Monday 28 May 2018

بعد از وصال نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کہیں آ جا سکتے ہیں کہ نہیں ؟

0 comments
بعد از وصال نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کہیں آ جا سکتے ہیں کہ نہیں ؟

محترم قارئین : ابن وہاب نجدی کے عقائد و نظریات کے پیروکار غیر مقلدین وہابی اور مماتی دیوبندی قرآن کریم کی آیت پیش کر کے عادت کے مطابق غلط مفہوم و غلط تفسیر بیان کر کے سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں آیئے ان ایمان کے ڈاکوؤں کے فریب کو بے نقاب کرتے ہیں :

یہ نجدی منافق ہے گندا ہے واللہ
جہنّم پہ اس کا نام کندہ ہے واللہ

جو مردہ کہے تمکو وہ خود مردہ ہے واللہ ۔ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ ۔ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)

میرے چشم عالم سے چھپ جانے والے ۔ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)

جو سُنــی ہـــے وہ تو ہــمیـــــشہ کہے گا

رہے گا یونہی اُن کا چرچا رہے گا ۔ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)
پڑے خاک ہو جائیں جل جانے والے
آیت : حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوۡنِ ۔ لَعَلِّیۡۤ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیۡمَا تَرَکْتُ کَلَّا ؕ اِنَّہَا کَلِمَۃٌ ہُوَقَآئِلُہَا ؕ وَ مِنْ وَّ رَآئِہِمۡ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوۡنَ۔
تر جمہ : (99 ) یہاں تک کہ جب ان میں کسی کو موت آئے تو کہتا ہے کہ اے میرے رب مجھے واپس پھر دیجئے ،
(100 ) شاید اب میں کچھ بھلائی کماؤں اس میں جو چھوڑ آیا ہوں ہشت یہ تو ایک بات ہے جو وہ اپنے منہ سے کہتا ہے اور ان کے آگے ایک آڑ ہے اس دن تک جس دن اٹھائے جائیں گے ، ۔ (سورہ مومنون،آیت:۹۹/۱۰۰)

ابن وہاب نجدی کے پیروکاروں کی غلط تفسیر : اِس آیت سے معلوم ہوا کہ مرنے والا شخص چاہتے ہوئے بھی پھر اِس دنیا میں نہیں آسکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اِس کی اجازت کسی کو دیتا ہی نہیں ہے۔اِس لئے جو لوگ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کہیں بھی آ جا سکتے ہیں بالکل غلط ہے۔ یہ تفسیر اور مطلب کسی کتاب میں نہیں ہے اور نہ یہ حدیث کے مطابق ہے ۔

صحیح تفسیر : اتمام حجت کےلیئے ہم تفسیر ابن کثیر کا حوالہ پیش کر رہے ہیں : علامہ ابن کثیر اِس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کافروں اور اللہ کے احکام میں زیادتی کر نے والے لوگوں کی موت کے بعد جو حالت ہوتی ہے اُس کی خبر دیا ہے۔کہ وہ لوگ جب عذاب اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے واپس دنیا میں جانے کی اجازت طلب کرتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ” ائے رب! مجھے واپس جانے دے کہ میں وہ نیک کام کروں جو میں چھوڑے رکھا”یعنی میں اِس بات کی گواہی دوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں۔تو اُن سے کہا جاتا ہے کہ ہر گز نہیں ۔ (تفسیر ابن کثیر)

حَتّٰۤی: یہاں تک کہ ۔ اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو خبر دی کہ جو کفار مرنے کے بعد اٹھنے کا انکار کر رہے ہیں یہ اپنی موت کے وقت دنیا کی طرف لوٹائے جانے کا سوال کریں گے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ کافر اپنی موت کے وقت تک تو اپنے کفر و سرکشی، اللّٰہ تعالیٰ اور ا س کے رسول عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کرنے اور مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کا انکار کرنے پر ڈٹا رہتا ہے اور جب ا س کی موت کا وقت آتا ہے اور جہنم میں اس کا جو مقام ہے وہ اسے دکھایا جاتا ہے اور جنت کا وہ مقام بھی دکھایا جاتا ہے جو ایمان لانے کی صورت میں اسے ملتا، تو کہتا ہے کہ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ ، مجھے دنیا کی طرف واپس لوٹادے ۔ (خازن، المؤمنون،تحت الآیۃ:۹۹، ۳/۳۳۱، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۹، ص۷۶۵، جلالین، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۹، ص۲۹۲،چشتی)

لَعَلِّیۡۤ اَعْمَلُ صَالِحًا : شاید اب میں کچھ نیک عمل کرلوں ۔ ارشاد فرمایا کہ کافر اپنی موت کے وقت عرض کرے گا کہ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، مجھے دنیا کی طرف واپس لوٹادے،شاید اب میں اس دنیا میں کچھ نیک عمل کرلوں جسے میں نے چھوڑدیا ہے اور نیک اعمال بجا لا کر اپنی غلطیوں اورکوتاہیوں کا تَدارُک کروں۔ اس پر اس سے فرمایا جائے گا ’’ ہرگز نہیں! یہ تو ایک بات ہے جو وہ حسرت و ندامت سے کہہ رہا ہے، یہ ہونے والی نہیں اور اس کا کچھ فائدہ نہیں۔ مزید ارشاد فرمایا کہ ان کے آگے ایک رکاوٹ ہے جو انہیں دنیا کی طرف واپس ہونے سے مانع ہے اور وہ موت ہے کہ قانونِ الٰہی یہی ہے کہ جو مرگیا وہ دوبارہ دنیا میں نہیں لوٹایا جائے گا۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ انبیاء و اَولیاء کا قدرت ِ الٰہی اور اِذنِ الٰہی سے مُردوں کو زندہ کرنا اس آیت کے مُنافی نہیں کہ آیت میں عمومی قانون بیان کیا گیا ہے جبکہ انبیاء و اَولیاء کا زندہ کرنا قدرت ِ الٰہی کا اِظہار ہے ۔

موت کے وقت دنیا میں واپسی کا سوال مومن و کافر دونوں کریں گے

یاد رہے کہ جس طرح کافر اپنی موت کے وقت ایمان لانے اورنیک اعمال کرنے کے لئے دوبارہ دنیا میں لوٹا دئیے جانے کا سوال کریں گے اسی طرح وہ مسلمان بھی دنیا میں لوٹائے جانے کا سوا ل کریں گے جنہوں نے نیک اعمال کرنے میں کمی یا کوتاہی کی ہو گی ، چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُلْہِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُکُمْ عَنۡ ذِکْرِ اللہِۚ وَ مَنۡ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوۡنَ ﴿۹﴾ وَ اَنۡفِقُوۡا مِنۡ مَّا رَزَقْنٰکُمۡ مِّنۡ قَبْلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوۡلَ رَبِّ لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنِیۡۤ اِلٰۤی اَجَلٍ قَرِیۡبٍ ۙ فَاَصَّدَّقَ وَ اَکُنۡ مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۰﴾ وَ لَنۡ یُّؤَخِّرَ اللہُ نَفْسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُہَا ؕ وَ اللہُ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ‘‘(منافقون:۹۔۱۱)
ترجمہ : اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاریاولاد تمہیں اللّٰہ کے ذکر سے غافل نہ کردے اور جو ایسا کرے گاتو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے اس وقت سے پہلے پہلے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرلو کہ تم میں کسی کو موت آئے تو کہنے لگے، اے میرے رب !تو نے مجھے تھوڑی مدت تک کیوں مہلت نہ دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالحین میں سے ہوجاتا۔اور ہرگز اللّٰہکسی جان کو مہلت نہ دے گا جب اس کا وعدہ آجائے اور اللّٰہتمہارے کاموں سے خبردار ہے ۔

ترمذی شریف میں ہے ، حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا : جس کے پاس اتنا مال ہو کہ وہ بَیْتُ اللّٰہ شریف کا حج کرنے پہنچ سکتا ہو یا اس پر زکوٰۃ فرض ہو ، اس کے باوجود وہ حج نہ کرے یا زکوٰۃ نہ دے تو وہ مرتے وقت دنیا میں واپسی کا سوال کرے گا۔ایک شخص نے کہا:اے عبداللّٰہ بن عباس! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا، آپ اللّٰہ تعالیٰ سے ڈریں، دنیا میں واپسی کا سوال تو صرف کفار کریں گے (اور آپ مسلمانوں کے بارے میں ایسا کہہ رہے ہیں) حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا:میں اس کے بارے میں تمہارے سامنے قرآن مجید کی آیات پڑھتا ہوں، چنانچہ آپ نے سورہِ منافقون کی ان تین آیات کی تلاوت فرمائی ۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المنافقین، ۵/۲۰۸، الحدیث: ۳۳۲۷)

لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کی ادائیگی اور ا س کے اَحکام کی بجا آوری میں ہر گز ہر گز غفلت سے کام نہ لے اور دنیا کی زندگی میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کر لے تاکہ موت کے وقت ایسے حال کا سامنا کرنے سے محفوظ رہے ۔

اِس تفسیر سے معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد کافروں کی روح کو کیسے قید کر دیا جاتا ہے اور اُن کی حالت کیا ہوتی ہے ۔ رہی بات نیک مسلمانوں کی تو اُن کی کیا حالت ہوتی ہے اُسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تفصیل سے بیان فر مایا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ : بے شک دنیا کافر کی جنت ہے اور مسلمانوں کا قید خانہ ۔ اور بے شک جب مسلمان کی جان نکلتی ہے تو اُس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی قید خانہ میں تھا اور اب اُسے نکال دیا گیا تو اب وہ زمین میں آزادی کے ساتھ گھومتا پھرتا ہے ۔ اور ابن ابی شیبہ کی روایت میں یہ لفظ آیا ہے کہ”جب مسلمان مرتا ہے تو اُس کے راستوں کو کھول دیا جاتا ہے کہ وہ جہاں چاہے سیر کرے ۔ (کتاب الزھد لابن مبارک،صفحہ :۲۱۱/حدیث:۵۹۷۔مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الزھد،جلد ۱۳/ ص:۳۵۵/حدیث:۳۵۸۶۷،چشتی)

اِس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ جو پابندی کافروں کے لئے ہوتی ہے وہ مسلمانوں کے لئے نہیں ہوتی اور جب عام مسلمان کے لئے نہیں ہوتی تو پھر انبیاء اور اولیاء کے لئے وہ پابندی کیسے ہو سکتی ہے جو کافر کے لئے ہوتی ہے ۔ مگر افسوس غلط تفسیر کر نے والوں نے وہ پابندی نبیوں علیہم السّلام کے سردار پر لگا دی ۔ جسے اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لئے رکھا ہے ۔ نعوذ باللہ من ذالک ۔

محترم قارئین یاد رکھیں : انبیائے کرام علیہم السّلام بعد وصال بھی زندہ ہوتے ہیں اور جہاں چاہے آ جا سکتے ہیں ۔ جیسا کہ معراج کے وقت تمام انبیائے کرام علیہم السّلام بیت المقدس میں حاضر ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پیچھے نماز ادا فر مایا پھر اُن میں سے کچھ سے الگ الگ آسمانوں پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ملاقات بھی ہوئی اور انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو مبارک باد بھی پیش فر مایا ۔ خاص طور سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو مبارک باد دینے کے ساتھ نمازوں میں کمی کرانے کا بار بار مشورہ بھی دیا ۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان ،حدیث:۱۷۲) یہ اور اس باب کی ساری حدیثیں بتا تی ہیں کہ انبیائے کرام بعد وصال کسی بھی جگہ آ جا سکتے ہیں ۔ اِس لئے یہ عقیدہ کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بعد وصال کہیں بھی آ جا نہیں سکتے حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے بالکل غلط ہے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔