مختصر فضائل و مسائل روزہ
روزہ دین اسلام کا تیسرا اور اہم رکن ہے۔ روزہ کو عربی زبان میں ’’صوم‘‘ کہتے ہیں ۔ لفظ صوم کے لغوی معنی ’’روک لینے‘‘ کے ہیں ۔ جبکہ شرعی اصطلاح میں عبادت کی نیت سے بوقت طلوع فجر تا غروب آفتاب اپنے آپ کو کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے باز رکھنے کا نام روزہ ہے ۔
روزے کی اہمیت قرآن حکیم کی روشنی میں
قرآن حکیم کی بہت سی آیات میں روزے کی اہمیت اور فرضیت کا حکم ملتا ہے۔ سورۃ البقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ياَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ. (البقره،2:183)
ترجمہ : اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ ۔
روزہ بظاہر ایک مشقت والی عبادت ہے لیکن حقیقت میں اپنے مقصد اور نتیجے کے لحاظ سے یہ دنیا میں موجب راحت اور آخرت میں باعث رحمت ہے ۔ روزہ دار دن بھر اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں نہ کچھ کھاتا ہے نہ پیتا ہے لیکن افطار کے وقت اس پابندی کے اختتام کو بھی اپنے لئے باعث مسرت سمجھتا ہے ۔
روزہ ہر بالغ مسلمان مرد اور عورت دونوں پر یکساں طور پر فرض ہے اور بغیر کسی سخت مجبوری کے، اس کو چھوڑنے کی اجازت نہیں۔ قرآن پاک میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے : اَيَامًا مَّعْدُوْدٰتٍط فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَامٍ اُخَرَط وَعَلَی الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَه فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْکِيْنٍط فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّه ط وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ . (البقره،2:184،چشتی)
ترجمہ : (یہ) گنتی کے چند دن (ہیں) پس اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کر لے، اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو ان کے ذمے ایک مسکین کے کھانے کا بدلہ ہے ، پھر جو کوئی اپنی خوشی سے (زیادہ) نیکی کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے، اور تمہارا روزہ رکھ لینا تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں سمجھ ہو ۔
دراصل رمضان کے مہینے میں انسان کے اندر دینی مزاج اور صبرو تقویٰ پیدا کرنے کے لئے مخصوص دینی فضا پیدا ہوجاتی ہے۔ اس ماہ کو نیکیوں کی فصل بہار قرار دیا گیا ہے۔ اس مہینے کو اللہ پاک نے اپنا مہینہ کہا ہے۔ اس مہینے میں ہر مسلمان اپنے اپنے ایمان اور تقویٰ کے مطابق حصہ پاتا ہے۔ جس سے وہ قلبی سکون حاصل کرتا ہے۔ اس ماہ کی ایک اور فضیلت یہ بھی ہے کہ قرآن مجید، فرقان حمید کا نزول بھی اسی بابرکت مہینے میں ہوا۔ یہ مہینہ نزول قرآن کی یاد بھی دلاتا ہے ۔ اس مہینے میں جو روزوں کے ذریعے تقویٰ حاصل نہ کرے وہ اس کتاب پاک سے جو متقیوں کے لئے باعث ہدایت و مغفرت ہے، کماحقہ فائدہ نہیں اٹھا سکتا ۔
روزے کی اہمیت احادیث مبارکہ کی روشنی میں
جس طرح متعدد قرآنی آیات سے روزے کی فضیلت کا علم ہوتا ہے، اسی طرح روزے کی اہمیت کے بارے میں بے شمار احادیث بھی ملتی ہیں جن سے روزے اور رمضان کی قدرو منزلت کا پتہ چلتا ہے۔ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : من صام رمضان وقامه ايمانا واحتسابا غفرله ما تقدم من ذنبه ۔ ترجمہ : جس نے ایمان اور اجر کی نیت سے روزے رکھے اور اس کی (راتوں) میں قیام کیا۔ اس کے پچھلے گناہ معاف کردیئے گئے ۔
روزے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : جس نے بلاعذر یا بلا مرض ایک روزہ بھی ترک کیا تو ساری عمر کے روزے بھی اس کا کفارہ نہیں بن سکتے ۔ (رواہ البخاری،چشتی)
روزہ دار چونکہ اپنے خالق و مالک کے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے دن بھر کھانے پینے اورممنوعہ احکامات سے ممکن حد تک بچنے کی کوشش کرتا ہے، اس لئے افطار کے وقت اس کے لئے بہت زیادہ خوشی کا مقام ہوتا ہے۔ ایک تو افطار کرتے ہوئے بھوک پیاس کی حالت میں اللہ کی نعمتوں سے فیض یاب ہوتا ہے تو اسے ایک عجیب سی مسرت اور اطمینان کا احساس ہوتا ہے اور دوسرے وہ اس امید پر خوش ہوتا ہے کہ آخرت میں وہ اپنے رب کا دیدار کرے گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں، ایک خوشی اس کے افطار کے وقت اور ایک خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت ۔ (متفق علیہ،چشتی)
بخاری اور مسلم میں ایک اور حدیث پاک میں روزہ اور روزہ دار کی فضیلت یوں بیان فرمائی گئی ہے: حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جنت کے آٹھ دروازے ہیں ان میں سے ایک کا نام ریان ہے اور اس میں سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے ۔ (متفق علیہ)
ریان کا معنی ہے سیرابی چونکہ روزہ دار دنیا میں اللہ کے لئے بھوک اور پیاس برداشت کرتے ہیں، اس لئے انہیں بڑے اعزاز و احترام کے ساتھ اس سیرابی کے دروازے سے گزارا جائے گا اور وہاں سے گزرتے ہوئے انہیں ایسا مشروب پلایا جائے گا کہ پھر کبھی پیاس محسوس نہیں ہوگی ۔ (نعمۃ الباری شرح بخاری،چشتی)
روزہ دار کے لئے اللہ پاک نے سحری و افطاری کے اوقات مقرر کئے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: سحری کھایا کرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہوتی ہے۔ (رواہ البخاری: 1923) دوسری روایت میں ہے کہ سحری ضرور کی جائے خواہ پانی کا گھونٹ پی کر یا کھجور کے چند دانے کھا کر ہی کیوں نہ ہو اس سے روزہ رکھنے میں قوت پیدا ہوتی ہے ۔ (نعمۃ الباری شرح بخاری،چشتی)
تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : آدمی کے ہر عمل کا ثواب اللہ تعالیٰ کے یہاں دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہوجاتا ہے لیکن روزے کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : الا الصوم فانه لی وانا اجزی به .
ترجمہ : مگر روزہ تو خاص میرے لئے ہے اس لئے اس کا ثواب اپنی مرضی سے جتنا چاہوں گا دوں گا ۔
ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : الصيام جنه من النار ۔ (ابن خزيمه) ترجمہ : روزہ آگ سے بچنے کیلئے ڈھال ہے ۔
رمضان المبارک کی فضیلت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ خلوص نیت اور تقویٰ کے حصول کے لئے رکھے گئے روزے انسان کو آخرت میںجہنم کی آگ سے بچاتے ہیں اور عذاب قبر سے بچانے میں بھی انسان کے کام آئیں گے۔ رمضان المبارک میں جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے ۔
متفق علیہ حدیث ہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین قید کردیئے جاتے ہیں ۔
روزے کی رخصت کے مسائل
حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حمزہ بن عمرو اسلمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پوچھا کیا میں سفر میں روزہ رکھوں ؟ اور وہ کثرت سے روزہ رکھنے والے تھے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اگر چاہے تو رکھ، چاہے نہ رکھ ۔ (بخاری و مسلم)
سفر کی طرح جہاد میں بھی دشواری کے پیش نظر روزہ ترک کیا جا سکتا ہے اور اگر رکھا ہو تو توڑا جا سکتا ہے مگر اس کی صرف قضا ہوگی، کفارہ نہیں ہوگا ۔
بڑھاپا بذات خود ایک بیماری ہے ۔ اس میں بھی روزہ رکھنے کی بجائے فدیہ دیا جا سکتا ہے ۔(فتاویٰ شامی)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بوڑھے آدمی کو روزہ نہ رکھنے کی رخصت دی گئی ہے لیکن وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو (دو وقت کا) کھانا کھلائے اور اس پر کوئی قضا نہیں ۔ (عالمگیری)
حیض و نفاس والی عورت بھی اس حالت میں روزہ نہیں رکھ سکتی نہ نماز پڑھ سکتی ہے۔ البتہ بعد میں روزے کی قضا کرنا ہوگی نماز کی نہیں ۔ (بہار شریعت)
دودھ پلانے والی اور حاملہ عورت کو روزہ نہ رکھنے کی رخصت ہے۔ بعد میں صرف قضا ہوگی ۔(فتاویٰ رضویہ)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment