درس قرآن موضوع آیت وَلَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ اَمْوٰتٌ
وَلَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ اَمْوٰتٌ ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنۡ لَّا تَشْعُرُوۡنَ ﴿سورہ بقرہ ۱۵۴﴾
ترجمہ : اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہوبلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبرنہیں ۔
مختصر تفسیر : وَلَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ اَمْوٰتٌ : اور جواللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو ۔ صبر کے ذکر کے بعد اب صبر کرنے والوں کی ایک عظیم قسم یعنی شہیدوں کا بیان کیا جارہا ہے۔ یہ آیت ِکریمہ شہداء کے حق میں نازل ہوئی ۔
بعض لوگ شہداء کی شہادت پر افسوس کرتے ہوئے کہتے تھے کہ وہ لوگ شہید ہو کر نعمتوں سے محروم ہو گئے ۔ تب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی ۔ (تفسیر خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۴، ۱/۱۰۳)
جس میں فرمایا گیا کہ انہوں نے فانی زندگی اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر کے دائمی زندگی حاصل کرلی ہے ۔
شہداء کے فضائل
اس آیت میں شہداء کو مردہ کہنے سے منع کیا گیا ہے ، نہ زبان سے انہیں مردہ کہنے کی اجازت ہے اور نہ دل میں انہیں مردہ سمجھنے کی اجازت ہے ، جیسا کہ ایک اور مقام پر فرمانِ باری تعالیٰ ہے : وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ اَمْوٰتًا ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوۡنَ ۔ (ال عمران:۱۶۹)
ترجمہ : اور جو اللہکی راہ میں شہید کئے گئے ہر گز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں ، انہیں رزق دیا جاتا ہے ۔
موت کے بعد اللہ تعالیٰ شہداء کو زندگی عطا فرماتا ہے ، ان کی ا رواح پر رزق پیش کیا جاتا ہے ، انہیں راحتیں دی جاتی ہیں ، ان کے عمل جاری رہتے ہیں ، ان کا اجرو ثواب بڑھتا رہتا ہے ، حدیث شریف میں ہے کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے بدن میں جنت کی سیر کرتی اور وہاں کے میوے اور نعمتیں کھاتی ہیں ۔ (شعب الایمان ، السبعون من شعب الایمان، ۷/۱۱۵، الحدیث: ۹۶۸۶،چشتی)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : اہل جنت میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا :اے ابن آدم!تو نے اپنی منزل و مقام کو کیسا پایا ۔ وہ عرض کرے گا : اے میرے رب ! عَزَّوَجَلَّ ، بہت اچھی منزل ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ’’تو مانگ اور کوئی تمنا کر ۔ وہ عرض کرے گا : میں تجھ سے اتنا سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے دنیا کی طرف لوٹا دے اور میں دس مرتبہ تیری راہ میں شہید کیا جاؤں ۔ (وہ یہ سوال اس لئے کرے گا ) کہ اس نے شہادت کی فضیلت ملاحظہ کر لی ہو گی ۔ (سنن نسائی ، کتاب الجہاد، ما یتمنی اہل الجنۃ، ص۵۱۴، الحدیث: ۳۱۵۷)
شہید کی تعریف اور ا س کے احکام
شہید وہ مسلمان ، مُکَلَّف ، طاہر ہے جو تیز ہتھیار سے ظلماً مارا گیا ہو اور اس کے قتل سے مال بھی واجب نہ ہوا ہو یا معرکہ جنگ میں مردہ یا زخمی پایا گیا اور اس نے کچھ آسائش نہ پائی ۔ اس پر دنیا میں یہ احکام ہیں کہ نہ اس کو غسل دیا جائے نہ کفن ، اسے اس کے کپڑوں میں ہی رکھا جائے ، اسی طرح اس پر نماز پڑھی جائے اور اسی حالت میں دفن کیا جائے ۔ (بہار شریعت، شہید کا بیان،۱/۸۶۰،چشتی)
بعض شہداء وہ ہیں کہ ان پر دنیا کے یہ احکام تو جاری نہیں ہوتے لیکن آخرت میں ان کے لیے شہادت کا درجہ ہے جیسے ڈوب کر یا جل کر یا دیوار کے نیچے دب کر مرنے والا،طلب ِعلم اورسفرِحج غرض راہ خدا میں مرنے والا یہ سب شہید ہیں۔ حدیثوں میں ایسے شہداء کی تعداد چالیس سے زائد ہے۔ مکمل تفصیل کیلئے بہارِ شریعت حصہ چہارم ملاحظہ فرمائیں ۔
وَلٰکِنۡ لَّا تَشْعُرُوۡنَ : لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ۔ یعنی یہ بات تو قطعی ہے کہ شہداء زندہ ہیں لیکن ان کی حیات کیسی ہے اس کا ہمیں شعور نہیں اسی لئے ان پر شرعی احکام عام میت کی طرح ہی جاری ہوتے ہیں جیسے قبر ، دفن، تقسیمِ میراث ، ان کی بیویوں کا عدت گزارنا ، عدت کے بعد کسی دوسرے سے نکاح کرسکنا وغیرہ ۔
مختصر تفسیر : وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ اَمْوٰتًا : اور جو اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہر گز انہیں مردہ خیال نہ کرنا ۔
شانِ نزول : اکثر مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت شہداء احد کے حق میں نازل ہوئی ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جب تمہارے بھائی اُحد میں شہید ہوئے تواللہ تعالیٰ نے ان کی اَرواح کو سبز پرندوں کے جسم عطا فرمائے ، وہ جنتی نہروں پر سیر کرتے پھرتے ہیں ، جنتی میوے کھاتے ہیں ، سونے کی اُن قندیلوں میں رہتے ہیں جو عرش کے نیچے لٹک رہی ہیں ۔ جب ان شہداء کرام نے کھانے ، پینے اور رہنے کے پاکیزہ عیش پائے تو کہا کہ پیچھے دنیا میں رہ جانے والے ہمارے بھائیوں کو کون خبر دے کہ ہم جنت میں زندہ ہیں تاکہ وہ جہاد سے بے رغبتی نہ کریں اور جنگ سے بیٹھ نہ رہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں انہیں تمہاری خبر پہنچاؤں گا۔ پس یہ آیت نازل فرمائی ۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی فضل الشہادۃ، ۳/۲۲، الحدیث: ۲۵۲۰،چشتی)
اس سے ثابت ہوا کہ اَرواح باقی ہیں جسم کے فنا ہونے کے ساتھ فنا نہیں ہوتیں ۔ یہاں آیت میں شہدا ء کی کئی شانیں بیان ہوئی ہیں : فرمایا کہ وہ کامل زندگی والے ہیں ، وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پاس ہیں ، انہیں رب کریم کی طرف سے روزی ملتی رہتی ہے ، وہ بہت خوش باش ہیں۔ شہداء کرام زندوں کی طرح کھاتے پیتے اورعیش کرتے ہیں۔ آیتِ مبارکہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ شہیدوں کے روح اور جسم دونوں زندہ ہیں ۔ علماء نے فرمایا کہ شہداء کے جسم قبروں میں محفوظ رہتے ہیں ، مٹی ان کو نقصان نہیں پہنچاتی اور صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے زمانے میں اور اس کے بعداس بات کا بکثرت معائنہ ہوا ہے کہ اگر کبھی شہداء کی قبریں کھل گئیں تو ان کے جسم تر و تازہ پائے گئے ۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۶۹، ۱/۳۲۳،چشتی)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’ جس کسی کے راہِ خدا عَزَّوَجَلَّمیں زخم لگا وہ روزِ قیامت ویسا ہی آئے گا جیسا زخم لگنے کے وقت تھا ، اس کے خون میں خوشبو مشک کی ہوگی اور رنگ خون کا ۔ (بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب من یجرح فی سبیل اللہ عزوجل، ۲/۲۵۴، الحدیث: ۲۸۰۳)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، ،سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’شہید کو قتل سے تکلیف نہیں ہوتی مگر ایسی جیسی کسی کو ایک خراش لگے۔ (ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب ما جاء فی فضل المرابط، ۳/۲۵۲، الحدیث: ۱۶۷۴)
حضرت عبداللہبن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’شہید کے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں سوائے قرض کے ۔ (مسلم ، کتاب الامارۃ، باب من قتل فی سبیل اللہ کفرت خطایاہ الا الدّین، ص۱۰۴۶، الحدیث: ۱۱۹(۱۸۸۶)،چشتی)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جنت میں جانے کے بعد شہید یہ تمنا کرے گا کہ مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے اور دس بار (اللہکے راستے میں ) قتل کیا جاؤں۔ (مسلم ، کتاب الامارۃ، باب فضل الشہادۃ فی سبیل اللہ تعالی، ص۱۰۴۳، الحدیث: ۱۰۹(۱۸۷۷))
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے: میری یہ تمنا ہے کہ میں اللہتعالیٰ کے راستے میں جہاد کروں ، پھر شہید کیا جاؤں ، پھر جہاد کروں ، پھر شہید کیا جاؤں ، پھر جہاد کروں پھر شہید کیا جاؤں۔
(مسلم ، کتاب الامارۃ، باب فضل الجہاد والخروج فی سبیل اللہ، ص۱۰۴۲، الحدیث: ۱۰۳(۱۸۷۶))
حضرت اسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ دعا مانگی ’’اللہُمَّ ارْزُقْنِی شَہَادَۃً فِی سَبِیلِکَ ، وَاجْعَلْ مَوْتِی فِی بَلَدِ رَسُولِکَ‘‘اے اللہ عَزَّوَجَلَّ، مجھے اپنی راہ میں شہادت عطا فرما اور مجھے اپنے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے شہر میں وفات نصیب فرما ۔ (بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، ۱۳- باب، ۱/۶۲۲، الحدیث: ۱۸۹۰)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment