Tuesday 22 May 2018

روزے داروں کےلیئے اللہ عزّ و جل کی طرف سے انعام خاص

0 comments
روزے داروں کےلیئے اللہ عزّ و جل کی طرف سے انعام خاص

ماہ رمضان المبارک بڑی برکتوں، سعادتوں اور نعمتوں والا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو برکتیں اور سعادتیں اس مبارک مہینے کے ساتھ خاص فرمائی ہیں وہ کسی اور مہینے کے ساتھ خاص نہیں ہیں۔ نیز جو برکتیں اس مبارک مہینے کے اندر کئے جانے والے نیک اعمال کے ساتھ مخصوص ہیں وہ دوسرے مہینوں میں انہی اعمال کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں۔ اس مہینہ کو اللہ تعالیٰ نے روزے اور رات کے قیام کے ساتھ خصوصیت عطا فرمائی ہے یعنی صیام رمضان اور قیام رمضان۔

نفلی روزہ رمضان المبارک کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی رکھا جاتا ہے اور رات کا قیام، رمضان المبارک کی راتوں کے علاوہ دوسری راتوں میں بھی ہوتا ہے مگر جو فضیلت ماہ رمضان کی راتوں کے قیام میں ہے وہ کسی اور رات کے قیام میں نہیں اور جو فضیلت، برکت اور سعادت ماہ رمضان کے روزوں میں ہے وہ کسی اور مہینے کے روزوں میں نہیں۔ اس لئے کہ ان اعمال کی اس مہینے کے ساتھ ایک خاص نسبت ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہ مہینہ بہت عزیز ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’رمضان میرا مہینہ ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ داروں کے اجر کے حوالے سے ارشاد فرمایا:حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں ایک دروازہ ہے جس کا نام ریّان ہے، روزِ قیامت اس میں روزے دار داخل ہوں گے ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس میں سے داخل نہیں ہوگا، کہا جائے گا روزہ دار کہاں ہیں؟ پس وہ کھڑے ہوجائیں گے، ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس دروازے میں سے داخل نہیں ہوگا اور جب وہ داخل ہوجائیں گے دروازہ بند کردیا جائے گا۔ پس اس سے روزہ داروں کے علاوہ کوئی داخل نہ ہوگا، ۔(صحيح البخاری، کتاب الصوم، باب الريّان للصائمين،چشتی)

جنت میں تو بہت سارے دروازے ہیں مگر ایک خاص دروازہ ہے اور اس دروازے کا نام باب الریّان ہے۔ عربی زبان میں ریّان کا ایک معنی خوبصورت پھوار والی بارش ہے۔ جس سے موسم خوشگوار ہوجاتا ہے، نہ گرمی کی تپش رہے اور نہ بارش کا کیچڑ رہے۔

ریّان کا دوسرا معنی سیرابی ہے، یہ سیرابی، پیاس کے برعکس ہے، پیاس کو العطش کہتے ہیں اور شدید پیاسے کو عطشان کہتے ہیں لیکن اگر کوئی خوبصورت، ٹھنڈا، میٹھا مشروب پی کے سیراب ہوجائے، سیر ہوجائے تو عطشان کے مقابلے میں اسے ریّان کہتے ہیں۔ گویا عطش اور عطشان میں جتنی پیاس ہے، ریّان میں اتنی ہی سیرابی ہے۔

یہ دروازہ صرف ماہ رمضان کے روزہ داروں کے لئے مختص ہوگا، روزہ دار اس دروازے سے گزارے جائیں گے۔ اس کی حکمت کیا ہے ؟

درحقیقت روزہ اللہ کے لئے بھوک اور پیاس اپنانے کا نام ہے، روزہ دار اللہ کے لئے پیاس اپنا کر عطشان بن کے جائیں گے، اللہ فرمائے گا میری خاطر عطشان ہونے والے بندوںکو ریّان سے گزارو تاکہ جنت میں پہنچنے سے پہلے ہی سیراب ہوجائیں۔ پس آج کی پیاس وہاں کی سیرابی سے بدل جائے گی۔ اب فیصلہ ہم پر ہے کہ ہم آج کی پیاس کو برداشت کرکے وہاں کی سیرابی کے لئے اپنے آپ کو کس قدر کمربستہ کرتے ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اعلان کردیا جائے گا کہ سوائے روزہ داروں کے اس دروازوں سے کسی اور کو گزرنے کی اجازت نہ ہوگی۔ اللہ فرمائے گا کہ یہ دروازے صرف انہی کے لئے مختص ہے جو میری خاطر بھوکے اور پیاسے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امر ہوگا اور آواز دی جائے گی کہ روزہ دار کہاں ہیں؟ پس اس آواز کو سن کر روزے دار میدانِ قیامت میں کھڑے ہوجائیں گے، عرض کریں گے مولیٰ ہم حاضر ہیں، اس وقت حکم ہوگا کہ تمام روزے دار جنت میں باب الریّان سے داخل ہوجائیں اور ساتھ ہی فرمایا جائے گا کہ ان روزے داروں کے سوا اس دروازے سے اور کوئی داخل نہ ہو اور جب روزہ دار اس دروازے سے داخل ہوجائیں گے تو دروازہ بند کردیا جائے گا اور پھر اس دروازے سے کوئی اور داخل نہ ہوسکے گا۔ یہ خاص نعمت و سعادت اللہ تعالیٰ نے روزہ داروں کے حصہ میں رکھی ہے ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جنت کے کئی دروازے ہیں جو نمازی ہوں گے ان کے لئے باب الصلاۃ ہوگا جو مجاہد ہوں گے ان کو باب الجہاد سے گزارا جائے گا جو صدقہ و خیرات کرنے والے ہوں گے وہ باب الصدقہ سے گزارے جائیں گے اور جو روزہ دارہوں گے انہیں باب الریّان سے گزارا جائے گا ۔

اللہ تعالیٰ نے ہر عمل کے نام پر ایک دروازہ رکھا ہے اور اس عمل کے کرنے والے اسی عمل کے نام والے دروازے سے گزریں گے۔ نمازی ہے تو دروازہ نماز ہے۔ ۔ ۔ مجاہد ہے تو دروازہ جہاد ہے۔ ۔ ۔ صدقہ خیرات کرنے والا ہے تو دروازہ صدقہ ہے۔ اس اصول پر چاہئے تھا کہ روزہ رکھنے والوں کے لئے باب الصیام ہوتا، جس طرح ہر عمل کا دروازہ، فقط اس عمل کے نام پر ہے مگر روزہ رکھنے والوں کے لئے دروازہ باب الصیام کے نام سے نہیں، کیوں؟ اس لئے کہ یہ لوگ اللہ کے لئے بھوک پیاس برداشت کرتے ہیں، لہذا اللہ نے اس دروازے کے نام کو مختلف کردیا اور اپنی بارگاہ کی سیرابی کے نام پر باب الریّان بنادیا اور ارشاد فرمایا : کہ جو روزہ دار ہوں گے انہیں باب الریّان سے گزارا جائے گا۔ اگر اس دروازے کا نام باب الصیام ہوتا یعنی روزوں کے نام سے ہی دروازہ ہوتا تو اس دروازے کی قدرو منزلت بھی دوسرے اعمال والے دروازوں کے برابر ہوجاتی۔ یہاں نام عمل کے نام پر نہیں بلکہ عمل کے اجر کے نام پر رکھا ہے اور اجر کیا ہے؟ دیگر اعمال کے اجر نیکیاں ہیں، کسی نے کوئی نیک عمل کیا تو دس، سو یا سات سو نیکیاں مل گئیں یعنی اجر نیکیوں کی تعداد میں ملا ۔

فَمَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه عَشْرُوْا اَمْثَالِهَا. ترجمہ : جو ایک نیکی کرتا ہے اس کو دس گنا اجر ملتا ہے ۔

ہر عمل کا اجر تعداد کے حساب سے مقرر ہے اور ہر عمل کا دروازہ اس عمل کے نام پر مقرر ہے مگر روزے کے لئے اجر نہ نیکیوں کی تعداد میں ہے نہ دروازہ، عمل کے نام پر ہے بلکہ روزے کے اجر کے بارے میں فرمایا کہ : اَلصَّوْمَ لِيْ وَاَنَا اَجْزِيْ به ۔ ترجمہ : روزہ خاص میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا، ۔ ( مشکوٰۃُ المصابیح،چشتی)

وہ جزا کیا ہے؟ روزے کی جزا کو اللہ تعالیٰ نے دیگر اعمال کی طرح واضح نہیں فرمایا بلکہ چھپا کر رکھا ہے۔ اس اجر کی تھوڑی سی جھلک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد مبارک سے سامنے آرہی ہے۔

لصائم فرحتان يفرحهما اذا افطره فرح واذا لقی ربه فرح.(صحيح البخاری کتاب الصوم)
ترجمہ : روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی افطار کے وقت اور ایک خوشی دیدار کے وقت، ۔
ریّان کا معنی اس حدیث کے ساتھ ملاکر سمجھنے سے مزید واضح ہوجائے گا کہ روزے کے عمل کے مطابق اس کا دروازہ اس کے نام پر نہ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ بقیہ اعمال کے اجر نیکیوں کی تعداد کے لحاظ سے بتادیئے گئے اسلئے درازے کا نام بھی عمل کے نام پر رکھ دیا گیا مگر چونکہ اللہ نے روزے کے اجر کا اعلان نہیں کیا اس لئے اس اجر کے نام پر دروازے کا نام رکھ دیا گیا کہ روزے داروں کا دروازہ سیرابی کا دروازہ ہے اور سیرابی کس چیز کی؟ فرمایا کہ روزے دار کے لئے میرے دیدار کے سوا کسی اور شے میں سیرابی ہے ہی نہیں۔ فرمایا : اے روزے دار تو نے میری خاطر بھوک برداشت کی، آج اپنے دیدار کے ذریعے تیری بھوک کو رفع کرتا ہوں۔ ۔ ۔ تو نے میری خاطر پیاس برداشت کی آج اپنے دیدار کے شربت سے تیری پیاس کو دور کرتا ہوں۔ ۔ ۔ تو نے میری خاطر اپنے نفس کی لذتوں کو خیر باد کہا آج میں اپنے دیدار کے ذریعے تجھے اپنی قربتوں کی لذت عطا کرتا ہوں۔ ۔ ۔ تو نے میری خاطر اپنے اوپربہت سی راحتیں حرام کرلیں آج میں اپنے وصال کی راحت سے تمہیں ہمکنار کرتا ہوں ۔

پس یہ سیرابی اللہ کی قربت سے، اللہ کے وصال اور دیدار سے ہے۔

جمالِ یار کی حسرت میں جو مریض ہوا
جمالِ یار ہی ان کا طبیب ہوتا ہے

اسی مفہوم کو کسی شاعر نے فارسی میں یوں بیان کیا

از سرِ بالین من برخیز اے نادان طبیب
درد مندے عشق را دارو بجز دیدار نیست

(مریض کہتا ہے) اے معالج آپ میرے سرہانے سے اٹھ جائیں (آپ کی دوائی میں میری مرض کا علاج نہیں ہے میں تو در مندِ عشق ہوں اور مریضِ عشق کا علاج محبوب کے دیدارکے سوا کچھ نہیں ہوتا، ، ۔
-
اللہ تعالیٰ نے روزہ داروں کو اپنے عاشقوں میں شامل فرمایا اس لئے روزہ داروں کا اجر اپنی ذات کا دیدار مقرر فرمایا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہر شخص اپنے اپنے اعمال کے مطابق اپنے اپنے دروازوں سے بلایا جائے گا تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : بِاَبِيْ وَاُمِّی يَارَسُوْلَ اللّٰه فَهَلْ يُدْعٰی اَحَدٌ مِنْ تِلْکَ الْاَبْواب کُلِّهَا. ترجمہ : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں (یہ تو آپ نے فرمادیا کہ ہر شخص ایک ایک دروازے سے بلایا جائے گا) کیا کوئی ایسا بھی ہوگا جسے ہر دروازے سے آواز آئے؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :ہاں ایسا بھی کوئی ہوگا جس کا نام ہر دروازے سے پکارا جائے گا ابوبکر مجھے یقین ہے کہ آپ بھی انہی میں سے ہوں گے۔(مشکوٰۃ ، کنز العمال ، الترغیب الترہیب،چشتی)

اس حدیث سے جہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت ظاہر ہورہی ہے وہاں لفظ مِنْہُمْ اس بات کی نشاندہی بھی کررہا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سے کئی ایسے خوش نصیب ہوں گے جن کا نام جنت کے ہر دروازے سے پکارا جائے گا۔

روزہ داروں کو اللہ کے خاص مہینے سے نسبت کی بناء پر یہ فضیلت حاصل ہوگی کہ ان کے لئے باب الریّان خاص ہوگیا۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خاص نسبت حاصل ہوئی ان کا درجہ سب جنتیوں میں ممتاز ہوگیا۔ پس یہ نسبت جسے بھی مل جائے وہ بلند ہوجاتا ہے، مہینہ کو مل جائے تو وہ بلند، انسان کو مل جائے تو وہ بلند، عمل کو مل جائے تو وہ بلند ۔

جس شے کو بھی نسبت مل جائے اسی کو افضلیت ملتی ہے پس ماہ رمضان المبارک کو اللہ سے نسبت ہے، روزہ داروں کو رمضان سے نسبت پس اس نسبت کی بناء پر اللہ نے انہیں غیر معمولی درجات عطا فرمائے پس ان نسبتوں کو حاصل کرنے کے لئے محنت و مجاہدہ کرنا پڑتا ہے اگر ماہ رمضان کے روزوں، اس کا قیام اور اس پر استقامت قائم رہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے حصول کی جانب کوششیں نسبت کو ملحوظ رکھ کر کی جائیں تو اللہ تعالیٰ برکتیں اور سعادتیں عطا فرماتا ہے۔ اللہ رب العزت ماہ رمضان المبارک کی خصوصی نعمتوں سے ہم سب کو مالا مال فرمائے۔ آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔