Wednesday 23 May 2018

فضائل اعتکاف احادیث مبارکہ کی روشنی میں

0 comments
فضائل اعتکاف احادیث مبارکہ کی روشنی میں

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلّم رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف میں گزارتے تھے ۔ (صحیح مسلم کتاب الاعتکاف حدیث نمبر ۲۷۸۲)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلّم نے اعتکاف کرنے والے کے بارے میں فرمایا کہ وہ گناہوں سے دور رہتا ہے اور اسے نیکیوں کا اتنا زیادہ ثواب ملتا ہے کہ گویا اس نے تمام نیکیاں کیں ۔ (سنن ابن ماجہ ،باب فی ثواب الاعتکاف حدیث ۱۷۸۱)

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلّم نے فرمایا کہ جس نے رمضان میں دس دنوں کا اعتکاف کیا تو گویا اس نے دو حج اور دو عمرے کئے ۔(شعب الایمان باب فی الاعتکاف حدیث ۳۹۶۶،چشتی)

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلّم نے معتکف کے بارے میں ارشاد فرمایا : وہ (یعنی معتکف) گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اُسے عملاً نیک اعمال کرنیوالے کی مثل پوری پوری نیکیاں عطا کی جاتی ہیں ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب فی ثواب الاعتکاف، 2 : 376، رقم : 21781،چشتی)

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ہی ایک اور حدیث مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : مَنِ اعْتَکَفَ يَوْمًا ابْتغَاءَ وَجْهِ اﷲ جَعَلَ اﷲُ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ النَّارِ ثَلَاثَ خَنَادِقَ، کُلُّ خَنْدَقٍ أَبْعَدُ مِمَّا بَيْنَ الْخَافِقَيْنِ .
ترجمہ : جو شخص اﷲ کی رضا کے لئے ایک دن اعتکاف کرتا ہے، اﷲ تبارک و تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کردیتا ہے۔ ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبی ہے ۔ (طبرانی، المعجم الاوسط، 7 : 221، رقم : 7326)( بيهقی، شعب الإيمان، 3 : 425، رقم : 3965)(هيثمی، مجمع الزوائد، 8 : 192)

حضرت علی (زین العابدین) بن حسین اپنے والد امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : مَنِ اعْتَکَفَ عَشْرًا فِی رَمَضَانَ کَانَ کَحَجَّتَيْنِ وَ عُمْرَتَيْنِ .
ترجمہ : جس شخص نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کیا، اس کا ثواب دو حج اور دو عمرہ کے برابر ہے ۔ (بيهقی، شعب الإيمان، باب الاعتکاف، 3 : 425، رقم : 3966،چشتی)

ماہِ رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف سنت موکدہ ہے ۔ یہ سنت کفایہ ہے یعنی اگر سب لوگ ترک کردیں تو سب گناہ گار ہوں گے اور شہر یا محلہ میں کسی ایک نے کرلیا تو سب مطالبہ سے بری ہوگئے ۔
اعتکاف کے لئے مسلمان، عاقل ہونا اور جنابت و حیض و نفاس سے پاک ہونا شرط ہے ۔ اس کے لئے بالغ ہونا شرط نہیں ، وہ نابالغ جو عقلمند ہوچکا ہے وہ بھی اعتکاف کرسکتا ہے ۔ اعتکاف جامع مسجد میں ہونا شرط نہیں بلکہ جماعت والی مسجد میں بھی ہوسکتا ہے ۔ اور مطلقا مسجد میں بھی ہوسکتا ہے۔
عورت اگر اعتکاف کرنا چاہتی ہے تو مسجد میں کرنا مکروہ ہے وہ گھر میں ہی اعتکاف کرلے ۔ اگر گھر میں پہلے سے اس کی نماز کے لئے کوئی جگہ مقرر ہے جسے مسجد بیت کہتے ہیں تو عورت اسی جگہ اعتکاف کرے ورنہ ایک جگہ مخصوص کرلے پھر اعتکاف کرے ۔
رمضان کے آخری عشرے کے اعتکاف کا وقت یہ ہے کہ بیسویں رمضان کو سورج ڈوبتے وقت اعتکاف کی نیت سے مسجد میں موجود ہو اور ۲۹ویں رمضان کو چاند ہونے کے بعد اور چاند نہ ہونے پر تیسویں رمضان کو آفتاب ڈوبنے کے بعد مسجد سے نکلے اگر بیسویں رمضان کو نماز مغرب کے بعد اعتکاف کی نیت سے مسجد میں آیا تو رمضان کا اعتکاف نہ ہوا۔اعتکاف واجب و سنت میں اگر اعتکاف کرنے والا مسجد سے بلا عذر باہر نکلا تو اعتکاف ٹوٹ گیا۔ اگرچہ بھول کر نکلا ہو۔ پیشاب ،پاخانہ کے لئے معتکف مسجد سے باہر نکل سکتا ہے۔ اگر مسجد میں وضو وغسل کے لئے جگہ بنی ہو، یا حوض ہو تو باہر جانے کی اجازت نہیں۔ جمعہ کی نماز کے لئے مسجد سے باہر جانے کی اجازت ہے اگر اعتکاف والی مسجد میں جمعہ نہ ہوتا ہو ۔
مریض کی عیادت کے لئے یا نماز جنازہ پڑھنے یا پڑھانے کے لئے مسجد سے باہر جائے گا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ حالت اعتکاف میں احتلام ہوجانے سے اعتکاف فاسد نہیں ہوتا۔ حالت اعتکاف میں گالی گلوج، جھگڑا کرنے سے اعتکاف فاسد نہیں ہوتا مگر بے نور و بے ثواب ہوجاتا ہے۔ معتکف کے لئے اگر چہ مسجد میں کھانے پینے سونے کی اجازت ہے لیکن کھانے پینے میں یہ احتیاط لازم ہے کہ مسجد آلودہ نہ ہو۔
معتکف نوافل پڑھے ۔ قرآن مجید کی تلاوت کرے ۔ درود شریف کثرت سے پڑھے ۔ لوگوں کو دینی مسائل کا درس دے اور دیگر نیک اعمال تسبیح و تہلیل وغیرہ کرتا رہے ۔ رمضان کے آخری عشرے کے اعتکاف کی نیت کی تھی بیچ میں توڑدیا تو جس دن توڑا صرف اس ایک دن کی قضا لازم ہے ، پورے دس دنوں کی نہیں ۔ اعتکاف کی قضا صرف قصداً اعتکاف توڑنے سے نہیں بلکہ اگر بلا اختیار اعتکاف ٹوٹ گیا تو بھی قضا لازم ہے۔ مثلا کسی عذر کی وجہ سے چھوڑدیا بیمار ہوگیا یا عورت معتکف تھی اسے درمیان میں حیض آگیاتو بھی قضا لازم ہے ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔