تمام فرقے حق پر ہیں کہنے کا شرعی حکم
یہ کہنا کہ تمام فرقے حق پر ہیں غلط ہیں اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا : ستفترق امتی ثٰلثا وَّسبعین فرقۃً کلھم فی النارالاواحدۃ ۔
ترجمہ : عنقریب میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی ان میں ایک فرقہ جنتی ہوگا۔ باقی سب جہنمی ہوں گے ۔ (سنن ترمذی کتاب الایمان ،باب ماجاء فی افتراق ھذہ الامۃ،الحدیث :۲۶۵۰،ج۴ص:۳۵۳،چشتی)
لہٰذا یہ کہنا کہ سب حق پر ہیں ، گمراہی ہے ۔ اور اگر بعض باطل فرقوں کے کفریہ و گستاخانہ عقائد پر یقینی اطلاع پانے کے باوجود انہیں حق پر سمجھتا ہے اور مسلمان جان کر اس کے پیچھے نماز پڑھتا ہے تو کافر ہے ۔ نماز کا پابند ہونا ۔ بزرگان دین کا فاتحہ دلانا اور قیام و سلام وغیرہ کا قائل ہونا اسے کافر ہونے سے نہیں بچائے گا ۔
اور بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دین نے کسی کو بھی برا کہنے کو نہیں کہا ہے تو لبرل بے دینوں کا خود ساختہ دین ضرور بُرے کو برا کہنے سے روکتا ہے لیکن مذہب اسلام کافرکو کافر کہنے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے گستاخوں کو برا کہنے کی تعلیم دیتا ہے : وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلافٍ مَهِينٍ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيمٍ أَنْ كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَ إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِءاياتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ ) (سورة القلم )
مختصر تفسیر : وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلافٍ مَهِينٍ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ ۔ أي لا تطع يا محمد الحلاف الذي يكثر الحلف بالحق والباطل مستهيناً بعظمة الله وجلاله .
مهين : حقير فاجر .
هماز : أي مغتاب يأكل لحوم الناس بالطعن والسب فيهم والعيب .
مشاء بنميم : أي يمشي بين الناس بالنميمة فينقل حديث بعضهم إلى بعض ليوقع بينهم الفتنه ۔ والنميمة : الوشاية والسعاية للإفساد وهي من الكبائر ۔
وفي الحديث الشريف لا يدخل الجنة نمام ۔ ( رواة البخاري ومسلم،چشتی)
مر صلى الله عليه وسلم على فبرين، فقال ( انهما ليعذبان ... وذكر أن أحدهما كان يمشي بالنميمة ) رواة البخاري.
مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ ۔ أي بخيل ممسك عن الأنفاق كثير الآثام والفجور .
( عتل ) أي جاف غليظ القلب لئيم لا يرحم ولا يلين ثم بعد كل تلك الصفات الذميمة ( زنيم ) أي دعي لصيق ليس له نسب صحيح وهذه أشد معايبه وأقبحها أنه أبن زنى، كمال قال الشاعر : ( زنيم ليس يُعرف من أبوه )
سبب نزول هذه الايه : قال ابن عباس : لا نعلم أحداً وصفة الله تعالى بهذه العيوب غير هذا فألحق به عاراً لا يفارقة ابداً .
نزلت هذه الايه في طاغية من طغاة مكة وهو (( الوليد بن المغيرة )) كان شقياً فاجراً جباراً متكبراً على الناس وقد وصفه الله تعالى بهذه الصفات القبيحة .
ولما نزلت فيه هذه الآيات جاء إلى أمه واستلِّ سيفه وقال : إن محمداً وصفني بعشر صفات وجدت تسعاً في، أما (الزنيم ) فلا علم لي بها، فإن صدقتيني وإلا ضربت عنقك بالسيف!!
فقالت له : أن أباك كان غنياً وكان عينياُ ( أي لا يستطيع إتيان النساء ) فخشيت أن يذهب ماله فمكنت راعياً من نفسي، فأنت أبن ذلك الراعي، فلم يعرف الشقي أنه ( أبن زنى ) حتى نزلت الايه فكانت فضيحة له مدى الدهر.
وكان له عشرة أبناء فكان يقول لهم / من أسلم منكم منعته رفدي أي عطائي .
أَنْ كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَ إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِءاياتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ
أي من أجل أن الله أغناه واكثر أولاده كفر النعمة وقال عن القرآن : انه خرافات وأباطيل المتقدمين وما اشغلها وأقبحها من مقالة!! يقابل المجرم ربه المنعم عليه بمثل هذه الكلمات الفاجرة؟؟
قال تعالى ( سنسمه على الخرطوم ) أي سنجعل له علامة على أنفة تكون له وساماً مدى الحياة وهي خطُم أنفه وقد جرح هذا اللعين يوم بدر فبقى أثر الجرح في انفه بقية عمره.
وكني عن الأنف بالخرطوم إذلالاً له وإهانة فإن الخرطوم يكون للخنزير .
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قُلْ یٰاَیُّھَاالکٰفِرُوْنَ میں کافروں کو کافر کہنے کا حکم دیا ۔ اور ابو لہب ، ولید بن مغیرہ اور عاص بن وائل وغیرہ کفار قریش نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی شان میں گستاخی اور بے ادبی کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے انہیں کوئی جواب نہ دیا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی برائی میں آیت کریمہ نازل فرمائی جس سے ثابت ہوا کہ ہمیں کوئی برا کہے اور ہماری شان میں گستاخی کرے تو جواب نہ دینا سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ہے اور اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی شان میں بے ادبی کرے تو اسے سختی کے ساتھ جواب دینا اور برا کہنا طریقہ خداوندی ہے ۔ بحمد ہ تعالٰی و بکرم حبیبہ الاعلٰی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ ہم اہلسنت و جماعت سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اور سنت الہیہ دونوں پر عمل کرتے ہیں کہ ہمیں کوئی برا کہتا ہے تو ہم خاموش رہتے ہیں لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی شان میں توہین کرتا ہے تو اسے منھ توڑ جواب دیتے ہیں لیکن وہابیہ و دیابنہ اور لبرل خزلھم اللہ تعالٰی اس کے بالکل برعکس کرتے ہیں یعنی انہیں کوئی گالی دیتا ہے تو وہ بھی اسے گالی دیتے ہیں اور لڑنے جھگڑنے کو تیار ہوتے ہیں لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی شان میں کوئی گستاخی کرتا ہے تو خاموش رہتے ہیں بلکہ کستاخی کرنے والوں کا ساتھ دیتے ہیں اور جواب دینے والے کو جھگڑالو ، فسادی قرار دیتے ہیں ۔ خدائے تعالیٰ انہیں سمجھنے اور مذہب حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment