ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اجماع امت سے ہٹ کر دین کی نئی راہیں گھڑ لیں
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھ
ڈاکٹر ذاکر نائیک کا خیال یہ ہے کہ سلف کے طریق سے ہٹ کر دین کی جدید تشریح کی ضرورت ہے ۔
ائمہ اربعہ کی تقلید (جس پر پوری امت متفق چلی آرہی ہے) امت کی گم راہی کی اصل بنیاد ہے ۔
مرد اور عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں (حالانکہ متعدد ہدایات میں فرق بیان کیا گیا ہے،چشتی)
دین کے بارے میں ہر شخص فتویٰ دے سکتا ہے فتویٰ کا مطلب اپنی رائے دینا ہے ۔ (یہ دین کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے)
مردعورت سے ذمہ داری میں اونچا ہے نہ کہ فضیلت میں (یہ آیات قرآنیہ میں تحریف معنوی ہے ۔
ننگے سر نمازپڑھنا جائز ہے ۔ (یہ بے ادبی کا انداز ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ عمامہ پہنتے تھے)
بغیر وضو کے قرآن مجید کو ہاتھ لگانا جائز ہے (یہ بات قرآن وحدیث کے مفہوم کے خلاف ہے،چشتی)
آیت ﴿ویعلم مافی الارحام﴾کے معنٰی سمجھنے میں مفسرین کو غلطی ہوئی ہے، اس میں جنین کی جنس نہیں، بلکہ اس کی فطرت مراد ہے ۔ (یہ تفسیر بالرائے ہے،چشتی)
آیت ﴿اذا جاء ک المومنات یبایعنک﴾ الایة میں بیعت کے لفظ میں آج کل کے الیکشن کا مفہوم بھی داخل ہے ۔ (یہ بھی تفسیر بالرائے ہے)
خون بہہ جانے کی صورت میں وضو نہیں ٹوٹتا ،اس بارے میں فقہ حنفی کا فتویٰ غلط ہے ۔ (جب کہ حدیث میں خون بہہ جانے سے وضو ٹوٹنے کا حکم ہے)
حالت حیض میں عورت قرآن پڑھ سکتی ہے۔(جمہور علماء اس کی اجازت نہیں دیتے)
خطبہ جمعہ عربی کے بجائے مقامی زبان میں ہونا چاہیے (یہ بات نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے دائمی عمل کے خلاف ہے وعظ و نصیحت اور چیز ہے اور خطبہ دوسری چیز ۔ خطبہ جو کہ دورکعت کے قائم مقام ہے عربی میں ہی ضروری ہے)
تین طلاق سے صرف ایک طلاق واقع ہوتی ہے ۔ (جب کہ تین پراجماع منعقد ہوچکا ہے)
پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک ہی دن عید کرنا چاہیئے ۔ (حالاں کہ ایسا ممکن نہیں)
ڈاکٹر صاحب کے نزدیک مدت اقامت صرف پانچ ،چھے دن ہے ۔ (جب کہ حدیث میں پندرہ دن کا ذکر ہے،چشتی)
ان کے ہاں تراویح آٹھ رکعت ہے ۔ (جب کہ بیس رکعت پر پوری امت کاا جماع ہے)
عورت کے چہرے کا پردہ ضروری نہیں ۔ (حالاں کہ ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور دیگر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کا مردوں کے سامنے سے گزر تے ہوئے چہرے کا پردہ کرنا حدیث سے ثابت ہے)
چند مواقع کے علاوہ ہر جگہ ایک عورت کی گواہی معتبر ہے ۔ (یہ قرآن حکیم کے حکم کی صاف مخالفت ہے،چشتی)
نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے متعدد شادیاں سیاسی مفادات کی خاطر کیں ۔ (جب کہ پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کے تمام نکاح اللہ کے حکم سے ہوئے ، ان میں بہت سی دینی حکمتیں تھیں، نہ کہ سیاسی مفادات،چشتی)
ڈاکٹر ذاکر نائیک کے نزدیک مچھلی کے علاوہ دریا کے کیڑے مکوڑے بھی حلال ہیں (جب کہ حدیث میں صرف مچھلی کی حلت کا ذکرہے اور مچھلی کی تمام قسمیں حلال ہیں ۔ مچھلی وہ ہے جس میں ریڑھ کی ہڈی ہو ، سانس لینے کے گل پھڑے ہوں اور تیرنے کے لیے پر ہوں ، جب کہ کیکڑے میں یہ تینوں چیزیں نہیں ہوتیں)
ڈاکٹر ذاکر کے ہاں مشینی ذبیحہ بھی حلا ل ہے ۔ (جب کہ ان کا نظریہ قرآن و سنت کے سراسر خلاف ہے )
ڈاکٹر ذاکر نائیک نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی حیات کے منکر ہیں ۔ (جب کہ عقیدہ حیات صلى الله عليه وسلم پر امت کا اجماع ہے ، صرف معتنر لہ اورروافض اس کے منکر ہیں)
قرآن وصحیح حدیث میں وسیلہ کرنے کا ذکر نہیں ۔ (حالاں کہ صحیح احادیث سے وسیلہ ثابت ہے)
ہم نے یہ تمام مسائل ذاکر نائیک کی ان کتب سے اخذ کیئے ہیں جو تصدیق کرنا چاہیں وہ یہ کتب پڑھیں خطبات ذاکر نائیک ،اسلام پر چالیس اعتراضات، اسلام اور عالمی اخوت، اسلام میں خواتین کے حقوق اور ٹی وی پروگرام ”گفتگو“)(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment