جب مؤذن آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کا نام اقدس لے تو سن کر چومنا مستحب ہے
نبی پاک صاحب لولاگ سید کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا اسمِ گرامی بوقتِ اذان و اقامت سن کر انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھنا مستحب ہے ۔ یہی ہمارا مذہب ہے اسی پر ہمارے دلائل قائم ہوتے ہیں ۔ بہتان تراشی کا جواب ہمارے پاس نہیں کہ بڑی دلیری سے کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ اہلسنت انگوٹھے چومنا فرض یا واجب مانتے ہیں ۔ یہ نرا جھوٹ اور افتراء سے زیادہ کچھ نہیں ، ہم چونکہ اس عمل مبارک کو (مستحب) مانتے ہیں اس پر احادیث واقوال ،فقہاء وصلحاء علیہم الرّحمہ موجود ہیں جو کہ درج کیئے جارہے ہیں ۔ اور ساتھ میں اصل اسکن بھی دیئے جا رہے ہیں ۔
قال الطاؤس انہ سمع من الشمس محمد بن ابی نصر البخاری حدیث من قبل عند سماعہ من المؤذن کلمۃ الشھادۃ ظفری ابھامیہ ومسھا علیٰ عینیہ وقال عند المس ۔ اللھم احفظ حدقتی ونورھما ببرکۃ حدقتی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ونورھما لم یعم ۔ (المقاصد الحسنہ۔ ص285،چشتی)
ترجمہ : طاؤس فرماتے ہیں انہوں نے خواجہ شمس الدین ابی نصر البخاری سے یہ حدیث سنی کہ جو شخص مؤذن سے کلمہ شہادت سن کر انگوٹھوں کے ناخن چومے اور آنکھوں سے لگائے اور یہ دعا پڑھے (اللھم احفظ حدقتی الخ) تو وہ اندھا نہ ہوگا۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مؤذن کے قول اشھد ان محمد رسول اللہ کو سن کر انگوٹھوں کو چوما اور آنکھوں سے لگایا تو رسولِ کریم علیہ السلام نے فرمایا : من فعل فعل خلیلی فقد حلت لہ شفاعتی ۔
ترجمہ : یعنی جس طرح میرے خلیل صدیق نے کیا جو بھی ایسے ہی کرے گا اس کے لیئے میری شفاعت واجب ہوگئی ۔ (کشف الخفاء، باب الجز۲، الجز ۲، الصفحۀ ۲۰۶ . مقاصد حسنه ص ۳۸۴،چشتی)
عن الفقیہ ابی الحسن علی بن محمد من قال حین یسمع المؤزن یقول اشھد ان محمدا رسول اللہ مرحبا بحبیبی وقرۃ عینی محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم ویقبل ابھامیہ ویجھلھما علی عینیہ لم یعم ولم یرمد ۔
ترجمہ : یعنی حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جو شخص اشھد ان محمداً الخ سن کر مرحبا الخ کہتا ہے اور انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر پھیرتا ہے تو وہ ہمیشہ نہ تو نابینا ہوگا اور نہ ہی اس کی آنکھیں دکھیں گی ۔ (کشف الخفاء، الباب الجز ۲، الجز ۲، ص ۲۰۷، و مقاصد حسنه ص ۳۸۴،چشتی)
فتاویٰ شامی میں ہے:جان لو کہ بے شک اذان کی پہلی شہادت کے سننے پر صلی اللہ علیک یارسول اللہ اور دوسری شہادت کے سننے پر قرۃ عینی بک یارسول اللہ کہنا مستحب ہے ۔ پھر اپنے انگوٹھوں کے ناخن (چوم کر) اپنی آنکھوں پر رکھے اور کہے اللھم متعنی بالسمع والبصر، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرنے والے کو اپنے پیچھے پیچھے جنت میں لے جائیں گے ۔ ردالمختار، کتاب الصلوٰۃ باب فائدۃ التسلیم بعد الاذان۔الحمد للہ عز و جل مسلک اہلسنت و جماعت حق ہے ۔
فتاویٰ شامی میں ہے : یستحب ان یقال عند سماع الاولی من الشھادۃ ؛ صلی اللہ علیک یارسول اللہ، وعند الثانیۃ منھا؛ قرت عینی بک یارسول اللہ ، ثم یقول؛ اللھم متعنی بالسمع والبصر بدع وضع ظفری ابابھامین لی العینین فانہ علیہ السلام یکون قائدًا لہ الی الجنۃ
ردالمختار، کتاب الصلوٰۃ باب فائدۃ التسلیم بعد الاذان۔
یعنی جان لو کہ بے شک اذان کی پہلی شہادت کے سننے پر صلی اللہ علیک یارسول اللہ اور دوسری شہادت کے سننے پر قرۃ عینی بک یارسول اللہ کہنا مستحب ہے۔پھر اپنے انگوٹھوں کے ناخن (چوم کر) اپنی آنکھوں پر رکھے اور کہے اللھم متعنی بالسمع والبصر، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرنے والے کو اپنے پیچھے پیچھے جنت میں لے جائیں گے ۔
قھستانی ونحوہ فی الفتاوی الصوفیۃ وفی کتاب الفردوس (من قبل ظفری ابھامہ عند سماع اشھد ان محمدًا رسول اللہ فی الآذان انا فائدہ مدخلہ فی صفوف الجنۃ ۔ (وتمامہ فی حواشی البحر للرملی ۔ حاشیہ رد المحتار ص ۳۹۸ ج ۱ دارالفکر بيروت،چشتی)
ایسا ہی کنز العباد امام قہستانی میں اور اسی کی مثل فتاویٰ صوفیہ میں ہے اور کتاب الفردوس میں ہے کہ جو شخص اذان میں اشھدان محمدرسول اللہ سن کر اپنے انگوٹھوں کے ناخنوں کو چومے (اس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے) کہ میں اس کا قائد بنوں گا اور اس کو جنت کی صفوں میں داخل کروں گا اور اس کی پوری بحث بحرالرقائق کے حواشی رملی میں ہے۔
رئیس الفقہاء الحنفیہ علامہ طحطاوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ شرح مراقی الفلاح میں یہی عبارت اور دیلمی کی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ والی مرفوع حدیث نقل کرکے فرماتے ہیں؛۔وکذاروی عن الخضر علیہ السلام وبمثلہ یعمل فی الفضائل ۔ ( حاشیہ الطحطاوی علیٰ مراقی الفلاح ص ۲۰۶ کتاب الصلوٰۃ ، باب الاذان، دارالکتب العلمیہ بیروت،چشتی) ۔ یعنی : اور اسی طرح حضرت خضر علیہ السلام سے بھی روایت کیا گیا ہے اور فضائلِ اعمال میں ان احادیث پر عمل کیا جاتا ہے ۔
علامہ امام قہستانی شرح الکبیر میں کنزالعباد سے نقل کرکے فرماتے ہیں : جان لوبلاشبہ اذان کی پہلی شہادت کے وقت سننے پر صلی اللہ تعالیٰ علیک یارسول اللہ اور دوسری شہادت کے وقت قرۃ عینی بک یارسول اللہ کہنا مستحب ہے۔ پھر اپنے انگوٹھوں کے ناخن چوم کر اپنی آنکھوں پر رکھے اور کہے (اللھم متعنی بالسمع والبصر) تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرنے والے کو اپنے پیچھے پیچھے جنت میں لے جائیں گے ۔
علامہ الفاضل الکامل الشیخ اسماعیل حقی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی شہرہ آفاق تفسیر روح البیان جلد 4 ص 649 پر لکھتے ہیں : وقصص الانبیاء وغیرھا ان ادم علیہ السلام اشتاق الیٰ لقاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم حین کان فی الجنۃ فاوحی اللہ تعالیٰ الیہ ھو من صلبک ویظھر فی اٰخر الزمان فسال بقاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم حین کان فی الجنۃ فاوحی اللہ الیہ فجعل اللہ النور المحمدی فی اصبعہ المسبحۃ من یدہ الیمنی فسبح ذلک النور فلذالک سمیت تلک الاسبع مسبحۃ کما فی الروض الفائق او اظھر اللہ تعالی جمال حبیبہ فی صفاء ظفری ابھامیہ مثل المراۃ فقیل ادم ظفری ابھامیہ ومسح علیٰ عینیہ فصار اصلاً لذریتہ فلما اخبر جبریل النبی صلی اللہ علیہ وسلم بھذہ القصۃ قال علیہ السلام من سمع اسمی فی الاذان فقبل ظفری ابھامیہ ومسح علی عینیہ لم یعم ابدا ۔
ترجمہ : قصص الانبیاء وغیرہ کتب میں ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کا اشتیاق ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ وہ تمہارے صلب سے آخر زمانہ میں ظہور فرمائیں گے تو حضرت آدم نے آپ کی ملاقات کا سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے داہنے ہاتھے کے کلمے کی انگلی میں نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم چمکایا تو اس نور نے اللہ کی تسبیح پڑھی اسی واسطے اس انگلی کا نام کلمے کی انگلی ہوا۔ جیسا کہ روض الفائق میں ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے جمال کو حضرت آدم علیہ السلام کے دونوں انگوٹھوں کے ناخنوں میں مثل آئینہ کے ظاہر فرمایا تو حضرت آدم نے اپنے انگوٹھوں کو چوم کر آنکھوں پر پھیرا۔ پس یہ سنت ان کی اولاد میں جاری ہوئی پھر جبرئیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی تو آپ نے فرمایا، جو شخص آذان میں میرا نام سن کر اور اپنے انگوٹھوں کو چوم کر آنکھوں سے لگائے تو وہ کبھی اندھا نہ ہوگا ۔
تفسیر روح البیان میں لکھا ہے کہ؛۔در محیط آوردہ کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بمسجد درآمد ونزدیک ستون بنشت وصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ در برابر آنحضرت نشستہ بود بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ برخاست باذان اشتغال فرمود چوں گفت اشھد ان محمد رسول اللہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ھردو ناخن ابھامین خود رابرھردوچشم خودنھا دہ گفت قرۃ عینی بک یارسول اللہ چوں بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ فارغ شد حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمودہ کہ یا ابابکر ھر کہ بکند ایں چنیں کہ تو کردی خدائے بیامرزد گناھاں جدید اوراقدیم۔ اگر بعمد بودہ باشد اگر بخطا۔
ترجمہ : ۔یعنی محیط میں آیا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور ایک ستون کے قریب بیٹھ گئے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی آپ کے برابر بیٹھے تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اٹھ کر آذان دینا شروع کی جب انہوں نے اشھد ان محمد رسول اللہ کہا تو حضرت ابوبکر نے اپنے دونوں انگوٹھوں کے ناخنوں کو اپنی دونوں آنکھوں پر رکھا اور کہا (قرۃ عینی بک یارسول اللہ)۔ جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان دے چکے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر!جو شخص ایسا کرے جیسا کہ تم نے کیا ہے خدا تعالیٰ اس کے گناہوں کو بخش دے گا ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم، صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم کی سچی محبت و ادب عطاء فرمائے بے ادبوں کی شر سے بچائے آمین ۔
غلطی کا ازالہ : اس سے بعض جاہلوں کی جہالت بھی ظاہر ہوگئی جنہوں نے یہ لکھا اور کہا کہ (علماء مبتدعین انگوٹھے چومنے کی اصل روایت جو بڑے کروفر سے بیان کرتے ہیں صرف دو عدد ہیں ) یہ ان کی جہالت کا بین ثبوت ہے کہ انہوں نے مطالعہ کیئے بنا صرف دوحدیثیں مانیں حالانکہ اس موضوع پر بہت سی حدیثیں ہیں جنہیں اس سے ٌپہلے مضامین میں ہم پیش کر چکے ہیں ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment