Tuesday 29 May 2018

قبر کی زندگی قبر والے سنتے پہچانتے ، جواب دیتے ہیں اور مسلہ حیات النبی ﷺ

0 comments
قبر کی زندگی قبر والے سنتے پہچانتے ، جواب دیتے ہیں اور مسلہ حیات النبی ﷺ


برزخ کا مطلب ہے پردہ، الحاجز والحد بين الشيئين یعنی دو چیزوں میں حد اور رکاوٹ ۔
البرزخ ما بين الموت الی القيامة. مرنے سے لے کر قیامت تک کا وقفہ ۔
(مفردات راغب، 43)۔(روح المعانی، 27: 106)

قرآنِ مجید میں اللہ تبارک تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ.
ترجمہ : اور ان کے آگے اس دن تک ایک پردہ (حائل) ہے (جس دن) وہ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے ۔ (سورۃ الْمُؤْمِنُوْن، 23: 100)

مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے یعنی قیام قیامت تک کا زمانہ عالم برزخ کہلاتا ہے۔ زندگی تین ادوار پر منقسم ہے : (1) حیات دنیوی ۔ (2) حیات برزخی ۔ (3) حیات اخروی ۔

سب سے پہلے دنیوی زندگی ہے اس کے اپنے لوازمات ہیں، پھر حیات برزخی ہے اس کے اپنے لوازمات و احکام ہیں پھر حیات اخروی ہے اس کے اپنے لوازمات و احکام ہیں۔ زندگی بمنزلہ جنس ہے اور یہ تینوں قسمیں بمنزلہ نوع ہے، جہاں نوع ہو وہاں جنس ضرور ہوتی ہے‘ لہٰذا زندگی تینوں میں موجود ہے۔ ہاں ہر نوع دوسری نوع سے مختلف ہوتی ہے اسی لئے حیات دنیوی، برزخی اور اخروی کی جنس ایک ہونے کے باوجود اختلاف انواع کی وجہ سے اکثر احکامات الگ الگ ہیں ۔ مثلاً احکام شرع کی پابندی حیات دنیا میں ہے، برزخ و آخرت میں نہیں۔ حیات انسانی کی خصوصیات ہیں سمع، بصر ، ادراک وغیرہ یہ زندگی کی تینوں انواع میں موجود ہیں بلکہ دنیوی زندگی سے بڑھ کر اخروی زندگی میں ہیں ۔

قبر میں ہونے والے عذاب و ثواب کے بارے میں علمائے اسلام کی تین آراء ہیں

(1) عذابِ قبر صرف روح کو ہوتا ہے
(2) عذابِ قبر صرف جسم کو ہوتا ہے
(3)عذابِ قبر جسم و روح دونوں کو ہوتا ہے

تیسری رائے صحیح تر ہے کہ قبر کی زندگی میں عذاب یا نعمتیں جسم اور روح دونوں کو ملتی ہیں۔ چنانچہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : محله الروح والبدن جميعاً باتفاق اهل السنة ۔ ترجمہ : اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عذاب و ثوابِ قبر روح اور جسم، دونوں کو ہوتا ہے ۔ (شرح الصدور، 75)

امام الوہابیہ علامہ ابنِ قیم کہتے ہیں کہ شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ سے قبر کی زندگی کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا : العذاب والنعيم علیٰ نفس و البدن جميعاً باتفاق اهل سنت ۔ ترجمہ : عذاب و ثواب روح و جسم دونوں کو ہوتا ہے، اسی پر اہل سنت کا اتفاق ہے ۔ (ابن قيم، الروح، 72،چشتی)

روح کے ساتھ جسم کو بھی عذاب و ثواب اس لیے ہوتا ہے کہ روح اور جسم کے درمیان ایک معنوی تعلق ہے۔ اس تعلق کے سبب روح پر وارد ہونے والی کیفیات جسم بھی محسوس کرتا ہے۔ عذاب و ثوابِ قبر کے لیے بدن کا سلامت ہونا ضروری نہیں ہے۔ جسم گل سڑ جائے، آگ میں جلا دیا جائے، سمندر میں غرقاب ہو جائے، درندوں کے پیٹ میں چلا جائے‘ روح کا جسم کے ساتھ تعلق ہونے کے سبب ان تمام صورتوں میں بھی جسم پر اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کی وضاحت امام جلال الدین سیوطی نے ان الفاظ میں کی ہے کہ : عذاب قبر سے مراد عالمِ برزخ کی زندگی کا عذاب ہے۔ اسے عذابِ قبر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ مردوں کو قبروں میں دفنایا جاتا ہے‘ ورنہ ہر میت قبر میں دفن ہو یا نہ ہو جب بھی اللہ اسے عذاب دینا چاہے گا ضرور پہنچائے گا ۔ (سيوطی، شرح الصدور، 75)

قرآن مجید نے فرعونیوں کے عذابِ قبر، یعنی عالم برزخ کے عذاب کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے : فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ. النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ. وَإِذْ يَتَحَاجُّونَ فِي النَّارِ فَيَقُولُ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا نَصِيبًا مِّنَ النَّارِ.
ترجمہ : پھر اللہ نے اُسے اُن لوگوں کی برائیوں سے بچا لیا جن کی وہ تدبیر کر رہے تھے اور آلِ فرعون کو بُرے عذاب نے گھیر لیا۔ آتشِ دوزخ کے سامنے یہ لوگ صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جس دن قیامت بپا ہوگی (تو حکم ہوگا:) آلِ فرعون کو سخت ترین عذاب میں داخل کر دو۔ اور جب وہ لوگ دوزخ میں باہم جھگڑیں گے تو کمزور لوگ ان سے کہیں گے جو (دنیا میں) بڑائی ظاہر کرتے تھے کہ ہم تو تمہارے پیروکار تھے سو کیا تم آتشِ دوزخ کا کچھ حصّہ (ہی) ہم سے دور کر سکتے ہو؟ (الْمُؤْمِن، 40: 45-47)

اللہ تعالی نے اس آیت میں یہ بیان کیا ہے کہ آل فرعون صبح اور شام عذاب پر پیش کیے جاتے ہیں حالانکہ قیامت قائم نہیں ہوئی۔ اسی آیت سے علماء کرام نے عذاب قبر کا ثبوت لیا ہے۔ فرعونیوں اور اُن جیسے کافروں کو قیامت سے پہلے بھی صبح و شام عذاب ہوتا ہے‘ یہی عذابِ قبر ہے یا برزخ کا عذاب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہی منافقینِ مدینہ کے بارے میں بتایا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے : وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُواْ عَلَى النِّفَاقِ لاَ تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَى عَذَابٍ عَظِيمٍ ۔
ترجمہ : اور (مسلمانو!) تمہارے گرد و نواح کے دیہاتی گنواروں میں بعض منافق ہیں اور بعض باشندگانِ مدینہ بھی، یہ لوگ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، آپ انہیں (اب تک) نہیں جانتے، ہم انہیں جانتے ہیں۔ عنقریب ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے پھر وہ (قیامت میں) بڑے عذاب کی طرف پلٹائے جائیں گے۔(اسورۃ لتَّوْبَة، 9: 101)

یعنی منافقین کے لیئے ایک مرتبہ دنیا میں ذلت کا عذاب ‘ دوسری مرتبہ عالمِ برزخ کا عذاب اور اس کے بعد جہنم کا عذاب عظیم ہے ۔

امام بخاری رحمۃ الله علیہ نے اپنی صحیح میں کچھ احادیث کی تخریج ایسی فرمائی ہے جس سے غیرمقلین بھی کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں : جیسا کہ معروف احادیث ہیں مردوں کی سماع جن سے ثابت ہوتی ہے، پر یہ غیر مقلدین، اہل راے ہونے کا پورا ثبوت دے کر ایسی صحیح احادیث کے مقابلے میں اپنا باطل قیاس کرتے ہیں. اور آقا علیہ السلام کے نہایت ہی واضح فرمان کو بھی رد کرتے ہیں ، چنانچہ امام بخاری نے حدیث کی تخریج سے پہلے باب باندھے، جن سے آپ کے عقیدے کی بھی وضاحت ہوتی ہے کہ آپ بھی فوت شدگان کے سننے، دیکھنے، ارد گرد کے ماحول سے آگاہ ہونے سب کا عقیدہ رکھتے تھے ۔ کیا آج کا کوئی غیر مقلد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو معاذ الله بدعقیدہ ہونے کا فتویٰ دے گا ؟
(1) باب الميت يسمع خفق ألنعال، ميت كا جوتوں کی آواز سننا، ۔ (2) باب کلام المیت علی الجنازۃ‘‘۔یعنی جنازہ پر میت کے کلام کرنے کا بیان ۔ (3) دوسرے مقام پر یوں باب باندھا ہے۔ باب قول المیت وھو علی الجنازۃ قدمونی یعنی میت کا یہ کہنا جب کہ وہ ابھی جنازہ پر ہوتا ہے مجھے جلدی لے چلو ۔

.باب الميت يسمع خفق ألنعال، ميت كا جوتوں کی آواز سننا

العَبْدُ إذَا وُضِعَ فِي قَبْرهِ وَتَولَّى وَذَهَبَ أَصْحَابُهُ، حَتَّى إنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهمْ، أَتَاهُ مَلَكَانِ فَأَقْعَدَاهُ فَيَقُولاَنِ لَهُ: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذا الرَّجُلِ محمَّدٍ صلَّى الله عليه وسلَّم ؟ فيقولُ: أَشْهدُ أنَّهُ عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ، فيُقَالُ: انْظُرْ إلَى مَقْعَدِكَ فِي النَّارِ أَبْدَلَكَ اللهُ بهِ مَقْعَداً مِنَ الْجَنَّةِ. قالَ النَّبيُّ صلى الله عليه وسلّم: فَيَراهُمَا جَمِيْعَاً، وَأمَّا الكَافِرُ أو الْمُنَافِقُ فَيَقولُ: لاَ أَدْرِي، كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ. فَيُقَالُ: لاَ دَرَيْتَ وَلاَ تَلَيْتَ، ثُمَّ يُضْرَبُ بِمْطَرَقَةٍ مِنْ حَديدٍ ضَربةً بَيْنَ أُذُنَيْهِ فَيَصِيْحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيَهُ إلاَّ الثَّقَلين.
ترجمہ : جب مردے کو قبر میں دفنایا جاتا ہے اور اُسکے اصحاب واپس پلٹتے ہیں تو وہ ان کے قدموں کی چاپ سنتا ہے۔ اور دو فرشتے اسکے پاس آتے ہیں اور اسے بٹھا دیتے ہیں اور یہ سوال کرتے ہیں : "تم اس آدمی (رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم) کے متعلق کیا کہتے ہو ؟" وہ کہتا ہے: "میں گواہی دیتا ہوں کو وہ اللہ کے عبد ہیں اور رسول ہیں ۔" پھر اس سے کہا جاتا ہے: "دوزخ میں ذرا اپنی جگہ دیکھو، مگر اللہ نے اس کی بجائے تمہیں جنت دی ہے۔" پھر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے مزید فرمایا: "مردہ اپنی دونوں جگہیں دیکھتا ہے، مگر کافر یا منافق فرشتوں سے کہتا ہے: "میں نہیں جانتا، مگر میں وہی کہا کرتا تھا جو کہ دوسرے لوگ کہتے تھے۔" اس پر اُس سے کہا جائے گا: "نہ تم نے یہ جانا اور نہ تم نے (قران) سے ہدایت حاصل کی۔" پھر اس کے دونوں کانوں کے درمیان لوہے کی سلاخ سے چوٹ ماری جائے گی اور وہ چیخے گا۔ اور اِس کی یہ چیخ ہر مخلوق سنے گی سوائے جنات اور انسانوں کے۔"صحيح البخاري، كتاب الجنائز : رقم ١٣٣٨،چشتی)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ، وَتَوَلَّي عَنْهُ أَصْحَابُهُ وَ إِنَّ
هُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ أَتَاهُ مَلَکَانِ فيُقْعِدَانِهِ، فَيَقُوْلاَنِ : مَا کُنْتَ تَقَوْلُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ لِمُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم، فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَقُوْلُ : أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُاﷲِ وَرَسُوْلُهُ. فيُقَالُ لَهُ : أنْظُرْ إِلَي مَقْعَدِکَ مِنَ النَّارِ، قَدْ أَبْدَلَکَ اﷲُ بِهِ مَقْعَداً مِنَ الْجَنَّةِ، فَيَرَاهُمَا جَمِيْعا. قَالَ وَأَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْکَافِرُ فَيُقَالُ لَهُ : مَاکُنْتَ تَقُوْلُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُوْلُ : لَا أَدْرِي! کُنْتُ أَقُوْلُ مَا يَقُوْلُ النَّاسُ! فَيُقَالُ : لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ، ويُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيْدٍ ضَرْبَةً، فَيَصِيْحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيْهِ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ ۔
ترجمہ : بندے کو جب اس کی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے لواحقین واپس چلے جاتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر کہتے ہیں : تو اس شخص یعنی (سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم) کے متعلق (دنیا میں) کیا کہا کرتا تھا ؟ اگر مومن ہو تو کہتا ہے : میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ اس سے کہا جائے گا : (اگر تو ایمان نہ لاتا تو تیرا ٹھکانا جہنم میں ہوتا) جہنم میں اپنے اس ٹھکانے کی طرف دیکھ! اللہ تعالیٰ نے تجھے (نیک اعمال کے سبب) اس کے بدلے جنت میں ٹھکانا دے دیا ہے۔ پس وہ دونوں کو دیکھتا ہوگا، اور اگر منافق یا کافر ہو تو اس سے پوچھا جائے گا : تو اس شخص (یعنی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم) کے متعلق (دنیا میں) کیا کہا کرتا تھا؟ وہ کہتا ہے : مجھے تو معلوم نہیں، میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔ اس سے کہا جائے گا : تو نے نہ جانا اور نہ پڑھا۔ اسے لوہے کے گُرز سے مارا جائے گا تو وہ (شدت تکلیف سے قبر میں) چیختا چلاتا ہے جسے سوائے جنات اور انسانوں کے سب قریب والے سنتے ہیں ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب ماجاء في عذاب القبر، 1 : 462، رقم : 1308،مسلم، الصحيح، کتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب التي يصرف بها في الدنيا أهل الجنة وأهل النار، 4 : 2200، رقم : 2870 أبوداود ، السنن ، کتاب السنة، باب في المسألة في القبر وعذاب القبر، 4 : 238، رقم :4752،چشتی)

قبر والا جوتوں کی آواز سنتا ہے سوالوں کے جواب دیتا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّمکے متعلق سوال  ہوگا جو پہچانے گا وہ نجات پائے گا ۔ (صحیح بخاری جلد دوم صفحہ 357 مترجم وہابی علماء)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِذَا قُبِرَ الْمَيِّتُ أَوْ قَالَ أَحَدُکُمْ، أَتَاهُ مَلَکَانِ أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ، يُقَالُ لِأَحَدِهِمَا : الْمُنْکَرُ، وَ الآخَرُ : النَّکِيْرُ، فَيَقُوْلَانِ : مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُوْلُ : مَا کَانَ يَقُوْلُ : هُوَ عَبْدُ اللّٰهِ وَ رَسُوْلُهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ، فَيَقُوْلَانِ : قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُوْلُ هَذَا، ثُمَّ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فِي سَبْعِيْنَ، ثُمَّ يُنَوَّرُ لَهُ فِيْهِ، ثُمَّ يُقَالُ لَهُ : نَمْ، فَيَقُوْلُ : أَرْجِعُ إِلَی أَهْلِي فَأُخْبِرُهُمْ؟ فَيَقُوْلَانِ : نَمْ کَنَوْمَةِ الْعَرُوْسِ الَّذِي لَا يُوْقِظُهُ إِلَّا أَحَبُّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ، حَتَّی يَبْعَثَهُ اللّٰهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِکَ وَ إِنْ کَانَ مُنَافِقًا قَالَ : سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُوْلُوْنَ فَقُلْتُ مِثْلَهُ لَا أَدْرِي فَيَقُوْلَانِ : قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُوْلُ ذَلِکَ، فَيُقَالُ لِلْأَرْضِ الْتَئِمِي عَلَيْهِ فَتَلْتَئِمُ عَلَيْهِ فَتَخْتَلِفُ فِيْهَا أَضْلَاعُهُ فَلَا يَزَالُ فِيْهَا مُعَذَّبًا حَتَّی يَبْعَثَهُ اﷲُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِکَ.
ترجمہ : جب میت کو یا تم میں سے کسی ایک کو قبر میں داخل کیا جاتا ہے تو اس کے پاس سیاہ رنگ کے نیلگوں آنکھوں والے دو فرشتے آتے ہیں۔ ایک کا نام منکر اور دوسرے کا نام نکیر ہے۔ وہ دونوں اس میت سے پوچھتے ہیں۔ اس عظیم ہستی (رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم) کے بارے میں تو کیا کہتا تھا ؟ وہ شخص وہی بات کہتا ہے جو دنیا میں کہا کرتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بیشک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اس کے (خاص) بندے اور رسول ہیں ۔ فرشتے کہیں گے ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر اس کی قبر کو لمبائی و چوڑائی میں ستر ستر ہاتھ کشادہ کر دیا جاتا ہے اور نور سے بھر دیا جاتا ہے پھر اسے کہا جاتا ہے : (آرام سے) سو جا، وہ کہتا ہے میں واپس جاکر گھر والوں کو بتا آؤں ۔ وہ کہتے ہیں نہیں، (اب تو نئی نویلی) دلہن کی طرح سو جاؤ، جسے گھر والوں میں سے اسے محبوب ترین شخص ہی اٹھاتا ہے ۔ یہاں تک کہ اللہ تعالی (روزِ محشر) اُسے اس کی خواب گاہ سے اٹھائے گا اور اگر وہ شخص منافق ہو تو (سوالات کے نتیجے میں) کہے گا : میں نے ایسا ہی کہا جیسا میں نے لوگوں کو کہتے ہوئے سنا ، میں نہیں جانتا (وہ صحیح تھا یا غلط) ۔ پس وہ دونوں فرشتے کہیں گے کہ ہم جانتے تھے کہ تم ایسا ہی کہو گے ۔ پس زمین سے کہا جائے گا کہ اس پر تنگ ہو جا پس وہ اس پر اکٹھی ہو جائے گی یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں داخل ہو جائیں گی وہ مسلسل عذاب میں مبتلا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو اس ٹھکانے سے اٹھائے گا۔
(ترمذي، السنن، کتاب الجنائز، باب : ما جاء في عذاب القبر، 3 : 383، رقم : 1071
ابن حبان، الصحيح، 7 : 386، رقم : 3117،چشتی)

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت میں مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبر کے سوالات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : وَيَأتِيهِ مَلَکَانِ فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُولَانِ لَهُ : مَنْ رَبُّکَ؟ فَيَقُولُ : رَبِّيَ اﷲُ. فَيَقُولَانِ لَهُ : مَا دِينُکَ؟ فَيَقُولُ : دِينِيَ الإِسْلَامُ. فَيَقُولَانِ لَهُ : مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيکُمْ؟ قَالَ : فَيَقُولُ : هُوَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم . فَيَقُولَانِ : وَمَا يُدْرِيکَ؟ فَيَقُولُ : قَرَأتُ کِتَابَ اﷲِ فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُ.
ترجمہ : اُس (میت) کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اُسے اُٹھا کر بٹھاتے ہیں اور اُس سے پوچھتے ہیں : تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے : اﷲ میرا رب ہے۔ فرشتے اُس سے سوال کرتے ہیں : تیرا دین کیا ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے : اسلام میرا دین ہے ۔ فرشتے اُس سے پوچھتے ہیں : یہ شخص (حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ) جو تمہارے درمیان مبعوث ہوئے کون ہیں؟ وہ جواب دیتا ہے : وہ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ فرشتے اُس سے پوچھتے ہیں : تجھے یہ کیسے معلوم ہوا؟ وہ جواب دیتا ہے : میں نے اﷲ تعالیٰ کی کتاب (قرآن مجید) پڑھی، لہٰذا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کی ۔ (أبو داود، السنن، کتاب السنة، باب في المسألة في القبر وعذاب القبر، 4 : 239، رقم : 4753،چشتی)

عن عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنهما أنّ رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ذکر فتاني القبر فقال عمر بن الخطاب : وأترد علينا عقولنا يا رسول اﷲ؟ فقال : نعم کهيئتکم اليوم قال : فبفيه الحجر ۔ ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبر کے فرشتوں کا ذکر فرمایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا ہمیں ہماری یہ سمجھ بوجھ لوٹا دی جائے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بالکل! آج جیسی ہی سوجھ بوجھ (قبر میں) دی جائے گی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : فرشتے کے منہ میں پتھر (یعنی میں اس کو خاموش کرا دوں گا) ۔ (ابن حبان، الصحيح، 7 : 384، رقم : 3115)(أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 172، رقم : 6603)(هيثمي، موارد الظمأن، 1 : 196، رقم : 778)(هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 47)(منذري، الترغيب والترهيب، 4 : 193، رقم : 5391،چشتی)

احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ قبر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی پہچان کا لازمی سوال ہو گا اور اس میں کامیابی ہی نجات کا باعث ہو گی۔ معلوم ہوا کہ عالم برزخ میں نجات کا واسطہ و وسیلہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی ذات پاک ہی ہیں پس جو شخص دنیا میں ذات رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے اپنا تعلق مضبوط کرے گا اسے عالم برزخ میں بھی اسی واسطہ کے باعث نعمتوں بھرا جنت کا ٹھکانا نصیب ہو گا ۔

عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ قال:کان النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم یقول : اذا وضعت الجنازۃ فاحتملھا الرجال علی اعناقھم ،فان کانت صالحۃ ، قالت :قدمونی ،وان کانت غیر صالحۃ ،قالت لاھلھا :یا ویلھا ،این یذھبون بہ ،یسمع صوتھا کل شیی ء الاالانسان ولو سمع الانسان لصعق ۔
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم فر ماتے تھے کہ:جب جنازہ رکھا جاتا ہے اور لوگ اسے اپنی گردنوں پر اٹھاتے ہیں ،اگر وہ مرنے والا نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے : مجھے آگے بڑھائو ،اور اگر بُرا ہوتا ہے تو اپنے گھر والوں سے کہتا ہے: ہائے خرابی! کہاں لئے جاتے ہو؟انسان کے سوا ہر چیز اس کی آواز کو سنتی ہے اور اگر انسان سن لے تو بے ہوش ہوجائے ۔ ( بخاری،کتاب الجنائز،باب قول المیت وھو علی الجنازۃ قدمونی، حدیث:۱۳۱۶،چشتی)

عن انس رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم قال : العبد اذا وضع فی قبرہ وتولی وذھب اصحابہ ،حتی انہ لیسمع قرع نعالھم ،اتاہ ملکان فاقعداہ ، فیقولان لہ:ماکنت تقول فی ھذاالرجل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ؟ فیقول :اشھد انہ عبد اللہ ورسولہ ، فیقال : انظر الی مقعد ک من النار ،ابدلک اللہ بہ مقعدا من الجنۃ ،قال النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم :فیراھما جمیعا ،واما الکافر او المنافق ، فیقول : لاادری،کنت اقول ما یقول الناس ،فیقالان لادریت ولا تلیت ثم یضرب بمطرقۃ من حدید ضربۃ بین اذنیہ فیصیح صیحۃ یسمعھا من یلیہ الاالثقلین ۔
تر جمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا:جب مردے کو قبر میں رکھ دیا جاتاہے،اور اس کے ساتھی واپس جانے لگتے ہیں تو بے شک وہ ان کی جوتیوں کی آواز کا سنتا ہے،اس کے پاس دو فر شتے آتے ہیں اور اس کو بیٹھاتے ہیں ،دونوں اس سے کہتے ہیں :تو اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم) کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتا تھا ؟ تو وہ کہتا ہے : میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ تو اسے کہا جاتا ہے جہنم میں اپنے ٹھکانے کی طرف دیکھو ۔ اللہ تعالی نے اسے تیرے جنت کے ٹھکانے سے بدل دیا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایا:تو اسے جنت وجہنم کے دونوں ٹھکانے دیکھایا جاتا ہے۔اور رہا کافر اور منافق تو وہ کہتا ہے:میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہا کرتے تھے،دونوں فر شتے کہتے ہیں کہ:نہ تو نے سمجھا اور نہ ہی نیک لوگوں کی پیروی کی،پھر اسے لوہے کے ہتھوڑے سے اس کے کانوں کے درمیان مارتے ہیں ،تو وہ ایسے بھیانک انداز سے چیختا ہے کہ آس پاس کی ساری مخلوقات اس کی چیخ کو سنتی ہے سوائے انسان اور جنات کے ۔ (بخاری،کتاب الجنائز،باب المیت یسمع خفق النعال،حدیث:۱۳۳۸،چشتی)

عن ابی طلحۃ ان نبی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم امر یوم بدر(فساق الحدیث الی ان قال)حتی قام علی شفۃ الرکی ،فجعل ینادیھم باسمائھم اسماء آباء ھم :یا فلان بن فلان ،ویا فلان بن فلان ،ایسر کم انکم اطعنتم اللہ ورسولہ ؟فانا قد وجدنا ما وعدنا ربنا حقا ،فھل وجدتم ما وعد ربکم حقا ، قال:فقال عمر :یا رسول اللہ !ما تکلم من اجساد لا ارواح لھا ،فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم : والذی نفس محمد بیدہ،ما انتم باسمع لما اقول منھم ۔
ترجمہ : حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم بدر کے میدان میں قتل کئے گئے کافروں کے لاشوں کے پاس کھڑے ہوئے اور ان کو ان کے باپوں کے نام کے ساتھ پکارا۔ائے فلاں بن فلاں!اور ائے فلاں بن فلاں!ہم نے تو اس کو پا لیا جس کا وعدہ ہم سے ہمارے رب نے کیا (یعنی فتح و نصرت)تو کیا تم لو گوں نے بھی اس کو پا لیا جس کا وعدہ تم سے تمہارے رب نے کیا تھا ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ! کیا آپ بے جان جسموں سے بات کر تے ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایا:قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ ء قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم) کی جان ہے ۔ میری باتوں کو تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو ۔ (بخاری، کتاب المغازی،باب قتل ابی جھل۔حدیث:۳۹۷۶،چشتی)

عن ابن شماشۃ المھری قال: حضرنا عمرو بن العاص وھو فی سیاقۃ الموت (فساق الحدیث الی ان قال)اذا دفنتمونی فشنوا علی التراب شنا ثم اقیموا حول قبری قدر ما تنحر جزور ویقسم لحمھا حتی استانس بکم وانظر ماذا ارجع بہ رسل ربی ۔
تر جمہ : حضرت ابن شماشہ مہری سے روایت ہے کہ : حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے وقت نزاع اپنے صاحبزادے سے کہا : جب مجھے دفن کرچکو،تو مجھ پر آہستہ آہستہ مٹی ڈالنا پھر میری قبر کے پاس اتنی دیر ٹہرے رہنا جتنی دیر میں ایک اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتاہے،تاکہ میں تم سے انس حاصل کروں اور جان لو کہ میں اپنے رب کے فر شتوں کو کیا جواب دیتا ہوں ۔ (مسلم،کتاب الایمان ،باب کون الاسلام مایھدم ماقبلہ وکذا الھجرۃ والحج،حدیث: ۱۲۱،چشتی)

ان عقبۃ بن عامر رضی اللہ عنہ قال:ما ابالی فی القبور قضیت حاجتیی او فی السوق والناس ینظرون ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ،جلد:۳؍ ص:۳۳۹،حدیث:۱۱۹۰۳)
تر جمہ : حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:انہوں نے کہا:میں برابر جانتاہوں کہ میں قبرستان میں قضائے حاجت کے لئے بیٹھوں یا بازار میں کہ لوگ دیکھتے رہے ۔ (یعنی مردے بھی دیکھتے ہیں جیسے زندہ دیکھتا ہے)۔(مصنف ابن ابی شیبۃ،جلد:۳؍ ص:۳۳۹،حدیث:۱۱۹۰۳،چشتی)

عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قال:أذی المومن فی موتہ کاذاہ فی حیاتہ۔(مصنف ابن ابی شیبۃ،جلد:۳؍ص:۳۶۷،حدیث: ۱۲۱۱۵،چشتی) ۔ تر جمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:انہوں نے ارشاد فر مایا : مون کو مرنے کے بعد تکلیف دینا ایسے ہی جیسے اس کی زندگی میں تکلیف دینا ۔

عن ابی ایوب : ان النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سمع صوتا حین غربت الشمس فقال:ھذہ اصوات الیھودتعذب فی قبورھا ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ،جلد:۳؍ص:۳۷۵،حدیث: ۱۲۱۶۰) ۔ ترجمہ : حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے سورج کے ڈوبنے کے وقت ایک آواز سنی تو فر مایا:یہ یہودیوں کی آواز ہے جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیا جارہا ہے ۔

عن عبد اللہ بن عمروبن العاص عن النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم قال : ان الدنیا جنۃ الکافر وسجن المومن وانما مثل المومن حین تخرج نفسہ کمثل رجل کان فی سجن فاخرج منہ فجعل ینقلب فی الارض ویتفسح فیھا۔و لفظ ابی بکر ھکذا:الدنیا سجن المومن و جنۃ الکافر فاذا مات المومن یخلی سر بہ یسرح حیث یشائ ۔
تر جمہ : حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا:بے شک دنیا کافر کی جنت ہے اور مسلمانوں کا قید خانہ،اور ایمان والوں کی جب جان نکلتی ہے تو اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی قید خانہ میں تھا اور اب اسے نکال دیا گیا کہ زمین میں گشت کرتا اور با فر اغت چلتا پھرتا ہے۔اور ابو بکر بن ابی شیبہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ:دنیا مسلمانوں کا قید خانہ ہے اور کافروں کی جنت ،جب مسلمان مرتا ہے تو اس کی راہ کھول دی جاتی ہے کہ جہاں چاہے سیر کرے ۔ (کتاب الزھد لابن المبارک،ص:۲۱۱، حدیث :۵۹۷، دارالکتب العلمیہ بیروت،مصنف ابن ابی شیبۃ،کتاب الزھد،جلد:۱۳، ص:۳۵۵،حدیث:۳۵۸۶۷،چشتی)

عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم قال: ان المیت یعرف من غسلہ ویحملہ ومن یکفنہ ومن ید لیہ فی حفرتہ۔(مسند احمد بن حنبل،مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ،جلد:۳؍ ص: ۳،حدیث:۱۱۰۱۰،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فر مایا : بے شک مردہ اسے پہچانتا ہے جو اس کو غسل دے اور جو اٹھائے اور جو کفن پہنائے اور جو قبر میں اتارے ۔

عن ام المومنین عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت:کنت ادخل بیتی الذی فیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم وانی واضع ثوبی واقول انما ھو زوجی و ابی ،فلما دفن عمر ،فواللہ ما دخلتہ الا و انا مشدودۃ علی ثیابی حیاء من عمر ۔ (مشکوۃ المصابیح،باب زیارۃ القبور،ص:۱۵۴،چشتی)
تر جمہ : ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :وہ فر ماتی ہیں :میں اس مکان جنت آستاں میں جہاں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا مزار پُر انوار ہے یوں ہی بے لحاظ ستر و حجاب چلی جاتی ،اور جی میں کہتی وہاں کون ہے،یہی میرے شوہر یا میرے والد پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ دفن ہوئے تو قسم بخدا ،میں عمر سے حیاء کرتے ہوئے کبھی بغیر سراپا بدن چھپائے نہ گئی ۔ (امام حاکم نے بھی اس حدیث کو روایت کیا اور کہا کہ یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے)۔

یہ نجدی منافق ہے گندا ہے واللہ
جہنّم پہ اس کا نام کندہ ہے واللہ

جو مردہ کہے تمکو وہ خود مردہ ہے واللہ ۔ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ ۔ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)

میرے چشم عالم سے چھپ جانے والے ۔ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)

جو سُنــی ہـــے وہ تو ہــمیـــــشہ کہے گا

رہے گا یونہی اُن کا چرچا رہے گا ۔ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)
پڑے خاک ہو جائیں جل جانے والے

عن أبی الدرداء قال قال رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم:۔ ۔ ۔ إن اللہ حرم علی الأرض أن تأکل أجساد الأنبیاء . فنبی اللہ حی یرزق.
ترجمہ: حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بیشک اللہ تعالی نے زمین پر حرام کردیا کہ وہ انبیاء کرام علیھم السلام کے اجسام کو متغیر کردے تو اللہ کے نبی حیات ہیں ،رزق پاتے ہیں۔(سنن ابن ماجہ، باب ذکر وفاتہ ودفنہ ،صلی اللہ علیہ وسلم،حدیث نمبر1706)
لہذا اللہ کے نبی زندہ رہتے ہیں اور رزق پاتے ہیں ، یہ حدیث پاک کلمات کے مختصر سے فرق کے ساتھ سنن ابو داؤد شریف ،سنن نسائی،مستدرک علی الصحیحین ، مسند امام احمد،مصنف ابن ابی شیبہ،سنن کبری للنسائی،معجم کبیر طبرانی،معجم اوسط طبرانی،بیہقی شب الایمان،صحیح ابن حبان، صحیح ابن خزیمۃ،سنن صغری للبیھقی،جامع الأحادیث،الجامع الکبیر للسیوطی،سنن دارمی،کنز العمال، جامع الأحادیث اور الجامع الکبیر للسیوطی میں موجودہے۔(سنن ابو داؤد شریف ج 1 کتاب الصلوٰۃ فضل یوم الجمعۃ ولیلۃ الجمعۃ ص 150-۔سنن نسائی، باب إکثار الصلاۃ علی النبی -صلی اللہ علیہ وسلم- یوم الجمعۃ،حدیث نمبر: 1385-۔سنن ابن ماجہ، باب فی فضل الجمعۃ، حدیث نمبر1138-۔مستدرک علی الصحیحین ، کتاب الجمعۃ، حدیث نمبر980-۔مسند امام احمد، حدیث أوس بن أبی أوس الثقفی، حدیث نمبر16592-۔مصنف ابن ابی شیبہ،ج2،ص389-۔سنن کبری للنسائی، حدیث نمبر16592-۔معجم کبیر طبرانی، حدیث نمبر588-۔معجم اوسط طبرانی، حدیث نمبر4936-۔بیہقی شب الایمان، حدیث نمبر2894-۔صحیح ابن حبان، باب الأدعیۃ، حدیث نمبر912-۔صحیح ابن خزیمۃ، جماع أبواب فضل الجمعۃ، حدیث نمبر1638-۔سنن صغری للبیہقی، باب فضل الجمعۃ، حدیث نمبر607-۔جامع الأحادیث، حدیث نمبر8441-۔الجامع الکبیر للسیوطی، حدیث نمبر1790-۔سنن دارمی، حدیث نمبر1624-۔کنز العمال، حدیث نمبر2202،چشتی)
سنن ابو داؤد شریف میں مذکورہ حدیث پاک کے الفاظ یہ ہیں :عن اوس بن اوس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان من افضل ایامکم یوم الجمعۃ فیہ خلق آدم، و فیہ النفخۃ و فیہ الصعقۃ، فاکثروا علی من الصلاۃ فیہ ، فان صلاتکم معروضۃ علی قالوا: یا رسول اللہ و کیف تعرض صلا تنا علیک و قد ارمت؟ فقال : ان اللہ عز و جل حرم علی الارض اجساد الانبیاء ۔
ترجمہ: سیدنا اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے دنوں میں زیادہ فضیلت والا دن جمعہ ہے اسی دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اسی دن وصال فرمائے اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن لوگوں پر بے ہوشی طاری ہوگی۔

لہٰذا تم اس دن مجھ پر کثرت سے درود شریف پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود میری بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے،راوی کہتے ہیں صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم !آپ کی بارگاہ میں ہمارا درود کس طرح پیش کیا جائے گا جبکہ وصال فرماکر آپ پر ایک عرصہ بیت گیاہوگا؟ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کردیاہے کہ انبیاء کرام کے اجسام کو متغیرکرے۔ (سنن ابو داؤد شریف ج 1 کتاب الصلوٰۃ فضل یوم الجمعۃ ولیلۃ الجمعۃ ص 150،چشتی)

صحیح مسلم شریف میں حدیث پاک ہے:عن سلیمان التیمی سمعت انسا یقول قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مررت علی موسی و ہو یصلی فی قبرہ و زاد فی حدیث عیسی مررت لیلۃ اسری بی ۔
ترجمہ: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا جبکہ وہ اپنے مزار میں نماز ادا کررہے تھے۔(مسلم شریف، 165، فضائل موسی)

نیزمسند ابو یعلی میں حدیث پاک ہے :عن انس بن مالک قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الانبیاء احیاء فی قبورہم یصلون۔
ترجمہ: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام زندہ ہیں، اپنے مزارات میں نماز ادا کرتے ہیں۔ (مسند ابو یعلی ،حدیث 3331 مسند انس رضی اللہ عنہ)

امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد و منبع الفوائد میں اس حدیث پاک کو ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے:و رجال ابی یعلی ثقات۔
ترجمہ: مسند ابو یعلی کی حدیث شریف کے تمام رواۃ ثقہ اور قابل اعتماد ہیں۔(مجمع الزوائد‘ باب ذکر الانبیائ‘ ج 8 ص 210)

61ھ میں جب یزیدی لشکر نے مدینہ طیبہ پر حملہ کیا تو مسجدنبوی شریف میں تین دن اذان واقامت نہیں کہی گئی ، ان دنوں حضرت سعیدبن مسیب رضی اللہ عنہ روضۂ اطہرسے اذان اور اقامت کی آواز سنتے تھے ، جیساکہ سنن الدارمی میں روایت ہے :

عن سعید بن عبد العزیز قال : لما کان أیام الحرۃ لم یؤذن فی مسجد النبی -صلی اللہ علیہ وسلم- ثلاثا ولم یقم ، ولم یبرح سعید بن المسیب المسجد ، وکان لا یعرف وقت الصلاۃ إلا بہمہمۃ یسمعہا من قبر النبی -صلی اللہ علیہ وسلم۔
ترجمہ : حضرت سعیدبن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اُنہوں نے فرمایا:جب واقعۂ حرہ رونماہوا تو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد شریف میں تین دن اذان واقامت نہیں کہی گئی ، حضرت سعیدبن مسیب رضی اللہ عنہ مسجدہی میں رہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ روضۂ اطہرسے اذان واقامت کی آواز آیاکرتی جس کی وجہ سے وہ نماز کا وقت معلوم کرتے تھے ۔ (سنن الدارمی ، کتاب المقدمہ ، باب مااکرم اللہ تعالی نبیہ بعد موتہ،حدیث نمبر:94،چشتی)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان وصال اقدس کے بعد وہی ہے جو وصال اقدس سے پہلے تھی،امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے مواہب لدنیہ میں رقم فرمایا :اذ لا فرق بین موتہ وحیاتہ فی مشاھدتہ لامتہ ومعرفتہ احوالھم ونیاتھم وعزائمھم وخواطرھم ،وذلک عندہ جلی لا خفاء بہ۔
ترجمہ: امت کا مشاہدہ فرمانے کے لئے اور ان کے حالات ،نیتیں،ارادے اور دلی کیفیات کو جاننے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ اور وصال مبارک میں کوئی فرق نہیں۔اور یہ ساری چیزیں آپ پر بالکل عیاں ہیں جس میں کسی قسم کی پوشیدگی نہیں۔(المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فی زیارۃ قبرہ الشریف ومسجدہ المنیف،ج12،ص195)
اسی وجہ سے حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے خلیفہ ابو جعفرمنصورکو یہی فرمایا تھا کہ جب بارگاہ اقدس میں حاضرہوں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جانب ہی رخ کرکے دعا کریں،سبل الہدی والرشاد میں روایت ہے:

ولما ناظر أبو جعفر المنصور عبد اللہ بن محمد بن عباس ثانی خلفاء بنی العباس مالکا فی مسجدہ علیہ الصلاۃ والسلام قال لہ مالک: یا أمیر المؤمنین لا ترفع صوتک فی ہذا المسجد، فإن اللہ تعالی أدب قوما فقال: (لا ترفعوا أصواتکم فوق صوت النبی) وإن حرمتہ میتا کحرمتہ حیا، فاستکان لہا أبو جعفر، وقال لمالک: یا أبا عبید اللہ أأستقبل القبلۃ وادعوا أم استقبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ فقال لہ: لم تصرف وجہک عنہ وہو وسیلتک ووسیلۃ أبیک آدم إلی اللہ تعالی یوم القیامۃ بل استقبلہ واستشفع بہ فیشفعک اللہ، فإنہ تقبل بہ شفاعتک لنفسک قال اللہ تعالی: (ولو أنہم إذ ظلموا أنفسہم)
ترجمہ :اور جب بنی عباس کے دوسرے خلیفہ ابو جعفر منصور عبد اللہ بن محمد بن عباس نے امام مالک رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے مسجد نبوی علی صاحبہ الصلوٰۃ والسلام میں مناظرہ کیا تو امام مالک رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے ان سے فرمایا:اے امیر المؤمنین!اپنی آواز کو اس مسجد میں بلند نہ کرو!کیونکہ اللہ تعالی نے ایک بہترقوم کو ادب سکھاتے ہوئے (قرآن کریم میں )فرمایا:"اپنی آوازوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی آواز پر بلند نہ کرو!"بیشک آپ کی ظاہری حیات طیبہ میں جس طرح آپ کاادب واحترام لازم تھا آپ کے وصال مبارک کے بعد بھی اسی طرح ادب واحترام ملحوظ رکھا جائے! تو خلیفہ ابو جعفر باادب ہوگئے اور امام مالک سے دریافت کرنے لگے:اے ابو عبید اللہ!بوقت حاضری ‘میں قبلہ کی جانب رخ کروں اور دعا کروں یا ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جانب رخ کروں؟تو آپ نے فرمایا:آپ اپنے چہر ہ کو حضور کی بارگاہ سے کیسے پھیر سکتے ہو؟جبکہ آپ کی ذات گرامی ہی قیامت کے دن اللہ تعالی کے دربار میں آپ کے لئے اور آپ کے والد حضرت آدم علیہ السلام کے لئے وسیلہ ہے۔ہر حال میں آپ حضور کی جانب ہی رخ کریں!اور آپ سے شفاعت طلب کریں!اللہ تعالی تمہارے حق میں سفارش قبول کرے گا،کیونکہ یہی وہ ذات بابرکت ہے جس کے طفیل تمہارے حق میں تمہارا معروضہ قبول کیا جائے گا،اللہ تعالی کا ارشاد ہے: (ولو أنہم إذ ظلموا أنفسہم۔۔۔۔)(سبل الہدی والرشاد،جماع أبواب بعض ما یجب علی الانام من حقوقہ علیہ الصلاۃ والسلام،ج11،ص423،چشتی)

ان روایتوں سے واضح ہوتاہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باحیات ہیں ، نماز ادافرماتے ہیں ۔ مذکورہ احادیث شریفہ حیات کے متعلق واضح دلیل ہیں ، حیات کے متعلق واضح کلمات وارد ہونے کے باوجود اس کی تاویل کرنا ، اس کا کوئی اور مطلب بیان کرنا حدیث پاک کا مفہوم تبدیل کرنے کے مترادف ہے اور بلاکسی دلیل ظاہر حدیث سے انحراف ہے ۔

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مذکورہ بالاحدیث پاک میں ’’حیات ‘‘کی ایک علامت ذکر فرمائی کہ انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام نماز ادافرماتے ہیں۔

صحیح ابن حبان کی طویل روایت کا ایک حصہ ملاحظہ ہو:فلما دخل صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس و اسری بہ اسری بموسی حتی راہ فی السماء السادسۃ و جری بینہ و بینہ من الکلام ما تقدم ذکرنا لہ ۔
ترجمہ : جب حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس میں داخل ہوئے پھر آپ آسمانوں پر تشریف لائے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی آسمانوں پر تشریف لائے یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چھٹے آسمان پر دیکھا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان گفتگو ہوئی (صاحب کتاب کہتے ہیں) جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا۔ (صحیح ابن حبان فصل اول حدیث نمبر:50)۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔