Monday 21 May 2018

اُمّ المؤمنین حضرت اُمّ سلمہ رضی اﷲ عنہا

0 comments
اُمّ المؤمنین حضرت اُمّ سلمہ رضی اﷲ عنہا

نام : ہند ، کنیت : ام سلمہ ، قریش کے خاندان مخزوم سے تھیں ۔

نسب مبارک یہ ہے : ہند بنت ابی مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم ۔ والدہ کا نام عاتکہ بنت عامر بن ربیعہ تھا ، خاندان قریش سے تھیں ، آپ کے والد کا نام بعض مورخین کے نزدیک "سہیل” ہے ۔

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا اصل نام ہند بنت ابو امیہ ہے اور ام سلمہ کنیت ہے آپ کی پیدائش ایک امیر گھرانے میں ہوئی تھی ۔ آپ کے والد کا نام سہیل اور والدہ کا نام عاتکہ تھا ۔ آپ کے والد قبیلہ مخزوم کے ایک بڑے سردار اور انتہائی سخی شخص تھے ۔ قافلے جب بھی ان کےساتھ سفر کرتے تو اپنے ساتھ زادِ راہ لے کر نہ جاتے۔کیونکہ پورے قافلے کے اخراجات یہ خود اٹھا تے تھے۔(الاصابہ ۔ ۸ ، ۴۰۴)

آپ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے پہلے ابوسلمہ عبداللہ (رضی اللہ عنہ) بن عبدالاسد سے ہوا تھا۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر کے ساتھ ہی مسلمان ہوئیں۔ آپ دونوں کا شماران اشخاص میں ہوتا ہے جوابتدائے اسلام میں ایمان لائے (الاصابہ ۔ ۸ ، ۴۰۴،چشتی)
ان میاں بیوی نے اوّلاً حبشہ کی طرف ہجرت کی پھر کسی غلط فہمی کی بنیاد پر واپس مکہ مکرمہ آگئے اور جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مدینہ منورہ ہجرت کا حکم دیاتو پہلے پہل مدینہ منورہ ہجرت کرنے والوں میں آپ کا تین افراد پر مشتمل گھرانہ بھی تھا جس کا درد ناک واقعہ آپ رضی اللہ تعالی عنہا کی زبانی سنئے چنانچہ
آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں‘‘ جب حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ ہجرت کا عزم فرما لیا تو مجھے ایک اونٹ پر سوار کیا۔میرا ننھا بیٹا سلمہ میری گود میں تھا۔انہوں نے اونٹ کی نکیل پکڑ کرچلنا شروع کر دیا۔ابھی ہم مکہ مکرمہ کی حدود سے بھی نہ نکلے تھے کہ میری قوم بنومخزوم کے چند افراد نے ہمیں دیکھ کر ہمارا راستہ روک لیا اور ابو سلمہ سے کہا ’’ اگر تم نےتو اپنی مرضی کو قوم پر ترجیح دے دی لیکن یہ ہماری بیٹی ہے ہم اسے تمہارے ساتھ جانے نہیں دیں گے،یہ کہہ کر وہ آگے بڑھےاور مجھے جانے سے روک دیا ‘‘ جب میرے شوہر ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کی قوم بنواسد نے یہ منظر دیکھا تو غضبناک ہوکر کہنے لگے کہ : خداکی قسم! ہم تمہارے قبیلہ کی اس عورت کے پاس اپنا بچہ نہیں رہنے دیں گے۔ یہ ہمارا بیٹا ہے اوراس پر ہمارا حق ہے۔ یوں وہ میرے بیٹے کو مجھ سے چھین کر اپنے ساتھ لے گئے۔ اس کھینچا تانی میں میرے بیٹے سلمہ کا ہاتھ بھی اتر گیا یہ سب میرے لئے ناقابل برداشت تھا۔ شوہر مدینہ منورہ روانہ ہوگئے تھے ۔بیٹے کو بنو عبد الاسد لے گئے تھےاور مجھے میری قوم بنومخزوم نے اپنے پاس رکھ لیا تھا ۔یوں ہمارے درمیان پل بھر میں جدائی ڈال دی گئی ۔ میں غم دور کرنے کے لئے ہر صبح اس جگہ جاتی جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ وہاں بیٹھ کر دن بھر روتی رہتی اور شام کے وقت گھر واپس آجاتی ،تقریبا ایک سال تک یہ سلسلہ جاری رہا ۔ ایک دن میں وہاں بیٹھی رو رہی تھی کہ میرا ایک چچا زاد بھائی میرے پاس سے گزرا۔میرا یہ حال دیکھ کر اسے رحم آگیا اور اسی وقت جا کر میری قوم کے بڑوں سے کہا کہ تم اس عورت کو کیوں تڑپا رہے ہو۔کیا تم اس کی حالت نہیں دیکھ رہے کہ یہ اپنے شوہر اور بیٹے کے غم میں کس قدر تڑپ رہی ہے آخر اسے ستانے سے تمھیں کیا ملے گا۔؟ چھوڑ دو اس بیچاری کو ۔ اس کی یہ باتیں سن کرمیرے قبیلے والوں کےدل نرم ہوگئےاور مجھ سےکہا کہ ہماری طرف سےاجازت ہے چا ہو تو اپنے خاوند کے پاس جاسکتی ہو میں نے کہا : یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں مدینہ منورہ چلی جاؤں اور میرا بیٹا بنو اسد کے پاس رہے ؟ یہ سن کر کچھ لوگوں نے بنو اسد سے بات کی تو وہ بھی راضی ہو گئے اور میرا بیٹا مجھے واپس دے دیا ۔ میں نے جلدی جلدی تیاری کی اور سوئے مدینہ منورہ اکیلی ہی چل پڑی ، مخلوق خدا میں بیٹے کے علاوہ کوئی بھی میرے ساتھ نہ تھا جب میں مقام تنعیم پر پہنچی تو وہاں عثمان بن طلحہ ملے انہوں نے کہ ’’اے بیٹی کہاں جا رہی ہو؟ ‘‘
میں نے کہا :۔ مدینہ منورہ اپنے خاوند کے پاس جا رہی ہوں ۔
انہوں نے کہا:۔ کیا اس سفر میں تمہارے ساتھ کوئی نہیں؟
میں نے کہا:۔ بخدا ! میرے ساتھ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی نہیں۔
وہ کہنے لگے کہ ’’اللہ کی قسم ! اب میں تمہیں مدینہ منورہ پہنچا کر ہی واپس آؤں گا‘‘ اور اونٹ کی نکیل پکڑ کر آگے چل دیے۔
اللہ کی قسم! میں نے عرب میں اس سے زیادہ نیک دل اور شریف انسان نہیں دیکھا۔جب یہ ایک منزل طے کر لیتے تو ،میرے اونٹ کو بٹھا دیتے پھر دور ہٹ جاتے،۔جب میں اتر آتی تو اونٹ سے ہودج اتار کراسے درخت کے ساتھ باندھ دیتے پھر خود دوسرے درخت کے سائے میں لیٹ جاتے۔ روانگی کے وقت اونٹ تیار کر کے میرے پاس لاتے۔ میں اونٹ پر سوار ہو جاتی تو اس کی نکیل پکڑ کر چل دیتے۔ مدینہ منورہ پہنچنے تک اسی طرح میرے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے رہے۔
جب بنو عمرو کی بستی نظرآئی تو مجھے کہا کہ‘‘ آپ کا خاوند اس بستی میں رہائش پذیر ہے ۔ اس میں چلی جائیے۔‘‘ ہمیں وہاں چھوڑ کر وہ مکہ معظمہ واپس لوٹ گئے ۔(اسد الغابۃ ،۷، ۳۲۹،چشتی)
آپ کے شوہر حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو غزوہ احد میں ایک گہرا زخم لگا جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ شدید تکلیف میں مبتلا ہو کر صاحبِ فراش ہو گئے ۔ اس زخم کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پانچ یا سات ماہ تک حیات رہ کر وصال فرماگئے ۔ ( تھذیب التھذیب ،۱۲، ۴۵۶،چشتی)
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے پاس کم عمراولاد کےعلاوہ عزیز و اقارب میں سے کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہ تھا ۔
اس صورت حال کے پیش نظر ایام عدت گزر جانے کےبعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نکاح کا پیغام بھیجا لیکن انہوں نے انکار کر دیا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پیش کش کی،وہ بھی آپ نے قبول نہ کی ، پھر چند دن بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پیش کش کی تو اوّلاً آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے پیارے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مقام و مرتبہ کو دیکھتے ہوئے کچھ معروضات پیش کیں جس پر پیارے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی لطف و کرم سے بھر پور گفتگو سن کر بخوشی رضامند ہوگئیں اور ام المومنین کے عظیم مرتبہ پر فائز ہوگئیں ۔ (صفۃ الصفوۃ،۱، ۳۲۴،چشتی)

حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے چوراسی سال عمر پائی اور امہات المؤمنین میں سب سے آخرمیں آپ کا وصال ہوا، امام ابن حبان کے مطابق آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی وفات حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد سن اکسٹھ ہجری میں ہوئی ۔ امام واقدی کے مطابق آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی نماز جنازہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھائی اور آخری آرام گاہ جنت البقیع میں بنی ۔ (الاصا بہ،۸، ۳۴۴،چشتی)

آپ کے والد ایک دولتمند اور بے حد فیاض آدمی تھے، ان کی سخاوت اور دریادلی کی شہرت چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی، بیسیوں لوگ ان کے دسترخوان پر پلتے، کبھی سفر کرتے تو اپنے تمام ہمراہیوں کی خوراک اور دوسری ضروریات کی کفالت ان ہی کے ذمہ ہوتی، ان فیاضیوں کی بدولت لوگوں نے انہیں "زاد الراکب” کا لقب دے رکھا تھا، اور وہ تمام قبائلِ قریش میں نہایت عزت و احترام کی نظروں سے دیکھے جاتے تھے ۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اپنے باپ کی مانند بے حد سخی تھیں، دوسروں کو بھی سخاوت کی ترغیب دیتی تھیں، ناممکن تھا کہ کوئی سائل ان کے گھر سے خالی ہاتھ چلا جائے، زیادہ نہ ہوتا تو تھوڑا یا جو کچھ بھی ہوتا، سائل کو عطا کر دیتیں- حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح آپ کے چچازاد بھائی ابو سلمہ بن عبدالاسد مخزومی رضی اللہ عنہ سے ہوا- ان ہی کے ساتھ وہ مشرف بہ اسلام ہوئیں اور ان ہی کے ساتھ پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کیں اور پھر وہاں سے مکہ واپس آ کر مدینہ کی طرف ہجرت کیں- آپ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آپ سب سے زیادہ ہجرت کرنے والی خاتون تھیں- حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ غزوۂ احد میں شہید ہوئے ۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے راہ حق میں جو مصیبتیں اٹھائی تھیں، حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اس کا بے حد احساس تھا، چنانچہ عدت گزارنے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی معرفت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو نکاح کا پیغام بھیجا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے قبول کر لیا ۔

ماہ شوال 4 ہجری میں وہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نکاح میں آ گئیں، نکاح کے وقت ان کی عمر 26 سال تھی، ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو مہر میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کھجور کی چھال سے بھرا ہوا ایک چرمی تکیہ، دو مشکیزے اور دو چکیاں عطا فرمائیں، جو کسی ازواج مطہرات کو عطا نہیں فرمائی تھیں- نکاح کے بعد وہ حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کے گھر لائی گئیں - ابو لبابہ رضی اللہ عنہ کے توبہ کرنے کی خوشخبری حجرہ کے دروازے پر کھڑی ہو کر آپ نے ہی دی تھی- ایک دن حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کے گھر تھے، آیت تطہیر اِنَّمَا یُرِیدُ اللہُ لِیُذْہِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ اَہلَ الْبَیتِ (سورۃ الاحزاب- 33 ) کا نزول ہوا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بعد ازواج مطہرات میں حسن و جمال کے ساتھ عقل و فہم کے کمال کا بھی ایک بے مثال نمونہ تھیں ۔ وصال مبارک : حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا 63 ھ میں 84 سال کی عمر میں وصال ہوا ۔

فضائل و مناقب احادیث مبارکہ کی روشنی میں

عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، قَالَ : أُنْبِئْتُ : أنَّ جِبْرِيْلَ عليه السلام أتَي النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم وَ عِنْدَهُ أُمُّ سَلَمَة فَجَعَلَ يُحَدِّثُ ثُمَّ قَامَ فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم لأُمِّ سَلَمَة : مَنْ هَذَا؟ أوْ کَمَا قَالَ. قَالَ : قَالَتْ : هَذَا دِحْيَة. قَالَتْ أُمُّ سَلَمَة : ايْمُ اﷲِ! مَا حَسِبْتُهُ إِلَّا إِيَاهُ، حَتَّي سَمِعْتُ خُطْبَة نَبِيِّ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يُخْبِرُ عَنْ جِبْرِيْلَ أوْ کَمَا قَالَ فَقُلْتُ لِأبِي عُثْمَانَ : مِمَّنْ سَمِعْتَ هَذَا؟ قَالَ : مِنْ أُسَامَة بْنِ زَيْدٍ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ،چشتی)
ترجمہ : ابو عثمان بیان کرتے ہیں کہ مجھے بتایا گیا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس موجود تھیں، پس وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو کرتے رہے پھر چلے گئے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا سے دریافت فرمایا : یہ کون تھے؟ یا جو کچھ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انہوں نے جواب دیا کہ دحیہ تھے، حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ خدا کی قسم میں نے انہیں دحیہ قلبی ہی سمجھا تھا، لیکن میں نے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوران خطبہ بتایا کہ وہ حضرت جبرئیل تھے، یا جو کچھ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، معمر کے والد بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو عثمان سے دریافت کیا کہ آپ نے یہ کس سے سنا ہے تو انہوں نے بتایا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے ۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1330، الرقم : 3435، وفي کتاب : فضائل القرآن، باب : کيف نزول الوحي، 4 / 1905، الرقم : 4695، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل أم سلمة، 4 / 1906، الرقم : 2451، و البزار في المسند، 7 / 55، الرقم : 2602)

عَنْ أُمِّ سَلَمَة : أنَّ رَسُولَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لَمَّا تَزَوَّجَ أُمَّ سَلَمَة أقَامَ عِنْدَهَا ثَلَاثاً وَ قَالَ : إِنَّهُ لَيْسَ بِکِ عَلَي أهْلِکِ هَوَانٌ، إِنْ شِئْتِ سَبَّعْتُ لَکِ، وَ إِنْ سَبَّعْتُ لَکِ سَبَّعْتُ لِنِسَائِي. رَوَاهُ مُسْلِمٌ .
ترجمہ : حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے نکاح کرنے کے بعد ان کے پاس تین دن رہے پھر فرمایا : تمہاری اہمیت اور چاہت اپنے شوہر کی نظروں میں ہرگز کم نہیں ہوئی، اگر تم چاہو تو میں تمہارے پاس ایک ہفتہ قیام کر لوں اور اگر میں تمہارے پاس ایک ہفتہ رہا تو میں اپنی تمام ازواج کے پاس ایک ایک ہفتہ رہوں گا ۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے ۔
(أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الرضاع، باب : قدر ما تستحقه البکر و الثيب من إقامة الزوج عندها عقب الزفاف، 2 / 1083 الرقم : 1460، وأبوداود في السنن، کتاب : النکاح، باب : في المقام عند البکر، 2 / 240، الرقم : 2122، و ابن حبان في الصحيح، 10 / 10، الرقم : 4210، و الدارمي في السنن، 2 / 194، الرقم : 2210،چشتی)

عَنْ أُمِّ سَلَمَة : أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ. صلي الله عليه وآله وسلم کَانَ عِنْدَهَا فِي بَيْتِهَا ذَاتَ يَوْمٍ فَجَاءَوتِ الْخَادِمُ، فَقَالَتْ : عَلِيٌّ وَ فَاطِمَة بِالسَّدَّة، فَقَالَ : تَنَحِّي لِي عَنْ أهْلِ بَيْتِي فَتَنَحَّتْ فِي نَاحِيَة الْبَيْتِ فَدَخَلَ عَلِيٌّ، وَ فَاطِمَة، وَ حَسَنٌ، وَ حُسَيْنٌ فَوَضَعَهُمَا فِي حِجْرِهِ وَ أخَذَ عَلِيًّا بِإِحْدَي يَدَيْهِ فَضَمَّهُ إِلَيْهِ وَ أخَذَ فَاطِمَة بِالْيَدِ الْأُخْرَي فَضَمَّهَا إِلَيْهِ وَ قَبَّلَهُمَا وَ أغْدَفَ عَلَيْهِمْ خَمِيْصَة سَوْدَاءَ ثُمَّ قَالَ : الَّلهُمَّ، إِلَيْکَ لَا إِلَي النَّارِ، أنَا، وَ أهْلُ بَيْتِي، قَالَتْ : فَنَادَيْتُهُ، فَقُلْتُ : وَ أنَا، يَا رَسُوْلَ اﷲِ، قَالَ : وَ أنْتِ.رَوَاهُ ابْنُ أبِي شَيْبَة.
ترجمہ : حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن ان کے پاس ان کے گھر تشریف فرما تھے پس خادم آیا اور عرض کیا : حضرت علی اور فاطمہ رضی اﷲ عنہما (گھر کی) دہلیز پر کھڑے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے لئے میرے گھر والوں کے راستے سے ہٹ جایا کرو (یعنی ان کو بلااجازت گھر آنے دیا کرو) پس وہ خادم گھر کے ایک کونے میں چلا گیا، پس حضرت علی اور حضرت فاطمہ اور حسنین کریمین رضی اللہ عنھم اندر تشریف لائے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے نواسوں کو اپنی گود میں بٹھایا اور اپنا ایک دست مبارک حضرت علی رضی اللہ عنہ پر رکھا اور ان کو اپنے ساتھ ملایا اور اپنا دوسرا دست اقدس حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا پر رکھا اور انہیں بھی اپنے ساتھ ملایا اور ان دونوں کو چوما اور پھر ان سب پر اپنی کالی کملی بچھا دی پھر فرمایا : اے اﷲ! تیری طرف نہ کہ آگ کی طرف، میں اور میرے اہل بیت، حضرت امّ سلمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں : میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکار کر عرض کیا : اور میں بھی یا رسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں تم بھی۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 370، الرقم : 32104، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 296، الرقم : 26582، والطبراني في المعجم الکبير، 23 / 393، الرقم : 939، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 166،چشتی)

امام الحرمین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے سوا کسی عورت کو غیر معمولی دانشمند نہیں جانتا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ اپنی اپنی قربانیاں کر کے سب لوگ احرام کھول دیں اور بغیر عمرہ ادا کئے سب لوگ مدینہ منورہ واپس لوٹ جائیں، کیونکہ اس شرط پر صلح حدیبیہ ہوئی ہے، لوگ اس رنج و غم میں تھے، ایک شخص بھی قربانی کیلئے تیار نہیں تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کے اس طرز عمل سے روحانی کوفت ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس معاملہ کا ذکر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کیا تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: آپ خود قربانی ذبح فرمائیں، احرام کھول دیں اور سرمنڈوالیں- چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایسا ہی کیا، صحابہ کرام نے یقین کر لیا کہ اب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم صلح حدیبیہ کے معاہدہ سے ہرگز ہرگز نہ بدلیں گے، صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں اپنی اپنی قربانیاں دیں اور احرام اتار کر سر منڈوا لیا- حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی دانشمندی اور عقل و ذہانت کی وجہ سے یہ مسئلہ حل ہو گیا- یہ آپ کی دانشمندی کی سب سے بہتر مثال ہے- (صحیح بخاری)

اللہ تعالی نے انہیں خوبروئی، علم و ذہانت اور اصابت رائے کی نعمتوں سے کافی حصہ دیا تھا- قرآن کریم کی قرات نہایت عمدہ طریقے سے کرتی تھیں اور آپ کی قرأت حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قرات سے مشابہت رکھتی تھی-

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو حدیث سننے کا بہت شوق تھا، ایک دن بال گندھوا رہی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور خطبہ دینا شروع کیا، ابھی زبان مبارک سے "یا ایھا الناس” نکلا تھا کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اٹھ کھڑی ہوئیں اور اپنے بال خود باندھ لیں، اور بڑے انہماک سے پورا خطبہ سنا، سرور عالم سے نہایت عقیدت تھی، حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے موئے مبارک تبرکاً چاندی کی ڈبیہ میں محفوظ رکھے تھے ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ صحابہ میں سے کسی کو تکلیف پہنچتی تو وہ ایک پیالہ پانی سے بھر کر ان کے پاس لاتے ، وہ موئے مبارک نکال کر اس پانی میں حرکت دے دیتیں، اس کی برکت سے تکلیف دور ہو جاتی ۔

مسند احمد میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کی کیا وجہ ہے کہ ہمارا قرآن میں ذکر نہیں- حضو ر صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کی بات سنکر منبر پر تشریف لے گئے اور یہ آیت پڑھی: ان المسلمین والمسلمات والمومنین والمومنات ام سلمہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خبرگیری کے لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں جاتی تھیں، ایک دن حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو علیل پاکر ان کے منہ سے بے ساختہ چیخ نکل گئی، حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے منع فرمایا- حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی نہایت زاہدانہ تھی، عبادت الٰہی سے بڑا شغف تھا، ہر مہینہ میں تین روزے نفل رکھا کرتیں، اوامر و نواہی کی بے حد پابند تھیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صلب مبارک سے آپ کو کوئی اولاد نہیں ہوئی ۔

عن ام سلمه قالت قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أخبرني جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بأرض العراق فقلت لجبرئيل ارني تربة الارض التي يقتل فيها، فجاء فهذه تربتها.
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنھا روایت کرتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے جبرئیل امین نے (عالم بیداری میں) بتایا کہ میرا یہ بیٹا حسین عراق کی سرزمین میں قتل کر دیا جائیگا میں نے کہا جبرئیل مجھے اس زمین کی مٹی لا کر دکھا دو جہاں حسین کو قتل کر دیا جائے گا پس جبرئیل گئے اور مٹی لا کر دکھا دی کہ یہ اس کے مقتل کی مٹی ہے ۔ (البدايه والنهايه، 8 : 196 - 200)(کنز العمال، 12 : 126، حدیث : 34313،چشتی)

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : يا ام سلمه اذا تحولت هذه الترته دما فاعلمي ان ابني قد قتل فجعلتها ام سلمة في قارورة ثم جعلت تنظر اليها کل يوم و تقول ان يوما تحولين دما ليوم عظيم ۔
ترجمہ : اے ام سلمہ رضی اللہ عنہاجب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا قتل ہوگیا ہے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے اس مٹی کو بوتل میں رکھ دیا تھا اور وہ ہرروز اس کو دیکھتیں اور فرماتیں اے مٹی! جس دن تو خون ہوجائے گی وہ دن عظیم ہوگا ۔ (الخصائص الکبری، 2 : 125)۔(سر الشهادتين، 28)۔(المعجم الکبير للطبرانی، 3 : 108)
وصال مبارک : حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا 63 ھ میں 84 سال کی عمر میں وصال ہوا ۔ تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں آپ نے سب سے اخیر میں انتقال فرمایا اور حضرت ابوہر یرہ رضی اللہ عنہ نے آپ کی نمازِ جنازہ پرھائی اور آپ کے بیٹوں حضرت سلمہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو قبر میں اتارا ۔ جنت البقیع کے قبرستان میں دوسری ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے پہلو میں دفن ہوئیں ۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے 378 حدیثیں مروی ہیں ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔