Friday, 27 November 2015

میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِصطلاح کا اِستعمال

میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِصطلاح کا اِستعمال
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
لفظِ میلاد کی اَصل (origin) کے بارے میں بعض ناقدین کی طرف سے سوال اٹھایا جاتا ہے کہ عالم عرب میں اس کی جگہ مولد کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور میلاد ایسا لفظ ہے جو صرف برصغیر پاک و ہند میں مستعمل ہے۔ یہ ایک غلط تصور ہے۔ دراصل اُردو ایک لشکری زبان ہے جس کے ذخیرۂ اَلفاظ میں عربی، فارسی اور دیگر زبانوں کے بے شمار الفاظ شامل ہیں۔ اُردو میں ولد، والد، والدہ، مولود، میلاد اور متولد تمام عربی الاصل الفاظ ہیں۔ اِسی طرح عربی اور فارسی کے بے شمار الفاظ ہیں جنہیں اُردو نے کثرتِ اِستعمال سے اپنے اندر سمو لیا ہے اور وہ اُردو زبان و محاورہ کا حصہ بن چکے ہیں۔ عربی کتب میں مولد کا لفظ کثرت سے متداول ہے، اِسی طرح اردو کتبِ سیرت میں میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کثیر الاستعمال لفظ بن گیا ہے۔ میلاد عربی لفظ ہے جسے ترمذی (210۔ 279ھ)، طبری (224۔ 310ھ)، ابن کثیر (701۔ 774ھ)، سیوطی (849۔ 911ھ) اور عسقلانی (773۔ 852ھ) سمیت متعدد مفسرین، محدّثین، مؤرّخین اور اَصحابِ سیر نے اِستعمال کیا ہے۔
(1) کتبِ لغت میں لفظِ میلاد کا اِستعمال

اَئمہ لغت نے لفظ میلاد اپنی کتب میں استعمال کیا ہے۔

1۔ ابن منظور افریقی (630۔ 711ھ) اور عبد القادر رازی حنفی (660ھ کے بعد فوت ہوئے)، مرتضی زبیدی (1145۔ 1205ھ) اور علامہ جوہری فرماتے ہیں :

وميلاد الرجل : اسم الوقت الذي وُلِدَ فيه.

’’اور اِنسان کا میلاد اُس وقت کا نام ہے جس میں اُس کی پیدائش ہوتی ہے۔‘‘

1. ابن منظور، لسان العرب، 3 : 468
2. رازي، مختار الصحاح : 422
3. زبيدي، تاج العروس من جواهر القاموس، 5 : 327
4. جوهري، الصحاح في اللغة والعلوم، 2 : 713

2۔ لغت کی معروف کتب ’’المعجم الوسیط (2 : 1056)‘‘ اور ’’تاج العروس من جواہر القاموس (5 : 327)‘‘ میں ہے :

الميلاد : وقت الولادة.

’’میلاد سے مراد وقتِ ولادت ہے۔‘‘
(2) کتبِ اَحادیث و سیر میں لفظِ میلاد کا اِستعمال

اَحادیث و آثار کے متن میں بھی لفظِ میلاد اِستعمال ہوا ہے۔ اِمام ترمذی (210۔ 279ھ) نے الجامع الصحيح میں کتاب المناقب کا دوسرا باب ہی ’’ما جاء فی میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ قائم کیا ہے۔ لہٰذا یہ دعویٰ بالکل باطل ہے کہ لفظِ میلاد ہندی الاصل ہے۔ وہ روایت کرتے ہیں :

سأل عثمان بن عفان رضي الله عنه قباث بن أشَيْمِ أخا بني يعمر بن ليث : أأنت أکبر أم رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ فقال : رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أکبر مني، وأنا أقدم منه في الميلاد.

’’حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے بنی یعمر بن لیث کے بھائی قباث بن اُشیم سے پوچھا : آپ بڑے ہیں یا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم؟ تو اُنہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے بڑے ہیں، اور میں میلاد (پیدائش) میں اُن سے پہلے ہوں۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 589، کتاب المناقب، باب ماجاء في ميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم، رقم : 3619
2. شيباني، الآحاد والمثاني، 1 : 407، رقم : 566
3. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 453
4. بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 1 : 77
5. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 216، 217

حضرت قباث بن اُشیم رضی اللہ عنہ کا قول. ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے بڑے ہیں لیکن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے پیدا ہوا تھا‘‘ حسنِ اَدب اور معراجِ اِحترام کی زُہرہ صفت مثال ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ہجرتِ مدینہ کے دوران نہاں خانۂ غارِ ثور میں قیام فرما ہوئے درآں حالیکہ قریشِ مکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تلاش کر رہے تھے۔ روایت کے الفاظ ہیں :

وطلبت قريش رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أشد الطلب حتي انتهوا إلي باب الغار، فقال بعضهم : إن عليه العنکبوت قبل ميلاد محمد صلي الله عليه وآله وسلم فانصرفوا.

’’قریش نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت تلاش کیا یہاں تک کہ تلاش کرتے کرتے غارِ ثور کے دہانے تک پہنچ گئے۔ پس اُن میں سے بعض نے کہا : اِس کے منہ پر تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے میلاد سے بھی پہلے کا مکڑی کا بنا ہوا جالا ہے۔ پس (یہ دیکھ کر) وہ لوٹ گئے۔‘‘

1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 228
2. سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 305

اِسی موضوع کی ایک روایت میں درجِ ذیل اَلفاظ ہیں :

فلما انتهوا إلي فم الغار، قال قائل منهم : ادخلو الغار. فقال أمية بن خلف : وما أر بکم أي حاجتکم إلي الغار؟ أن عليه لعنکبوتًا کان قبل ميلاد محمد صلي الله عليه وآله وسلم.

’’جب قریشِ مکہ غار کے دہانہ پر پہنچے تو اُن میں سے کسی نے کہا : غار میں داخل ہو جاؤ اِس پر اُمیہ بن خلف نے کہا : تم غار میں جا کر کیا کرو گے؟ اِس کے منہ پر تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے میلاد سے قبل کا مکڑی کا جالہ لگا ہوا ہے۔‘‘

1. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 2 : 209
2. کلاعي، الإکتفاء بما تضمنه من مغازي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 1 : 339
3. سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 306

ابن عون فرماتے ہیں :

قُتل عمارٌ، رحمه اﷲ، وهو ابن إحدي وتسعين سنة، وکان أقدم في الميلاد من رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.

’’حضرت عمار رضی اللہ عنہ 91 سال کی عمر میں شہید کیے گئے اور وہ میلاد میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے تھے۔‘‘

1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 259
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 43 : 471
3. مزي، تهذيب الکمال في أسماء الرجال، 21 : 224

حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) زمانۂ جاہلیت کے ’’محمد‘‘ نامی لوگوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ’’محمد بن مسلمہ‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں :

وهو غلط فأنه ولد بعد ميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم بمدة، ففضل له خمسة، وقد خلص لنا خمسة عشر.

’’اور یہ درست نہیں ہے کیوں کہ ان کی پیدائش حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے مدت بعد ہوئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پانچ ناموں کے ذریعے فضیلت دی گئی اور ہمیں پندرہ سے نجات دے دی گئی۔‘‘

عسقلاني، فتح الباري، 6 : 557

حضرت اِبن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

کان بين موسي بن عمران وعيسي بن مريم ألف سنة وتسعمائة سنة ولم تکن بينهما فَترة، وإنه أرسل بينهما ألف نبي من بني إسرائيل سوي من أرسل من غيرهم، وکان بين ميلاد عيسٰي والنبي عليه الصلاة والسلام، خمسمائة سنة وتسع وستون سنة.

’’حضرت موسیٰ بن عمران اور عیسیٰ بن مریم علیھما السلام کے درمیان 1900 سال کا عرصہ ہے اور اُن دونوں کے درمیان زمانہ فترت (جس میں وحی کا سلسلہ موقوف ہو جاتا ہے) نہیں گزرا۔ اُن دونوں کے اِس عرصہ نبوت کے درمیان بنی اسرائیل میں ہی ایک ہزار نبی بھیجے گئے، اُن کے علاوہ بھیجے جانے والے علیحدہ ہیں۔ میلادِ عیسیٰ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کی بعثت) کا درمیانی عرصہ 569 سال بنتا ہیں۔‘‘

1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 53
2. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 495
3. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 6 : 122

مذکورہ روایات واضح کرتی ہیں کہ ثقہ رُواۃ اور اَجل ائمہ و محدثین نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے بیان کے لیے لفظِ میلاد اِستعمال کیا ہے، اور یہ لفظ قطعاً برصغیر پاک و ہند کے لوگوں کی اِیجاد نہیں ہے۔
(3) تصانیف میں لفظِ میلاد کا اِستعمال

کبار اور مستند مصنفین نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف کے موضوع پر کتب لکھیں، جیسا کہ ہم نے گزشتہ اَبواب میں بالتفصیل بیان کیا ہے۔ اُنہوں نے اپنی کتب کے ناموں میں لفظِ میلاد اِستعمال کیا ہے۔ حاجی خلیفہ نے اپنی کتاب ’’کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون‘‘ میں ایک کتاب کا نام یوں بیان کیا ہے :

’’درج الدرر في ميلاد سيد البشر‘‘ للسيد اصيل الدين عبد اﷲ بن عبد الرحمن الحسيني الشيرازي المتوفي سنة 884 أربع وثمانين وثمانمائة.

’’درج الدرر فی میلاد سید البشر‘‘ کتاب اصیل الدین عبد اللہ بن عبد الرحمن حسینی شیرازی کی تصنیف ہے، جن کا سنِ وِصال 884ھ ہے۔‘‘

حاجي خليفه، کشف الظنون عن أسامي الکتب والفنون، 1 : 745

علامہ ابن جوزی (510۔ 597ھ) نے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دو مستقل کتب لکھی ہیں، جن میں سے ایک کا عنوان ’’بیان المیلاد النبوي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ ہے۔

اِس تفصیل سے ہر صاحبِ علم اور صاحبِ رائے شخص کو معلوم ہو جانا چاہیے کہ لفظِ میلاد کی اصل برصغیر پاک و ہند کی اِختراع نہیں بلکہ عربی لغت کا لفظ ہے جس کا اِستعمال عالمِ عرب میں قدیم تاریخی دور سے ثابت ہے۔ اِس کے خلاف جو باتیں کی جاتی ہیں وہ ایک مخصوص ذہنی کیفیت کی غماز ہیں، حالاں کہ مصطلحاتِ دینی کے اِستعمال میں عرب دنیا اور غیرِ عرب دنیا میں کوئی فرق نہیں۔

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...