Saturday 19 May 2018

کافر کو کافر نہ کہو کا جواب

0 comments
کافر کو کافر نہ کہو کا جواب

محترم قارئین : حیرت کی بات ہے کچھ لوگ ہماری پوسٹوں پر کمنٹس میں آکر کہتے ہیں کافر کو بھی کافر نہ کہو عجب حماقت ہے خود کہہ رہے ہیں کسے کافر نہ کہو یعنی کافر کو خود کافر کہہ دیا تو ٹھیک ہمیں روکتے ہیں عجب الٹی کھوپڑی کے لوگ ہیں یہ خیر آیئے اس کا شرعی حکم کیا ہے پڑھتے ہیں :

کافِر کو کافِر کہنا نہ صِرف جائز بلکہ بعض صورتوں میں فرض ہے ۔ صَدْرُالشَّرِیْعَہ ، بَدْرُ الطَّريقہ حضرت علامہ مَوْلانا مُفتی محمد امجَد علی اَعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں : ایک یہ وَبا بھی پھیلی ہوئی ہے کہتے ہیں کہ ہم تو کافِر کو بھی کافِر نہ کہیں گے کہ ہمیں کیا معلوم کہ اِس کا خاتِمہ کُفْر پر ہو گا ۔ يہ بھی غَلَط ہے ۔ قُرآ نِ عظیم نے کافِر کو کافِر کہا اور کافِر کہنے کاحکْم دیا ۔ چُنانچِہ ارشاد ہو تا ہے : قُلْ یٰۤاَیُّھَا الْکٰفِرُوۡنَ ۔ ترجمہ : تم فرماؤ اے کافرو ۔ (پ 30 الکافرون 1)
اور اگر ايسا ہے تو مسلمان کو بھی مسلمان نہ کہو ، تمہيں کيا معلوم کہ اِسلا م پرمرے گا ، خاتِمہ کا حال تو خدا (عَزَّوَجَلَّ ) جانے ۔
آگے چل کر مزید فرماتے ہیں : بعض جاہِل يہ کہتے ہيں کہ ہم کسی کو کافِر نہيں کہتے عالم لوگ جانيں وہ کافِر کہيں ۔ مگر کيا يہ لوگ نہيں جانتے کہ عوام کے تو وُہی عقائِد ہونگے جو قُرآن و حديث وغيرہُما سے عُلَما نے اُنہيں بتائے يا عوام کے لیئے كوئی شرِيعت جُدا گانہ ہے ؟ جب ايسا نہيں تو پھر عالِمِ دين کے بتائے پر کيوں نہيں چلتے ؟ نيز يہ کہ ضَرورِيا تِ (دین) کا انکار کوئی ايسا اَمْر نہيں جو عُلَما ہی جانيں ۔ عوام جو عُلَما کی صُحْبت سے مُشَرَّف ہوتے رہتے ہيں وہ بھی اُن سے بے خبر نہيں ہوتے ۔ پھر ايسے مُعامَلہ ميں پہلُوتَہی اور اِعراض (یعنی منہ پھیرنے) کے کيا معنٰی ۔ (بہارِ شریعت حصّہ 9 ص 173 ،174،چشتی)

قَطعی کافِر کے کفر میں شک کرنے والا بھی کافِر ہو جاتا ہے : مزید بہارِ شریعت حصّہ اوّل میں ہے : مسلمان کو مسلمان ، کافِر کو کافِر جاننا ضَرور يا تِ دین سے ہے . قَطْعی کافِر کے کُفر میں شک بھی آدَمی کو کافِر بنا دیتا ہے ۔ اِس زمانہ میں بعض لوگ يہ کہتے ہیں کہ میاں جتنی دیر اسے کافِر کہو گے اُتنی دیراللہ اللہ کرو یہ ثواب کی بات ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم کب کہتے ہیں کہ کافِر کافِر کا وظیفہ کر لو مقصود یہ ہے کہ اسے کافِر جانو اور پوچھا جائے تو قطعاً (یعنی یقینی طور پر) کافِرکہو ، نہ یہ کہ اپنی صُلْحِ کُل سے اس کے کُفْر پر پردہ ڈالو ۔ (ماخوذ ازبہارِ شریعت حصّہ 1 ص 98)

جو کہتے ہیں کافر کو کافر نہیں کہنا چاہیئے ان لبرل کی خدمت میں

ان لبرل بچوں سے پو چھیے ننھے کاکے کافر کو کافر کیوں نہیں کہنا چاہیئے ؟

تو ننھے کاکے نے کہا : آگے چل کر مسلمان ہو گیا تب ‘‘کیا ہوگا ؟

ننھے کاکے کی بات سُن کر مجھے ایک واقعہ یاد آگیا وہ یہ کہ میں نے دیکھا ایک بچہ اور بچی کھیل رہے ہیں کسی بات پر دونوں میں لڑائی ہو گئی لڑکے نے لڑکی پر مٹی پھینک دی ۔

میں لڑکے کے پاس گیا اور اس سے پوچھا : تم نےاس پر مٹی کیوں پھینکی ؟

لڑکے نے جواب دیا : یہ میری لگتی ہے ۔

میں نے پوچھا تمہاری کیا لگتی ہے ؟

کہنے لگا : بس میری لگتی ہے ۔

میں نے سوال گھما کر پوچھا اس لڑکی کا باپ تمہارا کون ہے ؟

اس لڑکے نے کہا اس لڑکی کا باپ میرا ماموں ہے ۔

تو میں نے پوچھا کہتا کیوں نہیں ہے یہ میری ماموں زاد بہن ہے ؟

تو لڑکا کہنے گا آگے جا کر بیوی ہو گئی تب ؟

میں نے کہا جب بیوی ہو گئی تب بیوی کہنا ابھی تو بہن کہو ۔

بس مجھے تو لگتا ہے کافر کوکافر نہ کہو یہ وہی بچہ ہے یا اس کی ذریت ۔

کافر کو کافر ہی کہا جائے گا ۔ قرآن کا اسلوب یہ ہی ہے ۔ جب مسلمان ہو گا تب اس کو مسلمان کہیں گے ابھی تو کافر ہے کافر ہی کہا جائے گا ۔ اس فارمولے کے مطابق تو مسلمان کو مسلمان نہ کہو آگے جا کر مرتد ہو گیا تب ؟ ۔ (ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔