اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم کی محبت ایما ن کی حفاظت کا ذریعہ
اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہمیں دولتِ ایمان ونعمتِ اسلام سے سرفراز فرمایا ،آپ نے ہمیں اسلام کے احکام بتلائے ،قرآنی آیات سکھائیں،دین کی تمام تر تفصیلات بتلادیں لیکن آپ نے اسلام کی تبلیغ پر اور احکام کو پہنچانے کے لئے ہم سے کوئی بدلہ وعوض نہ چاہاالبتہ اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم سے محبت کا حکم فرمایاٗجیساکہ ارشاد الٰہی ہے : ترجمہ : اے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم آپ فرما دیجئے ! میں تم سے اس پر کچھ اجر نہیں چاہتا ہوں بجز قرابت داروں کی محبت کے ۔ (سورہ شوریٰ:23)
عطائے ایمان اور بقائے ایمان‘دونوں کے لئے اہل بیت کرام کی محبت ضرورہے
سنن ابن ماجہ اور جامع ترمذی میںحدیث شریف ہے،حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! کسی شخص کے دل میں ایمان داخل ہی نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ تم (اہل بیت) سے اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر محبت نہ کرے۔ سنن ابن ما جہ کی روایت میںیہ الفاظ ہیں: جب تک کہ وہ ان (اہل بیت) سے اللہ کی خاطر اور میری قرابت کی وجہ سے محبت نہ کرے ۔ (جامع الترمذی ،حدیث نمبر : 4125۔ سنن ابن ماجہ ،حدیث نمبر:145،چشتی)
حجۃ الوداع کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں تم میں دوعظیم ترین نعمتیں چھوڑے جارہا ہوں: ان میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے‘ جس میں ہدایت اور نور ہے، پس تم اللہ کی کتاب کو تھام لو، اور مضبوطی سے پکڑے رہو! اس کے بعد قرآن کریم کے بارے میں تلقین فرمائی اوراس کی طرف ترغیب دلائی پھر ارشادفرمایا : (دوسری نعمت) اہل بیت کرام ہے۔ میں تمھیں اللہ کی یاد دلاتا ہوں میرے اہل بیت کے بارے میں، میں تمھیں اللہ کی یاد دلاتا ہوں میرے اہل بیت کے بارے میں، میں تمھیں اللہ کی یاد دلاتا ہوں میرے اہل بیت کے بارے میں ۔ (صحیح مسلم،حدیث نمبر6378،چشتی)
یہ وہ باعظمت گھرانہ ہے کہ جن پر افضل العبادات’نماز‘میں درود پڑھا جاتاہے،نماز میں درود ابراہیمی مقرر کیا گیاہے ،جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر درود پڑھا جاتاہے ۔ سنن دارقطنی میں حدیث شریف ہے:جو شخص ایسی نماز پڑھتاہے کہ جس میں مجھ پر اور میری آل پر درود نہ پڑھے اس کی نماز قبول نہیں کی جاتی ۔ (سنن الدارقطنی‘حدیث نمبر1359،چشتی)
حضرت فارُوقِ اعظم کی حضرت امامِ حُسین سے سے محبت رضی اللہ عنہما
حضرت امامِ حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں ایک دن حضرت عمر فارُوقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے گھر گیا ، مگر آپ رضی اللہ عنہ حضرت امیر مُعاوِیہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ علیحدگی میں مصروفِ گفتگو تھے اور آپ رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت عبدُ اللہ رضی اللہ عنہ دروازے پر کھڑے اِنتظار کر رہے تھے ۔ کچھ دیر انتظار کے بعد وہ واپس لوٹنے لگے تو ان کے ساتھ ہی میں بھی واپس لوٹ آیا ۔ بعد میں حضرت عمر فارُوقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے میری مُلاقات ہوئی تو میں نے عرض کی : اے اَمِیْرُالْمُومنین ! میں آپ کے پاس آیا تھا ، مگر آپ حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مَصْروفِ گفتگو تھے ۔ آپ کے بیٹے عبدُ اللہ رضی اللہ عنہ بھی باہر کھڑے انتظار کر رہے تھے ( میں نے سوچا جب بیٹے کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے ، مجھے کیسے ہوسکتی ہے ) لہٰذا میں ان کے ساتھ ہی واپس چلا گیا ۔ تو فارُوْقِ اَعْظَم رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے میرے بیٹے حسین رضی اللہ عنہ میری اَوْلاد سے زِیادہ ، آپ رضی اللہ عنہ اس بات کے حق دار ہیں کہ آپ اَندر آجائیں اور ہمارے سروں پر یہ جو بال ہیں ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بعد کس نے اُگائے ہیں ، تم سادات ِکرام رضی اللہ عنہم نے ہی تو اُگائے ہیں ۔ (تاریخِ ابن عساکر،ج ۱۴،ص۱۷۵،چشتی)
امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور محبتِ اہلِ بیت
سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں جتنے آئمہ اہل بیت حیات تھے، آپ ان میں سے ہر ایک کے شاگرد بنے۔ خود کو حنفی کہلانے والے امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی اہل بیت اطہار کے ساتھ محبت کو دیکھیں کہ حنفیت میں کتنی مؤدتِ اہل بیت موجود ہے ۔ امام ابن ابی حاتم، امام مزی (تہـذیب الکمال)، امام ذہبی، علامہ عسقلانی، امام سیوطی اور دیگر آئمہ نے بیان کیا کہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے امام محمد الباقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کئے ۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے مناقب پر سب سے عظیم کتاب ’’مناقب امام ابی حنیفہ‘‘ (امام موفق بن احمد المکی) میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مبارک روایت کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جب مدینہ گئے تو سیدنا امام محمد الباقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا : فَاِنَّ لَکَ عِنْدِی حُرْمَةً کَحُرْمَةِ جَدِّکَ صلیٰ الله عليه وآله وسلم فِيْ حَيَاتِهِ عَلٰی اَصْحَابِهِ .
ترجمہ : آپ کی حرمت اور تعظیم و تکریم میرے اوپر اس طرح واجب ہے جس طرح صحابہ کرام پر تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم واجب تھی ۔
یعنی جو تعظیم و تکریم صحابہ کرام آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کیا کرتے تھے، میں اسی طرح وہ تعظیم آپ کی کرتا ہوں چونکہ آپ کی حرمت و تعظیم اور محبت اور مؤدت میں مجھے حرمت و تعظیم اور مؤدت و محبتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمنظر آتی ہے ۔ (المناقب للموفق المکی صفحہ 168،چشتی)
حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو امام محمد جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ امام ابن المکی ’’مناقب ابوحنیفہ‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جب سیدنا امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوفہ تشریف لائے اور سیدنا امام ابوحنیفہ کو آپ کی آمد کا پتہ چلا تو آپ اپنے بہت سے اکابر تلامذہ کو لے کر سیدنا امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں زیارت و علمی استفادہ کے لئے حاضر ہوئے۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ آپ کی مجلس میں ادب و احترام سے پاؤں اور گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔ گھٹنوں کے بل بیٹھنے کا یہ خاص طریقہ کسی کا خوف، ہیبت اور کمال درجے کا ادب و احترام طاری ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ آپ کے شاگردوں نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو اس طرح بیٹھے دیکھا تو سارے اسی طرح گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے ۔
امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب دیکھا کہ سارے لوگوں نے اپنے بیٹھنے کا طریقِ نشست بدل لیا ہے اور اس شخص کی طرح سارے بیٹھ گئے ہیں تو آپ نے ان سے پوچھا یہ کون ہیں جن کی تم سب اتنی تعظیم و توقیر کررہے ہو کہ جس طرح انہیں میرے سامنے بیٹھتے ہوئے دیکھا تم ساروں نے اپنی ہئیت اور طریقہ بدل لیا؟ انہوں نے کہا: یہ ’’ہمارے استاد ابوحنیفہ ہیں ۔ یہ امام اعظم رضی اللہ عنہ کی حضرت امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ پہلی ملاقات تھی ۔ بعد ازاں امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے علمی و فکری استفادہ کیا۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد امام حسن بن زیاد لولؤی روایت کرتے ہیں : سَمِعْتُ اَبَا حَنِيْفَهَ وَسُئِلَ مَنْ اَفْقَهَ مَنْ رَايْتَ ؟
ترجمہ : امام ابوحنیفہ سے پوچھا گیا کہ اس پوری روئے زمین پر جتنے اکابر آئمہ علماء کو آج تک آپ نے دیکھا سب سے زیادہ فقیہ کس کو پایا ؟ آپ نے جواب دیا : مَارَاَيْتُ اَفْقَهَ مِنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمّد الصَّادِق .
ترجمہ : میں نے روئے زمین پر امام جعفر محمد الصادق رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی فقیہ نہیں دیکھا ۔
علاوہ ازیں سیدنا امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو درج ذیل آئمہ اہل بیت اطہار کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے کا اعزاز حاصل ہوا :
امام زید بن علی (یعنی امام زین العابدین کے بیٹے اور امام حسین کے پوتے)
امام عبداللہ بن علی (یعنی امام زین العابدین کے بیٹے اور سیدنا امام حسین کے پوتے)
امام عبداللہ بن حسن المثنیٰ (امام عبداللہ الکامل)
امام حسن المثلث (امام حسن مجتبیٰ کے پڑپوتے)
امام حسن بن زید بن امام حسن مجتبیٰ
حسن بن محمد بن حنفیہ (سیدنا علی شیر خد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے)
امام جعفر بن تمام بن عباس بن عبدالمطلب (حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس کے پوتے)(رضی اللہ عنہم)
الغرض امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں اہل بیت اطہار کے نو اِمام حیات تھے اور آپ نے ہر ایک کے پاس جاکر زانوئے تلمذ طے کیا۔ آئمہ اطہار اہل بیت میں سے جو امام بھی بنو امیہ یا بنو عباس کی ظالمانہ حکومت یا کسی حکمران کے خلاف خرو ج کرتے، آپ خفیہ طور پر اپنے تلامذہ کے ذریعے بارہ/ بارہ ہزار درہم تک بطور نذرانہ آئمہ اطہار اہل بیت کی خدمت میں بھیجتے۔
آپ نے چیف جسٹس بننے کی حکمرانوں کی طرف سے دی جانے والی پیشکش کو قبول نہ کیا، اس کا بہانہ بناکر آپ کو قید میں ڈال دیا گیا حتی کہ آپ کا جنازہ بھی قید خانے سے نکلا۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ نے چیف جسٹس بننا قبول نہیں کیا تو کیا یہ اتنا بڑا جرم تھا کہ عمر بھر قید کی سزا دے دی جائے اور جنازہ بھی قید خانے سے نکلے؟ دراصل یہ حکمرانوں کا بہانہ تھا کہ ہمارا حکم نہیں مانا اور چیف جسٹس کا عہدہ قبول نہیں کیا۔ سبب یہ تھا کہ حکمران جانتے تھے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ گھر بیٹھ کر اہل بیت کے ہر شہزادے کی خدمت کرتے ہیں، ان کے ساتھ محبت و مؤدت کا اظہار کرتے ہیں۔ لہذا ان کو محبت اہل بیت کی سزا دی جائے۔ پس آپ نے محبت اہل بیت میں شہادت پائی ۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور محبتِ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو اہل بیت اطہار سے شدید محبت و مؤدت تھی ۔ حضرت امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسی ہستیوں کے پاس اگر کوئی مسئلہ پوچھنے جاتا تو فرماتے : اِذْهَبْ اِلٰی مَالِک عِنْدَهُ عِلْمُنَا .
ترجمہ : مالک کے پاس چلے جاؤ، ہم اہل بیت کا علم اس کے پاس ہے ۔
آپ کل آئمہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کے شاگرد تھے اور ان کی محبت و مودت میں فنا تھے ۔ ایک طلاق کے مسئلے کو بہانہ بناکر بنو عباس کے حکمرانوں نے ان کو محبت و مودتِ اہل بیت کی سزا دی۔ یہاں تک کہ ان کے سر اور داڑھی کو مونڈھ دیا اور سواری پر بٹھا کر مدینے کی گلیوں میں گھمایا اور حکم دیا کہ سب کو بتاؤ کہ میں امام مالک ہوں۔ آپ کہتے جاتے: جو مجھے پہچانتا ہے پہچان لے کہ میں کون ہوں اور جو مجھے اس حال میں دیکھ کر نہیں پہچان رہا وہ جان لے کہ میں مالک بن انس ہوں۔ اس واقعہ کے بعد آپ 25 سال تک گھر میں گوشہ نشین ہوگئے اور باہر نہیں نکلے۔
یہ دور بنو امیہ اور بنو عباس کے حکمرانوں کا تھا کہ جہاں آئمہ اہلبیت اطہار کا نام نہیں لیا جاسکتا تھا۔ بنو عباس نے اہل بیت کے نام پر حکومت پر قبضہ کرلیا اور پھر چن چن کے ایک ایک اہل بیت کے امام اور اہل بیت کے محب کو شہید کیا۔ بنو عباس کا تعلق چونکہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب کے ساتھ تھا لہذا اس تعلق کی وجہ سے یہ آئمہ کرام ان سے بھی محبت کرتے۔ ان کے ایمان اور محبت و مودت کا عالم یہ تھا کہ بنو عباس اُن پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے مگر یہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کے ساتھ اُن کو حاصل نسبت کی وجہ سے معاف کردیتے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو عباسی خلیفہ جعفر بن سلیمان عباسی کے حکم پر جب کوڑے مارے جاتے تو آپ بے ہوش ہوجاتے، جب ہوش آتا تو کہتے : اَعُوْذُ بِاللّٰهِ وَاللّٰه مَاارْتَفَعَ مِنْهَا سَوْطٌ عَنْ جِسْمِيْ اِلَّا وَاَنَا اجعله فِيْ حِلٍّ من ذٰالِکَ الْوَقْت لقرابته من رسول الله ۔
ترجمہ : لوگو گواہ ہوجاؤ! باری تعالیٰ میں نے کوڑے مارنے اور مروانے والے کو معاف کردیا۔ جوں ہی ہوش آتا؟ پہلا جملہ یہی بولتے کہ میں نے معاف کردیا، پھر کوڑے لگتے، پھر کوڑے کھا کھا کر بے ہوش ہوجاتے۔ مگر ہوش میں آتے ہی انہیں معاف کردیتے ۔
ذرا سوچئے! ان آئمہ کرام کے ہاں مودت، محبت، نسبت اور حرمت اہل بیت کا کیا عالم تھا۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ اتنا بڑا ظلم آپ کی ذات کے ساتھ ہوا مگر آپ جوں ہی ہوش میں آتے تو کہتے کہ معاف کردیا، ایسا کیوں کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا: مجھے لگ رہا تھا کہ شاید کوڑے کھاتے کھاتے میں مرجاؤں گا۔ ساتھ ہی ساتھ معاف اس لئے کرتا جارہا ہوں کہ بے شک مجھ پر ظلم ہورہا ہے مگر یہ لوگ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کے خاندان میں سے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ قیامت کے دن میری وجہ سے میرے آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کے خاندان کا کوئی فرد دوزخ میں جائے۔ بے شک اس نے ظلم ہی کیوں نہ کیا ہو مگر میں اس کا سبب نہ بنوں۔ اس لئے ہوش میں آتے ہی ساتھ ہی ساتھ معاف کرتا جاتا ہوں ۔
اس قدر ظلم و ستم کے باوجود حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خانوادے کے ساتھ حیاء کا تعلق برقرار رکھا۔ یہ عقیدہ اہل سنت و جماعت ہے ۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور محبتِ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم
امام شافعی پر اہل بیت کی محبت و مؤدت کی وجہ سے ملاؤں نے شیعہ اور رافضی ہونے کے فتوے اور تہمت لگائی۔ یاد رہے کہ چاروں آئمہ فقہ کی فطرت میں محبت اور مودت اہل بیت تھی، ان کے علم اور ایمان کا خمیر محبت اور مودت اہل بیت سے اٹھا تھا۔ امام شافعی نے اپنے دیوان میں ایک رباعی لکھی:
يَا آلَ بَيْتِ رَسُوْلِ اللّٰهِ حُبُّکُمْ
فَرْضٌ مِّنَ اللّٰهِ فِی الْقُرْآنِ اَنْزَلَهُ
ترجمہ : اے اہل بیت رسول تمہاری محبت اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرض کردی ہے اور اس کا حکم قرآن میں نازل ہوا ہے ۔
يَکْفِيْکُمْ مِنْ عَظِيْمِ الْفَخْرِاَنَّکُمْ
مَنْ لَمْ يُصَلِّ عَلَيْکُمْ لَا صَلاَة لَهُ
ترجمہ : اے اہل بیت تمہاری عظمت اور تمہاری شان اور تمہاری مکانت کی بلندی کے لئے اتنی دلیل کافی ہے کہ جو تم پر درود نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی ۔
دوسرے مقام پر فرمایا
اِنْ کَاْن رَفْضًا حُبُّ آلِ مُحَمَّدٍ
فَلْيَشْهَدِ الثَّقَلاَن اَنِّيْ رَافِضٌ
ترجمہ : اگر آل محمد سے محبت کرنے کا نام رافضی/ شیعہ ہوجانا ہے تو سارا جہان جان لے کہ میں شیعہ ہوں ۔(دیوان امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ)
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور محبتِ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ آپ یزید کے بارے میں کیا حکم کرتے ہیں ؟ انہوں نے جو فتویٰ دیا آفاقِ عالم میں آج تک اس کی آواز گونجتی ہے ، فرمایا : میرے نزدیک یزید کافر ہے ۔ آپ کے صاحبزادے عبداللہ بن احمد بن حنبل نے اس کو روایت کیا اور کثیر کتب میں آج تک بلااختلاف امام احمد بن حنبل کی تکفیر کا فتویٰ یزید پر آج تک قائم ہے۔ آپ کی مودت اور محبت بھی اہل بیت کے ساتھ لاجواب تھی ۔(ماخوذ سوانح امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ،چشتی)
حضرت مجدد الف ثانی شیح احمدفاروقی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد کا جب اخیروقت آیا تو امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ نے حالت دریافت کی ، والد محترم نے فرمایا : میں اپنے دل کو اہل بیت کرام کی محبت کے سمندر میں موجزن پارہا ہوں ۔ اورآپ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایاکہ حسنِ خاتمہ کے لئے اہل بیت کرام کی محبت کو بڑا دخل ہے ۔ (مجدد الف ثانی عقائد و نظریات)(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment