبقہ جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سرے سے ناجائز، حرام اور بدعت کہہ کر اِس کا اِنکار کر رہا ہے، جب کہ دوسرا طبقہ میلاد کے نام پر (اِلا ما شاء اللہ) ناجائز اور فحش کام سرانجام دینے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ اُنہوں نے بہت سے ناجائز اور حرام اُمور کو داخلِ میلاد کر کے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاکیزہ تصور کو بدنام اور تقدس کو پامال کردیا ہے۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ اِفراط و تفریط سے بچتے ہوئے اِن انتہاء پسند رویوں کے بین بین اِعتدال پسندی کی روش اِختیار کی جائے۔ ہم نے میلاد اور سیرت کے نام پر مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ کوئی صرف میلاد کا داعی بن گیا اور کوئی صرف سیرت کا نام لیوا۔ میلاد کا نام لینے والا سیرت سے کتراتا ہے اور سیرت کا داعی میلاد کو ناجائز کہہ کر اپنی دانش وری اور بقراطیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ سوچ ناپید ہے کہ اگر میلاد نہ ہوتا تو سیرت کہاں سے ہوتی اور اگر سیرت کے بیان سے اِحتراز کیا تو پھر میلاد کا مقصد کیسے پورا ہو سکتا ہے! بیانِ میلاد اور بیانِ سیرت دونوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کے طریقے ہیں۔ دونوں ایک شمع کی کرنیں ہیں۔ میلاد کو نہ تو بدعت اور حرام کہہ کر ناجائز سمجھیں اور نہ اِسے جائز سمجھتے ہوئے اس کے پاکیزہ ماحول کو خرافات سے آلودہ کیا جائے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کی خوشی مناتے ہوئے محافلِ میلاد میں محبت و تعظیم کے ساتھ باوُضو ہو کر شریک ہوں تو یہ اَفضل عبادت ہے۔ میلاد کے جلسے، جلوسوں اور محافل میں سیرت کا ذکرِ جمیل کرنا، لوگوں کو آقائے نامدار حبیبِ کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ سیرت و صورت اور فضائل و شمائل سنانا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور عشق کے نغمے الاپنا ہر سچے مسلمان کا شیوہ ہونا چاہیے کہ اِسی میں پوری اُمتِ مسلمہ کی کامیابی کا راز مضمر ہے اور یہی وقت کی سب سے اہم مذہبی ضرورت ہے۔ ملتِ اِسلامیہ کے واعظین اور مبلغین اگر میلاد اور سیرت کی دو بنیادی حقیقتوں کو الگ الگ کر دیں گے تو عوام الناس تک کلمہ حق کیسے پہنچے گا ؟

واعظین اور مبلغین اگر دین کا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و رسالت کا تحفظ چاہتے ہیں تو یہ ان کی ذاتی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حتی المقدور ناجائز اور خلافِ شرع بدعت، ہرقسم کے منکرات اور فحش اُمور کے خلاف علم جہاد بلند کریں۔

حکومت کا فرض ہے کہ محافلِ میلاد کا تقدس برقرار رکھنے کے لیے مداخلت کرے اور عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر ناچ گانا اور دیگر خرافات کرنے والوں پر قانونی پابندی لگا دے جس کی خلاف ورزی کرنے والے عناصر کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں تاکہ جلسوں اور جلوسوں کا ماحول ہر قسم کی خرافات اور غیر شرعی اُمور سے پاک رہے۔

اﷲ تعالیٰ اپنے حبیب مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصدق سے ہمارے حال پر رحم فرمائے، ہمیں میلاد شریف کے فیوض و برکات سمیٹنے، اپنی زندگیاں سیرتِ طیبہ کے سانچے میں ڈھالنے اور منکرات و فواحش سے بچنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ (آمین بجاہِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...