مہمان اور میزبان سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے آئینے میں
ہر انسان کی زندگی میں ایسے مواقع آتے رہتے ہیں کہ وہ کبھی مہمان بنتا ہے اور کبھی میزبان ۔ ان دونوں حالتوں میں اخلاق و محبت اور ظرف کی وسعت بہ قدر حیثیت لازمی ہے ۔مہمان کے آنے پر خوشی اور محبت کا اظہار اور عزت و احترام کے ساتھ اس کا استقبال سب سے پہلی چیز ہے اس کے بعد حسب حیثیت ان کے لئے کھانے پینے ، رہنے سہنے وغیرہ کے انتظامات ضروری ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے خود بھی اس پر عمل کیا ۔ اور دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دی ۔ ان میں سے کچھ قارئین کے نذر کیا جاتا ہے ، پڑھئے اور عمل کیجئے ۔
حضرت ابو شریح رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ : میری ان دونوں آنکھوں نے دیکھا اور دونوں کانوں نے سنا کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم یہ ہدایت دے رہے تھے کہ:جو لوگ اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں انہیں اپنے مہمانوں کی عزت اور ان کی خاطر تواضع کر نی چاہئے ۔مہمان کے انعام کا موقع پہلا شب و روز ہے۔(یعنی پہلے دن اور رات میں میز بان اورمہمان میں انعام لینے والے اور دینے والے جیسی مسرت و شادمانی اور جذبات محبت کا بھر پور اظہار ہونا چاہئے ) ۔ (بخاری ،حدیث:۶۱۳۵)
حضرت ابو شریح کعبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے ارشاد فر مایا : جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمانوں کی عزت کرے ۔ ایک دن اور رات اس کا جائزہ ہے (یعنی ایک دن رات اس کی پوری خاطر داری کرے ، اپنے مقدور بھر اس کے لئے پر تکلف کھانا تیار کرائے ) اور ضیافت تین دن ہے (یعنی ایک دن کے بعد جو ہے وہی پیش کرے تکلف کی ضرورت نہیں ) اور تین دن کے بعد صدقہ ہے ۔ مہمان کے لئے جائز نہیں کہ اس کے یہاں ٹھہرا رہے کہ اسے حرج میں ڈال دے ۔ (بخاری ،حدیث:۶۱۳۶)
اس حدیث شریف میں پہلے دن خوب اچھا کھانا کھلانے کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنی طاقت سے زیادہ تکلفات کرے ۔ کیو نکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے خود ارشاد فر مایا کہ : جب تمہارے پاس کوئی مہمان آئے تو اس کے لئے اپنی طاقت سے بڑھ کر تکلف نہ کرو بلکہ جو تمہارے پاس ہو وہی پیش کرو ۔ اور اس سے مسکراتے چہرے کے ساتھ ملاقات کرو ۔ کیونکہ اگر تم نے اپنی طاقت سے زیادہ تکلف برتا تو ہو سکتا ہے کہ تم اس کے چہرے میں ناگواری محسوس کرو ۔ (شعب الایمان۔حدیث:۹۱۶۵،چشتی)
حضرت ابو الاحوص جشمی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ : میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم یہ فر مایئے کہ میں ایک شخص کے یہاں گیا اس نے میری مہمانی نہیں کی اب وہ میرے پاس آئے تو میں اس کی مہمانی کروں یا اس کا بدلہ دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : تم اس کی مہمانی کرو ۔ (ترمذی،حدیث:۲۰۰۶)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے حضرت جبرئیل سے دریافت کیا کہ : اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا دوست کس وجہ سے بنا لیا۔انہوں نے کہا کہ : کھانا کھلانے کی وجہ سے ۔ (شعب الایمان، حدیث: ۹۱۷۱ )
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ : مہمان کو ناپسند نہ کرو ، جو شخص مہمان کو ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس شخص کو ناپسند کرتا ہے ۔ (شرح صحیح مسلم مصنفہ علامہ غلام رسول سعیدی ،جلد اول،صفحہ:۴۵۷)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے ارشاد فر مایا کہ:بے شک فر شتے تم میں سے ہر اس شخص کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں جب تک کہ اس کا دستر خوان بچھا رہتا ہے ۔
(شعب الایمان،حدیث:۹۱۷۹،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فر مایا کہ : تم اپنے مہمان کے ساتھ کھانا کھائو کیونکہ مہمان اکیلے کھانے سے شرما تا ہے ۔ (شعب الایمان۔حدیث:۹۱۸۶)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا:اچھا طریقہ یہ ہے کہ مہمان کو دروازہ تک رخصت کرنے جائے ۔ (ابن ماجہ۔شعب الایمان،حدیث:۹۲۰۲)
یہ مہمان نوازی صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اگر کوئی کافر بھی دروازے پر آجائے تو اس کی ضیافت کرنی چاہئے اور اسے پیٹ بھر کھلانا پلانا چاہئے ۔ چنا نچہ حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے پاس ایک مہمان آیا ، وہ شخص کا فر تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے اس کے لئے ایک بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا ، اس نے وہ دودھ پی لیا ، پھر دوسری بکری کا دودھ دوھنے کا حکم دیا اس نے اس کو بھی پی لیا حتی کہ اس نے اسی طرح سات بکریوں کا دودھ پی گیا ، پھر صبح کو وہ اسلام لے آیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے ان کے لئے ایک بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا انہوں نے وہ دودھ پی لیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے پھر دوسری بکری کا دودھ دوھنے کا حکم دیا ، وہ دوسری بکری کا سارا دودھ نہ پی سکے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فر مایا : مومن ایک آنت میں پیتا ہے اور کا فر سات آنتوں میں پیتا ہے ۔ (مسلم،کتاب الاشربہ،حدیث:۲۰۶۳)
بلکہ اسلام میں یہاں تک سکھایا گیا کہ اگر تمہارے پاس کوئی مہمان آجائے چاہے وہ کسی بھی قوم کا رہنے والا ہو اور تمہارے پاس تمہارے اپنے بچوں کے کھانے کے سوا اور کچھ نہ ہو اس حالت میں بھی مہمان نوازی کرنی چا ہئے ۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی خدمت میں آکر کہا کہ : میں فاقہ سے ہوں (یعنی کئی دن سے صحیح سے کھانا نہیں ملا ہے) آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے اپنی کسی زوجہ کی طرف پیغام بھیجا ، انہوں نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ، میرے پاس پانی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے دوسری زوجہ کے پاس پیغام بھیجا انہوں نے بھی اسی طرح کہا حتی کہ سب نے یہی کہا : کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ، میرے پاس پانی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ آخر کار آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فر مایا : جو شخص آج رات اس کو مہمان بنائے گا ، اللہ تعالیٰ اس پر رحم فر مائے گا ، انصار میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا کہ : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم اس کو میں مہمان بناؤں گا ، وہ صحابی اس مہمان کو اپنے گھر لے گئے اور انہوں نے بیوی سے پوچھا کہ : تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے ؟ بیوی نے کہا : صرف بچوں کا کھانا ہے ۔ انہوں نے کہا : بچوں کو کسی چیز سے بہلادو ، جب ہمارا مہمان آئے تو چراغ بجھا دینا اور اس پر یہ ظا ہر کرنا کہ ہم بھی کھا رہے ہیں (نہیں تو، وہ ہماری غربت دیکھ کرپیٹ بھر نہیں کھا سکے گا اور ہمیں بھی اس کھانے میں شریک کرنے کی کوشش کرے گا) جب وہ کھانا کھانے لگے تو تم چراغ کے پاس جا کر اس کو بجھا دینا ، پھر وہ سب بیٹھ گئے اور مہمان نے (اس طر ح سے پیٹ بھر) کھانا کھا لیا ۔ جب صبح کو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے پاس پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فر مایا : تم نے مہمان کے ساتھ جو حسن سلوک کیا اللہ تعالیٰ اس پر بہت خوش ہوا ۔ (مسلم،کتاب الاشربہ،باب اکرام الضیف و فضل ایثا رہ،حدیث:۲۰۵۴،چشتی)
اسی طرح ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے پاس ایک مہمان آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے ایک یہودی کے پاس اپنی زرہ رہن (یعنی گروی) رکھ کر اس کی ضیافت فر مائی ۔ (شرح صحیح مسلم ،جلد اول ،ص:۴۵۷)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے کبھی کسی مہمان کو خالی جانے نہ دیا اور اپنی امت کو بھی یہی درس دیا اور ساتھ ہی ان کو یہ بھی سکھایا کہ جب تم کسی کے مہمان بنو تو اپنے کسی بھی عمل اور حر کت سے میزبان کو تکلیف کا احسا س نہ ہونے دو کیو نکہ نا شا ئستہ حرکات زحمت کا باعث بنتی ہیں اور اس سے با ہمی محبت کا جذبہ کم ہوتے ہوتے مہمانی صرف ایک رسم بن کر رہ جاتی ہے ۔ پھر معاشرہ تباہ کن صورت حال سے دوچار ہونے لگتا ہے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)