نبی اکرم نور مجسّم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ درختوں کی محبت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭.
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: مجھے کیسے علم ہوگا کہ آپ نبی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اگر میں کھجور کے اس درخت کے اس گچھے کو بلاؤں تو کیا تو گواہی دے گا کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے بلایا تو وہ درخت سے اترنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قدموں میں آگرا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: واپس چلے جاؤ۔ تو وہ واپس چلا گیا۔ اس اعرابی نے یہ دیکھ کر اسلام قبول کرلیا۔
اس حدیث کو امام ترمذی، حاکم طبرانی اور بخاری نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے اور امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور امام حاکم بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب، باب: في آيات إثبات نبوة النبي صلي الله عليه واله وسلم وما قد خصه اﷲ، 5 / 594، الرقم: 3628، والبخاري في التاريخ الکبير، 3 /3، الرقم: 6، والحاکم في المستدرک علی الصحيحين، 2 /676، الرقم: 4237، والطبراني في المعجم الکبير، 12 /110، الرقم: 12622، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9 /538، 539، الرقم: 527، والبيهقي في الاعتقاد، 1 /48.
-----------------------------------------------------------------------------------------
عَنْ يَعْلَی بْنِ سِيَابَةَ رضی الله عنه قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم فِي مَسِيْرٍ لَهُ، فَأَرَادَ أَنْ يَقْضِيَ حَاجَةً، فَأَمَرَ وَدْيَتَيْنِ فَانْضَمَّتْ إِحْدَاهُمَا إِلَی الْأُخْرَی، ثُمَّ أَمَرَهُمَا فَرَجَعَتَا إِلَی مَنَابَتِهِمَا. رَوَاهُ أَحْمَدَُ.
حضرت یعلی بن سیابہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں ایک سفر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک جگہ قضائے حاجت کا ارادہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کھجور کے درختوں کو حکم دیا۔ وہ آپ کے حکم سے ایک دوسرے سے مل گئے (اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے پردہ بن گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کے پیچھے قضائے حاجت فرمائی)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں دوبارہ حکم دیا تو وہ اپنی اپنی جگہ پر واپس چلے گئے۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 /172، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 /6.
-----------------------------------------------------------------------------------------
عَنْ يَعْلَی بْنِ مُرَّةَ الثَّقَفِيِّ رضی الله عنه قَالَ: ثُمَّ سِرْنَا فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا، فَنَامَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم ، فَجَاءَتْ شَجَرَهٌ تَشُقُّ الْأَرْضَ حَتَّی غَشِيَتْهُ، ثُمَّ رَجَعَتْ إِلَی مَکَانِهَا. فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ ذَکَرْتُ لَهُ، فَقَالَ: هِيَ شَجَرَةٌ اسْتَأْذَنَتْ رَبَّهَا ل أَنْ تُسَلِّمَ عَلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَأَذِنَ لَهَا. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.
حضرت یعلی بن مروہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم روانہ ہوئے اور ہم نے ایک جگہ پڑائو کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم وہاں محو استراحت ہو گئے۔ اتنے میں ایک درخت زمین کو چیرتا ہوا آیا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر سایہ فگن ہو گیا پھر کچھ دیر بعد وہ واپس اپنی جگہ پر چلا گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بیدار ہوئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اس واقعہ کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس درخت نے اپنے رب سے اجازت طلب کی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول کی بارگاہ میں سلام عرض کرے، پس اس نے اسے اجازت دے دی۔
اس حدیث کو امام احمد اور ابونعیم نے روایت کیا ہے۔
خرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 /170، 173، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1 /158، الرقم: 184، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 /144، الرقم: 3430، الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 /5.
-----------------------------------------------------------------------------------------
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں: قبیلہ بنو عامر کا ایک شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس آیا۔ وہ شخص علاج معالجہ کرنے والا (حکیم) دکھائی دیتا تھا۔ پس اس نے کہا: اے محمد! آپ بہت سی (نئی) چیزیں (امورِ دین میں سے) بیان کرتے ہیں۔ (پھر اس نے ازراہ تمسخر کہا:) کیا آپ کو اس چیز کی حاجت ہے کہ میں آپ کا علاج کروں؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے اللہ کے دین کی دعوت دی پھر فرمایا: کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں کوئی معجزہ دکھاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس کھجور اور کچھ اور درخت تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کھجور کی ایک شاخوں والی ٹہنی کواپنی طرف بلایا، وہ ٹہنی (کھجور سے جدا ہو کر) آپ کی طرف سجدہ کرتے اور سر اٹھاتے، سجدہ کرتے اور پھر سر اٹھاتے ہوئے بڑھی یہاں تک کہ آپ کے قریب پہنچ گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ وہ اپنی جگہ واپس چلی جائے۔ (یہ واقع دیکھ کر) قبیلہ بنو عامر کے اس شخص نے کہا: خدا کی قسم! میں کبھی بھی کسی شے میں بھی آپ کی تکذیب نہیں کروں گا جو آپ فرماتے ہیں۔ پھر اس نے برملا اعلان کرکے کہا: اے آلِ عامر بن صعصعہ! اللہ کی قسم! میں انہیں (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو) آئندہ کسی چیز میں نہیں جھٹلاؤں گا۔
أخرجه ابن حبان في الصحيح، 14 /454، الرقم: 6523، وأبو يعلی في المسند، 4 /237، الرقم: 2350، والطبراني في المعجم الکبير، 12 /100، الرقم: 12595، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 2 / 506، والهيثمي في موارد الظمان، 1 /520، الرقم: 2111، وفي مجمع الزوائد، 9 /10.
-----------------------------------------------------------------------------------------
حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ (ایک غزوہ) کے سفر پر روانہ ہوئے یہاں تک کہ ہم ایک کشادہ وادی میں پہنچے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم رفع حاجت کے لئے تشریف لے گئے۔ میں پانی وغیرہ لے کر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیچھے گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے (اردگرد) دیکھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو پردہ کے لئے کوئی چیز نظر نہ آئی، وادی کے کنارے دو درخت تھے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان میں سے ایک درخت کے پاس گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کی شاخوںمیں سے ایک شاخ پکڑی اور فرمایا: اللہ تعالیٰ کے حکم سے میری اطاعت کر۔ وہ درخت اس اونٹ کی طرح آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمانبردار ہوگیا جس کی ناک میں نکیل ہو اور وہ اپنے ہانکنے والے کے تابع ہوتا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم دوسرے درخت کے پاس گئے اور اس کی شاخوں میں سے ایک شاخ پکڑ کر فرمایا: اللہ کے اذن سے میری اطاعت کر، وہ درخت بھی پہلے درخت کی طرح آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے تابع ہو گیا یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم دونوں درختوں کے درمیان پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان دونوں درختوں کو ملا دیا اور فرمایا: اللہ کے اذن سے جڑ جاؤ، سو وہ دونوں درخت جڑ گئے۔ میں وہاں بیٹھا اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا، میں نے اچانک دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لا رہے ہیں اور وہ دونوں درخت اپنے اپنے سابقہ اصل مقام پر کھڑے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے جابر! تم نے وہ مقام دیکھا تھا جہاں میں کھڑا تھا۔ میں نے عرض کیا: جی! یا رسول اﷲ! فرمایا: ان دونوں درختوں کے پاس جاؤ اور ان میں سے ہر ایک کی ایک ایک شاخ کاٹ کر لاؤ اور جب اس جگہ پہنچو جہاں میں کھڑا تھا تو ایک شاخ اپنی دائیں جانب اور ایک شاخ اپنی بائیں جانب ڈال دینا۔ حضرت جابر کہتے ہیں کہ میں نے کھڑے ہو کر ایک پتھر توڑا اور تیز کیا، پھر میں ان درختوں کے پاس گیا اور ہر ایک سے ایک شاخ توڑی، پھر میں انہیں گھسیٹ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کھڑے ہونے کی جگہ لایا اس جگہ ایک شاخ دائیں جانب اور ایک شاخ بائیں جانب ڈال دی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے آپ کے حکم پر عمل کر دیا ہے۔ مگر اس عمل کا سبب کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں اس جگہ دو قبروں کے پاس سے گزرا جن میں قبر والوں کو عذاب ہو رہا تھا، میں نے چاہا کہ میری شفاعت کے سبب جب تک وہ شاخیں سرسبز و تازہ رہیں ان کے عذاب میں کمی رہے۔
أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب: الزهد والرقائق، باب: حديث جابر الطويل، وقصة أبي اليَسَر، 4 /2306، الرقم: 3012، وابن حبان فی الصحيح، 14 /455. 456، الرقم: 6524، والبيهقی فی السنن الکبری، 1 /94، الرقم: 452، والأصبهاني فی دلائل النبوة، 1 /53.55، الرقم: 37، وابن عبد البر فی التمهيد، 1 /222، والخطيب التبريزی فی مشکاة المصابيح، 2 /383، الرقم: 5885.
-----------------------------------------------------------------------------------------
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم بِمَکَّةَ، فَخَرَجْنَا فِي بَعْضِ نَوَاحِيْهَا، فَمَا اسْتَقْبَلَهُ جَبَلٌ وَلَا شَجَرٌ إِلَّا وَهُوَ يَقُوْلُ: اَلسَّـلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَالْحَاکِمُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں مکہ مکرمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ ہم مکہ مکرمہ کی ایک طرف چلے تو جو پہاڑ اور درخت بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے آتا (وہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے) عرض کرتا: {اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ}۔
اس حدیث کو امام ترمذی، دارمی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے اس کو حسن کہا ہے جبکہ حاکم نے کہا ہے کہ یہ صحیح الاسناد ہے۔
أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب: المناقب، باب: (6)، 5 /593، الرقم: 3626، والدارمی فی السنن، (4) باب: ما أکرم اﷲ به نبيه من إيمان الشجر به والبهائم والجن، 1 /31، الرقم: 21، والحاکم فی المستدرک، 2 /677، الرقم: 4238، والمقدسی فی الأحاديث المختارة، 2 /134، الرقم: 502، والمنذری فی الترغيب والترهيب، 2 /150، الرقم: 1880، والمزي فی تهذيب الکمال، 14 /175، الرقم: 3103، والجرجانی فی تاريخ جرجان، 1 /329، الرقم: 600.
-----------------------------------------------------------------------------------------
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو طالب روسائے قریش کے ہمراہ شام کے سفر پر روانہ ہوئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ جب راہب کے پاس پہنچے وہ سواریوں سے اترے اور انہوں نے اپنے کجاوے کھول دیئے۔ راہب ان کی طرف آنکلا حالانکہ (روسائے قریش) اس سے قبل بھی اس کے پاس سے گزرا کرتے تھے لیکن وہ ان کے پاس نہیں آتا تھا اور نہ ہی ان کی طرف کوئی توجہ کرتا تھا۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ ابھی کجاوے کھول ہی رہے تھے کہ وہ راہب ان کے درمیان چلنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قریب پہنچا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دستِ اقدس پکڑ کر کہا: یہ تمام جہانوں کے سردار اور رب العالمین کے رسول ہیں۔ اﷲ تعالیٰ انہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث فرمائے گا۔ روسائے قریش نے اس سے پوچھا آپ یہ سب کیسے جانتے ہیں؟ اس نے کہا: جب تم لوگ گھاٹی سے نمودار ہوئے تو کوئی پتھر اور درخت ایسا نہیں تھا جو سجدہ میں نہ گر پڑا ہو۔ اور وہ صرف نبی ہی کو سجدہ کرتے ہیں نیز میں انہیں مہر نبوت سے بھی پہچانتا ہوں جو ان کے کاندھے کی ہڈی کے نیچے سیب کی مثل ہے۔ پھر وہ واپس چلا گیا اور اس نے ان لوگوں کے لئے کھانا تیار کیا۔ جب وہ کھانا لے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اونٹوں کی چراگاہ میں تھے۔ راہب نے کہا انہیں بلا لو۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے تو آپ کے سرِ انور پر بادل سایہ فگن تھا اور جب آپ لوگوں کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ تمام لوگ (پہلے سے ہی) درخت کے سایہ میں پہنچ چکے ہیں لیکن جیسے ہی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف فرما ہوئے تو سایہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف جھک گیا۔ راہب نے کہا: درخت کے سائے کو دیکھو وہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر جھک گیا ہے۔ پھر راہب نے کہا: میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ ان کا سرپرست کون ہے؟ انہوں نے کہا ابوطالب! چنانچہ وہ حضرت ابوطالب کو مسلسل واسطہ دیتا رہا (کہ انہیں واپس بھیج دیں) یہاں تک کہ حضرت ابوطالب نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو واپس (مکہ مکرمہ) بھجوا دیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کے ہمراہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور راہب نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ زادِ راہ کے طور پر کیک اور زیتون پیش کیا۔
أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب: المناقب، باب: ما جاء فی نبوة النبي صلی الله عليه واله وسلم ، 5 /590، الرقم: 3620، وابن أبی شيبة فی المصنف، 6 /317، الرقم: 31733، 36541، وابن حبان فی الثقات، 1 /42، والأصبهانی فی دلائل النبوة، 1 /45، الرقم: 19، والطبری فی تاريخ الأمم والملوک، 1 /519.
-----------------------------------------------------------------------------------------
عَنْ يَعْلَی بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم فِي سَفَرٍ فَأَرَادَ أَنْ يَقْضِيَ حَاجَتَهُ فَقَالَ لِي: ائْتِ تِلْکَ الْأَشَائَتَيْنِ قَالَ وَکِيْعٌ: يَعْنِي النَّخْلَ الصِّغَارَ فَقُلْ لَهُمَا إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَأْمُرُکُمَا أَنْ تَجْتَمِعَا فَاجْتَمَعَتَا فَاسْتَتَرَ بِهِمَا فَقَضَی حَاجَتَهُ ثُمَّ قَالَ لِي: ائْتِهِمَا فَقُلْ لَهُمَا لِتَرْجِعْ کُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْکُمَا إِلَی مَکَانِهَا فَقُلْتُ لَهُمَا: فَرَجَعَتَا.رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
یعلی بن مرہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک سفر کے دوران میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حاجت کے لیے جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو مجھ سے فرمایا: ان دو درختوں کو بلا لاؤ ۔وکیع فرماتے ہیں کہ چھوٹے کھجور کے درختوں کو۔ مرہ کہتے ہیں کہ میں ان کے پاس گیا اور ان سے کہا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حکم دیتے ہیں کہ ایک جگہ جمع ہو جاؤ۔ وہ دونوں جمع ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کے ذریعہ پردہ فرمایا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حاجت سے فارغ ہوئے تو مجھ سے فرمایا: جاؤ ان دونوں سے کہو کہ اپنی جگہ پر لوٹ جائیں، میں نے ان سے جاکر کہا وہ اپنی جگہ واپس چلے گئے۔
أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب: الطهارة، باب: الارتياد للغائط والبول، 1 /122، الرقم: 339، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 /321، الرقم: 31753، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 /170، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 /5، والکناني في مصباح الزوجة، 1 /50.
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ
حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment