Sunday 8 November 2015

پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ بادلوں اور بارش کی محبت و اطاعت

0 comments
پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ بادلوں اور بارش کی محبت و اطاعت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ میں لوگ قحط سالی میں مبتلا ہو گئے۔ ایک مرتبہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جمعہ کے روز خطبہ دے رہے تھے تو ایک اعرابی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! مال ہلاک ہو گیا اور بچے بھوکے مر گئے، اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے۔ ہم نے اس وقت آسمان میں بادل کا کوئی ٹکڑا تک نہیں دیکھا تھا، پھر قسم اس کی ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہاتھ کیا اٹھائے کہ پہاڑوں جیسے بادل آ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم منبر سے اترے بھی نہیں کہ میں نے بارش کے قطرے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ریش مبارک سے ٹپکتے دیکھے۔ اس روز بارش برسی، اگلے روز بھی، اس سے اگلے روز بھی یہاں تک کہ اگلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ پس وہی اعرابی کھڑا ہوا یا کوئی دوسرا شخص اور عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! مکانات گر گئے اور مال ڈوب گیا۔ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا کیجئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور کہا: اے اللہ! ہمارے اردگرد برسا، ہم پر نہیں۔ پس جس طرف دست مبارک سے اشارہ کرتے ادھر کے بادل چھٹ جاتے یہاں تک کہ مدینہ منورہ ایک دائرہ سا بن گیا۔ قناہ نامی نالہ مہینہ بھر بہتا رہا اور جو بھی آتا وہ اس بارش کا حال بیان کرتا۔

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الجمعة، باب: الاستسقاء في الخطبة يوم الجمعة، 1 /315، الرقم: 891، وفي باب: من تمطر في المطر حتی يتحادر علی لحيته، 1 /349، الرقم: 986، ومسلم في الصحيح، کتاب: صلاة الاستسقاء، باب، الدعاء في الاستسقاء، 2 / 614، الرقم: 897، والنسائي في السنن، کتاب: الاستسقاء، باب: رفع الإمام يديه عند مسألة إمساک المطر، 3 / 166، الرقم: 1528، وابن الجارود في المنتقی، 1 / 75، الرقم: 256، والطبراني في الدعاء، 1 /297، الرقم: 957.
-----------------------------------------------------------------------------------------
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایک دفعہ اہل مدینہ (شدید) قحط سے دوچار ہوگئے۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہوکر عرض کیا: یا رسول اللہ! گھوڑے ہلاک ہوگئے، بکریاں مرگئیں، اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ ہمیں پانی مرحمت فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس وقت آسمان شیشے کی طرح صاف تھا لیکن ہوا چلنے لگی، بادل گھر کر جمع ہوگئے اور آسمان نے ایسا اپنا منہ کھولا کہ ہم برستی ہوئی بارش میں اپنے گھروں کو گئے اور متواتر اگلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ پھر (آئندہ جمعہ) وہی شخص یا کوئی دوسرا آدمی کھڑا ہوکر عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! گھر تباہ ہو رہے ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ اب اس (بارش) کو روک لے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم (اس شخص کی بات سن کر) مسکرا پڑے اور (اپنے سرِ اقدس کے اوپر بارش کی طرف انگلی مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے) فرمایا: ’’ہمیں چھوڑ کر ہمارے گردا گرد برسو۔‘‘ تو ہم نے دیکھا کہ اسی وقت بادل مدینہ منورہ کے اوپر سے ہٹ کر یوں چاروں طرف چھٹ گئے گویا وہ تاج ہیں (یعنی تاج کی طرح دائرہ کی شکل میں پھیل گئے)۔

أخرجه البخاری في الصحيح،کتاب: المناقب، باب: علامات النبوة فی الإسلام، 3 /1313، الرقم: 3389، ومسلم فی الصحيح، کتاب: الاستسقاء، باب: الدعاء فی الاستسقاء، 2 /614، الرقم: 897، وأبوداود فی السنن، کتاب: صلاة الاستسقاء، باب: رفع اليدين فی الاستسقاء، 1 /304، الرقم: 1174، والبخاري في الأدب المفرد، 1 /214، الرقم: 612، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 /95، الرقم: 2601، وفي الدعاء، 1 /596. 597، الرقم: 2179، وابن عبد البر في الاستذکار، 2 /434، والحسيني في البيان والتعريف، 2 /26، الرقم: 957.
-----------------------------------------------------------------------------------------
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مدینہ منورہ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے اس نے عرض کیا: (یا رسول اﷲ!) بارش نہ ہونے کے باعث قحط پڑ گیا ہے لہٰذا اپنے رب سے بارش مانگئے، تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور ہمیں کوئی بادل نظر نہیں آ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بارش مانگی تو فوراً بادلوں کے ٹکڑے آ کر آپس میں ملنے لگے پھر بارش ہونے لگی یہاں تک کہ مدینہ منورہ کی گلیاں بہہ نکلیں اور بارش متواتر اگلے جمعہ تک ہوتی رہی پھر وہی یا کوئی دوسرا شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے: (یا رسول اﷲ!) ہم تو غرق ہونے لگے لہٰذا اپنے رب سے دعا کیجئے کہ اس بارش کو ہم سے روک دے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مسکرا پڑے اور دعا کی: اے اﷲ! ہمارے اردگرد برسا اور ہمارے اوپر نہ برسا، ایسا دو یا تین دفعہ فرمایا۔ سو بادل چھٹنے لگے اور مدینہ منورہ کی دائیں بائیں جانب جانے لگے۔ چنانچہ ہمارے اردگرد (کھیتوں اور فصلوں پر) بارش ہونے لگی ہمارے اوپر بند ہو گئی۔ یونہی اﷲ تعالیٰ اپنے نبی کی برکت اور ان کی قبولیتِ دعا دکھاتا ہے۔‘‘

أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: الأدب، باب: التبسم والضحک، 5 /2261، الرقم: 5742، وفی کتاب: الدعوات، باب: الدعاء غير مستقبل القبلة، 5 /2335، الرقم: 5982، وفی کتاب: الجمعة، باب: الاستسقاء فی الخطبة يوم الجمعة، 1 /315، الرقم: 891، وفی کتاب: الاستسقاء، باب: الاستسقاء فی المسجد الجامع، 1 /343، الرقم: 967، وفی باب: الاستسقاء فی خطبة مستقبل القبلة، 1 /344، الرقم: 968، وفی باب: إذا استشفع المشرکون بالمسلمين عند القحط، 1 /346، الرقم: 974، وفی باب: من تمطر فی المطر حتی يتحادر علی لحيته، 1 /349، الرقم: 986، وفی کتاب: المناقب، باب: علامات النبوة فی الإسلام، 3 /1313، الرقم: 3389، ومسلم فی الصحيح، کتاب: الاستسقاء، باب: الدعاء فی الاستسقاء، 2 /612.614، الرقم: 897، وأبوداود فی السنن، کتاب: صلاة الاستسقاء، باب: رفع اليدين فی الاستسقاء، 1 /304، الرقم: 1174، والنساءی فی السنن، کتاب: الاستسقاء، باب: کيف يرفع، 3 /159.166، الرقم: 1515،1517،1527.1528، وابن ماجه فی السنن، کتاب: إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ماجاء فی الدعاء فی الاستسقاء، 1 /404، الرقم: 1269، والنسائی فی السنن الکبری، 1 /558، الرقم: 1818.
-----------------------------------------------------------------------------------------
امام سیوطی نے الخصائص الکبری میں روایت کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حلیمہ سعدیہ آپ کا بہت خیال رکھتی تھی ایک روز قدرے غافل ہو گئی تو آپ اپنی رضاعی بہن شیماء کے ساتھ دوپہر کے وقت ریوڑ کی طرف نکل گئے حلیمہ بے قرار ہو گئی اور فوراً تلاش میں نکلی۔ جب بہن کے ساتھ دیکھا تو اس کی جان میں جان آئی۔ بیٹی کو ناراض ہوئی کہ اتنی سخت دھوپ میں انہیں لے کر کیوں آئی ہو؟ شیماء نے جواب دیا: امی جان! میرے بھائی کو دھوپ نے کچھ نہیں کہا۔ بادل ان پر مسلسل سایہ فگن رہا، جب یہ ٹھہرتے تو وہ بھی ٹھہر جاتا اور جب یہ چلتے تو وہ بھی چل پڑتا تھا یہاں تک کہ ہم یہاں پہنچ گئے۔ حلیمہ یہ سن کر خوشگوار حیرت کے عالم میں چیخ پڑی۔ کیا یہ سچ ہے؟ میری بیٹی! شیما نے جواب دیا: ہاں، امی جان یہ بالکل سچ ہے۔

أخرجه السيوطي في الخصائص الکبری، 1:58.

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔