Sunday 20 May 2018

تمامی کلمہ گو کو ایک ہو جانا چاہئے چاہئے وہ کسی بھی مکتبہ فکر کا ہو کا جواب

0 comments
تمامی کلمہ گو کو ایک ہو جانا چاہئے چاہئے وہ کسی بھی مکتبہ فکر کا ہو کا جواب

جـو جان مانِگو تو جان دینگے جـو مال مانگو تــو مال دینگے
مگر نا ھـوگا یہ ھم سے ھــرگز کــہ نبــی کا جاہ وجلال دینگے

اللـہ رب العزت کے اس فرمان عالی شــان نے ھم پــر اور آپ پر بصراحت اس حکم کو واضح کردیا کـــــہ اے مسلمانوں ھم نے تمھارے لئے مردار ,خون ,شــراب وخنزیـــــر وغیرہ کو حرام فرمادیا ھے ۔
لیکن اگر کوئی ایسی صورت حال آن پڑے کہ سوائے ان حرام چیزوں کے تمھارے پاس کھانے کو کچھ نا ھو اور بنا کھائے زندہ رہنا ممکن نا ہو تو اللہ رب العزت نے بقدر جان بچانے کے حلال فرما دیا لیکن ساتھ یہ بھی تنبیہہ فرمائی کہ بغاوت و حد سے تجاوز کرنے والا ناھو ۔
یعنی بس اتنا ہی کھائے جس سے جان بچ جائے وہ بھی بصورت اکراہ نا کہ شوقاً وطبعاً
الحاصل بلا تشبیہہ وتمثیل اب میں اپنا مدعا بیان کرنا چاھتا ھوں شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات ۔
حضرت علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کا فرمان عالیشان ہے لا تنظر الی من قال بل انظر الی ما قال ۔
آج کل سوشل میڈیا وہاٹسپ فیسبک وغیرہ پہ کچھ لوگ اس بات کے درپے نظر آتے ہیں
کہ مسلمانوں پر ہو رہے مظالم کے پیش نظر ہم تمامی کلمہ گو کو ایک ہو جانا چاہئے چاہے وہ کسی بھی مکتبہ فکر کا ہو العیاذ باللہ جبکہ قرآن ,حدیث ,صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین ، ائمہ دین ، مجتہدین و تمامی بزرگان دین کے معمعولات سے یہ ثابت ہے گستاخان خدا ورسول سے اتحاد کی ایک ہی صورت ہے اور وہ ہے ان کا ترک گستاخی نیز کفار ( چاہے وہ وہابیہ دیابنہ ہوں یا کوئی بھی اہلسنت کے علاوہ کیونکہ الکفر ملة واحدہ )
مسلمانوں یعنی اہلسنت کے کبھی دوست نہیں ہوسکتے ان سے دوری وبیزاری میں ہی بھلائی ہے وہابیہ دیابنہ اپنی گستاخیوں کے سبب اہل سنت کے نزدیک مردار
,خنزیر وشراب وغیرہ سے زیادہ بدبودار ناپسندیدہ ومکروہ ہیں اب اگر ایسے ناگفتہ بہ حالات درپیش ہوں کہ ان سے میل ملاپ کے بغیر جانوں پہ بن آئے یا اور کوئی ضرورت درپیش ہو تو کیا کریں تو اس کیلئے اس نقطے کو ملاحظہ فرمائیں کہ اگر بھوک سے جان جانے کا خطرہ ہو اور فقط اللہ کی حرام کردہ چیزیں ہی دستیاب ہوں تو ان کو کھا کے جان بچانا فرض ہے لیکن صرف اتنا کھائے کہ جس سے جان بچ سکے اور اگر ایمان بچانے کیلئے جان کی بازی لگانی پڑے تو اس کے دو پہلو ہیں
ایک پہلو کہ اگر ایمان بچانے کیلئے جان دینی پڑے تو جان دے کے ایمان بچانا اس میں عزیمت ہے جان بچانے سے کیونکہ جان دے دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نا ہوا ۔
دوسرا پہلو اگر کوئی شخص اپنی جان بچانا چاہے جبکہ کفار ومشرکین اسے اسلام وصاحب اسلام کے خلاف بولنے پر مجبور کریں جان کی بخشش کیلئے تو اسلام میں یہ وسعت ہے کہ وہ کفار کے ذریعہ کہے گئے کلمات کا اعادہ کرسکتا ہے ہاں لیکن یہ یاد رہے کہ یہاں جان بچانے کی فقط رخصت واجازت ہے نا کہ فرض کیوں کہ گستاخی کے کلمات بکنا یا گستاخوں سے ہاتھ ملانا تقریبا ایک ہی بات ہے اسی عزیمت ورخصت کی ایک مثال صحابی رسول حضرت یاسر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں جنہوں نے جان دے کے عزیمت بیان فرمائی کہ اسلام وصاحب اسلام کیلئے جان دے دینا عین ایمان وعزیمت کی بات ہے اور ان کی خواہشات کے مطابق گستاخان کلمات زبان پر نا لانا اورگستاخوں سے میل ملاپ واتحاد کی بات نا کرنا یعنی ان کی بولی نا بولنا ہی کمال ایمان ہے ۔ اور انہیں صحابی رسول کے صاحبزداے حضرت عمار رضی اللہ عنہ جو خود صحابی ہیں اسی موقع پہ اپنی جان بچا کے رخصت کی جانب اشارہ کر گئے لیکن آپ کی ندامت وشرمندگی اس بات کی دلیل ہے کہ ایسے ناگفتہ بہ حالات میں جان دے دینا جان بچانے اور ان کی مرضی کی بولی بولنے سے بہتر ہے اگر چہ شرع نے جان کی حفاظت کیلئے اسے جائز رکھا ہے اللہ اکبر ۔
اب آئیے پاکستان و ہندوستان کے موجودہ حالات کا جائزہ لیں جہاں بنام مسلم لوگوں کو مارا پیٹا جا رہا ہے تو کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ہمیں متحد ہو جانا چاہئیے اور ایسے لوگ فقط اتحاد واتفاق کے جواز کو نہیں بیان کرتے بلکہ وہابیہ دیابنہ سے اتحاد کے شائق معلوم پڑتے ہیں ایسے لوگوں سے میرے چند سوال ہیں :
کہ ہند پہ کیا وہابیہ دیابنہ قابض ہیں ؟
کیا قوم مسلم کے وہ سچے قائد ہیں ؟
کیا وہ مستجاب الدعوات ہیں ؟
کیا ان کے چہرے روئے زمین پہ خوشنما ہیں ؟
کیا وہ ہم سے اتحاد کے خواہشمند ہیں اگر ہاں تو وہ گستاخیوں کو ترک کرکے تائب کیوں نہیں ہوتے ؟
یا ہمارے جو سنی بھائی ان سے اتحاد کی بات کرتے ہیں وہ ان سے توبہ کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے ؟
یا اگر آپ ان کی تعداد زیادہ مانتے ہو تو تاریخ کربلا جنگ بدر واحد کو پیش نظر کیوں نہیں رکھتے ؟
کیا حق وباطل میں اتحاد ممکن ہے اگر آپ مصلحت وحالات کی بات کریں تو کیوں نا براہ راست ھنود سے اتحاد کرلیں ھنود کو یاجس کسی کو بھی ہمارے جس عملِ اسلامی سے تکلیف ہو سے اسے ترک کرکے ؟ العیاذ باللہ

کیونکہ آج جو قتل عام کیا جا رہا ہے وہ بنام مسلم اور قاتل کفار ومشرکین ہیں اہلسنت وجماعت اور وہابیہ دیابنہ ایک دوسرے کو قتل نہیں کر رہے ہیں جسکے لئیے ہمیں متحد ہونے کی ضرورت ہے اگر ضرورت ہے تو سب کیساتھ اتحاد کی جو مصلحتا ہوگی عقیدتا نہیں ۔ تاکہ پاک و ہند میں امن وچین برقرار رہے ( صرف وہابیہ دیابنہ یا مطلقا ہر کلمہ گو سے اتحاد کی بات بے سود ہے) کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ بعد اظھار نفاق اہل ایمان نے منافقین کو ساتھ رکھ کے جنگیں نہیں لڑی ہیں ۔ علماء اہلسنت نے تمامی گستاخان خدا ورسول سے علیحدگی وبیزاری کو ہی لازم جانا اور اس پہ خود بھی عامل رہے اور عوام اہلسنت کو اسی کی تاکید فرمائی ہے ۔ اگر مان بھی لیا جائے کہ کسی سنی عالم نے کبھی ان سے اتحاد کیا تو وہ بھی محض صورتا ناپسندیدگی کیساتھ ہوگا اور ان علماء نے ان کی معیت واتحاد کو پردہ خفا میں رکھا ہوگا ڈھنڈورا نہیں پیٹا ہوگا کیونکہ ایک عاشق رسول کا اتحاد گستاخ رسول کیساتھ قابل شرم وعار ہے تو اب ایسی صورت حال میں جسے اتحاد کی ضرورت ہو وہ کرے ڈھنڈھورا کیوں پیٹتا ہے اور جو نہ کرے اپنی جان جوکھم میں ڈالے تو اے طالبان اتحاد تم تم بجائے اس کی ستائش وپذیرائی کے لعن طعن کیوں کرتے ہو ؟
الحمد للہ ہمیں ان گستاخوں کی نہ کل ضرورت تھی نہ آج ہے اور نہ ان شاء اللہ کل پڑے گی کسی کی جے وجے ہم کیوں پکاریں کیا غرض ہم کو ہمیں کافی ہے بس سید تمھارا نعرہ یا رسول اللہ غلام ہیں غلام ہیں رسول کے غلام ہیں غلامئ رسول میں موت بھی قبول ہے ۔ جو ہو نا عشق مصطفے تو زندگی فضول ہے ۔
تو آخر ہم کیوں ان سے اتحاد واتفاق کی باتیں کریں

ضرورت اس بات کی ہے ہم اہلسنت آپس میں متحد ہوں نہ کہ گستاخان خدا ورسول سے اتحاد کریں اگر انہیں اتحاد کی ضرورت ہے تو گستاخیوں کے طوق کو گردن سے نکال کے آئیں ہم اتحاد کیلئے تیار ہیں اور یہ میرا ایمان ہے کہ اگر اہل سنت کے ہی مابین اتحاد ہو جائے تو یہ بد بخت خود دوڑے آئیں گے کہ ہمیں بھی ساتھ لے لو کیونکہ اگر ہم سب نے مل کے دنیا کو یہ باور کرا لیا کہ یہ (وہابیہ دیابنہ ) سچے مسلمان نہیں تو ان کا چہرہ ہی اتنا مکروہ ہے کہ ہوری دنیا انہیں دھتکار دے گی کیونکہ اب تک جتنے بھی بنام مسلم دھشت گرد پکڑے گئے ہیں وہ سب انہیں کی صورت میں اور یہی تھے کچھ اہلسنت کے نورانی چہروں کے سائے میں یہ اپنا مکروہ چہرہ اب تک چھپائے رہے ورنہ اگر بنام مسلم انہیں کا چہرہ صرف ہوتا تو جس درجہ آج اسلام کو مقبولیت حاصل ہے وہ نہ ہوتی اور چونکہ اسلام کو سر بلند رہنا ہے اس لئے اللہ رب العزت نورانی چہرے والوں کو پیدا فرماتا رہتا ہے ۔ لیکن بعد ان سب باتوں کے بھی اگر کوئی ان سے اتحاد واتفاق کے عادی وشائق ہوں تو انہیں صرف اتنا بتانا ہے کہ یہ مردار وغیرہ سے زیادہ بدبودار ہیں اور یہاں جان دے دینا ہی عزیمت کی بات ہے نا کہ بچانا اور قرآن کا یہ اعلان عام بھی ہے جب موت آن پڑے گی تو اسے نا تو کوئی ایک لمحہ آگے کر سکتا ہے نہ پیچھے لہٰذا مسلمانوں بزدلی چھوڑو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی غیرت ایمانی کو سامنے رکھو :

اور دشمن احمد پہ شدت برتتے رہو
نہ ہو مایوس آتی ہے صدا گور غریباں سے
نبی امت کا حامی ہے خدا بندوں کا والی ہے
(اعلی حضرت علیہ الرحمة والرضوان )
شور اغیار ترے سامنے دب جائینگے
غیر کو غیر اور اپنوں کو سمجھنا سیکھو

اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں جلائے اور اپنے حبیب کی محبت میں اٹھائے آمین ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔