نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم سن یا دیکھ کر انگوٹھے چوم کر آنکھوں سے لگانے والی تمام احادیث ضعیف ہیں اور کیا ضعیف حدیث پر عمل جائز ہے ؟ کا مفصل جواب
عوام کے دلوں میں اذھان میں گمراہوں نے شدید بیوقوفی پھیلا رکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ جو حدیث ان کے ایمان سے کلیش کرتی ہے اسکو بس بیک جنبش قلم (ضعیف) کہہ دیا جاتا ہے اور پھر ساری جہلاء لکیر کے فقیر کی طرح اپنے ان نام نہاد سکالرز کی اندھی تقلید میں لگ جاتے ہیں۔ جواب پیش خدمت ہے جس سے آپ کے سامنے اس لفظ کی مختلف النوع جہات سامنے آئیں گی ۔ ضعیف حدیث کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ یہ جھوٹی یا گھڑی ہوئی حدیث ہوتی ہے۔ بلکہ محدثین کے نزدیک راویوں کی صفات کے اعتبار سے حدیث کی تین قسمیں ہیں۔ (۱) صحیح (۲) حسن اور (۳) ضعیف
تفصیل میں جائے بغیر آپ اتنا سمجھ لیں کہ حدیثِ (صحیح) راویوں کے اوصاف کے لحاظ سے اعلیٰ ترین قسم ہے۔ تو لایصح کا معنی یہ ہوا کہ یہ حدیث روایت کے اعلیٰ درجہ پر فائز نہیں، اسلیئے یہ حدیثِ (حسن) بھی ہوسکتی ہے اور حدیثِ (ضعیف) بھی۔ محدثین نے محض احتیاط کی بنا پر ضعیف حدیث کا درجہ پہلی دو یعنی حدیثِ صحیح اور حدیثِ حسن سے کچھ کم رکھا ہے۔ اس سے عقائد اسلام اور احکام ثابت نہیں ہوتے یعنی عقائد اور احکام کے معاملہ میں کام نہیں دیتی، لیکن فضائلِ اعمال میں یعنی عمل کی فضیلتوں میں علی الاتفاق اجماعاً معتبر ہے۔ اس بات کا انکار جہالت و حماقت ہے، محدثین تو ضعیف کو معتبر مانیں مگر جہلا اس کو غیر معتبر بتائیں ۔ ضعیف حدیث پر عمل کرنے سے صرف اسلیئے اجتناب کرنا کہ یہ تو ضعیف ہے، ایسا خیال رکھنا درست نہیں۔ اس کے متعلق سلف کا عمل ملاحظہ فرمائیں : حدیث: من احتجم یوم الاربعاء و یوم السبت فاصابہ برص فلایلو من الانفسہ ۔ یعنی جو بدھ یا ہفتہ کے دن پچھنے لگائے پھر اس کے بدن پر سفید داغ ہوجائے تو اپنے آپ ہی کو ملامت کرے ۔
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب (لآلی المصنوعہ) میں کتاب المرض والطب کے آخر میں اور (اتعقبات علی الموضوعات) کے باب الجنائز میں نقل فرماتے ہیں : سمعت ابی یقول سمعت ابا عمرو محمد بن جعفر بن مطر النیسابوری قال قلت یوما ان ھذا الحدیث لیس بصحیح فافتصدت یوم الاربعا، فاصابنی البرص فرائیت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فی النوم فشکوت الیہ حالی فقال ایکا والاستھانۃ بحدیثی فقلت تبت یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فانتھبت وقدعا فانی اللہ تعالیٰ وذھب ذلک عنی ۔
ترجمہ؛ ایک صاحب محمد بن جعفر بن مطر نیشاپوری کو فصد کی ضرورت تھی، بدھ کا دن تھا، خیال کیا کہ حدیثِ مذکور تو صحیح نہیں، لہٰذا فصد لے لی، فوراً برص کا مرض ہوگیا۔ خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی، نبی کریم علیہ السلام سے فریاد کی، نبی پاک علیہ السلام نے فرمایا: خبردار میری حدیث کو ہلکا نہ سمجھنا۔ انہوں نے توبہ کی ، آنکھ کھلی تو اچھے تھے۔
امام سیوطی الآلی المصنوعہ میں فرماتے ہیں؛عربی سے ترجمہ؛ ہفتہ کے دن پچھنے لگوانے یعنی خون لینے کے بارے میں امام ابن عساکر روایت فرماتے ہیں کہ ابومعین حسین بن حسن طبری نے پچھنے لگانے چاہے، ہفتہ کا دن تھا، غلام سے کہا حجام کو بلا لا، جب وہ چلا تو حدیث یاد آئی، پھر سوچ کر کہا کہ حدیث میں تو ضعف ہے، غرض کہ پچھنے لگالیئے، برص کا مرض ہوگیا۔ خواب میں نبی کریم علیہ السلام سے فریاد کی تو آپ نے فرمایا دیکھ میری حدیث کا معاملہ آسان نہ جاننا۔ انہوں نے منت مانی کہ اللہ تعالیٰ اس مرض سے نجات دے تو اب کبھی حدیث کے معاملہ میں سہل افکاری نہ کروں گا، صحیح ہو یا ضعیف ، اللہ تعالیٰ نے شفا بخشی۔
یعنی نبی کریم علیہ السلام کی ایسی احادیث جس میں ضعف بھی ہو وہ اعمال کے باب میں اور فضائل کے باب میں تسلیم اور قابل عمل ہوتی ہیں جیسے انگوٹھوں کو چوم کر آنکھوں پر لگانا جب نام محمد علیہ السلام سنا جائے یا پڑھا جائے۔ امام ملا علی قاری الحنفی (رح) نے فرمایا ہے کہ اگرچہ اس کی بابت تمام احادیث درجہ صحت تک نہیں پہنچتی لیکن چونکہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) تک سند پہنچتی ہے اسلیئے ہمارے لیئے اتنا ہی کافی ہے کیونکہ صحابی کی پیروی کا حکم جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرما رکھا ہے۔ ایسے ہی دیگر تمام کام جن کا تعلق فضائل یا اعمال سے ہوتا ہے اس میں سلف کا معمول تھا کہ جس مسئلے میں کوئی واضح حدیث نہ بھی ہوتی تب بھی ضعیف حدیث پر عمل کیا جاتا اور اسکو حقارت سے نہیں دیکھا جاتا۔ اور نا ہی درجہ صحت تک نہ پہنچنے والی ہرحدیث پر (ضعیف) کا خودساختہ اصول لگتا ہے۔ (ضعیف) (کمزور سند والی) اور (موضوع) (منکر) حدیث میں فرق ہے۔ ہر ضعیف حدیث موضوع کے زمرے میں نہیں آتی مگر خوارج یہ باتیں اپنے لوگوں کو کیوں بھلا بتائیں گے۔
علامہ شہاب الدین خفاجی مصری الحنفی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب نسیم الریاض شرح شفاء قاضی عیاض میں فرماتے ہیں!ترجمہ؛ یوں ہی ایک حدیث ضعیف میں بدھ کے دن ناخن کتروانے کے بارے میں آیا ہے کہ یہ مورث برص ہوتا ہے، بعض علماء نے کتروائے کسی نے بربنائے حدیث منع کیا، فرمایا حدیث صحیح نہیں، چنانچہ فوراً برص میں مبتلا ہوگئے، خواب میں حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسم کی زیارت سے مشرف ہوئے، نبی کریم علیہ السلام سے اپنے حال کی شکایت عرض کی، نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا! تم نے سنا نہ تھا کہ ہم نے اس سے نفی فرمائی ہے۔ عرض کی حدیث میرے نزدیک صحت کو نہ پہنچی تھی، ارشاد ہوا : تمہیں اتنا کافی تھا کہ حدیث ہمارے نام پاک سے تمہارے کان تک پہنچی، یہ فرما کر حضور علیہ السلام نے اپنا دست مبارک ان کے بدن پر لگا دیا، فوراً اچھے ہوگئے اور اسی وقت توبہ کی کہ اب کبھی حدیث سن کر مخالفت نہ کروں گا۔ (نسیم الریاض، ج 1 پیروت، دارالفکر ص 344،چشتی)
اس مذکورہ واقعہ میں جو (بعض علماء) لکھا ہے تو یہ بعض علماء سے مراد علامہ امام ابن الحاج مکی مالکی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، علامہ طحطاوی المصری رحمۃ اللہ علیہ حاشیہ درمختار میں فرماتے ہیں ؛ ترجمہ؛ بعض میں آیا ہے کہ مصنف علامہ ابن الحاج مکی کے بارے میں ہے کہ انہوں نے بدھ کے روز ناخن کاٹنے کا ارادہ کیا، انہیں یہ منع والی بات یاد دلائی گئی تو انہوں نے اسے ترک کردیا، پھر خیال آیا کہ ناخن کتروانا سنتِ ثابتہ ہے اور اس سے نہی کی روایت میرے نزدیک صحیح نہیں، لہٰذا انہوں نے ناخن کاٹ لئے تو انہیں برص عارض ہوگیا۔ خواب میں رسول اللہ علیہ السلام کی زیارت ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! کیا تو نے نہیں سنا کہ میں نے اس سے منع فرمایا ہے۔ عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ حدیث میرے نزدیک صحیح نہ تھی، تو آپ علیہ السلام نے فرمایا تیرا سن لینا ہی کافی ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جسم پر اپنا دستِ مبارک پھیرا تو تمام برص زائل ہوگیا، ابن الحاج کہتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور اس بات سے توبہ کی کہ آئندہ جو حدیث بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنوں گا، اس کی مخالفت نہ کروں گا۔ (از طحطاوی ، حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار ج ۴ بیروت، دارالمعرفۃ ص ۲۰۲ فصل فی البیع،چشتی)
غور کرنے کی بات: یہ حدیثٰیں بلحاظ سند کیسی ضعیف تھیں اور واقع میں ان کی وہ شان کہ مخالفت کرتے ہی فوراً تصدیقیں ظاہر ہوگئیں، اللہ تعالیٰ منکرینِ فضائل کو بھی تعظیم مصطفیٰ علیہ السلام کی توفیق بخشے اور حدیث کو ہلکا سمجھنے سے نجات دے آمین ۔
ضعیف حدیث پر عمل اور مخالفین کے گھر سے ثبوت
مولوی اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں؛ ایک مرتبہ مولانا رشید گنگوہی نے حاضرین مجلس سے فرمایا کہ مولانا محمد قاسم کو گلاب سے زیادہ محبت تھی، جانتے ہو کیوں تھی؟ ایک صاحب نے عرض کیا کہ ایک حدیثِ ضعیف میں آیا ہے کہ گلاب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عرق (پسینے) سے بنا ہوا ہے۔ فرمایا ہاں، اگرچہ حدیث ضعیف ہے مگر ہے تو حدیث ۔ (حوالہ ارواح ثلاثہ، اسلامی اکادمی لاھور ۱۹۶۷ ص ۲۹۰ حکایت نمبر ۲۸۶)۔
ایسے ہی الافاضات الیومیہ من افادات القومیہ (حصہ ہفتم جز ۲) تھانہ بھون تالیفاتِ اشرفیہ ص ۴۵۵ ملفوظ نمبر ۵۵۵) پر اشرف علی تھانوی نے لکھا ہے
روایاتِ ضعیفہ کے لیئے فضائل اعمال میں گنجائش ہے۔
مولوی محمد زکریا سہارنپوری (سابق امیر تبلیغی جماعت و مولف تبلیغی نصاب و فضائل اعمال) ضعیف حدیث کے متعلق لکھتے ہیں
فضائل اعمال میں محدثین نے ایسی روایات کو جائز قرار دیا ہے۔ (کتب فضائل پر اشکالات اور ان کے جوابات از سہارنپوری رائے ونڈ مکتبہ دینیات رائے ونڈ لاھور ص ۱۳۳)۔
ایسی ہی بات مفتی محمد شفیع نے تاریخ اسلام مع جوامع الکلم ملتان مکتبہ امدادیہ ص ۳۹۶ پر اور رشید گنگوہی نے درس حدیث کی افادات پر مشتمل (لامع الداری شرح بخاری) ص ۱۵۴ پر بیان کیا ہے۔
مولوی سرفراز صفدر نے بھی لکھا ہے۔محدثین کرام کے ہاں یہ طے شدہ بات ہے کہ عقیدہ کے باب میں خبر واحد صحیح بھی معتبر نہیں، اور حلال و حرام اور طلاق و نکاح وغیرہ کے سلسلہ میں صحیح یا حسن خبر ہی قابل احتجاج ہوسکتی ہے باقی جواز و استحباب کے لیئے ضعیف حدیث بھی قابل عمل ہے۔ چنانچہ امام نووی لکھتے ہیں کہ (وقال العلماٗ من المحدثین والفقہاٗ وغیرھم یجوزویستحب العمل فی الفضائل والرغیب والرھیب بالحدیث الضعیف مالم یکن موضوعا، الخ (کتاب الاذکار ص ۷ طبع مصر)۔ ترجمہ علماٗ محدثین اور فقہا وغیرھم یہ فرماتے ہیں کہ فضائل اور ترغیب وترہیب میں ضعیف حدیث کے ساتھ عمل جائز اور مستحب ہے بشرطیکہ موضوع نہ ہو۔
اور مدرسہ خیرالمدارس (ملتان) کے مفتیوں کا فتویٰ : فضائل کے باب مین ضعیف حدیث سے استدلال ہوسکتا ہے ۔ ( تسکین الصدور از مولوی سرفراز صفدر، مکتبہ صفدریہ گجرانوالہ ص ۳۶۸ و مولوی خیرمحمد جالندھری، خیر الفتاویٰ ج ۱، مرتبہ مفتی محمد انور ناشر مکتبہ امدادیہ ۱۹۸۷ ص ۲۷۹)
غیرمقلدین وہابی کہا کرتے ہیں کہ ضعیف حدیث تو معتبر ہی نہیں ہوتی اور اہلسنت کو طعنہ دیا کرتے ہیں کہ یہ تو بس ضعیف حدیثوں کو مانتے ہیں ان کا سارا عقیدہ ہی ضعیف ہے ۔ مگر ۔ ان جاہلوں کو اتنا شعور نہیں کہ عقیدہ کیا چیز ہے اور عمل کسے کہتے ہیں، الحمدللہ اہلسنت وجماعت کے عقائد قطعیہ واصولیہ، آیاتِ قرانیہ ، احادیثِ صحیحہ اور تامل صحابہ سے ثابت ہیں، باقی رہ گیا فروعی معاملات اور فضائل و مسائل کا معاملہ تو اس بارے میں صرف اہلسنت وجماعت ہی نہیں بلکہ غیرمقلدین وہابی بھی ضعیف احادیث پر عمل پیرا ہیں مثلاً امام الامتِ وہابیہ مولوی ثناٗ اللہ امرتسری غیرمقلد سے سوال کیا گیا کہ ؛ ضعیف حدیث کا معنی کیا ہے، ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے یا نیہں۔ جواب میں کہتے ہیں ! ضعیف کے معنی ہیں جس میں صحیح کی شرائط نہ پائی جائیں ، وہ کئی قسم کی ہوتی ہے اگر اس کے مقابل میں صحیح نہیں ہے تو اس پر عمل کرنا جائز ہے۔ جیسے نماز کے شروع میں سبحالک اللھم الخ پڑھنے والی حدیث ضعیف ہے مگر عمل ساری امت کرتی ہے۔
اسی فتاویٰ میں موجود ہے بعض ضعیف احادیث کی رو سے تکبیراتِ جنازہ کے ساتھ رفع یدین کرنا جائز ہے ۔ ( فتاویٰ ثنائیہ از امرتسری، ج ۲ لاھور، ادارہ ترجمان السنۃ ص ۷۶ باب ہفتم مسائل متفرقہ و ص ۵۰،چشتی)
ایسے ہی مولوی نذیر حسین دہلوی اپنی فتاویٰ نذیریہ ج ۳ لاھور، اہل حدیث اکادمی ۱۹۷۱ ص ۵ پر کہتے ہیں کہ ضعیف حدیث قابل عمل ہوتی ہے اور یہ کہ ضعیف حدیث کو موجوع نہیں کہنا چاہیئے چنانچہ لکھتے ہیں : دوسری روایت میں ہے کہ حضرت فاطمہ کے نکاح کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیا، انہوں نے چار پانچ مد کا کھانا تیار کیا، اور ایک اونٹ ذبح کیا گیا، ولیمہ ہوا، پھر لوگ جماعت جماعت ہوکر کھانے کے لیئے آنے لگے، جب سب کھا چکے تو پھر بھی کھانا بچ گیا۔ آپ نے وہ کھانا اپنی بیویوں کے پاس بھجوا دیا اور فرمایا خود بھی کھاو اور جس کو چاہو کھلاو۔ پہلی حدیث کی سند میں جابر جعفی ضعیف ہے اور شیعہ ہے اور (اس) دوسری حدیث کی سند بھی ضعیف ہے لیکن بہرحال یہ دونوں حدیثیں موضوع نہیں ہیں، اور ان سے یہ ثابت ہوسکتا ہے کہ دلہن یا دلہن کے لواحقین کی طرف سے کھانا کھلایا جاسکتا ہے اور اس کا نام بھی دعوتِ ولیمہ یا دعوتِ عرس ہے۔
ایک دوسری جگہ حدیث کے متعلق لکھتے ہیں : اے اللہ مجھ کو مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ، الحدیث۔ اس کو ترمذی نے انس سے روایت کیا ہے اور اس کی سند بھی ضعیف ہے اور ابن ماجہ نے ابوسعید سے روایت کیا ہے اور اسکی سند بھی ضعیف ہے، مستدرک حاکم میں اسکے اور بھی طرق ہیں بیہقی نے اس کو عبادہ بن صامت سے روایت کیا ہے اور ابن جوزی نے زیادتی جو اس کو موضوع لکھ دیا۔
مولوی ابو عبدالسلام عبدالروف بن عبدالحنان (غیرمقلد) لکھتا ہے : حضرت بلال کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ (اذا ذنست فترسل واذا اقمت فاحدر) یعنی اذان ٹھہر ٹھہر کر اور اقمت جلد کہا کرو ، ترمذی ، عقیلی، طبرانی، ابن عدی ، بیہقی کے علاوہ دیگر محدثین نے بھی اسے بیان کیا ہے، تاہم یہ حدیث بالکل ضعیف ہے، اسے بن حجرِ ذہبی ، عراقی، ترمذی بیہقی، دارقطنی وغیرہ آئمہ نقاد نے نہایت ضعیف قرار دیا ہے ۔ ضعیف ہونے کے باوجود اس حدیث پر ساری امتِ وہابیہ عمل کررہی ہے ۔ تکبیر میں (قد قامت الصلوٰۃ) کے جواب میں (اقامھا اللہ و ادمھا) کہنا، اس حدیث کے متعلق مولوی عبدالروف غیرمقلد لکھتا ہے کہ یہ ضعیف ہے۔ اور نماز میں ہاتھ سینے پر باندھنے کی حدی ضعیف ہے۔ (تمام غیرمقلد وھابی اس ضعیف حدیث پر سختی سے عمل کررہے ہیں) ۔ ( القول المقبول فی تخریج وتعلیق صلوٰۃ الرسول ، سندھو بلوکی ضلع قصور دارالاشاعت اشرفیہ ۱۹۹۷، ص ۲۹۰)۔ ایضاً ص ۲۹۸، و ص ۳۴۲
ایسے ہی غیرمقلدوں کے نواب صدیق بھوپالی نے مسک الختام شرح بلوغ المرام ۔ ہند ۱۳۰۶ھ، ص ۵۷۲ لکھتے ہیں : احادیثِ ضعیفہ در فضائل اعمال معمول بہا است ۔ ترجمہ۔ احادیث ضعیفہ فضائل اعمال میں قابل قبول ہیں۔
مولوی نذیر حسین دہلوی غیرمقلد اپنے فتویٰ میں لکھتا ہے : ضعیف حدیث فضائل میں مقبول ہے اور اس کو موضوع نہیں کہنا چاہیئے ۔
مولوی عبداللہ روپڑی غیرمقلد نے لکھا ہے : فضائل اعمال میں ضعیف حدیث بھی معتبر ہے ۔ مولوی عبداللہ روپڑی سے کسی نے سوال کیا کہ شب برات کے روزے والی حدٰث ضعیف ہے، کیا روزہ رکھنا درست ہے؟
عبداللہ روپڑی نے جواب میں لکھا: شبرات کا روزہ رکھنا افضل ہے چنانچہ مشکوٰۃ وغیرہ میں جو حدیث موجود ہے اگرچہ حدیثِ ضعیف ہے لیکن فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل درست ہے ۔ (مولوی نذیر دہلوی، فتاویٰ نذیریہ ج ۱ ص ۳۰۳ کتاب العلم ۔۔۔ روپڑی فتاویٰ اہل حدیث ج ۲ ص ۱۳۷و ۳۱۸)
مولوی عبدالغفور اثری غیرمقلد، ضعیف حدیث پر عمل کے بارے میں امام سخاوی علیہ الرحمہ کی عبارت نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے : بعض محدثین کرام کے طریقہ کے مطابق ضعیف روایت بالخصوص جب کہ وہ متعدد طرق سے نقل کی جائے، فضائل اعمال اور ترغیب و ترہیب میں قابل عمل ہوتی ہے جیسا کہ علامہ سخاوی رقمطراز ہیں : قال شیخ الاسلام ابو زکریا النووی رحمہ اللہ فی الاذکار، قال العلماء من المحدثین ووالفقھاء وغیرھم: یجوز ویستحب العمل فی الفضائل والترغیب والترھیب بالحدیث الضعیف مالم یکن موضوعاً (القول البدیع ص 258)۔ (احسن الکلام، مولوی عبدالغفور اثری، سیالکوٹ، اہلحدیث یوتھ فورس ۱۹۹۵، ص ۴۳، ۴۴،چشتی)
نوٹ: مولوی عبدالغفور اثری نے جو اپنا من گھڑت فیصلہ دیا ہے کہ (بعض محدثین) کے طریقہ کے مطابق ضعیف روایت قابل عمل ہوتی ہے تو اسکی کوئی حیثیت نہیں، مولوی صاحب کو چاہیے تھا کہ ان بعض محدثین کے نام لکھتے، امام سخاوی علیہ الرحمہ نے (بعض محدثین) نہیں کہا، فضائل ومناقب میں بااتفاق علماٗ، ضعیف حدیث بھی کافی ہے۔ ان لوگوں کا آخرت پر ایمان نہیں اگر حشر کے دن اللہ تعالٰی کے سامنے جواب دینے کا ڈر خوف ہوتا تو عبارات میں خیانتیں کیوں کرتے؟۔ امام سخاوی کی عبارت کا ترجمہ یہ ہے کہ : شیخ الاسلام ابوزکریا نووی علیہ الرحمہ نےا پنی کتاب الاذکار میں کہا ہے کہ علما اور محدثین اور فقہا وغیرہ نے کہ جائز اور مستحب ہے کہ فضائل اعمال اور ترغیب و ترہیب میں ضعیف حدیث پر عمل کیا جائے لیکن وہ موضوع نہ ہو۔
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جس حدیث کے متعلق محدثین یہ کہہ دیں کہ یہ صحیح نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ یہ حدیث ہی نہیں ہے، یا یہ کسی کام کی نہیں، یا قابلِ نفرت ہے۔ ہرگز نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ یہی کہا جائے گا کہ یہ ضعیف ہے اور ضعیف حدیث کے متعلق آپ نے ساری بحث پڑھ ہی لی کہ یہ قابل عمل ہے۔
اذان میں آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک سن کر انگوٹھے یا انگلیوں کے پورے چومنا ضعیف حدیث سے ثابت ہے، تو پھر عمل کرنے سے انکار کیوں کیا جاتا ہے؟
محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خالی ہونے اور تعظیم رسول علیہ السلام سے دشمنی کی اس سے بڑی نشانی اور کیا ہے کہ اس عمل کو ـبریلویتـ کا نام دے کر خوارج اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔
جب دلائل کا کوڑا برسا تو زخموں کو چاٹنے ہوئے سوچنے لگے کہ شان مصطفیٰ علیہ السلام کو تو ماننا ہی نہیں، کیوں نہ ڈھیٹ بن کر اس حدیث کو ہی موضوع کہہ دیں، کہ اس جھوٹ کے بغیر بات نہیں بنے گی لہٰذا خوفِ خدا سے عاری ان لوگوں نے بے شرمی سے یہ جھوٹ گھڑا کہ امام جلال الدین سیوطی (رح) اپنی کتاب (تیسیر المقال) میں لکھتے ہیں کہ اس بارے میں جتنی حدیثیں ہیں وہ سب موضوع اور من گھڑت ہیں۔ چلو چھٹی ہوئی نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ۔ یہ جھوٹی عبارت گھڑنے والا سب سے پہلا شخص مولوی بشیر الدین قنوجی ولد نور الدین ہے۔ مولوی بشیر الدین۱۲۳۵ھ بمطابق ۱۸۱۸ عیسوی میں ریاست قنوج (بھوپال، ہندوستان) میں پیدا ہوا۔ ۱۲۷۳ھ میں انتقال کیا، اسکی تصانیف میں (کشف المبہم شرح مسلم الثبوت) حاشیہ کنز الدقائق، غلیۃ الکلام فی ابطال عمل المولد والقیام، احسن المقال فی شرح حدیث لاتشد الرحال، بصارۃ العنین فی منع تقبیل الابھامین اور تفہیم المسائل وغیرہ کے نام ملتے ہیں ۔ سب سے پہلے اس شخص نے اپنی کتاب (بصارۃ العنینین فی منع تقبیل الابھامین) میں ایک کتاب کا جعلی نام (تیسیرالمقال) گھڑا اور اسے امام جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ کی طرف منسوب کیا، اس سے پہلے اور آج تک دنیا کی کسی زبان کسی کتاب میں یہ نام اور یہ حوالہ درج نہیں ہوا۔ اور نہ ہی کتاب کو وجود ہے۔ یہی حوالہ اس نے اپنی کتاب ھاشیہ کنز الدقائق کے صفحہ ۱۰ پر بھی لکھا اور اسکے علاوہ اس نے (خیرجاری شرح صحیح بخاری) از محمد یعقوب بنانی، شرح رسالہ عبدالسلام لاہوری، از علامہ ابواسحاق بن عبدالجبار کابلی، اقوال الاکاذیب، از امام ابوالحسن عبدالفاخر فارسی، الدرۃ المنتشرہ از امام جلال الدین سیوطی کی عبارتوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ انگوٹھے یا انگلیوں کے پورے چومنے والی احادیث موضو ہیں ۔ ان کا مزید پول مولانا نواب سلطان احمد قادری بریلوی (رحمۃ اللہ علیہ، متوفی ۱۳ اپریل ۱۹۳۲) نے اپنی کتاب (سیف المصطفےٰ علی ادیان الافتراٗ) میں مولوی بشیر الدین قنوجی کا تعاقب کرتے ہوئے کھولا ہے۔
یہ حضرت باین دعویٰ ورع و تقویٰ اس فن تراش خراش میں سب سے پانچ قدم آگے ہیں، مشہور کتابوں کی عبارتیں کایا پلٹ کرنا، جملے کے جملے صاف اڑا جانا، لفظ کے لفظ بے تکان بڑھا دینا، محض بے اصل حوالہ کرنا، علماٗ کتب کے اسما بلکہ کسی نام سے پورا رسالہ لکھنا، عند المطالبہ تصنیف و مصنف کے اعتماد بلکہ وجود عالم ایجاد کا ثبوت نہ دے سکنا حضرت کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ پھر اسکے حاشیہ میں لکھتے ہیں : کتابوں کے فرضی نام بنا لینا، معدوم تصنیفوں کے حوالے دینا، حضرت کا قدیمی داب ہے، مدت ہوئی کہ دہلی میں ان کا قصہ ہوچکا اور رسالہ مستطابہ (افہام المفافل) میں جسے چھپے ہوئے تیس برس گزرے، وہ حال سب چھپ گیا، اس قسم کی کتابوں کا ان سے مطالبہ ہوا تھا۔ شاہ احمد سعید دہلوی نے رقعہ لکھے مگر صدائے برنخاست نہ انہوں نے جواب دیا، نہ ان کے موافقین کے لب کھلے اور جس ذی سے پوچھا گیا یہی کہا کہ ہم نے ان کتابوں کو نہ دیکھا نہ سنا، غرض کسی نےا تنا بھی پتہ نہیں دیا کہ کبھی ان ناموں سے ہمارے کان آشنا ہوئے ہیں ۔
نوٹ: بالکل وہی مرزے محمد علی بھگوڑے والا کام، وہ بھی دعوے کرتا ہے مگر خود کے چیلنج کا جواب کبھی نہیں دیتا۔
مولانا نواب سلطان احمد خاں علیہ الرحمہ نے مولوی بشیر الدین قنوجی کی کتاب (تفہیم المسائل) سے ہیرا پھیریوں اور خیانتوں کے اکتین حوالے دیئے ہیں ایک حوالہ ٓ ملاحظہ فرمائیں : مولوی قنوجی نے اپنی کتاب تفہیم المسائل کے صفحہ ۷۲ پر انکارِ استمداد کے لیئے (مطالب المومنین) سے نقل کیا۔ (کرہ الانتفاع بالقبر) یعنی قبر سے نفع اٹھانا مکروہ ہے، اور اس کا مطلب یہ گھڑا کہ قبور سے مدد مانگنا جائز نہیں، حالانکہ مطالب المومنین کی اصل عبارت یوں ہے (ویکرہ لانتفاع بالمقبرۃ وان لم تبق آثارہ) قبرستان سے فائدہ لینا مکروہ ہے اگرچہ اس کے آثار باقی نہ رہیں۔ ہر عربی خوان سمجھ سکتا ہے کہ یہاں زمین مقبرہ سے تمتع اور اسے اپنے تصرف میں لانے کا ذکر ہے، اسی لیئے اگرچہ کہہ کر ترقی کرتے ہیں کہ شاید قبروں کا نشان نہ رہنے کے بعد جواز انتفاع کا گمان ہو۔ لہٰذا تصریح کردی کہ گو اثر نہ رہے، تاہم انتفاع روا نہیں، قنوجی کی کارسازی دیکھئے کہ پچھلے جملے کو جس سے ان کے گھڑے ہوئے انگڑھ مطلب کا صریح رد ہوتا تھا، صاف ہضم فرما گئے اور جھٹ مقبرہ کی قبر بنا کر انتہیٰ لکھ دیا۔
اسی مولوی بشیر الدین قنوجی کی کتاب بصارۃ العینین کے یہ سارے حوالے وہابیہ کے شیخ الکل مولوی نذیر حسین دہلوی نے فتاویٰ نذیریہ جلد ۱ کتاب الاعتصام بالسنۃ سے من و عن نقل کردیئے گئے ہیں۔ اور فتاویٰ نذیریہ کا نام لئے بغیر یہی حوالے دیوبندی مولوی محمد حسین نیلوی دیوبندی (سرگودھا پاکستان) نے اپنی کتاب (خیرالکلام فی تقبیل الابھام) میں درج کئے ۔
یہاں یہ بات دوبارہ نوٹ کرنے والے ہے کہ 3 مہنے پہلے ان کے ایک اور مفتئی گوگل مرزا محمد علی (جسکی اسنادِ مفتیت) کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ اس نے کشف المحجوب سے ایک ہی لائن اٹھا کر حضرت داتا گنج بخش سرکار پر یہ بیہودہ الزام دھر دیا کہ انہوں نے انبیاٗ کی توہین کی ہے، اور سیدنا داود علیہ السلام پر بہتان لگایا ہے۔ اور بڑے دھڑلے سے ویڈیو بنا کر اس منافق اور اسکے صیہونی پیروکاروں نے چیلنج دیا تھا جس کو خادم نے اسی وقت منظور کیا اور اسکو جوابی ویڈیو ارسال کردی گئی۔ وہ دن اور آج کا دن ہے، نا تو اس نے اپنے دیئے ہوئے چیلنج کا کبھی سامنا کرنے کی جرات کی، نہ کبھی اس نے جواب دینے کی زحمت کی بس گدھے کی طرح بار بار ہر مشہور عالم کو چیلنج دیتا پھرتا ہے تاکہ اسکی اپنی مشہوری ہوسکے۔ اس گھٹیا انسان پر ہم نے اتمام حجت بھی کیا ۳ بار اسکو بلایا غیرت دلائی کے سامنے آو، وہ کتب بھی لاو سامنے اور عوام کے سامنے ہم بات کرلیتے ہیں مگر نہیں اس رافضی نما خوارجی اور آلِ غامدیت و مرزائیت میں غیرت کہاں، یہ کھلے عام اپنی ویڈیوز میں جھوت اسی طرح قنوجی کی طرح یا دیگر خوارج وہابیہ دیوبندیہ صیہونیہ کی طرح حیلہ بازیاں اور مداری پنہ دکھا رہا ہے۔ کیونکہ کشف المحجوب میں یہ روایت بیان کرنے کے بعد باب کے آخر میں خود حضور داتا گنج بخش ہجویری رحمتہ اللہ علیہ نے لکھ رکھا ہے کہ ہمارا ایسی روایات پر کوئی یقین ہنیں یہ درست روایتیں نہیں ہیں بلکہ موضوع ہیں۔ اور سکر اور صحو کے بارے میں جو تعلیم وہ فرما رہے ہیں مرزے نے قطعاً اپنے جاہل پیروکاروں اور ماننے والوں کو وہ نہیں بتائے۔ ہمارے فیس بک کے البم فولڈرز میں ۳ مختلف پبلشنگ ایجنسیز کے سکینز دیئے ہوئے ہیں پورے پورے مگر حرام ہے جو آج تک انہوں نے زحمت فرمائی ہو جواب دینے کی۔ وہ اسلیئے کہ انہوں نے سوچا ہوگا کہ چلو فساد پھیلاتے ہیں کس نے تحقیق کرنی ہے یا جواب دینی ہے۔ لیکن بڑے علمائے کرام کا نام اسلیئے اپنے چیلنج میں لگاتا ہے کہ اس کے ڈھائی اینٹ کی مسجد ضرار و غامدی کا دھندہ اور روزی روٹی چل پڑے۔ کیا کریں بھائی بیروزگاریوں میں کوئی ماں بہن بیچتا ہے تو کوئی اپنا ایمان۔
پھر ان کے مولوی نذیر حسین دہلوی کی جہالت دیکھیں کہ موصوف نے ضعیف تو بولا ہی بولا انگوٹھے جوم کر آنکھوں پر لگانے والی حدیثوں کو مگر اپنے فتوے میں (تقبیل الابہامین) یعنی انگوٹھے چومنا، اور (تقبیل الانام) یعنی انگلیوں کے پورے چومنا کی بجائے (تقبیل عینین) یعنی آنکھیں چومنا لکھا ہے۔ پتہ نہیں مولوی صاحب نے یہ کیا لکھ دیا ہے، کیونکہ انگوٹھے یا انگلیوں کے پورے چوم کر تو آنکھوں پر لگائے جاسکتے ہیں کیا غیرمقلدین بتائیں گے کہ آنکھوں کو کیسے چوما جاتا ہے؟۔ ہم نے تو نہ سنا نہ دیکھا کہ انسان اپنے ہی لبوں سے اپنی آنکھوں کو چوم لے۔ چونکہ وہ محدث دہلوی ہیں اسلیئے ان کو کون پوچھ سکتا ہے!۔
پھر لکھا ہے کہ (یہ حدیثیں ساری بے اصل اور موضوعات ہیں) اسکی دلیل یہ دی کہ شیخ جلال الدین سیوطی نے تیسیر المقال میں لکھا ہے۔ کہ اس بارے میں جتنی حدیثیں ہیں وہ سب موضوع ہیں۔
یہ ہے ان کے مولویان کا اندھی تقلید اور حال احوال کہ یہ لکیر کے فقیر جو جس نے لکھ دیا اس سے اتھا کر چھاپ دیتے ہیں۔ جعلی کتب کے جعلی نام سے ان کے جعلی دھرم کا دھندا چلتا ہے۔
اخرکار تنگ آکر سوچا کہ اس حدیث کی سند کا ہی ستیاناس کیوں نہ کردیں تاکہ آئندہ کوئی یہ حدیث پیش کرے تو ہم فوراً اپنے شائع کردہ نسخہ سے یہ حدیث نکال کر دکھادیں کہ جناب اس حدیث کی سند کا تو راوی ضعیف ہے اور پھر اپنی اس بے ایمانی پر خوشی سے بغلیں بجائیں تو اب انہوں نے سوچا کہ دنیا بھر کے نسخوں میں تحریف کیسے کریں؟ کیوں نہ حدیث کی سند میں تحریف کرنے کے لیئے ایک محرف نسخہ چھاپ لیں، چنانچہ سعودی ریال کے ہوتے ہوئے خرچہ کی کیا فکر، تو جناب ان لوگوں نے حدیث کی سند پر شب خود مار کر اس حدیث کے ثقہ راوی (شعبہ) (جسے امام بخاری امیر المومنین فی الحدیث کہتے ہیں) کا نام نکال کر اسکی جگہ ایک ضعیف راوی (سعید) کا نام لکھ دیا۔ یہ مجموعہ احادیث پاکستان میں غیرمقلدوں کے کتب خانہ دارالسلام (جس کی ہربڑے شہر میں شاخ ہے) سے ۲۵۰۰ روپے میں مل جاتا ہے۔ یعنی بے ایمانی بھی اتنی مہنگی کر کے بیچتے ہیں یہ اپنے اندھے غیرمقلد دھرم کے پیروکار مقلدینِ غیرمقلد کو۔
دوسری چالاکی : مولوی نذیر دہلوی نے تیسیر المقال کی جو عربی عبارت درج کی ہے اس کے ساتھ ہی یہ عبارت بھی عربی میں درج ہے (وقال الملا علی القاری فی رسالۃ الموضوعات لا اصل لھا) مولوی نذیر دہلوی نے اگرچہ علامہ سیوطی کی عبارت کے بعد (انتہیٰ) لکھا ہے مگر مولوی نذیر حسین دہلوی یا فتاویٰ نذیریہ کے ناشرین نے اگلی عبارت کو اسی رسم الخط میں ساتھ ملا کر لکھا ہے، جس سے عام اردو پڑھا آدمی اس عبارت کو تیسیر المقال کی عبارت ہی سمجھتا ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی کا سن پیدائش ۸۴۹ھ اور سن وفات ۹۱۱ھ ہے۔ جب کہ ملا علی قاری کا سن وفات ۱۰۱۴ھ ہے اور ملا علی قاری کی کتاب (نزھۃ الفاتر فی ترجمہ شیخ سیدی عبدالقادر) کے مخطوطہ موجود کتب خانہ دارالکتب المصریہ قاھرہ کا عکس ۱۴۲۵ھ بمطابق ۲۰۰۴ میں مکتبہ قادریہ لاہور سے شائع ہوا ہے اس میں سن وفات ۱۰۱۶ھ لکھا ہے۔ امام سیوطی کی وفات ۹۱۱ھ میں ہوئی تو اس وقت یعنی ایکسو پانچ سال پہلے تو شاید ملا علی قاری (رح) پیدا بھی نہ ہوئے ہوں تو اس وقت امام سیوطی نے ملا علی قاری کی کتاب کا حوالہ کیسے دے دیا؟۔ کیا وہ مستقبل کا غیب جانتے تھے؟ مولوی نذیر حسین کے اس علمی پہیلی کا جواب غیرمقلدین ہی بہتر دے سکتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ غیرمقلدین ہوں (وہابی سفلی نا اہلحدیث) یا نیم غیرمقلدین (دیوبندی) دونوں نے تحریف میں ید طولیٰ حاصل کررکھی ہے۔ انکے سرفراز صفدر کی کتابیں دیکھ لیں یا شاہ اسماعیل کی کتب، سب کی سب میں چولیات بدرجہ اتم موجود ہیں اور ایسے ایسے گھماو پھیراو بیچ دار ڈال رکھے ہیں کہ پڑھنے والا سوچتا ہے کہ حوالے بڑے معتبر دیئے ہیں لیکن جب تحقیق کریں گے تو کھُو کھاتے بات نکلتی ہے نہ ان کے حوالے درست، نہ انکا دھرم درست، نہ انکی کہی کسی بات کا بھی اعتبار، نہ جو عبارت لکھیں گے وہ پوری یا متن سمیت بتائیں گے۔ اور یہی سب کام کرکر کے انہوں نے پوری دو نسلیں برصغیر میں برباد کرڈالی ہیں تفریق ڈال ڈال کر اور ابھی بھی بڑی ڈھٹائی، بے شرمی کے ساتھ اپنے ایسے ہی کاموں سے چمٹے ہوئے ہیں اور عام عوام کو وکیلوں کی طرح الفاظ کی کاٹ پلٹ میں گھیر کر اپنا مذہبی دھندا چلا رہے ہیں ۔
ایک اور مثال بمع تفصیلی سوال و جواب۔ اس کو بھی اسی اوپر بیان کیئے گئے الفاظ کے تناظر میں پڑھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ علم الحدیث کے مطابق متروک کی روایت ضعیف کہلاتی ہے موضوع نہیں۔
سوال ؛ حدیث : عن ابی الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اللہ ۔ وملٰئکتہ یصلون علی اصحاب العمائم ۔ بحوالہ مجمع الزوائد ج۲ ص ۱۷۶ ۔ یہ حدیث ضعیف ہے ۔ حضرت ابودرداء سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ پاک ہے، بے ۔ شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے جمعہ کے روز عمامہ باندھنے والوں پر سلام بھیجتے ہیں ۔ طبرانی نے اسے ذیل اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے؛
حدثنا ابوالمحیاۃ عن ایوب بن مدرک عن مکحول عن ابی الدرداء عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم (میزان الاعتدال ۱، ۴۶۴،چشتی) ۔ اسکے علاوہ اس روایت کو ابو نعیم، ابن عدی اور عقیلی نے بھی حضرت ابودرداٗ سے روایت کیا۔ (الکامل ۱، ۳۴۷، ضعفا العقیلی ۱، ۱۱۵، حلیتہ الاولیاٗ ۵، ۱۹۰۔)
اسناد حدیث پر کئے گئے ریمارک کا پوسٹ مارٹم
مذکورہ حدیث کی تمام سندوں کا مرکز ایوب بن مدرک، ابوعمرو الحنفی، الیمامی، ثم الدمشقی ہے۔ ایوب بن مدرک کے سوا کسی نے اس حدیث کو مکحول سے روایت نہیں کیا ہے۔ اور ابو ایوب بن مدرک کو اکثر ائمہ نقاد نے ضعیف قرار دیا ہے۔ چنانچہ نسائی نے فرمایا (متروک الحدیث) نیز فرمایا (لیس بثقۃ) ولا یکتب حدیثہ)۔ ابن معین نے دوری کی روایت میں ایک جگہ اور ابن ابی خیثمہ کی روایت میں فرمایا (لیس بشئ) اور دوسری جگہ ابن الجنید کی روایت میں فرمایا (کذاب) اور ابن الجنید نے اتنے کا اضافہ کیا (قدرایتہ، و کتبت عنہ لیس بشئ) اور دوری کی روایت میں تیسری جگہ فرمایا (لم یکن بثقۃ وقد کتبنا عنہ) اور ابن محرز کی روایت میں فرمایا (کان یکذب)
امام بخاری نے فرمایا ؛ عن مکحول مرسل
ابوزرعہ نے فرمایا؛ ضعیف الحدیث
امام ابوحاتم نے فرمایا: ضعیف الحدیث متروک
فسوی اور صالح جزرہ نے فرمایا: ضعیف
عقیلی نے ایک حدیث منکر ذکر کرنے کے بعد لکھا (ولا یتابع علیہ و قد حدث المناکیر)
ابن حبان نے کہا: یروی المناکیر عن المشاہیر، ویدعی شیوخالم یرہم، ویزعم انہ سمع منہم، روی عن مکحول نسخۃ موضوعۃ ولم یرہ
ابن عدی نے کہا : و ایوب بن مدرک فیما یرویہ عن مکحول وغیرہ یتبین علی روایاتہ انہ ضعیف۔ وروی ایوب ھذا عن مکحول مناکیرہ
ازدی نے کہا: متروک
ابواحمد الحاکم نے کہا: لیس حدیثہ بالقائم
دارقطنی نے کہا: متروک
ذھبی کا فرمانا ہے؛ ترکوہ
تاریخ الدوری عن ابن معین ۴، ۸۸، ۳، ۳۳، ۳۹۳
معرفۃ الرجال ۱، ۶۲
تاریخ الکبیر ۱،۴۲۳
المعرفتہ والتاریخ ۳، ۶۱
الضعفاٗ الکبیر ۱، ۱۱۵
الجرح والتعدیل، ۱، ۴۵۹
المجروحین: ۱، ۱۶۸
الکامل ۱۱ ب،
الضعفاٗ والمتروکون ۱، ۱۵
تاریخ بغداد ۷،۶
الضعفا لابن جوزی ۱، ۱۳۳
دیوان الضعفا ۲۷
میزان الاعتدال ۱، ۴۶۳
لسان المیزان ۱، ۴۸۸، ۴۸۹
المغنی فی الضعفا ۱، ۹۸
ائمہ کرام ایوب بن مدرک کی تجریح پر متفق ہیں۔ ہاں مرتبہ تحدید میں مختلف ہیں۔ اکثر نقاد کثرت مناکیر کی بنیاد پر متروک قرار دیتے ہیں۔ نیز ایوب بن مدرک نے جن شیوخ کو دیکھا تک نہیں ان سے سماع کا دعویٰ کیا ہے۔ اسلیئے جمہور کے اقوال کے پیش نظر ایوب بن مدرک (متروک الحدیث) لیس بثقۃ ہیں۔
جوابی پوسٹ مارٹمِ پوسٹ مارٹمی جواب:جن حضرات نےاس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ فضیلت عمامہ پر مشتمل اس حدیث کو روایت کرنے والا راوی ایوب بن مدرک سخت ضعیف ہے اور اس پر جھوٹ بولنے کا الزام ہے لہٰذا یہ حدیث اپنی اسناد کے لحاظ سے ناقابل عمل قرار پاتی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ حدیث مذکور کے روای ایوب بن مدرک کی تجریح میں ائمہ نقاد متفق ہیں ہاں مرتبہ کی تحدید میں اختلاف ہے جمہور کثرت مناکیر کی بنیاد پر متروک قرار دیتے ہیں۔ بخلاف ابن معین کے کہ وہ کبھی کذاب کہتے ہیں کبھی لیس بشئ۔ اس لیئے جمہور کے اقوال کے پیش نظر ابن معین کے قول کو غیر معتبر مانا جائے گا۔ اور راوی ایوب بن مدرک کو متروک مان کر حدیث پر ضعیف ہونے کا حکم لگایا جائے گا۔ کیونکہ متروک راوی کی حدیث ضعیف ہوتی ہے۔ متروک راوی سے متعلق امام اہلسنت اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں (ضعیفوں میں سب سے بدتر درجہ متروک کا ہے جس کے بعد صرف متہم بالوضع یا کذاب دجال کا مرتبہ ہے اس پر بھی علما نے تصریح فرمائی کہ متروک کی حدیث بھی صرف ضعیف ہی ہے موضوع نہیں۔ امام ابن حجر اطراف العشرہ پھر خاتم الحفاظ لآلی میں فرماتے ہیں:زعم ابن حبان وتبعہ ابن الجوزی ان ھذا المتن موضوع، ولیس کما قال: فان الراوی وانکان متروکا عند الاکثر ضعیفاً عند البعض فلم ینسب للوضع ۱ھ مختصراً)۔
ابن حبان نے یہ زعم کیا اور ابن جوزی نے ان کی اتباع میں کہا کہ یہ متن موضوع ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ اگرچہ راوی کے نزدیک متروک اور بعض کے نزدیک ضعیف ہے۔ لیکن یہ وضع کی طرف منسوب نہیں ہے مختصر۔
ابوالفرج نے ایک حدیث میں طعن کیا کہ (الفضل متروک)، فضل متروک ہے۔ لآلی میں فرمایا: فی الحکم بوضعہ نظر فان الفضل لم یتہم بکذب۔ اس کو موضوع قرار دینا محل نظر ہے کیونکہ فضل متہم بالکذب نہیں
تعقبات میں ہے (اصبغ شیعی متروک عند النسائی فحاصل کلامہ انہ ضعیف لا موضوع وبذلک صرح البیہقی)۔ یعنی۔ اصبغ شیعہ ہے امام نسائی کے ہاں متروک ہے ان کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ ضعیف ہے موضوع نہیں اور اسی بات کی تصریح بیہقی نے کی ہے۔
حدیث چلہ صوفیاٗ کرام قدست اسراہم کہ (من اخلص للہ تعالیٰ اربعین یوماً ظہرت ینابیع الحکمۃ من قلبہ علیٰ لسانہ)۔ جس شخص نے چالیس دن اللہ تعالیٰ کے لیئے اخلاص کیا اس کے دل سے حکمت کے چشمے اسکی زبان پر جاری ہوجائیں گے۔
اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں۔ کہ ابن جوزی نے بطریق عدیدہ روایت کرکے اس کے رواۃ میں کسی کے مجہول، کسی کے کثیر الخطاٗ کسی کے متروک ہونے سے طعن کیا۔ تعقبات میں سب کا جواب یہی فرمایا کہ (ما فیہم متہم بکذب) یہ سب کچھ سہی پھر ان میں کوئی متہم بکذب تو نہیں کہ حدیث کو موضوع کہہ سکیں۔
یوہیں ایک حدیث کی علت یہ بیان کی ۔ بشر بن نمیر عن القاسم متروکان ۔۔۔ بشر بن نمیر نے روایت کی اور یہ دونوں متروک ہیں۔ تعقبات میں فرمایا (بشر لم یتہم بکذب) (بشر متہم بکذب نہیں) حدیث ابی ہریرہ (اتخذ اللہ ابراہیم خلیلا) الحدیث۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو اپنا خلیل بنایا۔ پوری حدیث۔ میں کہا (تفرد بہ مسلمۃ بن علی الخشنی وھو متروک) (اس میں مسلمہ بن علی الخشنی منفرد ہے اور وہ متروک ہے) تعقبات میں فرمایا (مسلمۃ وان ضعف فلم یجرح بکذب) (مسلمہ اگرچہ ضعیف ہے مگر اس پر تجریح بالکذب نہیں)۔ حدیث ابوہریرہ (ثلثۃ لا یعادون ) (تین چیزیں نہیں لوٹائی جائیں گی پھر بھی مسلمہ مذکور سے طعن کیا) تعقبات میں فرمایا (لم یتہم بکذب والحدیث ضعیف لا موضوع)۔ یعنی (یہ متہم بالکذب نہیں اور یہ حدیث ضعیف ہے موضوع نہیں)۔
اختتام کلامِ محدث بریلوی از فتاویٰ رضویہ ج ۲ ص ۴۴۱)
فقیر کہتا ہے امام اہلسنت کے قلم سے نکلے ہوئے مذکورہ جواہر پاروں سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ متروک کی حدیث موضوع نہیں بلکہ ضعیف ہے۔ اور ضعیف کا حکم معلوم کہ فضائل میں باتفاق علما مقبول ہے۔ ممکن ہے اعتراض کنندہ کے ذہن میں یہ اشکال جنم لے کہ اعلیٰ حضرت کے بیان کردہ شواہ سے تو صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ حدیث موضوع نہیں یہ کہاں ثابت کہ متروک کی حدیث فضائل میں مقبول ہے۔ تو فقیر اسی اشکال کے دفیعہ کے لیئے ایسی ذات سے سند پیش کرتا ہے جو ہمارے نزدیک تو ہیں ہی مگر مخالفین کے نزدیک بھی ان الفاظ کے مصداق ہیں وہ امامِ فن تھے مصطلحات اصول حدیث سے بخوبی واقف تھے۔ (یعنی حضرت المحدث الامام علامہ ابن حجر)۔ حدیث عسقلان جس کو علامہ ابن جوزی الحنبلی نے کتاب موضوعات میں موضوع کہااور اسکی علت یہ بیان کی کہ اس کی تمام سندوں کا مرکز ابوعقال جس کا نام ہلال بن زید بن یسار ہے ابن حبان نے کہا یہ حضرت انس سے ایسی روایاتِ موضوعہ نقل کرتا ہے جو حضرت انس نے بالکل بیان نہیں کیں امام ذھبی نے میزان میں باطل کہا اور خود ابن حجر نے اسے متروک قرار دیا ہے باوجود یہ کہ علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمتہ نے حدیث کی موضوعیت سے یہ کہتے ہوئے انکار فرما دیا
حدیث انس فی فضل عسقلان ھو فی فضال الاعمال والتحریض علی الرباط فی سبیل اللہ ولیس فیہ مایحیلہ الشرع ولا العقل فالحکم علیہ بالبطلان بمجرد کونہ من روایتہ (القول المسدد ۱، ۲۷)
یعنی یہ حدیث فضائل اعمال سے متعلق ہے اس میں اللہ کی راہ میں جہاد کی ترغیب اور شوق دلایا گیا ہے اس حدیث میں کوئی ایسی بات نہیں جسے عقل وشرع محال جانے لہٰذا محض راوی ابوعقال کی بنیاد پر اسے باطل قرار دینا قابل حجت نہیں حالانکہ امام احمد کا طریقہ معلوم ہے کہ وہ احادیث فضائل اعمال میں تسامح سے کام لیتے ہیں برخلاف احکام کے۔
اور بالفرض جمہور کے اقوال سے قطع نظر ابن معین کے قول ہی کو تسلیم کرلیا جائے تویہ بھی قدرے وضاحت طلب ہے کیونکہ ابن معین نے راوی کو کبھی لیس بشئی کہا ہے اور کبھی کذاب۔ اور دونوں جرحوں میں بون بعید ہے۔ جو باریک بین محققین پر مخفی نہیں۔ پھر بھی فقیر وضاحت کیئے دیتا ہے
ابن معین کے قول لیس بشئ کے سلسلے میں اٗئمہ حدیث سے متعدد نصوص وارد ہیں سب کا حاصل یہ ہے کہ ابن معین کا قول لیس بشئ راوی کے شدید الضعف ہونے کو مستلزم نہیں بلکہ اس سے یاتو یہ مراد ہے کہ اس کی حدیثیں کم ہیں یا پھر یہ کہ اس راوی کی احادیث کم ہیں ۔
علامہ عبدالحی الرفع والتکمیل (ص ۲۱۲،چشتی) میں فرماتے ہیں : کثیر ماتجد فی میزان الاعتدال وغیرہ فی حق الرواۃ نقلا عن یحیی بن معین انہ لیس بشئ۔ فلا تغتر بہ ولا تظنن ان ذلک الراوی مجروح بجرح قوی فقد قال الحافظ ابن حجر فی مقدمۃ فتح الباری فی ترجمۃ (عبد العزیز بن المختار البصری) ذکر ابن القطان الفاسی ان مراد ابن معین من قولہ لیس بشئء یعنی ان احادیثہ قلیلۃ قال السخاوی فی (فتح المغیث) قال ابن القطان ان ابن معین اذا قال فی الراوی (لیس بشیء) انما یرید انہ لم یرو حدیثاً کثیراً۔ نیز سوال کنندہ مذکور نے بھی کچھ مثالیں نقل کی ہیں قال ابن عدی بعد ان نقل قول ابن معین لیس بشیء ھو عندی لا باس بہ ۔۔۔۔ وقال عبدالفتاح قول ابن معین فیہ لیس بشیء یعنی بہ احادیثہ قلیلۃ)۔
لیکن اعتراض کنندہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مذکورہ حضرات سے قول ابن معین سمجھنے میں غلطی واقع ہوئی ہے۔ حق یہ ہے کہ کبھی اس سے ضعیف راوی مراد ہوگا کبھی قلتِ حدیث۔ لکھتے ہیں (الجزم بان قول ابن معین فی الراوی (لیس بشیء) یعنی بہ ضعف الراوی وقد یعنی بہ قلۃ احادیثہ فی بعض الروایات)۔ فقیر کہتا ہے محشی نے امام ابن حاتم کے قول سے استدلال کیا ہے جو لسان المیزان میں علامہ ابن حجر سے منقول ہے۔ اعتراض کنندہ کے قول (قال ابن ابی حاتم فی الجرح والتعدیل فی ترجمۃ (خالد ابن ایوب بصری) عن یحیٰ بن معین انہ قال خالد بن ایوب، لا شی ء یعنی لیس بثقۃ) کا جواب یہ کہوں گا کہ اکابر ائمہ کرام کے اقوال کے مقابل صرف قول ابن ابی حاتم تسلیم کرلینا حقیقت سے روگردانی ہے۔ پھر بھی اگر تسلیم کرلیا جائے کہ ابن حاتم کا قول ہی درست ہے تب بھی اس کا حاصل یہ ہے کہ راوی ضعیف ہے نہ کہ کذاب۔ اور راوی میں صرف ضعف یسیر مانا جائے گا غالباً اسی لیئے علامہ عبدالحئ نے آغازِ بحث میں تحریر فرمایا ولا تظنن ان ذلک الراوی مجروح بجرح بقوی۔ یعنی ایسے راوی کو جرح قوی سے مجروح گمان مت کر ۔ لہٰذا راوی صرف ضعیف، بضعف یسیر ہے۔ اور ایسے راوی ضعیف کی حدیث متابعات وشواہد فضائل اعمال وغیرہ میں مقبول ہے۔ بخلاف کذاب کے کہ اگر عمداً اس سے کذب فی الحدیث ثابت ہے تو فضائل اعمال میں مقبول نہیں چہ جائیکہ احکام و متابعات و شواہد میں ۔
مذکورہ بحث سے صاف ظاہر ہے کہ ابن معین راوی کے سلسلے میں مضطرب نظر آرہے ہیں۔ ہاں تطبیق کی ایک صورت ہے کہ ابن معین کے قول لیس بشیء کو تسلیم کرلیا جائے اور قرینہ کی بنیاد پر اس سے ضعیف مراد لیا جائے تاکہ دیگر ائمہ نقاد کی جرحوں سے مطابقت ہوجائے کہ انہوں نے راوی کو صرف ضعیف مان کر فضائل اعمال وغیرہ میں مقبول و متحمل رکھا ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment