جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا قرآن کریم کی روشنی میں حصّۃ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جشنِ نزولِ خوانِ نعمت سے اِستدلال
پہلی اُمتوں کو بھی اﷲ رب العزت نے اپنی نعمتوں سے نوازا جس پر وہ اﷲ کے حضور شکر بجا لاتے اور حصولِ نعمت کا دن بطورِ عید مناتے تھے۔ جیسے خوانِ نعمت ملنے کا دن جشنِ عید کے طور پر منایا جاتا تھا۔ اِس مثال سے مقصود یہ باور کرانا ہے کہ سابقہ اُمتیں اپنی روایات کے مطابق مخصوص دن مناتی چلی آرہی ہیں اور قرآن نے ان کے اس عمل کا ذکر بھی کیا ہے۔
رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ.
المائدة، 5 : 114
’’اے اﷲ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اُترنے کا دن) ہمارے لیے عید ہوجائے ہمار ے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی) اور (وہ خوان) تیری طرف سے نشانی ہو۔‘‘
لہٰذا جب سابقہ اُمتیں معمولی سی نعمت پر شکر بجا لاتی تھیں تو اُمت مسلمہ پر بہ درجۂ اَتم لازم آتا ہے کہ وہ اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خوشی منا کر اس عظیم ترین نعمت کا شکر شرحِ صدر کے ساتھ بجا لائے، کیوں کہ ایسا کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے خود دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے :
وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا.
’’اور اپنے اوپر (کی گئی) اﷲ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی پس تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔‘‘
آل عمران، 3 : 103
بلاشبہ یہ اﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کہ اس نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے بندوں کے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑ دیا۔ جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ان کو ایک دوسرے کا غم خوار بنا دیا۔ ان کی نفرتوں اور عداوتوں کو محبتوں اور مروّتوں سے بدل دیا۔ حقیقتاً یہ نعمت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے تصدق سے عالمِ انسانیت کو نصیب ہوئی، اس نعمت کا مبداء و مرجع بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اَقدس ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس دنیا میں تشریف لانا اور لوگوں کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاکر حلقہ بگوش ہونا اور خون کے پیاسوں کا باہم شیر و شکر ہونا اس اَمر کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم رحمتِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے موقع پر بارگاہِ خداوندی میں سراپا تشکر بن جائیں۔
3۔ جشنِ آزادی منانے سے اِستدلال
اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرکے ان پر شکر بجا لانا صرف اُمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی پر واجب نہیں بلکہ سابقہ اُمتوں کو بھی یہی حکم تھا۔ بنی اسرائیل سے فرمایا گیا :
يَا بَنِي إِسْرَآئِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَO
’’اے اولادِ یعقوب! میرے وہ اِنعام یاد کرو جو میں نے تم پر کیے اور یہ کہ میں نے تمہیں (اُس زمانے میں) سب لوگوں پر فضیلت دیo‘‘
البقرة، 2 : 47
اسی طرح دیگر آیات میں اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے اِحسانات گنوائے ہیں۔ ایک مقام پر فرمایا :
وَإِذْ نَجَّيْنَاكُمْ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوْءَ الْعَذَابِ.
’’اور (اے آلِ یعقوب! اپنی قومی تاریخ کا وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب ہم نے تمہیں فرعون کے لوگوں سے رہائی دی جو تمہیں انتہائی سخت عذاب دیتے تھے۔‘‘
البقرة، 2 : 49
قرآن حکیم کی محولہ بالا آیاتِ مبارکہ سے یہ نکتہ مستنبط ہوتا ہے کہ قومی آزادی بھی ایک نعمتِ غیر مترقبہ ہے اور بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا کہ فرعون کی غلامی سے آزادی حاصل ہونے پر اﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لاؤ۔ قومی آزادی بلا شبہ ایک نعمتِ خداوندی ہے اور اس کے حصول پر شکر بجا لانا حکمِ ایزدی کی تعمیل ہے۔ ہمارے وطن پاکستان کا برطانوی اِستعمار کے تسلط سے آزاد ہونا اور ایک نئی اسلامی ریاست کے طور پر معرضِ وجود میں آنا اﷲ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ جب ہم ہر سال 14 اگست کو نعمتِ آزادی کے حصول پر خوشی مناتے ہیں تو یہ قرآن حکیم کے حکمِ تشکر کے حوالے سے بھی ہم پر لازم آتا ہے۔
اِسی طرح نصِ قرآنی سے یہ اَمر بھی واضح ہوگیا کہ قومی آزادی کے موقع پر ہر سال اس کی یاد منانا اور مختلف طریقوں سے شکر بجا لانا محض دنیوی اور سیاسی نہیں بلکہ دینی اور شرعی فعل ہے اور اِسے نہ ماننا حکمِ الٰہی سے انحراف کے مترادف ہے۔ ہر زمانے، ہر صدی اور ہر دور کا ایک عالمی کلچر ہوتا ہے۔ ہر ملک، ہر قوم اور ہر قبیلہ اپنے اپنے تاریخی حوالوں سے ایامِ تشکر یا ایامِ مسرت مناتا ہے۔ دنیا کا کوئی ملک یا خطہ ایسا نہیں جہاں کے رہنے والے لوگ مذہبی تہوار یا کوئی نہ کوئی قومی تہوار نہ مناتے ہوں۔ یہودی، عیسائی، بدھ، ہندو حتیٰ کہ ملحد قومیں بھی اپنے اپنے ثقافتی پس منظر اور روایات سے ہم آہنگی قائم رکھتے ہوئے خوشی کے دن مناتی ہیں۔ مسلمانوں کو اللہ رب العزت نے ایام اللہ عنایت فرمائے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہماری زندگی کے لیے ہدایت و شریعت اور تہذیب و ثقافت کا سرچشمہ ہے۔ آج کے عالمی کلچر کے پیشِ نظر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جشنِ میلاد اِسلامی ثقافت کے اِبلاغ کے لیے مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔
تہذیبی تسلسل کا اَہم تقاضا
مذکورہ بالا آیات میں جہاں تک تذکیرِ نعمت کا حکم ہے تو یہ واضح ہے کہ قرآنِ حکیم کا اشارہ ایک خاص واقعہ کی طرف ہے۔ لیکن شکر بجا لانے کا تقاضایہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی نعمت ہر وقت یاد رہے اور اسے کسی لمحے بھی دل و دماغ سے محو نہ ہونے دیا جائے تاکہ ہر گھڑی بندے کا دل اﷲ کے شکر کی کیفیت سے معمور رہے۔ مگر یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سال بھر یاد رکھنے کے باوجود جب گردشِ ایام کے نتیجے میں وہی دن اور وہی وقت پلٹ کر آتا ہے تو وہ خوشی خود بخود غیر شعوری طور پر کئی گنا زیادہ ہو جاتی ہے کیوں کہ یہ انسان کا طبعی و فطری تقاضا اور ثقافتی لازمہ ہے کہ عین اُس وقت بطورِ خاص اُس نعمت کو یاد کیا جائے اور خوشی و مسرت میں اس کا ذکر کثرت و تواتر کے ساتھ کیا جائے۔ نعمت کے شکرانے کے طور پر باقاعدگی اور اِہتمام سے خوشی و مسرت کا اظہار کرنا اس لیے لازم ہے کہ آئندہ نسلوں کو وہ نعمت یاد رہے اور اس دن کی اہمیت ان پر واضح ہو سکے۔ تاریخ کے اوراق میں ایک زندہ و پائندہ قوم کی طرح اپنے آپ کو محفوظ رکھنا تہذیب و ثقافت کے تسلسل ہی سے ممکن ہوتا ہے۔
اگر ہم اللہ تعالیٰ کے اِحسانات پر شکر ادا نہیں کر سکتے اور اپنی تاریخ کے اہم واقعات کو اچھی روایات کے ساتھ آئندہ نسلوں تک منتقل نہیں کر سکتے تو بعید نہیں کہ آنے والی نسلیں اﷲ کے ان احسانات سے بے خبر ہو جائیں اور ان کی نظروں سے اس دن حاصل ہونے والی نعمت کی قدر و منزلت بھی محو ہو جائے۔ لہٰذا حکمِ اِلٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ سال بھر تواﷲ تعالیٰ کا عام شکر بجا لایا جاتا رہے لیکن جب وہ دن آئے۔ جس دن اﷲ تعالیٰ نے آزادی کی نعمت اَرزانی فرمائی۔ تو خصوصی طور پر خوشیوں کا اِظہار کیا جائے تاکہ وہ دن جشن کی حیثیت اختیار کر جائے اور آئندہ نسلوں پر اس دن کی حقیقت کھل کر واضح ہو جائے۔ پس اگر آزادی کی نعمت پر شکر منانا قرآن سے ثابت ہے تو اُس ذاتِ اَقدس کی آمد کی خوشی منانا کیوں جائز و مستحسن نہ ہوگا جو وجہ تخلیقِ کائنات ہیں اور جن کے توسل اور تصدّق سے تمام نعمتیں عطا کی گئیں۔
4۔ نعمتوں پر خوشی منانا سنتِ انبیاء علیہم السلام ہے
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں اپنی اُمت کے لیے مائدہ کی نعمت طلب کی تو یوں عرض کیا :
رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ.
’’اے اﷲ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے عید ہوجائے ہمار ے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی) اور (وہ خوان) تیری طرف سے نشانی ہو۔‘‘
المائده، 5 : 114
قرآن مجید نے اس آیت میں نبی کی زبان سے یہ تصور دیا ہے کہ جس دن اﷲ تعالیٰ کی نعمت اُترے اس دن کو بطور عید منانا اس نعمت کے شکرانے کی مستحسن صورت ہے۔ ’’اَوَّلِنَا‘‘ اور ’’اٰخِرِنَا‘‘ کے کلمات اس امر پر دلالت کر رہے ہیں کہ نزولِ نعمت کے بعد جو امت آئے اس کے دورِ اوائل میں بھی لوگ ہوں گے اور دور اواخر میں بھی، سو جو پہلے دور میں ہوئے انہوں نے عید منائی اور جو رہتی دنیا تک آخر میں آئیں گے وہ بھی یہی وطیرہ اپنائے رکھیں۔
قابلِ غور نکتہ
آیت میں مذکور اَلفاظ۔ ’’اَوَّلِنَا‘‘ اور ’’اٰخِرِنَا‘‘۔ میں کلمہ ’’نَا‘‘ اِس اَمر کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ نعمت کی خوشیاں وہی منائے گا جو اس نعمت کے شکر میں ہمارے ساتھ شریک ہوگا، اور جو اس خوشی میں ہمارے ساتھ شریک نہیں اس کا عید منانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہاں قرآن نے لوگوں کے دلوں کے اَحوال پرکھنے کے لیے ایک معیار دے دیا ہے۔ وہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت تھی اور یہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ مائدہ کی عارضی نعمت تھی اور یہاں ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دائمی نعمت ہے لیکن یہاں ہمارے لیے بھی وہی معیار ہے کہ جب ماہِ ربیع الاول میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کا دن آئے اور عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سعید ساعتیں ہم پر طلوع ہوں تو دیکھنا ہے کہ ہم میں سے کون اپنے دلوں کو خوشیوں اور مسرتوں کا گہوارہ بنا لیتا ہے اور اپنے آپ کو ’’اَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا‘‘ میں شامل کر لیتا ہے۔ اگر اس کے برعکس میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کسی کادل خوشی سے لبریز نہ ہو بلکہ دل میں ہچکچاہٹ، شکوک و شبہات اور کینے کی سی کیفیت پیدا ہو تو اسے چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرے۔ کیوں کہ یہ انتہائی خطرناک بیماری ہے اور اس سے اجتناب دولتِ ایمان کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لیوا اور اُمتی ہو کر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت پر خوشیاں نہ منائے۔
میلاد مبارک پر دلائل طلب کرنا اور اس کے عدمِ جواز پر بحث و مناظرہ کرنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے تقاضوں کے منافی ہے، محبت کبھی دلیل کی محتاج نہیں ہوتی۔ لہٰذا جب سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کا مبارک مہینہ آئے تو ایک مومن کی قلبی کیفیت یہ ہونی چاہیے کہ خوشیاں منانے کے لیے اُس کا دل بے قرار اور طبیعت بے چین ہو جائے، اسے یوں لگے کہ اس کے لیے کائنات کی ساری خوشیاں ہیچ ہیں اور میلادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی ہی حقیقی خوشی ہے۔ وہ محسوس کرے کہ اس دن کائنات کی ساری خوشیاں سمٹ کر اس کے دامن میں آگری ہیں۔ اس سے بڑھ کر اس کے لیے مسرت و شادمانی کا اور کون سا موقع ہوگا، وہ تو اس خوشی سے بڑھ کر کائنات میں کسی خوشی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
No comments:
Post a Comment