Sunday 1 November 2015

نبی کریم ﷺ کے ساتھ بھیڑیئے کی محبّت

0 comments
نبی کریم ﷺ کے ساتھ بھیڑیئے کی محبّت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اے اللہ انسان نما بھیڑیوں کے دل میں بھی ادب و محبّت مصطفیٰ ﷺ پیدا فرما دے اور ان بے ادب ، گستاخ لوگوں کو ہدائیت عطاء فرما آمین
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک دفعہ ایک بھیڑیا بکریوں پر حملہ آور ہوا اور ان میں سے ایک بکری کو اٹھالیا۔ چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اور اس سے بکری چھین لی۔ بھیڑیا پچھلی ٹانگوں کو زمین پر پھیلا کر سرین پر بیٹھ گیا اور اگلی ٹانگوں کو کھڑا کرلیا اور اس نے چرواہے سے کہا: کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے کہ مجھ سے اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ رزق چھین رہے ہو؟ چرواہے نے حیران ہوکر کہا: بڑی حیران کن بات ہے کہ بھیڑیا اپنی دم پر بیٹھا مجھ سے انسانوں جیسی باتیں کر رہا ہے؟ بھیڑیے نے کہا: کیا میں تمہیں اس سے بھی عجیب تر بات نہ بتاؤں؟ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم جو کہ یثرب (مدینہ منورہ) میں تشریف فرما ہیں لوگوں کو گزرے ہوئے زمانے کی خبریں دیتے ہیں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ چرواہا فوراً اپنی بکریوں کو ہانکتا ہوا مدینہ منورہ میں داخل ہوا اور ان کو اپنے ٹھکانوں میں سے کسی ٹھکانہ پر چھوڑ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ پھر اس نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اس معاملہ کی خبر دی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حکم پر با جماعت نماز کے لئے اذان کہی گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم باہر تشریف لائے اور چرواہے سے فرمایا: سب لوگوں کو اس واقعہ کی خبر دو۔ پس اس نے وہ واقعہ سب کو سنایا۔ اس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا۔ اس نے سچ کہا۔ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ درندے انسان سے کلام نہ کریں اور انسان سے اس کے چابک کی رسی اور جوتے کے تسمے کلام نہ کریں۔ اس کی ران اسے خبر دے گی کہ اس کے بعد اس کے گھر والے کیا کرتے رہے ہیں۔

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 /83، 88، الرقم: 11809، 11859، والحاکم في المستدرک، 4: 514، الرقم: 8444، و عبد بن حميد في المسند ، 1: 277، الرقم: 877، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 /41، 42، 43، وابن کثير في شمائل الرسول: 339، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 /291، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1: 113، الرقم: 116.
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک بھیڑیا کسی چرواہے کی بکریوں کے پاس آیا اور اُن میں سے ایک بکری اٹھا کر لے گیا۔ چرواہے نے اس کا پیچھا کیا یہاں تک کہ اس کے منہ سے بکری نکلوا لی۔ بھیڑیا ایک ٹیلے پر چڑھ گیا اور وہاں اپنی پشت کے بل گھٹنے اوپر اٹھا کر بیٹھ گیا اور اپنی دم اوپر اٹھا کر کہنے لگا: تم نے میرے منہ سے وہ رزق چھین لیا ہے جو اللہ نے مجھے عطا کیا تھا۔ اس چرواہے نے کہا: بخدا میں نے آج سا دن پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا کہ بھیڑیا باتیں کر رہا ہے۔ بھیڑئیے نے جواب دیا: اس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ ایک آدمی ( یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) دو میدانوں کے درمیان واقع نخلستانوں (مدینہ) میں بیٹھا جو کچھ ہوچکا اور جو ہونے والا ہے اُس کی خبریں لوگوں کو دے رہا ہے۔ وہ آدمی ( یعنی چرواہا) یہودی تھا۔ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوگیا اور پھر اس نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر دی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کی تصدیق کی اور پھر فرمایا: یہ قیامت سے قبل واقع ہونے والی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ وہ وقت قریب ہے کہ ایک آدمی اپنے گھر سے نکلے گا اس کی واپسی پر اس کے جوتے اور اس کا چابک اسے بتائیں گے کہ اس کے گھر والوں نے اس کے بعد کیاکیا۔

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 /306، الرقم: 8049، وعبد الرزاق في المصنف، 11: 383، الرقم: 20808، وابن راهويه في المسند، 1 /357، الرقم: 360، وابن کثير في شمائل الرسول: 341، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 /291، والأزدي في الجامع، 11: 383، الرقم: 20808وعبد بن حميد في المسند ، 1: 277، الرقم: 877، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 /41، 42، 43، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1: 113، الرقم: 116.
----------------------------------------------------------------------------------
عَنْ أُهْبَانَ بْنِ أَوْسٍ: کُنْتُ فِي غَنَمٍ لِي، فَکَلَّمَهُ الذِّئْبُ، فَأَتَی النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم فَأَسْلَمَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.

حضرت اُھبان بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں اپنی بکریوں کے پاس تھا کہ ایک بھیڑیا آیا اور اس نے مجھ سے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نبوت کے متعلق) کلام کیا۔ پس وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کر لیا۔

أخرجه البخاري في التاريخ الکبير، 2 /44، الرقم: 1633، والعسقلاني في فتح الباری، 7 /452، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 /44
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت شمر بن عطیہ، مزینہ یا جہینہ کے ایک آدمی سے روایت بیان کرتے ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نمازِ فجر ادا فرمائی۔ اچانک تقریباً ایک سو بھیڑئیے پچھلی ٹانگوں کو زمین پر پھیلا کر اور اگلی ٹانگوں کو اٹھائے ہوئے اپنی سرینوں پر بیٹھے ہوئے (باقی) بھیڑیوں کے قاصد بن کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: (اے گروہ صحابہ!) تم اپنے کھانے پینے کی اشیاء میں سے تھوڑا بہت ان کا حصہ بھی نکالا کرو اور باقی ماندہ کھانے کو (ان بھیڑیوں سے) محفوظ کر لیا کرو۔ پھر انہوں (بھیڑیوں) نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اپنی کسی حاجت کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: انہیں اجازت دو۔ راوی بیان کرتے ہیں انہوں نے ان (بھیڑیوں) کو اجازت دی پھر وہ تھوڑی دیر بعد اپنی مخصوص آواز نکالتے ہوئے چل دیے۔

أخرجه الدارمي في السنن، 1 /25، الرقم: 22، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 4: 376.
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک بھیڑیا آیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا اور اپنی دم ہلانے لگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: یہ بھیڑیا دیگر بھیڑیوں کا نمائندہ بن کر تمہارے پاس آیا ہے۔ کیا تم ان کے لئے اپنے مال سے کچھ حصہ مقرر کرتے ہو؟ صحابہ کرام نے بیک زبان کہا: خدا کی قسم! ہم ایسا نہیں کریں گے۔ ایک شخص نے پتھر اٹھایا اور اس بھیڑئیے کو دے مارا۔ بھیڑیا مڑا اور غراتا ہوا بھاگ گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: واہ کیا بھیڑیا تھا، واہ کیا بھیڑیا تھا۔

أخرجه ابن راهويه في المسند، 1 /269، الرقم: 239، البيهقي في دلائل النبوة، 6 /40، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 /292، وابن کثير في شمائل الرسول: 344،وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 /359.
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت مطلب بن عبد اﷲ بن حنطب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مدینہ منورہ میں اپنے اصحاب کے درمیان جلوہ افروز تھے کہ اچانک ایک بھیڑیا ادھر آیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اپنی مخصوص آواز میں کچھ کہنے لگا۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: یہ تمہاری طرف درندوں کا نمائندہ بن کر آیا ہے۔ اگر تم پسند کرو تو (اپنے مویشیوں میں سے) ان کے لیے کوئی حصہ مقرر کر دو تاکہ یہ اس (مقرر کردہ) حصے کے علاوہ کسی اور(مویشی) کی طرف نہ بڑھیں، اور اگر تم چاہو تو تم انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو اور اس سے کنارہ کشی کر لو۔ پھر یہ جو جانور پکڑ لیں گے وہ ان کا رزق ہو گا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس (بھیڑیے کو) کچھ دینے پر ہمارے دل رضامند نہیں ہوتے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی مبارک انگلیوں سے اس کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ ان سے اپنا حصہ چھین لیا کرے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ غصہ سے پیچ و تاب کھاتا ہوا واپس چلا گیا۔

أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 1 /359، وابن کثير في شمائل الرسول: 344، 345.
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں غزوہ تبوک میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ میں اپنی بکریوں کی رکھوالی کر رہا تھا کہ ایک بھیڑیا آیا اور ان میں سے ایک بکری کو اٹھا کرلے گیا۔ چرواہوں نے اس کا پیچھا کیا۔ اس نے کہا: یہ میرا کھانا ہے جو مجھے اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے۔ تم مجھ سے یہ چھین رہے ہو؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ یہ سن کر لوگ مبہوت ہوگئے۔ اس نے کہا: تم بھیڑئیے کے کلام کرنے پر تعجب کا اظہار کر رہے ہو جبکہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر وحی کا نزول ہوا ہے تو کون ہے جو ان کی تصدیق کرتا ہے اور کون ہے جو انہیں جھٹلاتا ہے۔

أخرجه ابن کثير في شمائل الرسول: 342، والعيني في عمدة القاري، 12 /160، الرقم: 4232.
----------------------------------------------------------------------------------
حضرت حمزہ بن ابی عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم انصار میں سے کسی آدمی کے جنازہ کے لیے جنت البقیع کی طرف تشریف لے گئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اچانک دیکھا کہ ایک بھیڑیا اپنے بازو پھیلائے راستے میں بیٹھا ہوا ہے۔ (اسے دیکھ کر) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: یہ بھیڑیا (تم سے اپنا) حصہ مانگ رہا ہے پس اسے اس کا حصہ دو۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! (اس کے حصہ کے بارے میں) ہم آپ کی رائے جاننا چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ہر سال ہر چرنے والے جانور کے بدلہ میں ایک بھیڑ۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ زیادہ ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھیڑئیے کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ ان سے اپنا حصہ چھین لیا کرے۔ پس (یہ سننے کے بعد) بھیڑیا چل دیا۔

حافظ ابن عدی کہتے ہیں: ’’ہمیں ابو بکر بن ابی داود نے بتایا کہ اس چرواہے کی اولاد کو ’’مکلم الذئب (بھیڑئیے سے کلام کرنے والا) کی اولاد کہا جاتا تھا۔ ان کے پاس بہت سا مال و اسباب تھا۔ اور ان کا تعلق خزاعہ قبیلہ سے تھا اور بھیڑئیے سے کلام کرنے والے شخص کا نام اُہْبَان تھا۔ اور انہوں نے کہا کہ محمد بن اشعث خزاعی ان کی اولاد میں سے تھے۔

أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 6 /40، وابن کثير في البدية والنهية، 6 /146، وفي شمائل الرسول: 343، 344، والسيوطي في الخصائص الکبری، 2 /62.
----------------------------------------------------------------------------------
ابن وہب نے بھی اسی کی مثل حدیث روایت کی ہے کہ ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ کا بھی بھیڑیے کے ساتھ اسی طرح کا واقعہ پیش آیا۔ ان دونوں نے دیکھا کہ ایک بھیڑیا ایک ہرن کو پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ پس ہرن حرم میں داخل ہو گیا تو بھیڑیا واپس مڑ گیا (اور حرم میں داخل نہیں ہوا)۔ اس پر ان دونوں نے اس سے بڑا تعجب کیا۔ بھیڑیے نے کہا اس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ محمد بن عبد اﷲ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) مدینہ میں تمہیں جنت کی طرف بلا رہے ہیں اور تم انہیں دوزخ کی طرف بلاتے ہو۔ اس پر ابو سفیان نے کہا: لات و عزّی کی قسم، اگر تویہ بات مکہ میں کہتا تو ضرور مکہ والوں کو خالی گھروں والا کردیتا (یعنی وہ یہ معجزہ دیکھ کر مدینہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں چلے جاتے)۔

أخرجه القاضي عياض في الشفاء: 379، وابن کثير في شمائل الرسول: 345

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔