قبر میں زندگی کا عطا کیا جانا قرآن کریم کی روشنی میں
ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : من عمل صالحا من ذکر او انثیٰ وھو مومن فلنحیینّہ حیوٰةً طیّبہ ۔ (سورہ النحل آیت ٩٧ پارہ ١٤)
ترجمہ : جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت لیکن با ایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے ۔ (ترجمہ مولوی محمد جونا گڑھی غیر مقلد وہابی)
دوسری صدی ہجری کے عظیم مفسّر علامہ سیّد محمود آلوسی علیہ الرحمتہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ھی حیوٰة تکون فی البرزخ فقد جآءہ القبر روضتہ من الریاض الجنتہ او حفرہ من حفر النار ۔ ترجمہ : قران پاک کی آیت میں حیوٰة سے مراد وہ زندگی ہے جو قبر میں عطا کی جائے گی پس قبر یا تو جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے یا آگ کے گڑوں میں سے گڑا ہے ۔ (تفسیر روح المعانی فی تفسیر القران العظیم والسبع المثانی الجزء الرابع عشر صفحہ ٢٢٦ مفتیٔ بغداد العلامہ ابی الفضل شہاب الدین السید محمود الآلوسی البغدادی متوفی ١٢٧ھ،چشتی)
معلوم ہوا جو مومن نیک اعمال کرے ﷲ اسے قبر میں عمدہ زندگی عطا فرماتا ہے جب عام مومن کو قبر میں پاکیزہ زندگی دی جاتی ہے تو ، مومنوں سے شہیدوں رضی اللہ عنہم کی زندگی اعلیٰ ، شہیدوں سے نبیوں علیہم السّلام کی زندگی اعلیٰ اور سارے نبیوں سے امام الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی زندگی اعلیٰ ہے ۔ الحمد ﷲ ہم اہلسنت زندہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے زندہ غلام ہیں ۔
تو زندہ ہے وﷲ تو زندہ ہے وﷲ
میرے چشم عالم سے چھپ جانے والے
(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment